تلخیص: پاکستان کا قیام ایک سیاسی معجزہ تھا۔ تاج برطانیہ کے طویل تر مفادات اور برہمنی سامراجی عزائم برطانوی ہند کی وحدت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہم آہنگ ہو کر متحدہ محاذ کا روپ دھار چکے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا پورا علم تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے پاس وہ کچھ تھا جو کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے درکار تھا۔ ۱۴ اگست کے دن پاکستان دنیا کے نقشے پر آزاد ملک کے طور پر نمودار ہوا۔ پاکستان کے قیام سے ایک سال پہلے مسلم لیگ کے اجلاس میں قائداعظم نے فرمایا تھا: ’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی‘‘۔ ہم بھارت کے مقابلے میں رقبے، آبادی، فوجی طاقت اور اقتصادی لحاظ سے چھوٹے اور کمزور تھے لیکن لسانی تہذیب کے معاملے میں ہم ان پر قطعی برتری رکھتے تھے۔ قابل ذکر تہذیب کے وارث ایشیائی اور افریقی ممالک نے غیر ملکی تسلط سے آزادی کے بعد یا تو فوراً اپنی قومی زبان کو دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کیا یا بتدریج چند سالوں کے عرصے میں یہ کام انجام دیا کیونکہ قومی زبان ملی تہذیب کی ترجمان، ملکی وحدت کی ضامن اور قومی کی شناخت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سلسلہ معکوس طریقے سے آگے بڑھا۔ سرکاری تقریبات میں لگے پس منظر کے بینروں پر یا تعلیمی اور دفتری اداروں کی عمارات کی ناموں کی تختیوں پر تکلفاً بھی قومی زبان میں لکھنا اب ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جو قوم اپنی تہذیب و زبان کے بارے میں اتنی بے حس ہو وہ نابود ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف بھارت پر حکمران برہمنی طبقے نے لسانی فسطائیت کا مظاہرہ کیا۔ آزادی سے پہلے ہی انہوں نے لسانی دہشت گردی سے کام لے کر اردو سے عربی و فارسی الفاظ کو نکال کر ان کی جگہ مشکل اور نامانوس سنسکرت کے الفاظ و تراکیب کے استعمال سے مصنوعی برہمنی زبان بنانے کے لیے کمر کس لی تھی۔ بھارتی آئین کے مطابق ۱۵ سال کے اندر اندر انگریزی کی جگہ ہندی کو دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ اس وقت بھارتی یونین میں عدالتِ عظمیٰ، وزارت خارجہ اور بعض صوبوں کے ساتھ مراسلت تک انگریزی کااستعمال محدود کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اسرائیل جو رقبے میں تقریباً کراچی جتنا ہے اور آبادی میں اس کے آدھے سے بھی کم ہے اس میں یہودیوں کی متروک اور مردہ زبان عبرانی کو زندہ کر کے رائج کرنے کے منصوبے کا آغاز اسرائیل کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ دنیا کے کونوں کھدروں سے لائے گئے یہودی لوگوں سے تشکیل پائے اسرائیلی معاشرے میں عبرانی عام بول چال کی زبان کے طور پر بھی رواج پا چکی ہے۔ ان دونوں ممالک نے مصنوعی اور غیر فطری طریقے سے مردہ و معدوم زبانوں کو وجود میں لاکر نافذ کر کے دکھایا۔ ان تہذیبوں کے برعکس ہمارے پاس جنوبی ایشیا کی عظیم عوامی اسلامی تہذیب کی ترجمان، زندہ جاوید، مقبول عام اور دنیا کی سب سے بڑی زبانوں میں سے ایک یعنی اردو موجود تھی مگر عملاً ہم نے اسے کبھی وہ مقام نہیں دیا جو اصولاً اور دستوراً اس کا حق بنتا ہے۔ ہم نے اپنی قومی زبان کے ساتھ نہایت شرمناک سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستان کا قیام ایک سیاسی معجزہ تھا۔ تاج برطانیہ کے طویل تر مفادات اور برہمنی سامراجی عزائم برطانوی ہند کی وحدت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہم آہنگ ہو کر متحدہ محاذ کا روپ دھار چکے تھے۔ وہ کامیاب ہوتے تو برصغیر کے وہ مسلمان اکثریتی خطے بھی جو اب پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں آزاد اور مقتدر ملک ہیں، ایسے سیاسی مرکز کی دائمی محکومی میں جکڑے جاتے جہاں اقتدار کامل طور پر بے رحم اور معاند ہندو اکثریت کے ہاتھوں میں ہونا یقینی تھا۔ برطانوی انخلا کے وقت یوں ہو جاتا تو صدیوں کے لیے اکھنڈ بھارت کی کالی دیوی کے چرنوں پر مسلمانوں کے روحانی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مفادات بھینٹ چڑھتے رہتے اور ہمہ گیر ذلت و پستی اور تباہی و بربادی برصغیر کے تمام مسلمانوں کا مقدر بن جاتی۔
اس وقت مسلمانوں کو اپنی کمزوریوں کا پورا علم تھا اور بھرپور احساس بھی کہ وہ عددی طور پر اقلیت، معاشی لحاظ سے پسماندہ اور سیاسی طور پر غیر منظم ہیں۔ یہ سب سچ تھا اور مخالفین اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں کے پاس وہ کچھ تھا جو تمام دیگر کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے تریاق کا کام کر سکتا تھا۔ وہ دنیائے انسانیت کی برتر انسانی تہذیب اور تمدن کے وارث تھے اور وہ بجا طور پر اس بات پر نازاں تھے۔ اپنے اعتقادات سے پھوٹنے والی روحانی اقدار، معاشرتی رویے، رسوم و روایات، زبان و ادب اور طور طریقوں پرانہیں فخر حاصل تھا۔ اس احساس تفاخر نے ان میں اور ان کی قیادت میں خود اعتمادی کی وہ قوت پیدا کی جس کے سامنے بالآخر تاج برطانیہ اور برہمنی کانگریس کو ہار مان کر برطانوی ہند کا بٹوارا تسلیم کرنا پڑا۔
۱۴ اگست کے دن پاکستان دنیا کے نقشے پر آزاد ملک کے طور پر نمودار ہوا۔ پاکستان کے قیام سے ایک سال پہلے مسلم لیگ نے دہلی میں اپریل ۱۹۴۶ء میں انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں کا اجلاس بلایا جس میں یہ عہد کیا گیا کہ وہ تمام مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک متحد، آزاد اور مقتدر پاکستان کو حاصل کر کے دَم لیں گے۔ اس اجلاس میں قائداعظم نے فرمایا تھا:
’’میں اعلان کرتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی‘‘۔
مارچ میں ڈھاکہ میں بانی پاکستان نے ان الفاظ میں اس بات کا اعادہ کیا۔
’’میں واضح الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہو گی‘‘۔
۱۹۷۳ء کے پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۱ کے مطابق اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا اور حکومت کو نفاذِ دستور کے دن سے پندرہ برس کے اندر اندر اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کا پابند بنایا گیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت گو کہ ہم بھارت کے مقابلے میں رقبے، آبادی، فوجی طاقت اور اقتصادی لحاظ سے چھوٹے اور کمزور تھے لیکن لسانی تہذیب کے معاملے میں ہم ان پر قطعی برتری رکھتے تھے۔ یہ برتری اب بھی قائم ہے گو کہ بھارت نے اسے ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس وقت بھی اردو دنیا کی سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی دو زبانوں (چینی اور اردو) میں سے ایک ہے۔ بھارت میں اس وقت بھی اردو ہی دراصل سب سے بڑی اور رابطے کی زبان ہے۔ اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے بننے والی بالی ووڈ کی فلمیں اور بھارت کے ڈرامے صرف اور صرف اردو میں ہوتے ہیں۔ البتہ اردو مکالموں کو لکھنے کے لیے ہندی رسم الخط کو اختیار کیاجاتا ہے۔
اپنی قومی سرکاری زبانوں کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کا ذکر کرنے سے پہلے مختصراً اس حوالے سے بحیثیت قوم پاکستانیوں کی غفلت آمیز رویے کا اظہار مناسب ہو گا۔ قابل ذکر تہذیب کے وارث ایشیائی اور افریقی ممالک نے غیر ملکی تسلط سے آزادی کے بعد یا تو فوراً اپنی قومی زبان کو دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کیا یا بتدریج چند سالوں کے عرصے میں یہ کام انجام دیا۔ جن ممالک نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر قومی زبان کے عملی نفاذ کے لیے چند سالوں کا عرصہ مقرر کیا وہاں بھی قومی زبان کو عملاً دفتری اور تدریسی زبان بنانے سے قبل، پہلے دن سے ہی بھرپور علامتی اہمیت اور پروٹوکول دینے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ یہ اس لیے کیونکہ قومی زبان کا ملی تہذیب کی ترجمان، ملکی وحدت کی ضامن اور قوم کی شناخت ہونا طے شدہ بات ہوتی ہے۔ چنانچہ تمام سرکاری یا نیم سرکاری اداروں کے ناموں کی تختیوں اور قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں کے انعقاد کے موقعوں پر پس منظر میں لگے بینروں پر سب سے اوپر قومی زبان میں عبارت تحریر ہوتی ہے۔ پاکستان میں بھی آزادی کے بعد پہلے تو اسی طرح ہوتا تھا۔
گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کی زندگی کی آخری سرکاری تقریب پاکستان اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کی عمارت میں نصب کی گئی تختی پر سب سے اوپر اردو میں ’’بینک دولت پاکستان‘‘ لکھا ہے۔ حکومت پاکستان کے نشان میں صرف اردو میں حکومت پاکستان اور قائداعظم کا دیا ہوا ماٹو ایمان، اتحاد اور یقین لکھا ہے۔ ہماری ہوائی فوج کے نشان میں اقبال کے شعر کا یہ مصرعہ لکھا ہے: ’’صحرا است کہ دریا است تحتِ پروبال ما است‘‘۔ ہمارے سکے پر بھی اردو زبان میں لکھنے کی روایت ہے جو قیام پاکستان کے وقت شروع ہوئی۔ بدقسمتی سے پھر ہمارے ملک میں سلسلہ معکوس طریقے سے آگے بڑھا۔ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ آئینی تقاضوں کے مطابق اردو کو دفتری اور تدریسی زبان بنانا تو درکنار ہم انگریزی زدگی اور غیر پرستی کے جوش میں اسے علامتی اہمیت اور پروٹوکول دینے کے بھی روادار نہیں رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری تقریبات میں لگے پس منظر کے بینروں پر یا تعلیمی اور دفتری اداروں کی عمارات کی ناموں کی تختیوں پر تکلفاً بھی قومی زبان میں لکھنا اب ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ کیا اپنی قومی زبان کی تذلیل و تحقیر اور اس معاملے میں قوم کی بے حسی کا اس سے بڑا کوئی مظاہرہ ہو سکتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا بھی آسان ہو جاتا ہے کہ ہم تہذیب و تمدن اور منفرد قومی اور ملکی پہچان کے معاملے سے کس قدر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ ملک کی اسلامی تہذیب اور اجتماعی تشخص کی پامالی کے سنگین جرم کے اس ارتکاب کے خلاف کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنے نہ آنا ہلاکت خیز قومی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جو قوم اپنے تمدن اور تہذیب و زبان کے بارے میں اتنی بے حس اور جذبے سے تہی دامن ہو وہ نابود ہو جاتی ہے۔
دنیا کی غیور، باعزم اور حب الوطنی سے سرشار قومیں اپنی تہذیب و زبان کے معاملے میں کتنی حساس اور جذباتی ہوتی ہیں اسے جاننے کے لیے اب ہم بھارت اور اسرائیل کی مثال کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ برطانوی ہند کا بٹوارہ اس تصادم کا نتیجہ تھا جو برہمنی طاقتوں کے ہندوستان پر ہمہ گیر تسلط کے حصول کی کوششوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی مزاحمت سے وجود میں آیا تھا۔ اس تصادم کے نتیجے میں برطانوی انخلا کے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں دو ملک بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آگئے۔ مسلمانوں کے خدشات کے عین مطابق بھارت پر حکمران برہمنی طبقے نے بدترین لسانی فسطائیت کا مظاہرہ کیا۔ اردو کی صورت میں تاریخ میں پہلی بار ہندوستان کو رابطے کی ایک جاندار اور ترقی یافتہ زبان نصیب ہوئی تھی۔ بعض مستثنیات کو چھوڑ کر اردو کشمیر سے میسور اور کلکتے سے پشاور تک آسانی سے بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ زبان اصالتاً ہندوئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ زبان تھی جس میں بنیادی ڈھانچہ کامل طور پر مقامی ہونے کے باوجود تاریخی لسانی عمل کے نتیجے میں اس پر الفاظ و تراکیب کی صورت میں مقامی عوامی بولیوں (پراکرت) کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی کی بھی گہری چھاپ تھی۔ اردو ہی کیا دیگر تمام زبانوں اور بولیوں کی بھی یہی شکل و صورت ابھر کر سامنے آئی تھی اور ہنوز عوامی اور ادبی سطح پر یہ صورت حال برقرار ہے۔ اردو میں فارسی اور عربی کی یہ آمیزش برہمنی سیاسی عزائم کی حامل جنونی مذہبی قوتوں کو ہر گز قبول نہیں تھی۔ آزادی سے پہلے ہی انہوں نے لسانی دہشت گردی سے کام لے کر اردو سے عربی اور فارسی الفاظ کو نکال باہر کر کے ان کی جگہ مشکل اور نامانوس سنسکرت کے الفاظ و تراکیب کے استعمال سے مصنوعی برہمنی زبان بنانے کے لیے کمر کس لی تھی۔ اسے انہوں نے ہندی کا نام دے دیا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ نام بھی فارسی اور عربی ہے۔ تقسیم ہند اور بھارت کے قیام کے بعد عوامی سطح پر رائج اردو کی جگہ مصنوعی برہمنی ہندی کو مسلط کرنے کی احمقانہ مہم جوئی کی کامیابی اتنی آسان نہ تھی۔ چنانچہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت کی مجلس آئین ساز میں برہمنی ہندی کو بھارتی یونین کی واحد سرکاری زبان بنانے کی تجویز کی سخت مزاحمت کی گئی اور مشکل سے صرف ایک ووٹ کی برتری سے سرکاری زبان قرار دیا جا سکا۔ برہمنی استعمار کی دیرینہ فسطائی آرزوئوں کے لیے یہ زبردست کامیابی تھی۔ اس کے بعد سے سرکاری اور تعلیمی اداروں میں غیر ملکی انگریزی اور دیسی اردو کو باہر کر کے برہمنی ہندی کو رائج کرنے کی لسانی دہشت گردی کا عمل سرکاری سرپرستی میں زور و شور سے جاری ہے۔
بھارتی آئین کے مطابق ۱۵ سال کے اندر اندر انگریزی کی جگہ برہمنی ہندی کو دفتری اور تدریسی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ بھارت نے اس سلسلے میں بڑی سرگرمی اور جوشیلا پن دکھایا۔ بھارتی آئین کا نفاذ ۱۹۵۰ء میں ۲۶ جنوری کو عمل میں آیا تھا اور ۱۵ سال گزرنے پر یعنی ۱۹۶۵ء تک ہندی بھارتی یونین کی عملی سرکاری زبان کے طور پر رائج کر دی گئی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کے چار جنوبی صوبوں میں نہ صرف ہندی کو کوئی پذیرائی حاصل نہیں بلکہ سرگرم مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ ان چار صوبوں میں پانچ بڑی زبانیں بولی جاتی ہیں: تامل (تامل ناڈو میں)، تلگو (آندھرا پردیش میں)، کناڑا (کرناٹک میں)، مالا باری (کیرالا میں) اور اردو (آندھرا پردیش، کرناٹک اور تامل ناڈو میں)۔ تامل ہندو برہمنیت کے سخت مخالف ہیں اور اپنی زبان کو سنسکرت سے آلودہ کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تامل زبان سنسکرت سے قدیم اور عظیم زبان ہے۔ تاملوں نے مدراس میں برہمنی ہندی کے نفاذ کے خلاف بھرپور تحریک چلائی جس میں جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا۔ مجبوراً مرکزی حکومت کو عبوری دور کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑی۔ جنوبی صوبوں کومطمئن کرنے کے لیے یہ گنجائش پیدا کی گئی کہ جو صوبے ابھی ہندی کے نفاذ کے لیے تیار نہیں ان کے ساتھ مرکزی حکومت کی مراسلت انگریزی میں کی جا سکے گی۔ نیز مرکزی حکومت کے لیے ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی کو بھی بوقت ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش نکالی گئی۔ اس مقصد کے لیے انڈین یونین کی مرکزی حکومت کو انگریزی کو ’’وابستہ سرکاری زبان‘‘ (Associate official language) کے طور پر استعمال کرنے کا اختیار دیا گیا۔ ہندی مخالف قوتوں نے سر توڑ کوشش کی تھی کہ ترمیم میں حکومت کے لیے ہندی کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی ضروری قرار دی جائے اور English shall be used as associate official language کی عبارت لکھی جائے۔
حکمران برہمنی قوتیں اس کے لیے ہر گز تیار نہ ہوئیں اور Shall be used کی جگہ May be used کی عبارت استعمال کی۔ (انگریزی میں آئینی قانونی زبان میں Shall be کا استعمال پابند کرنے یا ضروری قرار دینے کے لیے جبکہ May be پابند کیے بغیر اختیار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے)۔
اس وقت بھارتی یونین میں عدالت عظمیٰ، وزارت خارجہ اور بعض صوبوں کے ساتھ مراسلت تک انگریزی کا استعمال محدود کر دیا گیا ہے اور باقی تمام محکموں اور دفاتر میں برہمنی ہندی کا سکہ چل رہا ہے۔ وہاں مرکز کے تمام مالیاتی، تعلیمی، انتظامی اور سیاسی اداروں میں یا تو صرف ہندی میں یا سب سے اوپر ہندی میں تحریر لکھی ہوتی ہے۔ وہاں سوچ بھی نہیں سکتے کہ قومی یا بین الاقوامی کانفرنسوں میں پس منظر کے بینروں میں سب سے پہلے ہندی نہ لکھی ہو۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں برصغیر کی ہزار سالہ مسلم تہذیب کی نشانی اور ہماری قومی زبان اردو کو علامتی اہمیت دینا اور اس کے لیے کسی پروٹوکول کا استعمال اب قصۂ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔
اب ہم اسرائیل کے اپنی زبان کے بارے میں کیے گئے کامیاب اقدامات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس میں بھلا کیا شک ہے کہ عالم اسلام میں مغرب کے گماشتہ بادشاہوں، آمروں اور حکمرانوں کو چھوڑ کر عام مسلمان اسرائیل کے وجود کو سرے سے ہی ناجائز سمجھتے ہیں۔ قانون و انصاف کے تناظر میں ان کا خیال بالکل درست ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیل ایک ریاست کے طور پر بالفعل مشرق وسطیٰ میں موجود ہے۔ اس ناجائز وجود رکھنے والی قوم نے بھارت کی طرح زبان کے معاملے میں جو معجزہ کر کے دکھایا وہ ہمارے لیے ایک تازیانۂ عبرت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ رقبے میں اسرائیل تقریباً کراچی جتنا ہے اور آبادی میں اس کے آدھے سے بھی کم۔ اس کے باوجود ان میں عزم و ہمت اور جذبۂ قومیت کا یہ عالم ہے کہ ۲۵ کروڑ سے زیادہ آبادی والے ۲۲ عرب ممالک کے سینوں پر مونگ دَل رہا ہے۔ اس حیرت انگیز عزم و ہمت اور جذبے کا قابل دید مشاہدہ اسرائیل کی زبان کے بارے میں اپنائی گئی پالیسی سے کیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے قیام کے لیے کام کرنے والی صہیونی تحریک کے ذریعے یہودیوں کی متروک اور مردہ زبان عبرانی کو زندہ کر کے رائج کرنے کے منصوبے کا آغاز اسرائیل کے وجود میں آنے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پھر جب اسرائیل نے اینگلو امریکی سامراج کی سازش کے بَل بُوتے پر حقیقت کا روپ دھار لیا تو پہلے دن سے ہی اسرائیلی ریاست کی واحد سرکاری زبان کے طور پر عبرانی کو نافذ کیا گیا۔ انتھک اور مسلسل کوششوں سے دنیا کے کونوں کھدروں سے لائے گئے یہودی لوگوں سے تشکیل پائے اسرائیلی معاشرے میں عبرانی عام بول چال کی زبان کے طور پر بھی رواج پا چکی ہے۔
ہمارے دونوں ممالک نے مصنوعی اور غیر فطری طریقے سے مردہ و معدوم زبانوں کو وجود میں لاکر نافذ کر کے دکھایا اور ان زبانوں کو ترقی کی بلندیوں سے ہمکنار کرنے اور فروغ دینے میں مسلسل کوشاں ہیں۔ برہمنی اور صہیونی تہذیبوں کے برعکس ہمارے پاس جنوبی ایشیا کی عظیم عوامی اسلامی تہذیب کی ترجمان، زندہ و جاوید، مقبول عام اور دنیا کی سب سے بڑی زبانوں میں سے ایک یعنی اردو موجود تھی۔ ویسے تو اسے ہم نے کہنے کی حد تک اپنی قومی زبان قرار دے رکھا ہے مگر عملاً کبھی وہ مقام نہیں دیا جو اصولاً اور دستوراً اس کا حق بنتا ہے۔ ہم نے اپنی قومی زبان کے ساتھ نہایت شرمناک سلوک جاری رکھا ہوا ہے۔
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
عالم اسلام کے خلاف چند صدیوں سے جاری مغربی یلغار میں ہراول دستے کا کردار اینگلو امریکی سامراجی اتحاد کر رہا ہے۔ اس وسیع تر اسلام دشمن استعماری اتحاد کی مشترکہ تہذیب کی وحدت کا منفرد اہم عنصر انگریزی زبان ہے۔ ہم نے بِلاضرورت کمال بے شرمی سے اسے اپنے گلے کا ہار بنا رکھا ہے۔
(بشکریہ: ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد۔ مئی ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply