
تمہید
بیانیہ یا Narrative ہماری سیاست و صحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی،اس سے پہلے ممکن ہے کہ کہیں اس کا ذکر آیا ہو، لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا۔ البتہ ایک نئے ’’عُمرانی معاہدے‘‘ (Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے، حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اُس کا عُمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے ۱۴؍اگست ۱۹۷۳ء کو نافذ ہوا اور اُس کے بعد سے اب تک اُس میں ۲۲ ترامیم ہوچکی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفیڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے۔
۷ ستمبر ۲۰۱۵ء کو وزیرِاعظم ہاؤس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی: مفتی منیب الرحمن، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفر اور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسوّدہ ترتیب دیا، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریکِ کار تھے، پھر اُسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں، کچھ حذف و اضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۵ء کو کوآرڈی نیٹر نیکٹا جنابِ احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہلِ اقتدار کو اِسے دکھا دیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّ و بدل چاہیں تو اس کی نشاندہی کردیں۔ میں نے اِسے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکر آتا رہا، لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے یا کوئی نئی اُفتاد نازل ہوجاتی ہے، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرماحضرات کا ہدف مدارس اور اہلِ مدارس ہوتے ہیں،اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں۔ اُن پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے، نہ اُن کے لیے حُبُّ الوطنی کا کوئی معیار ہے،نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے اُن پر کوئی قید وبند عائد کی جاسکتی ہے، اُن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہلِ اقتدار لرزاں وترساں رہتے ہیں،خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں۔ سو ایک کمزور طبقہ مدارس واہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی اُن کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مُشکیں کَسی جائیں۔ لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا۔دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل ودانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا،بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکا اور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی،وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اُسے لگنی چاہیے۔ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے،لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے،سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے،یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں،جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اُن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا،مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ہمارا مرتّبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
قومی بیانیہ
ہمارے وطنِ عزیز میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پرتخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اوراس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اوراشکالات واردہو رہے ہیں۔بعض حضرات یہ تاثردیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہادکے پیچھے مذہبی محرکات کارِ فرما ہیں اور انہیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمے داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقتِ حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی موقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کاعنوان دیا ہے،پس ہمارا موقف حسبِ ذیل ہے:
۱) اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی وملی میثاق سے ہوتا ہے:’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیارو اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستورمیں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا۔ اگر چہ دستور کے ان حصوں پر کما حقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومتِ وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جوازنہیں ہے۔
۲) پاکستان کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پر امن جدِّو جُہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمے داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستورمیں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اورملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے۔حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے۔
نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی،تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ ریاست، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دو چار کر رہی ہیں، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عَضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے،جس کا عنوان ہے: ’’رَدُّ الفَسَاد‘‘،ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
۳) اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو’’مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظر انداز کر دینامذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے اور اس امتیازی سلوک کافوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں اوراِسی لیے تئیسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا،اگرچہ اس اختلاف کا سبب در اصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات، گِلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
۴) تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے ۲۰۰۴ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی دلائل کی روشنی میں قتلِ ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔
۵) مسلمانوںمیں مسالک و مکاتب ِ فکرقرونِ اُولیٰ سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پرفقہی اورنظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی۔ لیکن یہ تعلیم وتحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بناکر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے۔
۶) فرقہ وارانہ نفرت انگیزی، مسلح فرقہ وارانہ تصادم اور طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت اور آئین و قانون کی رو سے ناجائز ہے اوریہ ایک قومی اور ملی جرم ہے۔
۷) تعلیمی اداروں کا، خواہ وہ دینی تعلیم کے ادارے ہوں یا عصری تعلیم کے، ہر قسم کی عسکریت اورنفرت انگیزی پر مبنی تعلیم یا تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اس میں ملوث ہے، تو اس کے خلاف ثبوت وشواہد کے ساتھ کارروائی کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
۸) دینی مدارس پر مبہم اور غیر واضح الزامات لگانے کا سلسلہ ختم ہوناچاہیے۔ دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات حکومت کو لکھ کر دے چکی ہیں کہ اگراس کے پاس ثبوت و شواہد ہیں کہ بعض مدارس عسکریت، دہشت گردی یا کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں، تو ان کی فہرست جاری کی جائے۔ وہ خود نتائج کا سامنا کریں یا اپنا دفاع کریں، ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کی حمایت کریں گے۔
۹) ہم بلا استثنا تمام دینی مدارس میں کسی منفی سرگرمی کی مطلقاً نفی نہیں کر سکتے،ہماری نظر میں انتہا پسندانہ سوچ اور شدت پسندی کومحض دینی مدارس سے جوڑناغیر منصفانہ سوچ کا مظہر ہے۔ گزشتہ عشرے سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایسے شواہدسا منے آئے ہیں کہ یہ روش جدیدعصری تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں بھی فروغ پا رہی ہے، اس کے نتیجے میں مغرب کے پر تَعیُّش ماحول سے نکل کر لوگ وزیرستان آئے، القاعدہ اور داعش سے ملے، جب کہ یہ جدید تعلیم یافتہ لو گ ہیں۔پس تناسب سے قطعِ نظر یہ فکرہرجگہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ سویہ فکری نِہادجہاں کہیں بھی ہو،ہماری دشمن ہے۔یہ لوگ دینی مدارس یا جدید تعلیمی اداروں یاکسی بھی ادارے سے متعلق ہوں، ہمارے نزدیک کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
۱۰) دینی مدارس کی پانچوں تنظیمات اس بات کا عہد کرتی ہیں کہ دینی تعلیم کھلے ماحول میں ہونی چاہیے اور طلبہ و طالبات پر کسی قسم کا جسمانی یا نظریاتی تشدّدیا جبرروانہیں ہے۔ الحمد للہ ہمارے دینی مدارس کا ماحول کھلا ہے اور اس میں عوام بلا روک ٹوک آ سکتے ہیں اور کوئی چیز مخفی نہیں ہے، یہ ادارے ملکی قانون کے تحت قائم ہیں اور ملکی قانون کے پابند ہیں اور رہیں گے۔
۱۱) ہر مکتب فکر اور مسلک کو مثبت اندازمیں اپنے عقائد اور فقہی نظریات کی دعوت و تبلیغ کی شریعت اور قانون کی رو سے اجازت ہے، لیکن اہانت آمیز اور نفرت انگیزی پر مبنی اندازِ بیان کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح صراحت، کنایہ، تعریض، توریہ اور ایہام کسی بھی صورت میں انبیائے کرام و رُسُلِ عظام علیہم السلام اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور شعائرِ اسلام کی اہانت کے حوالے سے ضابطہ فوجداری کے آرٹیکل ۲۹۵ کی تمام دفعات کو لفظاً اور معنیً نافذ کیا جائے اور اگر اس قانون کا کہیں غلط استعمال ہوا ہے، تو اس کے اِزالے کی احسن تدبیر کی جاسکتی ہے۔فرقہ وارانہ محاذ آرائی کے سدِّ باب کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے۔
۱۲) عالمِ دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ کلماتِ کفر کو کفر قرار دے اورقائل کے بارے میں سائل کو شرعی حکم بتائے۔ البتہ کسی شخص نے کلمۂ کفر کہا ہے یا نہیں یا اُس نے کفرکا ارتکاب کیا ہے یانہیں، یہ قضا ہے اوراس کا فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے۔ اگر کسی پر جرم ثابت ہوتا ہے تو مجرم کوسزا دینا ریاست وحکومت اور مُجاز عدالت کا دائرۂ اختیار ہے اور قانون کی عملداری قائم رکھنا اُن پر لازم ہے۔اسی لیے ہمارے فقہائے کرام نے ’’لُزُومِ کفر‘‘ اور ’’التِزامِ کفر‘‘ کے فرق کو واضح کیا ہے۔
۱۳) اس وقت پاکستان میں جدید تعلیم ایک انتہائی منفعت بخش صنعت بن چکی ہے۔ پلے گروپ اور نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک پرائیویٹ تعلیمی ادارے ناقابل یقین حد تک غیر معمولی فیسیں وصول کر رہے ہیں۔اعلیٰ معیاری تعلیم قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے اور مالی لحاظ سے کمزور طبقات کی پہنچ سے دور ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے میں طبقاتی تقسیم کو مستقل حیثیت حاصل ہے، کیونکہ پبلک سیکٹر میں تعلیم کا معیار انتہائی حد تک پست ہے۔ہمیں تعلیم کے پرائیویٹ سیکٹر میں ہونے پر اعتراض نہیں ہے، اعتراض یہ ہے کہ تعلیم کو صنعت کی بجائے سماجی خدمت کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک قومی کمیشن قائم کیا جائے جو پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں کے لیے’’نہ نفع نہ نقصان‘‘یامناسب منفعت کی بنیادپر فیسوں کا تعین کرے اور انہیں اس بات کا پابند کرے کہ وہ کم از کم پچیس فیصد نادار طلبہ کو میرٹ پر منتخب کر کے مفت تعلیم دیں۔عصری تعلیم کے پرائیویٹ اداروں میں کئی قسم کی درآمد کی ہوئی نصابی کتب پڑھائی جارہی ہیں اور ان کا نظامِ امتحان بھی بیرونِ ملک اداروں سے وابستہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کے نصاب پر موثر نگرانی کا نظام قائم کیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان میں تعلیم پانے والی ہماری نئی نسل اسلامی اور پاکستانی ذہن کی حامل ہو اور سب سے مثالی بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح اسکول سے گریجویشن کی سطح تک یکساں نصابِ تعلیم اور نظامِ امتحان رائج ہو۔
۱۴) پاکستان میں رہنے والے پابندِ آئین وقانون تمام غیرمسلم شہریوں کو جان ومال اور عزت وآبروکے تحفظ اور ملکی سہولتوں سے فائدہ اٹھانے کے وہی تمام شہری حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ہم حقوقِ انسانی کی مکمل پا س داری کا عہد کرتے ہیں۔اِسی طرح پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو اپنی عبادت گاہوں میں اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پوراپورا حق حاصل ہے۔
۱۵) اسلام خواتین کواحترام عطا کرتا ہے اور اُن کے حقوق کی پاس داری کرتا ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت میں خواتین کے حقوق مقرر ہیں۔ان کو جاگیرداری، سرمایہ داری اور قبائلی رسوم پر مبنی سماجی روایات کی بنیادپروراثت سے محروم رکھا جاتا ہے۔بعض صورتوں میں اخلاقی اور معاشرتی دباؤ ڈال کر وراثت سے دست برداری حاصل کی جاتی ہے۔قرآن سے شادی کا تصور بھی وراثت سے محروم کرنے کی غیر شرعی رسم ہے۔ وراثت کا استحقاق محض دست برداری سے ختم نہیں ہوتا، قرآن و سنت کی رو سے تقسیمِ وراثت شریعت کالازمی قانون ہے۔ شریعت کی رو سے اگر کوئی وارث اپنا حصہ رضا ور غبت سے اورکسی جبر و اکراہ کے بغیر کسی کو دینا چاہے، تو بھی محض دست برداری کافی نہیں ہے۔جائیداد مالکانہ طور پر اس کے نام پر منتقل کرنااور اسے اُس پر قبضہ دینا لازمی ہے، اس کے بعد ہی وہ مالکانہ حیثیت سے تصرف کرسکتا ہے۔
عورتوں پر تشدد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور رسول اللہﷺنے خطبہ حجۃ الوداع میں عورتوں کے حقوق کی پاس داری پر نہایت تاکید کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے۔خواتین کی جبری شادی ہمارے دیہی اور جاگیردارانہ سماج کی ایک خلافِ شرع روایت ہے اور ریاست کی ذمے داری ہے کہ اسے قانون کی طاقت سے روکے۔ اسلام عورت کے حقِ رائے دہی پر بھی کوئی قدغن نہیں لگاتا اور نہ ہی عورتوں کے تعلیم حاصل کرنے پر کوئی پابندی ہے، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ شرعی حدود کی پابندی کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ جاوید احمد غامدی کا بیانیہ
۱۳؍مارچ کو جنابِ شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں، میں نے مختصر بات کی،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی میثاق اور بیانیہ ہوتا ہے اوراُس میں ملک کو درپیش معاملات کو حل کرنے کا طریقۂ کار موجود ہوتا ہے۔
جنابِ حبیب اکرم نے بجا طور پر لکھا ہے کہ کسی نئے بیانیے کی ضرورت نہیں ہے، اصل مسئلہ قانون کی حکمرانی ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے،جرم کو جرم سمجھا جائے اور مجرم کو عبرتناک سزا دی جائے۔ قرآن کریم نے فساد فی الارض،جسے آج کل دہشت گردی کہا جاتا ہے، کی سب سے سنگین سزا مقرر کی ہے اور رسول اللہﷺ نے قبیلہ عُرَینہ کے دہشت گردوں کو عبرتناک سزا دی۔ یہی اصل بیانیہ ہے،جس کا اظہار الفاظ سے نہیں عمل سے ہونا چاہیے،مگرنہیں ہورہا۔
متفقہ دستور سے انحراف کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی۔ ہمارے دستورپر اگر لفظاً و معناً عمل کیا جائے توآج جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں، اُن کا جواب مل جائے گا۔کوئی ایسا حل جو دستوری میثاق کے منافی ہو،قبول نہیں کیا جاسکتا تا وقتیکہ دستور میں ترمیم کر کے اُس کی گنجائش نکالی جائے۔بعض اوقات قوموں اور ملکوں کو مخصوص حالات درپیش ہوتے ہیں،دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے ہنگامی نوعیت کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اس کا طریقۂ کار بھی دستور میں درج ہوتا ہے۔اس کی مثال پاکستان میں پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کی منظوری سے آئینی ترمیم کے ذریعے محدود مدت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔
علامہ غامدی نے چند سوالات اٹھائے ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے روئے زمین پرنہ پاکستان کے نام سے کوئی ملک تھا اور نہ پاکستانی کے نام سے کوئی قوم تھی تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ ملک اِس قوم نے بنایا۔ ویت نام شمالی اور جنوبی کے نام سے تقسیم ہوا اور دوبارہ اسی نام سے ایک ملک بن گیا، یہی صورتِ حال شمالی اور جنوبی یمن، مغربی ومشرقی جرمنی کی ہے اور اگر کل شمالی وجنوبی کوریا مل جاتے ہیں،تو ملک کا نام کوریا ہی رہے گا۔ الغرض منقسم ہوں تب بھی وہی نام اور مل جائیں تو بھی وہی نام، یعنی ویت نام، جرمنی، یمن اور کوریا وغیرہ،کیونکہ ان ممالک اور اقوام کا پہلے سے تاریخی وجود تھا۔ پاکستان اگر تاریخی اعتبار سے ہمیشہ سے ایک ملک اور پاکستانی ایک قوم ہوتے، تو مشرقی پاکستان علیحدگی کے باوجود مشرقی پاکستان ہی رہتا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ سو آج کسی کو پسند ہو یا ناپسند، ہند کی تقسیم کا مطالبہ مسلمانوں نے جداگانہ مسلم قومیت کی بنیاد پر کیاتھا، اگرچہ آج کل بعض دانشوراُسے متنازعہ بنارہے ہیں۔اس لیے یہ حقیقت تھی یا فریب،بہر صورت نعرہ تو یہی لگایا گیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا: ’’لا اِلٰہ الا اللہ‘‘اور آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کشمیر کے رہنماؤں کو ہم نے ٹیلی ویژن پر بارہا یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا ہے: پاکستان سے رشتہ کیا: لا الٰہ الا اللہ۔
نوٹ: یہاں پورا کلمۂ طیبہ مراد ہے،عربی کا اصول ہے:’’کبھی جُز بول کر کُل مراد لیا جاتا ہے‘‘۔
ان کا دوسرا سوال یہ تھا: پاکستان اگر قومی ریاست ہے، تو کیا قومی ریاست اسلام کی رُو سے جائز ہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ تحریک آزادی کی آدرش اور ہمارے دستوری میثاق کی رُو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس حقیقت کا انکار دستورِ پاکستان کے انکار کے مترادف ہے۔ ہم سے مشابہت رکھنے والی ایک نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر اسرائیل ہے اوراس کی پارلیمنٹ کا نام Knesset ہے، جس کے معنی ہیں:’’عبادت گاہ یا کنیسہ‘‘۔ اسرائیل میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور حال ہی میں ایک سیاسی جماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل میں عبرانی شریعت یعنی تورات کا قانون نافذ کیا جائے، اس پر امریکا اور پورے یورپ میں کہیں بھی شور برپا نہیں ہواکہ یہ دقیانوسیت ہے، قدامت پسندی ہے اور مذہبی انتہا پسندی ہے۔ اگر علامہ جاوید غامدی دستورِ پاکستان کا مطالعہ فرمائیں، تو اس میں ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے۔ پس اگر کوئی سیاسی جماعت جمہوری طریقے سے نفاذِ اسلام یا نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ دستور پاکستان کا تقاضا ہے۔ہاں!اس کے لیے مسلح جدوجہد کرنا یاماورائے دستور کوئی طریقۂ کار اختیار کرنا، دستور کے خلاف ہے اور ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کریں اور وہ خلافت کے نام پر ہو۔اُس کا جواب یہ ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار واقتدار میں تو قرآن نے مسلمانوں کی یہ ذمے داری قرار دی ہے: ’’اور جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے،اللہ ضرور اُس کی مدد فرماتا ہے، بے شک اللہ ضرور قوت والا بہت غلبے والا ہے،اگر ہم ان لوگوں کو زمین میں اقتدار عطا فرمائیں،تو (اُن پر لازم ہے کہ)وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے‘‘ (الحج:۴۱)۔ البتہ قرآنِ مجید نے امتِ مسلمہ کو’’خَیْرُ الاُمَم‘‘ اور ’’اُمَتِ وَسَط‘‘ قرار دیا ہے اور اُن کی ذمے داری قرار دی ہے کہ وہ نیکی کوپھیلائیں اور برائی کو روکیں۔لیکن یہ دعوت قرآنِ مجید کے اسلوبِ دعوت کے مطابق ہونی چاہیے، اس کے لیے مسلح جدوجہد کرنے یا داعش، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح لوگوں کی گردنیں کاٹنے یا زمین پر فساد برپا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور ہم سب اس سے برأت کا اعلان کرتے ہیں۔یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ریاستی طاقت سے اِن کا قَلع قَمع کرے اور انسانیت کو اِن کے فساد سے نجات دلائے۔نظریاتی اعتبار سے خلافت کی بات کرنا نہ معیوب ہے اور نہ ممنوع،کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا:’’بنی اسرائیل کے امورِ سیاست انبیائے کرام انجام دیتے تھے،جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا،تو دوسرا نبی اُس کی جگہ لے لیتا،مگر اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘ (صحیح مسلم:۱۸۴۲)۔ اگر جمہوری اور پر امن طریقے سے کوئی کمیونزم یا سوشلزم یا لبرل ازم یا سرمایہ دارانہ نظام کی بات کرے،تو اس پر کسی کونہ اعتراض ہوتا ہے اور نہ ہی اِسے معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن اِسی شِعار پراگر کوئی نفاذِ اسلام یا نفاذِ شریعت کی بات کرے،تو اِسے ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
علامہ غامدی کاایک مطالبہ یہ ہے کہ ریاست واضح طور پر یہ موقف اختیار کرے کہ ’’کفر وشرک کے خلاف جنگ برپا کرنا اسلام کا مطالبہ نہیں ہے‘‘،ہم اس حوالے سے اُن کے ساتھ یک آواز ہیں،کیونکہ یہ فساد کا راستہ ہے اور اسلام کا شِعاراصلاح ہے۔علامہ غامدی کہہ رہے ہیں کہ اگر علماء یہ موقف نہ دے رہے ہوں تو ریاست سامنے آئے،ہم ایک عرصے سے ببانگِ دہل یہ بات کر رہے ہیں، ریاست کی کمزوری یا بے عملی کا وبال علماء پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔اسی طرح ریاست کے اندر جو طبقات ہماری فوج یا ریاست یا عوام کے خلاف آمادۂ فساد ہیں،اُن کی سرکوبی کرنا ریاست وحکومت کی ذمے داری ہے،ہم ان کے مُدافِع یاپُشتیبان یا سہولت کار نہیں ہیں اور اگر کوئی طبقہ ہے تو اُس کی نشاندہی کر کے سامنے لاناریاست کی ذمے داری ہے،عمومیت اور ابہام کے ساتھ الزام لگانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے۔
علامہ غامدی سے جناب شاہزیب خانزادہ نے سوال کیا:’’ریاست اپنی ہی ماضی کی پالیسیوں کا شکار (Victim) بن جاتی ہے‘‘۔علامہ غامدی نے اس سوال کا جواب گول کردیا،یہی سوال مولانا فضل الرحمن نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کیا:’’ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے مدارس کے بچوں کو ہتھیار کس نے پکڑائے؟‘‘ یہ ایک مِلین ڈالر کا سوال ہے،لیکن اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔اگر ریاستی اداروں نے یہ کام کیا ہے،تو پھر انہیں سب کچھ معلوم ہوگا اور قوم کو سچ بتادینا چاہیے۔ ہماری نظر میں اس کی آڑ میں کسی امتیاز کے بغیر تمام اہلِ مذہب کو ملامت کرنا یاہَدف بنانااور آئے دن میڈیا کا نشانے پر رکھنا غیر شرعی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ سچ بولا جائے اور آئندہ کے لیے پالیسی دو ٹوک بنائی جائے۔ غامدی صاحب بتائیں کہ داعش اور القاعدہ کے بارے میں ان کے اور ہمارے موقف میں کیا فرق ہے؟،لیکن وہ میڈیا کے محبوب ہیں اور ہم ناپسندیدہ۔حکومتوں کایہ تضاد پاکستان تک محدود نہیں ہے،اس میں امریکا، پورا یورپ اور عالمِ عرب بھی شامل ہے۔ یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ ماضی میں القاعدہ جیسی تنظیموں کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے سرپرستی ملتی رہی ہے، آج یہ تپش اُن کی سرحدوں تک پہنچی ہے تو اب وہ انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے رہے ہیں، اپنی ماضی کی اِن غلطیوں کو کوئی بھی کھلے عام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔علامہ غامدی کے دوسوالات یا نِکات پر آئندہ بات ہوگی۔
علامہ غامدی نے کہا: ’’میں نے بارہا عرض کیا: جامع مسجد ریاست کے کنٹرول میں ہونی چاہیے،دنیا بھر میں ریاست کے کنٹرول میں ہوتی ہے،ملائشیا میں ریاست کے کنٹرول میں ہے،عرب ممالک میں ریاست کے کنٹرول میں ہے،ہمارے ملک میں نہیں ہے،ریاست یہ اِقدام نہیں کرسکی، تو یہ بیانیہ کی توقعات کہاں سے رکھے‘‘۔علامہ صاحب کی خواہش یہ ہے:’’مذہب ریاست کی ملازمت میں آجائے، ظلِّ الٰہی کے خطبے پڑھے جائیں اور راوی ہر سُو چین لکھے‘‘۔ہمیں بھی معلوم ہے کہ ملائشیا، عرب ممالک،ترکی حتیٰ کہ وسطی ایشیا میں بھی مذہب ریاست کے کنٹرول میں ہے، توپھر سوال یہ ہے کہ القاعدہ اور داعش نے توعرب ممالک میں جنم لیا ہے، جہاں مذہب ریاست کی ملازمت میں ہے،خطبے دربارِ سرکار سے لکھے ہوئے آتے ہیں،پھر یہ انہونی کیسے ہوگئی، استاد ذوق نے کہا تھا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا، تو کدھر جائیں گے
جب امریکا میں ہمارا مکالمہ ہوتا ہے، تو وہ کہتے ہیں:’’ریاست کو مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، ہماری دوسری آئینی ترمیم اسی بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ریاست کسی خاص مذہب کی مُرَبِّی نہیں بنے گی اور اُن کے بقول برطانیہ کے مقابلے میں امریکا میں چرچ زیادہ آباد ہیں۔برطانیہ میں مذہب ریاست کی سرپرستی میں ہے،آرچ بشپ آف کنٹربری یعنی ’’اُسقُفِ اعظم برطانیہ‘‘ کا تقرروزیرِ اعظم ایک طریقۂ کار سے گزرنے کے بعد کرتا ہے‘‘۔لیکن چرچ ویران ہیں۔ یہی حال دوسرے ممالک کا ہے۔
ہماری نظر میں مذہب کو ریاست کے کنٹرول میں لینے کی خواہش نہایت سطحی ہے۔جنابِ غامدی کے موقف میں ایک تضاد یہ ہے کہ وہ ریاست کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں اور پھر مذہب کو سیکولر ریاست کی ملازمت میں رکھنا چاہتے ہیں، یہ بیّن تضاد ہے، کیونکہ مذہب اور سیکولر ازم دو متضاد چیزیں ہیں۔ جنابِ ایاز امیرکو مذہبی چہرے ناپسندہیں۔جب علامہ ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب برپاکرنے اسلام آباد وارد ہوئے تھے تو تھوڑے عرصے کے لیے وہ ان کی پسندیدہ شخصیت تھے،مگر تحریک کے ناکام ہونے پر انہوں نے اُن کے قصیدے پڑھنے بھی چھوڑ دیے۔ حال ہی میں انہوں نے ’’اگردہشت گرد صرف وحشی اور جاہل ہوتے‘‘کے عنوان سے کالم لکھا،جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’’انتہا پسندی،اذیت رسانی اور طاقت کے بل پراپنے نظریات دوسروں پر مسلّط کرنا ایک ذہنی نہاد (Mindset) ہے، اس کا غربت اور جہالت سے تعلق نہیں ہے‘‘۔قرآن مجید نے یہی حقیقت بیان کی ہے:
’’پس کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیااور اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور اُس کے دل پر مہر لگادی اور اُس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا،پس اللہ کے بعد اُس کو کون ہدایت دے سکتا ہے،تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘ (الجاثیہ:۲۳)۔ قرآنِ کریم نے یہ بھی بتایا کیا کہ مُفسِد مُصلِح کے روپ میں آتا ہے،ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب اُن سے کہا جائے:’’زمین میں فساد نہ کرو‘‘،تو وہ کہتے ہیں: ’’ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں،سنو !درحقیقت یہی لوگ فسادی ہیں،لیکن انہیں (اپنے جرم کا) شعور نہیں ہے‘‘ (البقرہ:۱۱۔۱۲)۔ امریکا اور اہلِ مغرب امن اور اصلاح کے نام پر ہی تو ۱۹۹۰ء میں عراق میں آئے اور تب سے اب تک عراق، شام، لیبیا، یمن، مصر اور افغانستان میں کئی لاکھ انسانی جانیں تلف ہوئیں، کئی ملکوں کو تہس نہس کیا،ہم بھی اس کا شکار رہے،مگر امن کی منزل اب بھی کوسوں دور ہے۔
یہی بات ہم ایک عرصے سے کہتے چلے آرہے ہیں،لیکن پشتو کا محاورہ ہے:’’غریب مُلّا کی اذان پر کوئی کلمہ بھی نہیں پڑھتا‘‘۔لیکن اگر وہی بات کوئی ’’دانشور‘‘ کہہ دے،تو وہ ناقابلِ تردید حجت بن جاتی ہے۔جنابِ ایاز امیر نے بطورِ مثال ہٹلر، اسٹالن، ماؤزے تنگ،کمبوڈیا کے خیمر روگ، امریکا کی ویت نام پر یلغار اور پھر عالمِ عرب پر امریکا اور یورپ کی یلغار کا حوالہ دیا کہ یہ سب کچھ جہالت اور غربت کے سبب نہیں ہوا، بلکہ یہ اپنے عہد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اورروشن خیال لوگ تھے اور اِن میں سے اکثر اقتدار پر متمکن تھے۔امریکا اور اہلِ مغرب کی اتباع میں پاکستان میں دہشت گردی کو بلا استثناء اہلِ مذہب اور دینی مدارس وجامعات کے ساتھ جوڑنے کا نقصان یہ ہوا کہ اصل مسئلہ پسِ پشت چلا گیا اور مدارس ہدف پر رکھ لیے گئے۔ گزشتہ ربعِ صدی سے اس رُجحان کا سائنٹیفک تجزیہ اور مرض کی تشخیص کرکے اُس کا علاج تجویز کرنے کی نوبت ہی نہ آئی۔
امریکا نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ۱۹۹۰ء سے عالمِ عرب پر یلغار شروع کر رکھی ہے اور ۲۰۰۲ء سے افغانستان پر فوج کشی کیے ہوئے ہے،افغانستان،عراق، لیبیا اور شام سمیت کون سا ملک ہے جہاں امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے اِن دہشت گرد تنظیموں کو استعمال نہیں کیا۔جدید دہشت گردی سائنٹیفک طریقوں سے ہورہی ہے اور تو چھوڑیے،جو خود کش حملہ آور بارود اور بال بیرنگ پر مشتمل خود کش جیکٹ پہن کر اپنے وجود کو اُڑاتا ہے،کیا یہ سارا سازوسامان وہ خود بناتا ہے۔ہمارامیڈیا بھی مغرب کا مُقَلِّد اور اندھے کی لاٹھی ہے،ان کا کوئی نمائندہ کسی پُر خطر مقام پر موجود نہیں ہوتا۔آج عالمِ عرب میں جو کچھ ہورہا ہے،کیا ہمارے میڈیا کا ایک بھی نمائندہ وہاں موجود ہے، سو ہمارے پاس کوئی خبر اپنی اصل شکل میں نہیں آتی،بلکہ ہر خبر مغرب کی چھلنی سے چھَن کر آتی ہے۔ امریکا تو بظاہر سیکولر دنیا کا امام ہے، تو جارج بش کی زبان پرکروسیڈ کا نام کیسے آگیا، یہ وہ جنگ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہی، اگر ایک جگہ اس کے شعلے وقتی طور پر فروہوتے ہیں،تو دوسری جگہ بلند ہوجاتے ہیں،اس کا سبب کیا ہے۔علامہ غامدی صاحب کی مذہب کو ریاست کا ملازم بنانے کی خواہش بجا،لیکن موجودہ حالات میں میری اور اُن کی زندگی میں پوری ہوتی نظر نہیں آرہی، مستقبل کا علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔دراصل حکومت کا کام بلا امتیاز قانون کو نافذ کرنا ہے،اگر ہمارے وطنِ عزیز میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے اور عدل بلا امتیاز اور بلا قیمت دستیاب ہوجائے، تو ان شاء اللہ العزیز معاشرے میں فساد بہت حد تک ختم ہوجائے گا،سو فیصد تطہیر تو کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔
جنابِ غامدی کا ایک موقف یہ ہے:’’پہلے بارہ سال کی لازمی ریاستی تعلیم کے لیے ہماری ریاست میں کوئی بل بُوتا نہیں ہے اور اب تک نہیں کرسکی‘‘۔ہماری دانست میں عربی لفظ کی فارسی لفظ کی طرف اضافت کرکے ترکیب بنانا درست نہیں ہے،جیسے ’’وسیع البنیاد‘‘،مگر ہمارے ہاں رائج ہے،اس کی بجائے ’’وسیع الاصل‘‘ہونا چاہیے،کیونکہ کسی چیز کی بنیاد کو اصل کہتے ہیں۔ مدارس کے تین فیصد بچوں کو توایک طرف رکھیں،کیا پاکستان میں ریاست نے آج تک یہ انتظام کیا ہے کہ ہر بچہ اسکول جائے اور قوم کے تمام بچوں کو ایک نصاب پر مشتمل اعلیٰ معیاری تعلیم دی جائے۔پاکستان میں معیاری تعلیم تو سب سے منفعت بخش صنعت وتجارت بن چکی ہے،جنابِ جاوید غامدی کو اس پر بات کرنی چاہیے۔ غریب کا بچہ بالفرض ملک کا سب سے ذہین ترین انسان ہے،مگر وہ تعلیم جو قابلِ فروخت جنس بن چکی ہے،کیا وہ اُسے خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے، جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، سو پہلے ازراہِ کرم اس پر بات کیجیے۔کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ دینی مدارس میں جانے والے چند لاکھ بچے بھی کسی ورک شاپ پر کاکے اور چھوٹے بن کر استاذ کے پھینکے ہوئے سگریٹ کے کَش لگائیں اور گالیاں سن کراخلاق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔غریب والدین جو اپنے بچوں کو لوگوں کے گھروں میں ملازم کے طور پر بھیجتے ہیں،آئے دن اُن بچوں پر مظالم کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں،کیا حکومت نے یہ لازم کیا ہے کہ اُن بچوں سے خدمت لینے والے انہیں اسکول بھی بھیج دیا کریں۔غامدی صاحب یہ بتائیں کہ کیا لوگوں کے بچوں کو جبراً دینی مدارس میں لایا جاتا ہے یا وہ اپنی خواہش پر آتے ہیں۔
حکومتی تعلیمی اداروں میں تعلیم کا حال کیا ہے،میں کسی دور اُفتادہ دیہات کی بات نہیں کروں گا، بلکہ جنابِ غامدی سے کہوں گا کہ وہ عروس البلاد کراچی،جسے پاکستان کا اقتصادی دارالخلافہ بھی کہاجاتا ہے،کے سرکاری تعلیمی اداروں کا اپنے ادارے ’’المورد‘‘ کے ذریعے اچانک دوچار بار معائنہ کرائیں، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اس خرابے میں بچوں کے مستقبل کو برباد نہ کیا جائے۔ حالانکہ عمارت بھی موجود اور رجسٹر پر اساتذہ کی طویل فہرست بھی نظر آئے گی،مگر کلاسیں ویران نظر آئیں گی۔
جنابِ عمران خان نے پختونخوا میں تعلیمی نظام کو یکساں کرنے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے،انہوں نے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کو بہت بہتر بنایاہے،لیکن اُن کی جماعت میں بھی تعلیم کے تاجر موجود ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں انگلش میڈیم تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں آج بھی صوبے میں موجود ہیں۔ ہماری مسلّح افواج نے نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک معیاری تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں، لیکن کوئی سروے کرکے بتائے کہ اُن میں فوجی جوانوں کے کتنے بچے تعلیم پارہے ہیں، فلسفیانہ باتوں کی بجائے حقیقت پسندی اور ملک میں دستیاب وسائل اور زمینی حقائق پر مبنی تجاویز دینی چاہئیں۔زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب سید مراد علی شاہ نے بارہا وعدہ کرنے کے باوجود اتحادِ تنظیماتِ مدارس کے وفد کو ملاقات کا وقت نہیں دیا۔گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے ایک مکتبِ فکر کے ۹۴ مدارس کو مشتبہ ڈکلیئرکیا، لیکن پھر ان کے ایک مرکزی رہنماکو دو گھنٹے ملاقات کا وقت دیا اور اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک فہرست موجود ہے، سو میں نے کہا: جاری کردو‘‘۔یعنی یہ میڈیا کے دباؤ سے نکلنے کا حربہ تھا، برسرزمینِ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔سو یہ ہے ایپکس کمیٹی کے اجلاسوں کی حقیقت،جب کہ چند دن پہلے وہ عقیدت مند بن کر انہی میں سے ایک ادارے کے سربراہ کے قدموں میں بیٹھے نظر آئے تھے۔
Leave a Reply