گلوکاری میں ریپ (rap) انداز مکمل طور پر امریکی انداز ہے اور ہر عمر کے لوگوں میں مقبول ہے۔ یہ تین نوجوان واشنگٹن ڈی سی کے مضافات سے تعلق رکھتے ہیں اور نوجوان مسلمانوں کو اپنے فن کے ذریعے ان کے عقیدے پر عمل کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
Native Deen نامی اس گروپ کی آواز اور موسیقی امریکی نوجوانوں میں نہایت پسند کی جاتی ہے لیکن ان کے نغمات میں منشیات اور تشدد کے بدنام موضوعات کے بجائے نیکی کا پیغام ہوتا ہے۔ ذرا ایک نغمے کے ان بولوں پر غور کیجیے:
’میری نیتیں اس وقت تک رنگ نہیں لا سکتیں‘ جب تک سیدھی راہ پر نہیں ہیں۔ اس لیے میں اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں‘ میری مدد کر کہ میں صرف اُس کے لیے ہی ہر کام کروں۔
مسلم ریپ کے نام سے اپنی پہچان بنانے والا یہ نیا میوزیکل گروپ خاص طور پر افریقی نژاد مسلمانوں کو بہت متاثر کرتا ہے جو امریکا میں مسلمانوں کی آبادی کا ایک تہائی حصہ ہیں۔ اس گروپ کے کرتا دھرتا تین سیاہ فام امریکی ہیں جو واشنگٹن ڈی سی میں ایک سچے مسلمان کی طرح پلے بڑھے اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے عقیدے پر ڈٹے رہنے کی تلقین کریں۔
یہ تینوں نوجوان۔۔۔ ۲۸ سالہ جوشوآ سلام‘ نعیم محمد اور عبدالملک احمد (دونوں ۲۶ سال کے ہیں) شادی شدہ ہیں اور اُن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ جب وہ موسیقی میں مصروف نہیں ہوتے تو وہ جوشوآ سلام امریکن اسلامک ریلیشنز کونسل میں شہری حقوق کے معاملات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ نعیم محمد ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فرم سے منسلک ہیں اور عبدالمالک احمد ویب سائٹس تیار کرتے ہیں اور مارشل آرٹس سکھاتے ہیں۔
یہ گروپ اسلامی کانفرنسوں‘ عطیات جمع کرنے کی تقریبات‘ شادی بیاہ اور چھٹی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں جہاں مذہبی تفریح کی ضرورت ہو۔ وہ نائٹ کلبوں‘ شراب خانوں اور ڈسکو اور ایسی جگہوں پر جانے سے گریز کرتے ہیں جہاں اسلام میں ممنوعات جیسے شراب نوشی‘ رقص و سرود اور موسیقی کی بہت سی دوسری اقسام موجود ہوں۔ ان کے اکثر نغموں کے موضوعات امریکا میں پلنے بڑھنے والے مسلمان‘ صبح کی نماز اور عبادت کو یاد رکھنے کی تلقین اور مادی آلائشوں سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے متعلق ہوتے ہیں۔ ان کے بعض گانوں میں منشیات اور جنسی بے راہروی اور دھوکے بازی سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ایسے نغمات میں کسی خاص مذہب یا عقیدے کی طرف اشارہ نہیں کیا جاتا۔
یہ گروپ نغمات کے بول اور شاعری پر خاص توجہ دیتا ہے تاکہ سننے والے بزرگ حضرات خصوصاً والدین کو بھی قابلِ قبول ہوں۔ گروپ کے لیڈر سلام کا کہنا ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اپنے نغمات میں ایسی باتیں نہیں شامل کریں جو ہم نہیں چاہتے کہ ایک چار سالہ بچہ دوہرائے۔ ہماری موسیقی کچھ اس طرح کی ہے کہ جس سے والدین اور بچے دونوں محظوظ ہو سکتے ہیں۔ درحقیقت والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ یہ نغمات سنیں۔
تینوں گلوکاروں نے یہ گروپ ۲۰۰۰ء میں تشکیل دیا اور اس سے پیشتر وہ اکٹھے یا الگ الگ مسلم یوتھ آف نارتھ امریکا کی تقریبات میں اور دیگر مذہبی مواقع پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہوں نے اور دیگر فنکاروں نے مل کر گانوں کی ایک سیریز MYNA-RAPS کے نام سے ریکارڈ کرائی جس کی آمدنی نوجوان مسلمانوں کی تعمیری سرگرمیوں کے لیے عطیہ کر دی گئی۔ سلام کہتے ہیں کہ جب ہم نے باقاعدگی سے اکٹھے گانا اور سفر کرنا شروع کیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمارا کوئی نام ہونا چاہیے۔ عربی زبان میں دین کا مطلب مذہب یا طرزِ زندگی ہے‘ اس لیے ہم نے Native Deen کے نام کا انتخاب کیا جو مذہب کی اہمیت اجاگر کرتا ہے جو آپ کے اندر جاگزیں ہے۔
ریپ موسیقی اور مسلم موضوعات کو ملانے کا فیصلہ شعوری نہیں تھا۔ امریکا میں ایک مسلمان اور سیاہ فام ہونے کے ناتے ہمارے جو تجربات تھے‘ وہ ہماری زبان پر آگئے۔
منہ سے نکلنے والے الفاظ کیلیفورنیا‘ ٹیکساس اور الی نائے میں ہونے والی اسلامی تقریبات میں مدعو کرنے کے لیے کافی تھے‘ حتیٰ کہ برطانیہ سے بھی ایک دعوت نامہ آیا جو انہوں نے اپنی مصروفیت کے باعث انکار کر دیا۔ انہیں ملائیشیا میں بھی پذیرائی ملی کیونکہ ملائیشیا کے ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم نے امریکا میں ان کے متعلق ایک پروگرام تیار کیا تھا۔
گذشتہ چند ماہ کے دوران وہ شہرت کی نئی بلندیوں پر پہنچ گئے ہیں۔ اس شہرت کے لیے وہ ریڈیو کے ایک پروگرام آن دی سین ودینٹو وڈین کے مرہونِ منت ہیں جو مقامی ریڈیو اسٹیشن سے ہر جمعہ کی شام ہوا کے دوش پر بکھرتا ہے اور اسلامک براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے ذریعے دنیا بھر میں بذریعۂ ویب سائٹ نشر کیا جاتا ہے۔
سلام کہتے ہیں کہ نوجوان پرستاروں کے شوق اور فیڈ بیک سے ہمیں بڑی ڈھارس ہوتی ہے۔ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح ان نغموں سے انہیں نویں جماعت میں کامیابی ملی یا کس طرح ان نغمات کو سنکر اپنا عقیدے اور وجود باری تعالیٰ کی یاد آئی اور ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔
Native Deen سے امریکا میں مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی اپنی موسیقی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ہم اپنی تقریبات میں بھی تفریح کر سکتے ہیں اور یہ عربی نوعیت کی نہیں ہے۔ ہماری موسیقی امریکی ہے اور ہر ایک اس میں اپنائیت محسوس کرتا ہے۔
مصنف فلس میکن توش واشنگٹن میں مقیم ایک فری لانس رائیٹر ہیں
(بشکریہ: ماہنامہ ’’خبر و نظر‘‘۔ امریکی شعبہ تعلقاتِ عامہ‘ اسلام آباد۔ جولائی ۲۰۰۵)
Leave a Reply