
گیارہ ستمبر کے فوری ردِعمل میں امریکی افواج نے ایک تیز رفتاراور اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل برتری افغانستان کی طالبان حکومت پر حاصل کی جو دہشت گردوں کی حامی تھی۔ ۵ سالوں بعد طالبان واپس آچکے ہیں لیکن یہ ایک مختلف جنگ ہے۔ نہ صرف افغانستان بلکہ نیٹو بھی معرضِ خطر میں ہے۔ انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ واشنگٹن نے بہت زیادہ افواج کا وعدہ نہیں کیا۔ یورپی بزدل ہیں۔ مرکزی حکومت کمزور ہے۔ یہ تمام باتیں صحیح ہو سکتی ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے‘ وہ اس سوال سے پیدا ہوتا ہے کہ امریکا نے آغاز کرتے وقت اپنے مشن کی کیا تعریف کی تھی۔ کہا گیا تھا کہ طالبان کو ضرب لگانی ہے نہ کہ افغانستان میں طویل عرصہ رہنا ہے۔ ’’ہم قومی تعمیر کا کام نہیں کرتے ہیں‘‘۔ امریکی رہنماؤں نے یہ اعلان کیا تھا‘ گویا کہ یہ ایسا کام ہے جس پر فخر کیا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں عراق میں افواج کی جلد ضرورت ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان ایک قبائلی ملک ہے جو ۲۰ سالہ جنگ میں وحشت سے دوچار ہو گیا ہے اور طالبان کے بنیاد پرستوں نے مزید اسے سفاک بنا دیا ہے۔ اس کا انفرا اسٹرکچر‘ تعلیمی نظام اور زراعت سب کچھ برباد ہے۔ جب طالبان عقب نشینی کی حالت میں تھے تو روایتی جنگجو سرداروں نے اپنے آپ کو مضبوط و مستحکم کیا۔ یہاں کوئی موثر و اہم سیاسی و اقتصادی امداد کبھی نہیں پہنچی اور نہ ہی وافر طریقے سے مضبوط کوئی بین الاقوامی امن فوج وارد ہوئی۔ اس کے بجائے چند ہزار امریکی افواج طالبان اور القاعدہ کے باقیات کے تعاقب کے لیے تعینات کی گئی۔ حامد کرزئی کی حکومت جسے ٹکڑوں سے جوڑ کر تشکیل دیا گیا تھا‘ کبھی اپنی رسائی کو کابل سے باہر موثر نہ بنا سکی۔ آج اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ابتدائی امیدیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ نیٹو کی ۴۰ ہزار افواج کی موجودگی کے باوجود امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہے۔ منشیات یہاں کا اصل کاروبار بن چکا ہے‘ انفرااسٹرکچر کی تعمیرِ نو کا کام بند ہو چکا ہے‘ حتیٰ کہ اسکول بھی بند ہو چکے ہیں اور ملک کے بہت بڑے علاقے میں طالبان کی مزاحمت پھر سے فعال ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ نیٹو افواج مزاحمت کاروں سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ عددی قوت کو نقصان پہنچانے کے اعتبار سے بھی اور دیگر نقصانات کے حساب سے بھی انہوں نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے طالبان کو اس وقت بھاری اسلحوں سے نشانہ بنایا جب روایتی جنگ لڑنے کے لیے یہ اکٹھا ہوئے لیکن اصل جنگ فوجی نہیں ہے‘ یہ سیاسی اور اقتصادی ہے۔ چند طالبان یونٹوں کو یہاں وہاں برباد کر دینے سے یقینا ملک پر پورا کنٹرول حاصل کرنے کے ان کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔ لیکن یہ چیزیں لازمی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتیں۔ یعنی امن و امان کی مستقل بحالی کو اور اقتصادی ترقی کی مضبوط گرفت کو۔ حتمی طور سے یہی وہ واحد چیز ہے جو طالبان کو شکست دے سکتی ہے۔ دریں اثنا نیٹو کی اپنی ساکھ لائن پر ہے‘ اگر اس نے فتح کے لیے سیاسی‘ اقتصادی اور فوجی ذرائع کو استعمال میں نہیں لیا ہے۔ طالبان کو یہ معلوم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی حال تک زیرِ زمین تھے۔ اب جبکہ وہ زمین پر ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں‘ افغانستان میں امن کی صورتحال بگڑ گئی ہے۔ ابتدائی مواقع کو ضائع کرنے کے بعد کرزئی حکومت اور اس کے تمام عالمی مددگاروں کو ایک دیسی چھاپہ مار قوت کے خلاف طویل المیعاد جدوجہد کا سامنا ہے۔ اس چھاپہ مار قوت کی پشت پر ملک میں منشیات سے پیدا ہونے والے مالی وسائل ہیں اور بیرونِ ممالک سے بھیجی جانے والی خیرات ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو سرحد پار پاکستان میں ایک قدرے محفوظ پناہ گاہ حاصل ہے۔ طالبان کے پھر سے ابھرنے کے نتیجے میں آج اقتصادی ترقی کہیں زیادہ مشکل نظر آتی ہے‘ جتنی مشکل یہ طالبان کے سقوط کے فوراً بعد سے نظر آتی تھی اور اس وقت فوجی ضرورتیں اور بھی زیادہ شدید ہیں۔ نیٹو نے امریکی افواج کو سہارا دیا ہے لیکن امریکی افواج سے ایک فاتح سیاسی و فوجی حکمتِ عملی کا مطالبہ کیے بغیر۔ یہ ساری چیخ و پکار ان اسباق کے سبب ہے جو نیٹو اور امریکا نے بلقان میں اپنی کامیاب امن فوج کارروائی سے سیکھی ہے۔ وہاں ہم نے سیکھا کہ ہمیں مضبوط قانونی اختیارات‘ زبردست فوجی قوت‘ ایک جامع سیاسی و اقتصادی منصوبہ اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ایک اعلیٰ سطح کے نمائندہ یا خصوصی نمائندہ کے ساتھ تعاون کی ضرورت ہے جو ہماری قومی تعمیر کی سرگرمیوں کو زمین پر ہماری فوجی سرگرمیوں کے ساتھ مربوط کر دے۔ ہم نے ۱۹۹۹ء میں کوسوو جیسے چھوٹے ملک میں ۴۰ ہزار سے زائد افواج کو تعینات کیا تھا۔ یہ افغانستان کی آبادی کا دسواں حصہ ہے اور اس کا رقبہ افغانستان کے رقبہ کا ۶۰/۱ ہے۔
بوسنیا میں ہماری International donors organization ہے جو ترقی و پیش رفت کا جائزہ لیتی ہے۔ عطیہ دینے والے ممالک سے باز پرس بھی کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر یہ سیاسی اقتصادی مشن ناکام ہو گیا تو یہ ناکامی نیٹو کی ہو گی۔ ہم نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ ہمیں ناکام نہیں ہونا ہے۔ افغانستان میں ہمارا مشن اور بھی بڑا ہے‘ یہ دور بھی ہے اور دشوار بھی۔ کوئی غلطی نہ کیجیے‘ ہم یہاں جیتنے نہیں جارہے ہیں بلکہ اس کے بجائے ہم یہاں دوراہے پر ہیں۔ اگر ہم اہم اقتصادی اور سیاسی مطالبات کا سامنا کرنے میں ناکام رہتے ہیں‘ اگر ہم مضبوط ربط و تعاون کی ضرورت سے صرفِ نظر کرتے ہیں‘ اگر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارا مشن صرف دہشت گردی کے خلاف ہے یا منشیات کے خلاف کارروائیوں کے لیے ہے تو پھر ہم ضرور شکست کھائیں گے۔ کامیاب ہونے کے لیے ہمیں وہ طریقے اختیار کرنے ہوں گے اور وہ اقدام کرنے ہوں گے‘ جن کاانطباق ہم نے بلقان میں بڑی دشواریوں کے ساتھ کیا تھا۔ ہمیں اپنی ذمہ داری کی سنگینی کا اِدراک ہونا چاہیے اور عالمی برادری کے اختیار کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ نیٹو محض فوج فراہم کرنے سے زیادہ بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ہمیں اسے سمجھنا چاہیے۔ ہاں! ہم ملک کی تعمیر کر رہے ہیں‘ کامیابی اب بھی ممکن ہے۔ لیکن اگر ہم اس وقت درست اقدامات نہیں اٹھاتے ہیں تو کرزئی حکومت ختم ہو سکتی ہے اور اس صورت میں نیٹو کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس کے دور رَس اور عالم گیر اثرات ہوں گے۔
نوٹ: جنرل کلارک نیٹو کے سابق سپریم کمانڈر ہیں‘ یہ ۲۰۰۴ء میں امریکی صدر کے امیدوار بھی رہے ہیں۔ اس وقت (UCLA) Burkle Center for International Relationمیں شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں استاد ہیں۔
(بشکریہ: امریکی ہفت روزہ ’’نیوزویک‘‘۔ ۲ ؍اکتوبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply