سابق سوویت یونین نے امریکا کو اپنے وجود کے جواز کے طور پر استعمال کیا تھا۔ جیسے ہی سوویت یونین کی تحلیل ہوئی، ناٹو نے آگے بڑھ کر عالمگیر سطح پر جبر ڈھانے کا کردار سنبھال لیا۔ سربیا کے لوگوں کو بے دریغ قتل کرنے سے ناٹو کے قیام کا مقصد بہتوں کی سمجھ میں آگیا۔ حالانکہ سربیا کے لوگوں نے نازی ازم کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
مارشل ٹیٹو کی وفات کے بعد جب سابق یوگو سلاویہ کی شکست و ریخت شروع ہوئی تو بہت سے معاملات الجھ کر رہ گئے۔ مارچ ۱۹۹۹ء میں کوسوو کے علیحدگی پسندوں کی مدد کے لیے ناٹو نے فوجی بھیجے۔ سابق یوگو سلاویہ کی افواج تب تک درست حالت میں تھیں۔ اسپین میں دائیں بازو کے ہوزے ماریہ ایزنر کے مشورے پر ناٹو نے سربیا میں بنیادی ڈھانچے ٹی وی اسٹیشنوں، پُلوں اور دارالحکومت بلغراد کی اہم عمارات کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ اندھا دھند بمباری سے بلغراد میں چینی سفارت خانے کی عمارت تباہ ہوئی اور متعدد افسران مارے گئے۔ اس میں اندازے کی غلطی کا کوئی شائبہ نہیں تھا جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔ سربیا کے بہت سے لوگوں نے بھی جان سے ہاتھ دھوئے۔
سربیا کے صدر سلوبودان میلوسووچ نے، سوویت یونین کی تحلیل اور غیر معمولی جارحیت کے باعث، ناٹو کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور کوسوو میں اقوام متحدہ کے پرچم تلے بین الاقوامی افواج کی موجودگی کا مطالبہ مان لیا۔ سلوبودان میلوسووچ کو مستعفی ہونا پڑا اور عالمی عدالتِ انصاف میں ان پر مقدمہ بھی چلایا گیا جو بہت حد تک استعماری انداز کا تھا۔ اگر میلوسووچ نے کچھ دن اور مزاحمت کی ہوتی تو ناٹو شدید بحران کا شکار ہو جاتی اور پورا خطہ پھٹ پڑتا۔ یوں ناٹو کو اپنے زیر نگیں ارکان پر بالا دستی قائم کرنے کا بھرپور موقع ملا۔
سال رواں میں نے ۲۱ فروری سے ۲۷ اپریل کے دوران کیوبا ڈیبیٹ ڈاٹ کام پر ناٹو کے کردار کے حوالے سے ۹ مضامین لکھے جن میں لیبیا میں ناٹو کے ممکنہ کردار کے حوالے سے بھی خصوصی طور پر بحث کی گئی تھی۔ جو کچھ لیبیا میں ہونے والا تھا اس کی طرف بھی میں نے اشارے کردیے تھے۔
مجھے ایک بار پھر اس سفاکی کی وضاحت کرنا چاہیے جس کا معمر قذافی کو نشانہ بنایا گیا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ان کی گاڑی کا سراغ لگایا گیا اور پھر انہیں گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔ قذافی کو انہی لوگوں نے قتل کیا جنہیں ناٹو نے مسلح کیا تھا۔
قذافی کی لاش کو ٹرافی کے طور پر کئی جگہ پیش کیا گیا۔ اسلام یا کسی بھی دوسرے مذاہب کی تعلیمات کسی بھی انسان کی لاش کے ساتھ اس نوعیت کے کھلواڑ کی اجازت نہیں دیتیں۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ بہت جلد لیبیا حقیقی جمہوری اور انسانی حقوق کا پاسدار ملک ہوگا۔
۸ ماہ قبل ۲۱ فروری کو میں نے لکھا تھا کہ ناٹو لیبیا پر قبضے کی تیاری کر رہی ہے۔ تب بہتوں کو ایسا لگا تھا جیسے میں بڑھک لگا رہا ہوں۔ میں نے لکھا تھا کہ شمالی افریقا میں معدنی وسائل پر قبضہ مغربی فورسز کے لیے زبردست تحریک کا کردار ادا کر رہا ہے۔ معدنی وسائل اور بالخصوص تیل کے ذخائر پر کنٹرول حاصل کرکے عالمی سیاست کو مرضی کی سمت موڑا جاسکتا ہے۔ آج کی تہذیب تیل کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ جنوبی امریکا میں وینزویلا تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باعث استعماری قوتوں کے جبر کا نشانہ بنا۔ قدرت نے تیل کی جو دولت وینزویلا کے حصے میں رکھی تھی اس پر امریکا قابض اور متصرف ہو بیٹھا ہے۔
دوسری جنگ عظیم ختم ہوتے ہی امریکا نے ایران، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے بڑے پیمانے پر تیل نکالنا اور بٹورنا شروع کردیا۔ تیل کی عالمی پیداوار ۸۰ لاکھ بیرل یومیہ تک جا پہنچی۔ اس کے علاوہ امریکی سرزمین پر موجود تیل اور گیس نکالنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ ساتھ ہی ساتھ امریکا نے ایٹمی ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تیل اور گیس نکالنے اور بے دریغ صرف کرنے سے ماحول کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ماحول کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لیے اقدامات کی ضرورت پر کبھی زور نہیں دیا گیا۔
دسمبر ۱۹۵۱ء میں لیبیا پہلا افریقی ملک تھا جس نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس کی سرزمین جرمن اور برطانوی افواج کے درمیان میدان جنگ بنی رہی تھی۔ لیبیا کا ۹۵ فیصہ حصہ صحرا پر مشتمل ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے لیبیا میں تیل کی تلاش شروع ہوئی جو بہت جلد بار آور ثابت ہوئی۔ لیبیا کی سرزمین سے اعلیٰ درجے کا لائٹ آئل نکلا جس کی پیداوار اچھے وقتوں میں دس لاکھ ۸۰۰ ہزار بیرل یومیہ تک پہنچی۔ لیبیا میں گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔ لیبیا کا بیشتر رقبہ زیر زمین دولت سے مالا مال ہے۔ یہی سبب ہے کہ صحرا میں پینے کے صاف پانی کی پائپ لائنوں کا جال بچھا ہے جو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک محیط ہے۔
ستمبر ۱۹۶۹ء میں لیبیا میں انقلاب برپا ہوا۔ بدو پس منظر کے کرنل معمر قذافی اس انقلاب کے مرکزی کردار تھے۔ تب وہ جمال عبدالناصر کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معمر قذافی نے بیشتر اہم فیصلے اس وقت کیے جب مصر کی طرح لیبیا میں بھی کمزور اور کرپٹ بادشاہت کو ختم کردیا گیا۔
ہوسکتا ہے کہ آپ قذافی سے متفق ہوں، اور شاید نہ بھی ہوں۔ لوگوں کے ذہنوں پر طرح طرح کی خبروں سے حملہ کیا جاتا ہے۔ بالخصوص ماس میڈیا کے ذریعے۔ لیبیا میں جو کچھ ہوا اسے بہتر طور پر سمجھنے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کے لیے کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ اس وقت تو شدید انتشار کا عالم ہے۔ میرے نزدیک یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکا کی حکومت لیبیا میں امن کے قیام کے حوالے سے ذرا بھی فکر مند نہیں۔ اور موقع دیکھتے ہی وہ چند دنوں یا چند گھنٹوں میں ناٹو کو لیبیا پر کنٹرول کا اشارہ دے سکتی ہے۔
معمر قذافی کے حوالے سے طرح طرح کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ کسی نے کہا ہے کہ وہ وینزویلا جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایسا نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ معمر قذافی اپنی سرزمین چھوڑنے کا سوچ بھی سکتے تھے۔ سوویت یونین
دنیا میں کوئی بھی باضمیر اور انصاف پسند انسان ظلم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس وقت لیبیا میں ناٹو جو کچھ کرنے کی تیاری کر رہی ہے اس پر بھی عالمی برادری خاموش نہیں رہے گی۔ لیبیا کے عوام کے خلاف جس سنگین جرم کے ارتکاب کی تیاری کی جارہی ہے اس پر خاموش رہنا عالمی برادری کے لیے کسی طور مناسب نہ ہوگا۔ ناٹو کی قیادت، جو جنگ اور قتل و غارت پر یقین رکھتی ہے، اپنے عزائم کو عملی جامہ پہناکر رہے گی اور ہمیں اس کی مذمت کرنا ہی چاہیے۔
(مصنف کیوبا کے سپریم لیڈر ہیں)
(بشکریہ: ’’کاؤنٹر پنچ‘‘ امریکا۔ ۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply