
افغانستان پر امریکی قبضہ کے چھ سال گزرنے اور ۲۰۰۱ء میں طالبان حکومت کو برطرف کرنے کے بعد آج واضح طور پر اندازہ ہو رہا بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ دنیا کو نگلنے اور ہضم کرنے کے لیے امریکا نے جو اپنی پالیسی وضع کی تھی اور پوری قوت سے شور و ہنگامہ مچانا شروع کیا تھا وہ محض دنیا کی نگاہوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھا، اور اس کے سارے اندازے غلط تھے، رینڈ جیسے امریکی و برطانوی تحقیقاتی ادارے اور سیکوریٹی ادارے اور سیکوریٹی امور کے ماہرین کھلے عام آج یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ افغانستان میں امریکا کے بشمول تمام غیر ملکی افواج کو جس طرح کے مصائب و مشکلات کا سامنا ہے یہ ان کی کھلی شکست و ناکامی ہی ہے، اسے کوئی اور نام ہر گز نہیں دیا جا سکتا۔ ۲۰۰۸ء کے آغاز سے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمنی وزارتِ دفاع نیز مغربی تحقیقاتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی دسیوں تحقیقاتی رپورٹیں شائع ہو چکی ہیں اور ان تمام رپورٹوں میں بالاتفاق یہ بات کہی گئی ہے کہ افغانستان میں اس وقت اقدام کرنے کی پوزیشن طالبان کے پاس ہے نہ کہ بین الاقوامی کہی جانے والی غیر ملکی فوجوں کے پاس۔ اس وقت غیر ملکی فوجوں کا کام محض اپنا دفاع کرنا اور طالبان کے حملوں کو پسپا کرنا رہ گیا ہے۔ جبکہ طالبان کی پوزیشن دفاعی نہیں بلکہ اقدامی ہے۔ جنوری تا مارچ ۲۰۰۸ء کے دوران جاری کی گئی مغربی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی صورتحال غیر ملکی قابض فوجوں کے حق میں نہیں رہی ہے، یہ فوجیں فائدے سے زیادہ نقصان برداشت کر رہی ہیں مزید نقصانات کو روکنے اور تمام تر حاصل کردہ فوائد کے دریا بُرد ہونے سے پہلے ضروری ہے کہ خلاصی کی کوئی ایسی راہ نکالی جائے کہ کامیابی کے ایک حصے کے طور پر اسے یاد کیا جا سکے۔
دستگیری کی اپیل :
دستگیری و اعانت کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہی مغربی ملکوں نے یہ انتباہ دینا شروع کیا تھا کہ یہاں کی صورتحال دھماکہ خیز اور طالبان کے حق میں ہوتی جا رہی ہے۔ بین الاقوامی کہی جانے والی اتحادی افواج کے کمانڈر نے مارچ ۲۰۰۸ء میں اعتراف کیا تھا کہ افغانستان کی جنگ عراق سے زیادہ مشکل اور خطرناک ہو گئی ہے۔ انہوں نے اتحاد میں شریک رکن ممالک سے اپیل بھی کی تھی کہ وہ مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید فوجیں افغانستان روانہ کریں تاکہ یہاں کی صورتحال پر کنٹرول کیا جا سکے اور اس کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے اسے قابو میں کیا جا سکے۔ اسی اپیل اور حقائق کی روشنی میں یورپی افواج کی کمک یہاں پہنچ سکی اور کئی ممالک مزید فوجیں روانہ کرنے پر آمادہ ہو سکے، جبکہ یہ سب کے سب جنوبی افغانستان میں لڑنے کے لیے اپنی فوجیں بھیجنے سے گریزاں تھے انہیں اندازہ تھا کہ اس خطہ پر طالبان تحریک کا کنٹرول ہے جہاں فوج کو بھیجنا گویا انہیں موت کے منہ میں جھونکنا ہے۔ ناٹو کمانڈر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے سے طالبان کو روکنے کی واحد صورت یہی ہے کہ اتحادی افواج کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اس کے بغیر نہ ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور نہ طالبان کو اقتدار سے زیادہ دنوں تک دور رکھ سکتے ہیں۔ مارچ ۲۰۰۸ء میں افغانستان کی صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ اقوام متحدہ کی بھی شائع ہوئی ہے اس کے اندر کہا گیا ہے کہ افغانستان کے ۳۷۲ اضلاع میں سے ۳۶ اضلاع تو مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں ہیںجہاں مرکزی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ وہ وہاں حکومتی کارندے پھٹک سکتے ہیں۔ ان جگہوں پر طالبان کے جھنڈے لہراتے رہتے اور طالبان یہاں اپنا اسلامی قانون نافذ اور مکمل طور پر اپنی حکومت قائم کیے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان کی مسلح مزاحمت میں ۲۰۰۷ء کے اندر حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ طالبان تحریک کے ماتحت مزاحمتی گروپوں کے ماہانہ حملے ۵۶۶ تک پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ ۲۰۰۶ء میں اس کا تناسب ۴۲۵ ماہانہ تھا۔ رپورٹ میں وضاحت کی گئی ہے کہ ۲۰۰۷ء کے اندر طالبان جنگجوئوں اور غیر ملکی اتحادی افواج کے درمیان مسلح جھڑپوں میں ۸۵۰۰ جانیں ضائع ہوئیں جن میں ۱۵۰۰ افراد بے گناہ (عام شہری) تھے۔ اسی طرح طالبان کے خود کش حملوں میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ۲۰۰۶ء میں اس کی تعداد ۱۲۳ تھی جو ۲۰۰۷ء میں بڑھ کر ۱۶۰ ہو گئی۔ فروری ۲۰۰۸ء میں اقوام متحدہ ہی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں افغانستان کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلح بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی فورسز اور افغان حکومتی فوجوں کی جانب سے کی گئی کوششوں کے باوجود ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ مدت قریب میں ان بین الاقوامی افواج اور حکومتی فورسز کو مدمقابل طالبان عسکریت پسندوں پر کوئی کامیابی ملنے والی ہو یا انہیں کبھی شکست دی جا سکتی ہو۔ رپورٹ کے مطابق یہاں کی سیکوریٹی صورتحال قابض فوجوں کے لیے دن بدن ابتری کی طرف جا رہی ہے اور ایسی کوئی توقع نہیں کہ اس میں بہتری آئے گی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مغرب کی جانب سے افغانستان کی جنگ نہ جیتنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مشترکہ افواج کے درمیان اتحاد کا فقدان ہے اور وہ کسی ایک پالیسی پر متفق بھی نہیں ہیں، دوسری وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی فوج اور امریکی فوجوں کے درمیان نقطۂ نظر کا اختلاف ہے ان میں سے ہر ایک کا نقطۂ نظر دوسرے سے جداگانہ ہے اور افغانستان کے بحران سے نمٹنے اور اسے ڈیل کرنے کی پالیسی میں وہ آپس میں اتفاق رائے نہیں رکھتے۔ ہر کوئی اپنے اپنے صوابدید کے مطابق عمل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ رپورٹ کے اندر اس کے علاوہ بعض دیگر اسباب کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے کہ ان اسباب و وجوہات کی وجہ سے بھی یہاں کی سیکوریٹی صورتحال بدتر ہو رہی ہے اور اس پر کنٹرول کرنا دشوار ہو رہا ہے۔ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صورتحال کی ابتری کی ایک وجہ افغانستان کی کمزور حکومت اور کمزور حکومتی ادارے بھی ہیں۔ کرزئی حکومت اپنی تمام تر پالیسیوں میں ناکام رہی ہے اور اس نے ملک کے باشندوں سے کیے گئے اپنے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے حکومت کی حالت یہ ہے کہ وہ سیکوریٹی کی زبوں حالی اور بدامنی کی وجہ سے دارالحکومت سے باہر قدم رکھنے کی بھی ہمت نہیں کر سکتی۔ معاشی مشکلات جوں کی توں قائم ہیں حکومت کے پاس نہ مضبوط فوج ہے جو حالات سے نبرد آزما ہو سکے اور امن و امان بحال کر سکے اور نہ افراد و وسائل۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں افغان امور سے متعلق تحقیقاتی ادارے کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں افغانستان میں متعین سابق امریکی سفیر تھومس بیکرین اور ناٹو کے سابق کمانڈر جیمس جون کی بات نقل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ناٹو افواج بڑی تیزی سے شکست و ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہیں جس کی متعدد وجوہات میں سے ایک وجہ فوجوں کی کمی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں فوجوں میں اضافہ کرنے یا فوج بھیجنے والے ملکوں کا ساتھ دیتے ہوئے یہاں کی جنگ میں شریک ہونے کے لیے کوئی ملک تیار نہیں اور اگر اسے تیار کیا بھی جاتا تو وہ ایسی ایسی شرطیں لگاتے ہیں کہ اس پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ ان کے اس طرز عمل کا اثر بین الاقوامی افواج کی کارکردگی پر پڑا اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے اوران کی ہمتیں پست ہوئی ہیں۔ اسی طرح اس ملک کی کمزور معیشت کا بھی منفی اثر غیر ملکی اتحادی افواج کی کارکردگی پر پڑا ہے اور وہ طالبان یا دیگر مسلح جماعتوں اور مزاحمتی گروپوں کے خلاف مقامی باشندوں کا تعاون حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ افغان امور پر توجہ دینے والے فکری ادارے ’’اٹلس کونسل برائے ریاست ہائے امریکا متحدہ‘‘ نے ۲۰۰۸ء کے آغاز پر اپنی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کی ایک جلی سرخی ہے ’’ناٹو افواج افغانستان میں کامیابی کی طرف نہیں بڑھ رہیں‘‘ البتہ اس رپورٹ میں یہ باور کرانے کی ضرور کوشش کی گئی ہے کہ اس کی وجہ طالبان کی قوت نہیں بلکہ ناٹو قیادت کی کمزوری ہے۔
اپریل ۲۰۰۸ء میں ناٹو قائدین کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں خود امریکی صدر بش نے اپنی ناکامی یا شکست کا اعتراف کیا تھا، ان کا کہنا تھا افغانستان میں داخل ہو کر ۶ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود امریکی یا بین الاقوامی فوجیں طالبان کو شکست دینے اور افغانستان میں فتح کا جھنڈا گاڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے روس سے اپیل کی کہ وہ افغانستان میں ہماری لاجسٹک مدد کرے یا ایندھن و فوجی امداد و کمک منتقل کرنے کے لیے اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دے۔ ناٹو نے حالیہ دنوں اپنی آخری میٹنگ میں یہ اعلان بھی کر دیا کہ افغانستان دو ملکوں میں بٹا رہے گا، ایک پر طالبان کی حکومت رہے گی اور دوسرے پر بین الاقوامی افواج اور کرزئی حکومت کی۔
طالبان سے بات چیت
اسی پس منظر میں گزشتہ دنوں افغان صدر اور مغربی دنیا کی جانب سے طالبان تحریک کے ساتھ بات چیت اور مذاکرات شروع کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ اعتراف کر لیا گیا کہ انہیں شکست دینے میں ناکامی ہوئی ہے، یہ اور بات ہے کہ اس بات چیت کے بارے میں یہ باور کرایا گیا کہ یہ ’’اعتدال پسند‘‘ طالبان کے ساتھ ہو رہی ہے، طالبان کو بھی بخوبی اندازہ ہو گیا کہ افغانستان کے میدان کے بنیادی کھلاڑی وہی ہیں اور یہاں کا امن و امان ان ہی کی مرہونِ منت ہے۔ اگر وہ چاہیں تو امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ چاہیں تو کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ جرمنی اور فرانس نے اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ طالبان کے ساتھ مصالحت ہو جائے مگر طالبان کے گوناگوں مطالبات اور امریکا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوشش بار آور ثابت نہیں ہو سکی، باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چند مہینوں سے کرزئی حکومت اور طالبان تحریک کے درمیان خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور اس میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے اور توقع ہے کہ بہت جلد اس کے نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔ فریقین کے درمیان مذاکرات ہونے کا یہ پہلا انکشاف نہیں ہے، اس سے پہلے خود افغان حکومت نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے طالبان کے بعض اعتدال پسندوں کے ساتھ بات چیت کی ہے، مگر اس میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی جس کی وجہ طالبان قائدین کا سخت موقف اوران کے مطالبات تھے، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ افغان حکومت کس قدر لاچار و بے بس اور طالبان کس قدر مضبوط ہیں جو بات چیت میں بھی اپنی کامیابی کو یقینی بنائے رکھتے ہیں، فریقین کے درمیان مذاکرات کی پیچیدگی اور بڑا مسئلہ طالبان کی یہ شرط تھی کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ساری غیر ملکی فوجیں ملک چھوڑ کر چلی جائیں اور فوری اس کا انخلاء کر دیں، طویل گفت و شنید کے بعد اس شرط میں تبدیلی کی گئی اور یہ شرط رکھی گئی کہ بات چیت کے مسئلہ پر غور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کا ٹائم ٹیبل مقرر کر دیا جائے؟ گزشتہ کچھ عرصہ سے باخبر حلقوں میں یہ بات اگرچہ گشت کر رہی ہے کہ طالبان کے ساتھ خفیہ مذاکرات ہو رہے ہیں، مگر سابق طالبان ذمہ داروں نے اس کی تردید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ہم سے روابط پیدا ضرور کیے گئے ہیں مگر یہ محض رسمی ہیں جسے مذاکرات نہیں کہا جا سکتا، اور نہ ہی اس بات چیت میں اب تک طالبان تحریک کے فیصلہ ساز شخصیتوں نے شرکت کی ہے، یہ محض سابق افغان قائدین کی کوشش ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس طرح کی کوشش کرنے والوں میں ایک نام طالبان حکومت کے سابق وزیر اوقاف مولوی ارسلان رحمانی کا ہے جنہیں کرزئی حکومت نے اپنے ایوان بالا کا رکن منتخب کیا ہے ان کے پاس افغانستان کی بھی شہریت ہے اور پاکستان کی بھی، اور وہ ہمیشہ کابل و اسلام آباد کا دورہ کرتے رہتے ہیں، ارسلان رحمانی نے ۷/اگست کو بعض عرب ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اسلام آباد کے اپنے فلیٹ میں ان کی ملاقات اقوام متحدہ کے نمائندہ سے ہوئی تھی اور اس نمائندے نے ان سے خواہش کی تھی کہ وہ کرزئی حکومت اور طالبان کے درمیان پُل بنیں اور دیگر دوسرے پرانے ساتھیوں کو قریب کرنے کی کوشش کریں، ان کا کہنا تھا مگر یہ کام آسان نہیں اور نہ ہی سخت گیر طالبان کی جانب سے اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ مگر انہوں نے اقوام متحدہ کے نمائندے کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس کی کوشش شروع کی ہے وہ اپنے پرانے ساتھیوں سے ربط پیدا کر رہے ہیں اور افغانستان کے جھگڑے کو پرامن طریقہ پر ختم کرنے کے لیے طالبان کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان میں امریکی وجود کے بہانے کو ختم کیا جا سکے۔ پاکستان میں مقیم افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین بات چیت کی میز پر آج یا کل بہت جلد واپس آنے والے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے امیر کے معاون خاص مولانا ارشاد خاں کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ مسلسل ربط قائم کیا جا رہا ہے خاص طور پر فرانس اور جرمنی کی کوشش ہے کہ افغانستان میں جلد از جلد امن معاہدہ کو قطعیت دے دی جائے اور اگر ایسی کوئی صورت بنتی ہے تو طالبان کبھی اس کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے کہ وہ امن کے علمبردار بھی بن جائیں اور غیر ملکی فوجیں حسب سابق یہاں موجود رہیں۔ اس لیے اگر طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کا وقت قریب آ چکا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘ حیدرآباد دکن۔ شمارہ: ۲۴ اگست۲۰۰۸)
Leave a Reply