آج کے حالات میں نیٹو کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ دہشت گر د یورپی ممالک کے دارالحکومتوں پر حملے کررہے ہیں، مہاجرین کی آمد میں اضافے سے سرحدوں اور ملک کی سلامتی کے نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے، روس یورپ پر اپنی عسکری طاقت و دیگر ذرائع سے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور خواہش بھی، جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپ کو اتحادمحدود اور ختم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں،لیکن ان سب میں کوئی بھی انتہائی سنگین مسئلہ نہیں ہے ،سب سے بڑا مسئلہ اتحاد کے اندرلبرل جمہوریت کا خاتمہ ہے۔ شمالی اٹلانٹک معاہدے کی تنظیم اپنے آغاز۱۹۴۹ ء سے ہی عام تنظیم نہیں رہی۔نیٹو کو صرف بیرونی خطرات سے لڑنے کے لیے نہیں بنایاگیاتھا ،بلکہ اس میں لبرل جمہوریت کے ذریعے حکومت چلانے کا اصول بھی طے کیاگیاتھا۔ آغازمیں سویت یونین کو مشترکہ خطرے کے طور پر تسلیم کیاگیا۔نیٹو اپنے ارکان کی مشترکہ کوششوں کی وجہ سے دوسری تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ متحد تھا،تقریبا تمام رکن ممالک میں منتخب جمہوری حکومتیں تھیں ، جو عوام کو جوابدہ اور قانون پر عمل کرنے کی پابند تھیں اورسیاسی و شہری آزادی برقرار رکھنے کے لیے پر عزم بھی تھیں۔نیٹو معاہدے کی دفعہ ۲ تمام ارکان کو اداروں کی آزادی کو مستحکم کرنے کا پابند بناتی ہے۔ مشترکہ خطرے سے دوچار ممالک اکثر اپنی بقا کے لیے اتحاد قائم کرتے ہیں ،لیکن مشترکہ خطرہ ختم ہونے کے بعد زیادہ تر اتحاد قائم نہیں رہتے۔اس لیے بہت سے مبصرین کا کہناتھا کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹو اتحاد بھی بے اثر ہوجائے گا،لیکن مشترکہ جمہوری اقدار اور نئے ارکان کی حوصلہ افزائی نے ان تبصروں کوغلط ثابت کردیا۔سرد جنگ کے بعد نیٹو نئے چیلنج قبول کرکے بحراقیانوس کے پار بھی اہم دفاعی اتحاد بن گیا۔
کریملین ایک بار پھر یورپ کے لیے بڑا خطرہ بن کر ابھرا ہے،لیکن اب ماضی کی طرح نیٹو کی ساری توجہ روس پر نہیں ہوگی۔نیٹو کے کئی ارکان اب اداروں کوکمزور اور جمہوری رویوں کو ترک کررہے ہیں،جس کی وجہ سے انہیں سرد جنگ میں فتح ملی تھی،نیٹو اتحاد کو ایسے حالات میں اندرونی خطرات کا سامنا ہے جب انہیں ہمیشہ کی طرح بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ مضبوطی کی ضرورت ہے۔ ایسے میں نیٹو کے ارکان ممالک میں آمریت پسندانہ اورمقبول آوازیں سیاسی طور پر مضبوط ہونے سے صورتحال مزید سنگین ہوسکتی ہے۔سویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹو ارکان کے لیے لبر ل جمہوری روایت کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا،بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ یورپ سرد جنگ سے نکل آئے گا، اور امن قائم ہوجائے گا۔ دیگر ماہرین کاکہنا تھا کہ بغیر کسی مشترکہ دشمن کے یورپ ماضی کے عدم استحکام کے دور میں لوٹ جائے گا، جب یورپ میں تنگ نظر، وطن پرست اور انتقام پسند حکومتیں قائم تھیں۔ ماہرین کامزیدکہنا تھاکہ نیٹو نے ماضی میں ایک دوسرے سے جنگ لڑنے والے ممالک کے درمیان اعتماد قائم کرنے اور لبرل جمہوری ریاستوں کو مضبوط کرنے میں بنیادی کر دارادا کیا۔ سویت یونین کے خاتمے کے فوری بعد مشرقی یورپ میں سرحدوں اور نسلی تنازعات نے امن کو خطرے میں ڈال دیا۔۱۹۹۰ء کے آغاز میں یوگوسلاویہ میں جنگ نے پرامن ماحول کاخاتمہ کردیا،ان چیلنجوں کے موجودگی میں نیٹو نے تنظیم کی رکنیت کے خواہش مند ممالک میں سیاسی اصلاحات کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ نئے ارکان اچھی طرز حکومت کے معیار پر پورا اتر سکیں۔اس فیصلے کی وجہ نیٹو کا یقین تھا کہ لبرل ادارے اور اقدار ہی قوم پرستی، انتہا پسندی اور تشدد کی واپسی کا راستہ روک سکتے ہیں ۔ کیوں کہ قوم پرستی اور تشدد کی وجہ سے ہی یورپ صدیوں تباہ کن تنازعات میں گھرارہا۔ یورپ کے اندر امن کے لیے ضروری ہے کہ نیٹو کے نئے ارکان آمرانہ طرز حکومت کو ترک کردیں۔ نیٹو کی شرائط اکثر سیاسی تنازع کا باعث بنتی رہیں اور رکن بننے کے خواہش مند ہمیشہ یہ شرائط پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔دہائیوں تک کمیونسٹ آمرانہ حکومتوں کے ماتحت رہنے والے ممالک نے خفیہ ایجنسیوں کے اثرات کوختم کیا، سیاست میں ملوث فوج کو غیر سیاسی اورپیشہ ورانہ فوج میں تبدیل کیا،دفاعی سامان کی خریداری کی نگرانی کے لیے قانون سازی کی گئی اور بد عنوانی کے خاتمے کے لیے سخت پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ اس عمل کے دوران کافی وقت لگتا ہے،مونٹے نیگرو نے ۲۰۰۷ء میں رکنیت حاصل کرنے کے لیے تمام اہداف حاصل کرلیے تھے، مگر اسے نیٹو کا رکن بننے کے لیے مزید دس برس انتظار کرنا پڑا۔ بہرحال نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے صرف خواہش کا ہونا کافی نہیں، بوسنیا اس کی ایک مثال ہے۔ جس کو۲۰۱۰ء میں ممبر شپ پلان اور شمولیت اختیار کرنے کا طریقہ دے دیا گیاتھا، مگر وہ اب تک نیٹو کے معیار کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ سخت شرائط کی وجہ سے نیٹو ارکان میں اضافے کا عمل سست روی کا شکار ہوسکتا ہے، لیکن متنوع یورپی معاشرے میں لبرل ادارے اور روایت ہی یورپ کو تحفظ اور اعتماد فراہم کرسکتی ہیں،اس کے علاوہ کچھ بھی نیٹو اتحاد کو کمزور کردے گا۔
وسیع براعظم میں استحکام کے علاوہ بھی نیٹو ممالک کے لبرل جمہوری کردار کا معاملہ اہم ہے۔ کسی مشترکہ بیرونی خطرے کی عدم موجودگی میں جمہوری روایات ہی رکن ممالک کو متحدرکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں،جو اتحاد کے موثر ہونے کے لیے بنیادی حیثیت کی حامل ہیں۔نیٹو کی سیکیورٹی آپریشن کرنے کی صلاحیت کا انحصار رکن ممالک کی عسکری اہلیت کے ساتھ سیاسی ہم آہنگی پر بھی ہے۔ نیٹو معاہدے کی دفعہ۵ فعال ہونے پرمشترکہ فوجی کارروائی کی جاتی ہے، یہ دفعہ کسی اتحادی پر براہ راست حملے کی صورت میں فعال ہوجاتی ہے۔ مشترکہ بیرونی خطرہ متحدہ ردعمل پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر نائن الیون حملوں کے بعد نیٹو ممالک افغان طالبان کے خلا ف امریکی مہم کا حصہ بن گئے۔ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے نیٹو کی دفعہ۵ فعال نہیں ہوتی، کیوں کہ رکن ممالک اپنے مفادات کے حوالے سے مختلف ترجیحات رکھتے ہیں، اس طرح کے معاملات میں قانون کی حکمرانی کاعزم اہم کردار ادا کرتا ہے،کسی کارروائی کے لیے مضبوط بین الاقوامی قانونی بنیاد فراہم ہونے کی صورت میں بیرون یورپ آپریشن میں بھی رکن ممالک نے اتحاد کامظاہرہ کیا ہے، جس کی واضح مثال۲۰۱۱ء میں لیبیا میں مداخلت ہے،جس کی اجازت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دی تھی۔ وسیع اورمشکل چیلنجوں کا سامنا ہونے پر نیٹو کے لیے لبرل جمہوری روایات ہی اتحاد کی مضبوط بنیاد ثابت ہوئی ہیں۔ ۱۹۹۵ء میں نیٹو نے سربوں کے حملوں کا شکار بوسنیا میں اقوام متحدہ کے تحت علاقوں کی حفاظت کے لیے آپریشن کیا،۱۹۹۹ء میں یوگو سلاویہ کے انخلا کے وقت کوسوو میں البانیوں کو بچانے کے لیے بھی نیٹو نے فضائی آپریشن کیا، یہ دونوں کارروائیاں سلامتی کونسل کی قرارداد کے تحت نہیں کی گئیں، اور نہ ہی نیٹو معاہدے کی دفعہ ۵ کے تحت ایسا کیا گیا، کیوں کہ کسی بھی نیٹو رکن پر براہ راست حملہ نہیں کیا گیا تھا، بہرحال یہ دونوں کارروائیاں نیٹو کی سیاسی صلاحیت کا امتحان تھیں، جس میں رکن ممالک نے انسانی حقوق کے مشترکہ مقصد کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔
یہ اصول۲۰۰۵ء میں ’’حفاظت کی ذمہ داری ‘‘ کے نام سے بین الاقوامی قانون کا حصہ بن گیا۔ غیر نیٹو ممالک میں عوام پر ظلم و ستم روکنا رکن ممالک کی اتنی ہی اہم روایت ہے جتنا کو ئی فوجی اثاثہ اہم ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب جمہوری روایت اور اداروں کو کمزور کیاجاتا ہے تو اتحاد میں تقسیم واضح ہوجاتی ہے۔ بوسنیا اور کوسوو میں کامیاب آپریشن کے بعد نیٹو۲۰۰۳ ء میں عراق جنگ پر تقسیم ہوگیا۔ بش انتظامیہ کی جانب سے عراق کے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دینا بھی نیٹو کو متحد نہیں کرسکا۔فرانس اور جرمنی نے عراق پر حملے کی سب سے زیادہ مخالفت کی، حالانکہ بوسنیا اور کوسوو میں مداخلت کا قانونی جواز بھی کافی کمزور تھا، مگر تمام اتحادی انسانی حقوق کے مشترکہ نکتے پر متفق تھے، لیکن جب عراق کا معاملہ آیا تو بغیر کسی لبرل جمہوری جواز کے تمام رکن ممالک نے حملے کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ اس صدی کے آغاز میں مجھ سمیت کئی مبصرین نیٹو کا حصہ بننے کے معیار کونئے ارکان کی جانب سے نقصان پہنچنے پر پریشان تھے، کیوں کہ نئے ارکان اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تو شرائط پر عمل کریں گے مگر نیٹو کا رکن بننے کے بعداس معیار کو پس پشت ڈال دیں گے۔ جب کو ئی بین الاقوامی تنظیم اپنے ارکان کی تعداد میں اضافہ کرتی ہے تو وہ مزید پیچیدہ اورعمل کے معاملے میں سست ہوجاتی ہے، تعداد میں اضافے کا مطلب ہے ترجیحات اور مفادات پر اختلاف میں مزید اضافہ۔ نیٹو دعویٰ کرتا ہے کہ لبرل جمہوری روایت کے حوالے سے مشترکہ عزم کے ذریعے اس چیلنج سے نمٹا جاسکتا ہے، یہ ٹھیک ہے، مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب نئے ارکان اتحاد کا حصہ بننے کے بعد بھی اس معیار پر عمل کرتے رہیں۔ مجھے خوف ہے کہ طویل عرصے سے نیٹو کا رکن رہنے والے ممالک میں بھی ریاستیں استحصال کررہی ہیں، جیسا کہ ہنگری ہے ، جو سیاسی اصلاحات کرنے کا وعدہ پورا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، وعدہ خلافی کرنے والوں کو چھوٹ دینا نیٹو کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا اور لبرل جمہوری اقدار کو بھی نقصان پہنچے گا، اگر نیٹو اپنے رکنیت سازی کے معیار کو پورا کرنے کے لیے زور نہیں دے گا تو امریکا کے لیے اہم ترین اتحاد(نیٹو) کمزور ہوجائے گا۔
ایک بات تو واضح ہے کہ نیٹو کے لبرل جمہوری معیار کی خلاف ورزی کی کوئی قیمت نہیں ، کچھ ناقابل اعتماد ارکان واقعی میں گمراہ ہوچکے ہیں۔ہنگری کو۱۹۹۹ء میں نیٹو میں شامل کیاگیا، ہنگری میں ۲۰۰۲ء اور۲۰۰۶ء کے شفاف انتخابات کے نتیجے میں دونوں مرکزی جماعتوں میں تبدیلی آئی۔ دونوں جماعتوں کا شمار سوویت دور کی بد عنوان جماعتوں میں ہوتا تھا، اس دوران رہنماؤں کا احتساب بھی کیاگیا۔۲۰۰۴ء میں ہنگری نے پوری سیاسی قوت کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کے لیے کوشش کی،اس دوران ہنگری نے شہری آزادی اور سیاسی حقوق کے حوالے سے بھی کافی پیشرفت کی۔ ایک غیر سرکاری تنظیم ’’فریڈم ہاؤس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق۲۰۰۵ ء سے۲۰۱۰ء کے دوران شہری اور سیاسی آزادی کے حوالے سے ہنگری کی کارکردگی سب سے بہترین رہی۔۲۰۱۰ء کے انتخابات کے نتیجے میں دائیں بازو کے ’’وکٹر اربان‘‘ کی جماعت جیت گئی۔ انہوں نے۵۳ فیصد ووٹ اور۶۸ فیصد پارلیمان کی نشستیں حاصل کرلیں۔ پارلیمان میں واضح اکثریت کے ہوتے انہوں نے آئین تبدیل کردیا اور حکومت کی نگرانی کرنے والے اداروں کو کمزور کردیا، خاص طور پر عدلیہ بری طرح متاثر ہوئی۔ انہوں نے ہنگری کی آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کرکے وہاں اپنے لوگوں کو لگادیااور عدالتی اختیار بھی محدود کردیا۔ ۲۰۱۸ء میں فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق شہری اور سیاسی آزادی کے حوالے سے ہنگری کی کارکردگی بدترین رہی،ہنگری میں قانون کی حکمرانی اور حکومت کے احتساب کا عمل کمزور جب کہ بدعنوانی میں اضافہ ہوگیا ہے۔اپریل۲۰۱۸ء کے انتخابات بھی دائیں بازو کی جماعت جیت گئی، اس بار۴۹ فیصد ووٹ کے ساتھ پارلیمان میں بھرپور اکثریت حاصل کی گئی۔آج ہنگری کی حکومت ملک کویورپ کی لبرل جمہوری روایت سے مزید دور لے جانے کی تیاری کررہی ہے۔
لبرل روایت کی خلاف ورزی کے حوالے سے ہنگری تو صرف آغاز تھا ،صدیوں جنگیں لڑنے کے نتیجے میں تباہی کے بعد پولینڈ کے لوگوں کو امید تھی کہ لبرل جمہوریت ہی یورپ میں نسلی تنازع اور جذباتیت کا حل ہے،لیکن۲۰۱۵ء میں پولینڈ کااقتدار سنبھالنے کے بعد جسٹس پارٹی نے قانون کی حکمرانی اورحکومت کی نگرانی کے لیے بنائے گئے بہت سے قوانین ختم کرنے شروع کردیے، جیسا اس سے قبل ہنگری کرچکا تھا۔پولینڈ میں قانون اور حکومتی اقدامات پر نظر ثانی کرنے والے آئینی ٹربیونل کے اختیارات محدود کردیے گئے، سیاسی رہنماؤں کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا، عدلیہ کو اپنا محتاج بنالیاگیا۔ فریڈم ہاؤس نے پولینڈ کو ۲۰۱۵ء میں ۱۰۰ میں سے۹۳ نمبر دیے، جب کہ ۲۰۱۸ء میں ۱۰۰ میں سے۸۵ نمبر دیے ۔جنوری میں حکومت نے ایک قانون منظور کیا، جس کے تحت پولینڈ کو ہولوکاسٹ میں شریک کہنا جرم قرار دے دیاگیا،قطع نظر کہ پولش لوگوں کا ہولوکاسٹ میں کیا کردار تھا۔ اس قانون کی منظوری سے لبرل جمہوریت کے اہم اصول اظہار رائے کی آزادی کو نقصان پہنچا اور اظہار رائے کی آزادی کے بغیر عوام اپنی حکومت کا احتساب نہیں کرسکتے۔
میں نے۲۰۰۲ ء میں بھی لکھا تھا کہ نئے ارکان میں شا مل جمہوری اصولوں کی پاسداری نہ کرنے والے ممالک نیٹو اتحاد کو کمزور کرسکتے ہیں۔ میں اپنی ناکامی کااعتراف کرتاہوں کہ میں ۲۰۰۲ء میں صورتحال کی سنگینی کا درست اندازا نہیں لگا سکا تھا۔آج صرف نئے ارکان سے لبرل جمہوریت کو خطرہ نہیں بلکہ پرانے اور اہم ارکان بھی ان روایت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں،جس کی وجہ سے نیٹو کا اتحاد اور صلاحیت زیادہ بڑے خطرے سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ سب سے حیران کن معاملہ ترکی کاہے، ترکی ۱۹۵۲ء میں نیٹو میں شامل ہوا، وہاں کئی مرتبہ فوج اقتدار پر قابض ہوئی۔ترکی کافی عرصے سے طیب ایردوان کی سربراہی میں نیٹو کے لیے مسائل پیداکرر ہا ہے۔شروع میں تو ترکی ترقی کرتارہامگر۲۰۱۶ء کے بعد معاملات خراب ہونے لگے، بغاوت کے خلاف کارروائی کی آڑ میں ایردوان حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین اور صحافیوں پر مقدمات قائم کردیے، تاجروں کو تنگ کیاجانے لگا، ترکی میں مرکزی صحافتی اداروں کو کاروباری مفادات کے ذریعے کنٹرول کیاجانے لگا،جس کے نتیجے میں میڈیا حکومتی جماعت کاآلہ کار بن کر رہ گیا۔ جس کے بعدایردوان نے آزاد عدلیہ کو نشانہ بنایا،۲۰۱۸ء میں آئینی ترمیم کے بعدایردوان کو عدلیہ میں سیاسی تقرری کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگیا۔فریڈم ہاؤس نے لبرل جمہوری اداروں اور اصولوں کے حوالے سے ترکی کو چین، روس، ایران اور شام کی صف میں شمار کیا ہے، اگرچہ ترقی و انصاف پارٹی نے۲۰۰۲ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد قانونی ،شہری اور سیاسی آزادیوں کے حوالے سے کافی پیش رفت کی تھی۔دوسری طرف نیٹوکے اہم ترین رکن ممالک میں بھی حالات کافی خراب نظر آرہے ہیں۔فرانس میں نیشنل فرنٹ روس سے پیسے لینے کے اعتراف کے باوجود اپنے عروج پر ہے، جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے حیران کن کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ جرمنی میں متبادل قوت بن کر ابھری ہے۔نیدرلینڈ میں۲۰۱۷ء میں انتہائی دائیں بازو کے رہنما جیرٹ وائلڈر کو سخت اور ناقابل یقین مقابلے کے بعد شکست ہوئی، اس دوران ملک میں کشیدگی اپنی انتہا پر تھی۔
ادھر امریکا بھی اسی راستے پر گامزن ہے،۲۰۱۶ء کے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں برسراقتدار آنے والی حکومت لبرل جمہوری اداروں اور روایات کو تہ وبالا کرنے کاارادہ رکھتی ہے۔صدر ٹرمپ مسلسل غلطیاں کررہے ہیں، وہ آزاد میڈیا کے کردار پر حملہ آور ہیں۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ’’ اگرصحافی اپنی خبر کے ذرائع نہیں بتائے تو اسے جیل بھیج دینا چاہیے‘‘ ۔ صدر ٹرمپ اور ان کی حکومت میں شامل دیگر حکام کھلے عام تشدد پسند نسل پرستوں کی حمایت کرتے ہیں، وہ مذہبی اقلیتوں کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ ہیں، یہ لوگ جنسی تعصب اور عورت سے نفرت کی وکالت کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ مسلسل خودمختار محکمہ انصاف پر تنقید کررہے ہیں،جس کی وجہ ٹرمپ کی انتخابی مہم اور ۲۰۱۶ء کے انتخابات میں بیرونی مداخلت کی تحقیقات ہیں۔اس صورتحال کے بعد۲۰۱۸ ء میں فریڈم ہاؤس نے امریکا کو۱۰۰ میں۸۶ نمبر دیے۔
کچھ نیٹو ممالک میں سرد جنگ کے دوران فوجی اور آمرانہ حکومتیں قائم رہیں، یونان میں۱۹۶۷ء سے۱۹۷۴ء تک فوجی حکومت قائم رہی، جب کہ پرتگال میں۱۹۷۴ ء تک آمرانہ حکومت قائم تھی۔سرد جنگ کے دوران نیٹو کی فوجی صلاحیت کو بڑھانے اور مغربی یورپ میں کمیونزم کا راستہ روکنے کے لیے اس صورتحال کو برداشت کرلیاگیا،لیکن پھر جمہوریت نے اپنی اہمیت کومنوالیا۔آمرانہ حکومت کے ماتحت یونان اور ترکی میں قبرص کے معاملے پر لڑائی میں شدت آگئی،جس سے نیٹو اتحاد کمزور ہوا،لیکن سویت یونین کے مشترکہ خطرے نے اتحاد کی کمزوری کو کافی حد تک دور کردیا۔آمرانہ حکومت کی وجہ سے کچھ نیٹو ممالک اتحاد کے اہم ترین ارکان کے مخالف ہوگئے۔ لیکن ان ممالک نے ایساکچھ نہیں کیاجس سے نیٹو کے بیرونی خطرے کے مقابلے میں کمزور ہونے کا تاثر ملتا۔ آج صورت حال کافی مختلف ہے، روس ایک بار پھر یورپ کے لیے خطرہ بن کر ابھرا ہے،یہاں بحراوقیانوس کی حفاظت کے لیے لبرل جمہوری اداروں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے،کیوں کہ غیر جمہوری ممالک زیادہ کمزور ہوتے ہیں،آمریت کرپشن کو فروغ دیتی ہے اور یورپ میں کرپشن روسی اثرات کو مزید بڑھا دے گی۔روس کی۲۰۱۴ء میں یوکرائن میں مداخلت کے بعد نیٹو ممالک سب سے زیادہ کرپشن اور مقبول فیصلے کرنے سے متاثر ہوئے۔روسی میڈیا کے اثرات کی وجہ سے نیٹو کو متحدہ ردعمل دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ہر بار روس پر یورپی پابندی کی تجدید کرنا پڑی،امریکا اور اہم ترین اتحادیوں کو یورپی ممالک کو نیٹو سے نکلنے سے روکنا پڑا اور کریملین کے دباؤ کے خلاف سخت جدوجہد کرنا پڑی۔ ماضی میں سویت یونین بنیادی طور پر عسکری خطرہ تھا، سویت یونین نے سیاسی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کمیونسٹ نظریے اور بائیں بازو کی جماعتوں کا استعمال کیا۔آج روس سیاسی اثرات بڑھانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کررہاہے، جس میں مشکوک انداز میں فنڈ کی فراہمی، رشوت دے کر تعلقات قائم کرنا، بد عنوانی اور بلیک میلنگ شامل ہیں۔روس ایک ایسے نظریے کو فروغ دے رہا جو پرتشدد قوم پرستی، دوسروں سے نفرت اور عوام پر جبر کرنے پر مشتمل ہے، اور اسی راستے پر ہنگری، پولینڈ ، ترکی اور دیگریورپی ممالک گامزن ہیں۔ یہاں تک کہ جب بھی اربان اور ایردوان پر ان کے اتحادیوں نے تنقیدکی تو انہوں نے روسی صدر پوٹن کو اپنی حمایت میں کھڑا پایا۔سرد جنگ کے برعکس نیٹو کے غیر جمہوری ممالک کریملین کے اتحادی بن گئے ہیں ۔ حقیقت میں یہ ممالک اتحادکی سب سے بڑی کمزوری بن گئے ہیں، بس ایک امید ہے کہ روس کی جانب سے کسی نیٹو رکن پر حملے کی صورت میں یہ ممالک اتحاد کے ساتھ کھڑے ہوں گے، مگر یہ یقین کرنا کہ ان ممالک نے سمجھوتہ کرلیا ہے، بے کار امید کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
روس کا مقابلہ کرنے کے لیے نیٹو کو اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے، اس بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا اوریہ ضروری بھی تھا مگرزیادہ اہم بات یہ ہے کہ نیٹو کواپنی لبرل جمہوری بنیادوں کو دوبارہ سے بحال کر کے اتحاد کی کمزوریاں دورکرنے کی ضرورت ہے، تاکہ روس جوبدعنوانی،’’انفارمیشن وارفیئر‘‘ اور بلیک میلنگ کے ذریعے مداخلت کررہا ہے،اس کا مقابلہ کیا جاسکے۔ میں نے ۲۰۰۲ء میں جمہوری روایت سے منحرف نیٹوارکان کو نوٹس دینے کا طریقہ تجویز کیاتھا، جس میں ان کے حقو ق معطل کرنااور ممکنہ طور پر ان کی رکنیت ختم کرنا شامل تھا۔میری تجویز کا مرکزی نقطہ نیٹو میں اتفاق رائے کے اصول کو تبدیل کرنا تھا، نیٹو میں اہم فیصلوں کے لیے تمام ارکان کا متفق ہونا لازمی ہے،مجھے یقین تھا کہ اتفاق رائے کا اصول ختم ہونے کے بعدمنحرف ارکان کو قواعد کا پابند بنانے میں دیگر ارکان کو آسانی ہوگی،اس سے نہ صرف نیٹو مضبوط ہوگا بلکہ نیٹو قواعد کی خلاف ورزی کو بھی روکا جاسکے گا۔ میری تجویز میں منحرف ارکان کی اصلاح اور ان کی ممبرشپ کی مکمل بحالی کا طریقہ کار بھی موجود تھا۔لیکن یہ تجاویز دیتے وقت میرا خیال تھا کہ نیٹو کو اپنے ارکان کی جانب سے قواعد سے انحراف کا کبھی کبھار ہی سامنا ہوگا۔ نئے اور پرانے کئی ارکان کی جانب سے قواعد سے انحراف نے خطرے کو کئی گنا بڑھادیا ہے، اب۲۰۰۲ء کی تجاویز پر عمل کرنے کا وقت گز چکا ہے، اگر انحراف کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو نیٹو بدعنوان اور غیر لبرل جمہوریت کو تحفظ دینے والا اتحاد بن سکتا ہے۔منحرف ارکان کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر نیٹو کو معاملات چلانے کے لیے اتفاق رائے کے اصول کے بجائے یورپی یونین کے طرح اکثریت کا اصول اپناناہوگا ۔نیٹو کو بھرپور اکثریت(ایک کے مقابلے میں دو ووٹ) سے منحرف ارکان کے ووٹ اور فیصلہ کرنے کے حق کو معطل کردینے کوممکن بنانا ہوگا۔ ۲۰۰۷ء کے ’’لزبن ‘‘معاہد ے کے تحت یورپی یونین کے زیادہ تر فیصلوں کے لیے دگنی اکثریت درکار ہوتی ہے،اس طریقے سے اگر یورپی یونین کہیں قانون کی حکمرانی کو خطرے میں محسوس کرے تو وہ رکن ملک کے ووٹ کے حق و دیگر حقوق کو معطل کرسکتی ہے۔درحقیقت یورپی یونین درست طورپر اس طریقے کو ہنگری او ر پولینڈ کے فنڈز اور مراعات پر پابندی لگانے کے لیے ا ستعمال کرنے کاسوچ رہی ہے۔ نیٹو کو اپنے تمام نئے اور پرانے ارکان کے لبرل جمہوری طرز عمل کی نگرانی کی ذمے داری اپنے سینئرافسران کو دینی چاہیے، اس حوالے سے سیاسی امور اور سیکیورٹی پالیسی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل موزوں انتخاب ہوسکتا ہے۔لبرل جمہوری اداروں اور روایت کی مرکزی اہمیت کے پیش نظر نیٹوکے ادارے میں کام کرنے والے افسران کو ارکان کے احتساب کے عمل کا حصہ بنناچاہیے، ان کو نیٹو کے معیار پر مکمل طور پر عمل کروانا چاہیے۔نیٹو کو یورپی یونین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط بنانے چاہییں، بہتر طرز حکومت، قانون کی بالادستی اور شہری حقوق کی نگہبانی دونوں تنظیموں کے مشترکہ مقاصد ہیں،اس حوالے سے تعاون دونوں تنظیموں کی مضبوطی کا باعث بنے گا، دونوں تنظیموں کے درمیان معلومات کے تبادلے کا باقاعدہ چینل بنایا جائے(یورپی یونین اس حوالے سے پہلے ہی جائزہ لے رہا ہے)، اس سے نیٹو کے لیے اپنامعیار برقراررکھنااور ارکان کی نگرانی کرنے کی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔معلومات کے تبادلے کے ذریعے یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی رکن کسی ایک تنظیم میں اپنی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر دوسری تنظیم میں احتساب کے عمل سے بچ نہ جائے اور قواعد سے انحراف کرنے لگے۔ مثال کے طور پر پولینڈ اپنے غیر جمہوری رویے کے بدلے روس کے خلاف سخت موقف رکھتاہے اور نیٹو کا مضبوط عسکری رکن ہے ۔نیٹو میں خرابی کو دور کرنے کے لیے صرف طریقہ کار میں اصلاحات کافی نہیں، اس حوالے سے آمریت کا شکار ترکی کو نیٹو کے اہم مشن اور فیصلے سے دوربھی رکھا جاسکتاہے،اس بات کا امکان کم ہے کہ اس طرح کے اقدام پر ترک قیادت اعتراض نہیں کرے،اورنیٹو کے قوانین اس طرح کے اقدامات کی اجازت نہیں دیتے ،مگر اس حوالے سے کوئی قابل عمل حل ڈھونڈنے میں تنظیم کی کارکردگی کافی بہتر رہی ہے۔
نیٹو کے اہم ترین ارکان کا لبرل جمہوریت سے انحراف کرنا الگ معاملہ ہوگا، نیٹو کس طرح امریکا، فرانس اور جرمنی کی رکنیت معطل یا ان کی اصلاح کرسکتا ہے۔ بہتر دفاع کے لیے نیٹو ارکان کو اپنے ملک کے اندر کام کرنا ہوگا،نیٹو لبرل جمہوریت سے انحراف کرنے والے ممالک کی مراعات ختم کرنے اور سزا دینے کا طریقہ تشکیل دے سکتا ہے ،مگر صرف شہری ہی اپنے منتخب قیادت کا احتساب کرسکتے ہیں۔ امریکا کی طرف سے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے کھڑا ہونا سب سے ضروری ہے،نیٹو کے اہم ترین ممالک میں لبرل ازم کی کمی خدشات پیدا کررہی ہے۔جرمنی پورے خطے کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک جماعتی آمرانہ حکومت سے باہر آرہا تھا،فرانس تیزی سے علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے مزاحمت کی علامت بن گیا تھا، جنگ عظم دوئم کے بعد یورپ زندہ رہنے کے لیے پر امید تھا،مگر یہ امریکا تھا جس نے بیسوی صدی میں یورپ کو آمریت سے بچایا اور خوشحالی، امن اور استحکام حاصل کرنے میں مدد کی۔نیٹو یورپ میں آمرانہ حکومتوں کے ساتھ تو محفوظ رہ سکتا ہے مگر امریکا میں لبرل جمہوریت کی ناکامی اتحاد کو تباہ کرسکتی ہے۔امریکیوں کواس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ آج نیٹو کو سب سے بڑا خطرہ امریکا سے ہی ہے۔سیاسی جماعتوں اور پالیسی ترجیحات سے ماورا تمام امریکی لبرل جمہوریت کے اداروں، روایت اور قوانین کی حفاظت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ صرف علاقائی سیاست کا نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے۔ گھر میں جمہوریت خطرے میں آجانے سے واشنگٹن کی نیٹو کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے، جس سے دنیا ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔ نیٹو کا سب سے طاقتور رکن ہونے کے ناطے امریکا کو لبرل اداروں اور اقدار کے مشترکہ دفاع کی قیادت کرنی چاہیے۔ آج نیٹو کو بنیادی خطرہ اپنے ارکان سے ہی ہے، اس مسئلے کا حل برسلز کے ہیڈکوارٹر میں بیٹھ کر قواعد میں تبدیلی اور ایک دوسرے پر الزا م تراشی سے نہیں نکلے گا، اس خطرے کو اپنے گھر کے اندر ہی شکست دینا ہوگی۔
[مصنفہ U.S Russia Foundation کی سربراہ ہیں۔انھوں نے ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۷ء تک صدر کی معاونِ خصوصی کی حیثیت سے کام کیا اور ’’قومی سلامتی کونسل میں یوریشین اور روسی امور کی ڈائریکٹر رہیں۔]
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“NATO’s enemies within”.(“Foreign Affairs”. July-August, 2018)
Leave a Reply