پاکستان کے شمال میں ۸ اکتوبر کو آنے والے بھیانک زلزلے نے ملک کی تاریخ میں ایسی تباہی مچائی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے‘ کتنے ہی چھوٹے شہر تلپٹ ہو کر رہ گئے۔ آبادی کی آبادی اس زلزلے کے نتیجے میں تہ وہ بالا ہوکر رہ گئی۔ ابھی تک ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جارہی ہے لیکن اس میں کم ہی کسی کو شک ہے کہ یہ تعداد لاکھوںمیں پہنچ جائے گی۔ ایدھی فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق اب تک ۳ لاکھ اموات ہوچکی ہیں۔ زخمیوں اور معذورین کی تعداد اس وقت لاکھوں میں ہے۔ بے گھر ہونے والے افراد بھی لاکھوں میں ہیں۔ ملبوں سے بہت کم افراد کو نکالا جاسکا ہے۔ ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی کے باوجود لوگوں کی جان بچانے میں حکومتی مشینریاں اور امدادی ایجنسیاں خواہ وہ مقامی ہوں یا بین الاقوامی ناکام ثابت ہوئیں۔ ملبوں میں جو لوگ دبے ہوئے تھے وہ اب دم توڑ چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی نعشوں سے اب تعفن اٹھنے لگاہے۔ صورتحال اس قدر اندوہناک ہے کہ لوگوں سے ٹی وی کے سامنے بیٹھا نہیں جارہا ہے۔ بچوں ‘ عورتوں ‘ بوڑھوں اور جوانوں کی لاشوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔ ان مناظر کو دیکھنے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر طرف زخمیوں اور پسماندگان کی آہ و بکا و چیخ وپکار ہے۔ ایسی صورت حال میں امداد کی ناقص فراہمی مصیبت زدگان کو راحت پہنچانے کے بجائے ان کی مصیبت کو مزید سنگین بنارہی ہے۔ حقیقت یہ کہ اس وقت تقریباً آدھا ملک زلزلے سے متاثر ہے اور بقیہ نصف ملک متاثرین کے لئے امداد جمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس عظیم انسانی المیے پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ لوگ حیران و سرگرداں ہیں کہ ہوا کیا ہے ؟ بعض لوگ کا خیال ہے کہ یہ عذاب الٰہی ہے جو لوگوں کے اعمال بد کے نتیجے میں آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے بھیانک زلزلے کی زد سے محفوظ رہ گئے کیا ان کے اعمال زد میں آنے والوں کے اعمال سے بہتر ہیں؟ کیا ان میں سرخاب کے پر لگے ہیں جس کی بناء پر اللہ نے ان کو ایسی عظیم بلا میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھا؟ ایسے موقعوں پر اس طرح کے سوالوں کو اپنے اذہان میں جگہ دینے کے بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ اس عظیم بحران کو اپنے لئے عظیم موقع (Great Opportunity) میں کس طرح تبدیل کیا جائے۔
عظیم موقع کی بھی دو جہتیں ہیں۔ ایک جہت بدعنوانی اور حرص دنیا اور سنگ دلی سے عبارت ہے جو ٹرکوں اور بسوں کے کرایہ ‘ کفن کے کپڑوںکی قیمت کے اضافے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔ دوسری جہت اللہ کی یاد اور اس کے بندوں کے دکھ کے احساس سے عبارت ہے جیساکہ اس موقع پر لوگوں کی اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی فراخدلانہ امدادکی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ہر آدمی اپنی استطاعت سے بڑھ کر آلام و مصائب میں پھنسے اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے کوشاں ہے۔اکثر لوگ مجسم ہمدردی اور سراپا رحم بنے ہوئے ہیں۔ یہی وہ دوسری جہت ہے جس سے لوگ عالم کی بے ثباتی کا صحیح ادراک کرسکتے ہیں۔ لمحوں میں ہنستی کھیلتی زندگیاں لقمہ اجل بن گئیں۔ بستیاں کی بستیاں غرقِ زمین ہوگئیں۔چنانچہ ثابت ہواکہ اس زندگی کو دوام حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا کیوں انسان دائمی و اخروی زندگی کے مفادات پر اس عارضی زندگی کے مفادات کو ترجیح دے۔ دوسری بات یہ کہ انسان فاعلِ مختار ہونے کے باوجود مختارِ کل نہیں ہے۔ وہ اپنے اور اپنے ہم جنسوں کے تحفظ کے حوالے سے بے بس ومجبور ہے۔ انسان فاعلِ مختار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد کا محتاج ہے اور قدرت کی طاقت کے آگے وہ بے زور ہے۔ چنانچہ یہ قدرتی آفات ہمیں فاعلِ مطلق اور قادرِ مطلق سے اپنا رشتہ استوار کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس جہت کی تیسری بات یہ ہے کہ انسانی زندگی جب آلام و مصائب کی گودمیں کروٹیں لیتی ہے تو یہ عارضی زندگی انسان کا ہدفِ مقصود نہیں بن پاتی بلکہ زندگی بعد موت پر اس کا ایمان مستحکم ہوتا ہے اور اس کی یہ عارضی زندگی مستیوں کے بجائے ذمہ داریوں سے عبارت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مصیبت کی اس گھڑی میں ہمیں حق اور حقیقت تک رسائی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***
Leave a Reply