مصر میں حالات کے پلٹا کھانے سے ایک بار پھر انقلاب نیا رخ اختیار کر رہا ہے۔ کئی معاملات میں ابہام پیدا ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ اخوان زیادہ سے زیادہ اختیارات بٹورنا چاہتی ہے۔ مگر معاملہ صرف یہ نہیں ہے۔ بہت سے دوسرے معاملات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ انقلاب کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں۔ اس میں کئی خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں انقلابی تبدیلی کے رونما ہونے کے بعد لوگوں کے عزائم ترتیب سے بے نقاب ہوتے جاتے ہیں۔ مختلف گروپ جو کچھ چاہتے ہیں، وہ بتدریج سامنے آتا جاتا ہے۔ بہت سے گروپ اقتصادی مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ انقلاب کے اندر سے گزرتے ہوئے راستہ بنانے کے لیے مفادات کے تصادم کو سمجھنا لازم ہے۔
مصر میں اخوان کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والوں کے عزائم کو سمجھنا ضروری ہے۔ نیشنل سالویشن فرنٹ کے نام سے کئی اپوزیشن گروپ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے ہیں۔ صدر محمد مرسی پر زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے کا الزام ہے۔ اپوزیشن میں اشرافیہ کے نوجوان، سابق حکمراں ٹولے سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات (بشمول سابق وزیر خارجہ امر موسیٰ) اور دیگر شخصیات شامل ہیں۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ صدر مرسی مستعفی ہو جائیں۔ فی الحال یہ اپنے مطالبے پر زیادہ زور نہیں دے رہے۔
اپوزیشن کے جو گروپ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں ان سب میں اخوان کے لیے ناپسندیدگی قدر مشترک ہے۔ مگر خیر، ہر گروپ مختلف وجوہ کی بنیاد پر اخوان کو ناپسند کرتا ہے۔ یہ خدشہ سب کے ذہن میں پایا جاتا ہے کہ اخوان کے دور میں مصر حقیقی جمہوریت کی طرف نہیں بڑھ سکے گا اور اقلیتوں کو بھی ان کے تمام حقوق نہیں مل سکیں گے۔ اس معاملے میں سعودی عرب اور اسرائیل جیسی مذہبی ریاستوں کی مثال ان کے سامنے رہتی ہے۔
اپوزیشن میں وہ گروپ بھی شامل ہیں جو سابق دور حکومت میں مزے کرتے رہے۔ وہ اب بھی چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اقتدار کا حصہ بنیں تاکہ کرپشن کے ذریعے جی بھر کے مزے لوٹ سکیں۔ چند گروپ ایسے بھی ہیں جنہیں سابق دورِ حکومت میں بھی کاروباری معاملات میں شدید دشواریوں کا سامنا تھا۔ اب اخوان کی حکومت ہے، تب بھی ان کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ یہ لوگ کوئی ایسا سیٹ اپ چاہتے ہیں جس کے تحت ان کے کاروباری مفادات متاثر نہ ہوں اور یہ بہتر انداز سے کام کرتے رہیں۔ مبارک دور میں بھی ان کے لیے مراعات کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا اور اب بھی یہ مراعات سے محروم ہیں۔
مصر میں سب کے معاشی مفادات مختلف نوعیت کے ہیں۔ ہر گروپ کو صرف اس بات سے غرض ہے کہ اس کے مفادات محفوظ رہیں، خواہ ملک میں جمہوریت رہے یا آمریت۔ بڑے کاروباری گروپ اب بھی اخوان یا کسی اور گروپ کی حمایت کو تیار ہیں، بہ شرطِ کہ ان کے کاروباری مفادات محفوظ رہیں۔
مصر میں جو انقلاب رونما ہوا ہے، وہ تو اسی وقت حقیقی معنوں میں بار آور ثابت ہوگا، جب اِسے برپا کرنے والے لاکھوں افراد کے حالاتِ زندگی میں کوئی حقیقی اور مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ جن لوگوں نے اپنی زندگی کا رخ تبدیل کرنے کے لیے حسنی مبارک کا اقتدار ختم کیا اور مظالم سہے، وہ چاہتے ہیں کہ اُن کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اخوان کے تحت حسنی مبارک کے خلاف زیادہ بڑے مظاہرے ہوئے تھے مگر میڈیا میں اس حقیقت کو چھپایا گیا۔
مصر میں اپوزیشن کے تمام ہی گروپوں کو اندازہ ہے کہ آئین کے لیے کرائے جانے والے ریفرنڈم میں اخوان کامیاب ہوگی، اس لیے ابھی سے شور مچایا جارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح ریفرنڈم روکا جائے یا پہلے سے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے متنازع بنادیا جائے۔ صدر مرسی نے اختیارات اپنے نام کرنے کے فرمان کو منسوخ کردیا، تب بھی اپوزیشن کے شکوے ختم نہ ہوئے۔ بعض گروپوں نے پولیس اور فوج پر بھی جانبداری کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تشدد روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ گرجوں پر حملوں اور ایک فٹبال میچ کے دوران تشدد کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے کے الزام کا پولیس اور فوج کو سامنا ہے۔ مصر میں جب بھی حالات خراب ہوئے ہیں، فوج نے آگے بڑھ کر معاملات کو درست کرنے والی قوت کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ خطرہ برقرار ہے۔
کیا مصر کے حالات اس بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ اخوان کی مدد کی جائے؟ میرا خیال ہے اخوان اس قابل نہیں کہ زیادہ مدد کی جائے۔ سابق دور سے تعلق رکھنے والوں سے اخوان کا رویہ خاصا دوستانہ ہے۔ حسنی مبارک کے دور میں عوام پر مظالم ڈھانے والی فوج اور پولیس کا مواخذہ کرنے کا اخوان نے اب تک عندیہ نہیں دیا۔ انقلاب برپا کیے جانے کے دوران جن مسائل کے حل کا وعدہ کیا گیا تھا ان کے حل کی اب تک کوئی سبیل نہیں نکلی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ اخوان کی حکومت میں معاملات مزید بگڑیں گے۔
اخوان کی حکومت نے حال ہی میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ قرضے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ تو اب ثابت ہوچکا ہے کہ اس نوعیت کے قرضے کسی بھی اعتبار سے عوام کے مفاد میں نہیں ہوتے کیونکہ انہیں کسی بھی نوعیت کا ریلیف نہیں ملتا۔ قرضے دینے والے ادارے ہی فائدے میں رہتے ہیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ آئی ایم ایف اور اسی قبیل کے دیگر عالمی ادارے قرض دیتے وقت بہت سی شرائط بھی رکھتے ہیں جن میں یہ شرط نمایاں ہوتی ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کردی جائے۔ اس صورت میں افلاس کی سطح بلند ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر مرسی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ حسنی مبارک کے دور کی اقتصادی پالیسیوں پر عمل جاری رکھے گی۔ اپوزیشن گروپوں کی سوچ بھی مختلف نہیں۔ انہیں ملک کے مجموعی حالات سے کوئی غرض نہیں۔ عوام کے لیے ریلیف کا اہتمام کرنے کی انہیں کچھ زیادہ فکر نہیں۔ وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان کے مفادات کو تحفظ ملے۔ آئی ایم ایف آزاد منڈی کی معیشت کو فروغ دینا چاہتا ہے اور اس کے نتیجے میں افلاس ہی بڑھے گا مگر اس کی کسی کو فکر نہیں۔ چند لبرل عناصر کے سوا کوئی مخالفت نہیں کر رہا۔ یعنی جمہوریت وغیرہ کی باتیں محض نعروں کی حد تک ہیں۔ سب کو اپنے مفادات کی فکر لاحق ہے۔ انقلاب برپا کیے جانے کے دوران جو وعدے کیے گئے تھے، وہ اب کسی کو یاد نہیں رہے۔ بے روزگاری بنیادی مسئلہ ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ عوام کی بات اِس وقت کوئی بھی گروپ نہیں کر رہا مگر رفتہ رفتہ مزدور انجمنوں اور دیگر فورمز پر ان کی آواز ابھرنے لگے گی۔ محنت کش طبقہ ریلیف کا خواہش مند ہے۔
اسے نظر انداز کرکے مصر میں کوئی بھی حکومت حقیقی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ ملک کے کئی حصوں میں اب محنت کش بیدار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کی بات سننے کو فی الحال کوئی تیار نہیں مگر انہیں نظر انداز کرتے رہنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ ایجپشن فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز نے حال ہی میں اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے ہیں۔ سب سے نمایاں مطالبہ یہ ہے کہ منتخب ایوان میں نصف ارکان محنت کش اور کسان طبقے سے لیے جائیں۔ مزدور انجمنوں کو کام کرنے کی زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے اور محنت کشوں کو ان کی کھوئی ہوئی ملازمتیں لوٹائی جائیں۔ مزدور انجمنوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں شہر ماحلہ نے حکومت کے کنٹرول سے آزادی کا اعلان کردیا ہے۔ اس شہر کو مزدور انجمنوں کا اتحاد چلائے گا۔ اس حوالے سے تفصیلات اب تک مبہم ہیں۔ اگر مصر کے انقلاب کو بامعنی ثابت ہونا ہے تو مزدوروں کی آواز پر دھیان دینا ہی ہوگا۔
مصر میں بہت سے مطالبات قبل از وقت ہیں۔ حکومت کو معاملات ہاتھ میں لیے زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ایسے میں حکومت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلینا بھی درست نہیں۔ اخوان حکومت کو کچھ وقت ملنا چاہیے تاکہ وہ معاملات کو درست کرسکے۔ حسنی مبارک دور کے جن عناصر نے قومی خزانے کو بے دریغ لوٹا، اُن پر بھروسا کرنا دانش مندی نہ ہوگا۔ یہ لوگ عوام کے غم و غصے کو منتخب حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا ہوا تو خرابیاں صرف بڑھیں گی، کم نہیں ہوں گی۔ اپوزیشن کے مطالبات اُتھلے پانی جیسے ہیں۔ اگر وہ ملک میں کوئی بڑی تبدیلی لانا چاہتی ہے تو کچھ کرکے دکھانا ہوگا اور پہلے مرحلے میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس کے ارادے نیک اور مضبوط ہیں اور وہ کوئی بھی سطحی تبدیلی نہیں چاہتی بلکہ حقیقی معنوں میں ملک کو مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
(“Navigating Egypt’s Revolutionary Crisis”… “bravenewworld.in”. Dec. 12th 2012)
Leave a Reply