نواب اکبر بگٹی مر گئے۔ پاکستانی فوج کے ہاتھوں ان کا پرتشدد قتل ایک ملٹری آپریشن کے ذریعہ کیا گیا جس کا ہدف ان کا قتل تھا۔ اس آپریشن نے بلوچستان کو ایک شہید فراہم کر دیا ہے جس کی اسے اس گھڑی شدید ضرورت تھی تاکہ لوگوں کا ہجوم قومی تحریک کے گرد اکٹھا کیا جاسکے اور پھر اس تحریک میں نئی جان ڈالی جا سکے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ بلوچ قومی تحریک کے لیے نواب اکبر بگٹی کی خدمات کو ان کی زندگی سے زیادہ ان کی موت کا حصہ شمار کیا جائے گا۔ ان کی ظالمانہ قبائلیت اور اپنے قبیلے پر حکومت کا سفاکانہ طریقہ ان کے قبیلے کے دلوں میں خوف و دہشت کا سبب تھا اور اس کی وجہ سے ان کے دشمن خود ان کے اپنے بلوچ عوام میں تھے۔ ان پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا جبکہ وہ صوبے میں برسرِ اقتدار بھی رہے۔ یعنی جب وہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایک بار گورنر رہے اور نواز شریف کے دور میں وزیرِ اعلیٰ رہے۔ جبکہ انہیں صوبے میں اسلام آباد کا Point man سمجھا جاتا تھا۔ بگٹی اگر چاہتے تو بلوچ معاشرے میں ترقی و پیش رفت کا موجب ہو سکتے تھے۔ لیکن اب ان کی یہ تمام ناکامیاں عوام کے ذہن سے محو ہو جائیں گی اور لوگ ان کو ہیرو سمجھتے ہیں کہ جس نے بلوچوں کی قومی خودمختاری اور عزت کے لیے جنگ کی اور ان کی موت پر نوحہ کناں رہیں گے۔ بگٹی کی موت کے بعد بلوچستان اور سندھ میں بھی جہاں بلوچ اکثریت میں ہیں‘ شدید رِدعمل بالکل غیرمتوقع بات نہیں تھی۔ یقیناً جو لوگ اقتدار میں ہیں‘ انہوں نے حقیقت سے آنکھیں موند لی ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ ۲۶ اگست کے واقعات کے بعد حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ لیکن اگر جنرل پرویز مشرف نواب اکبر بگٹی جیسی سیاسی جبلت کے حامل ہوتے تو بہت پہلے یہ ادراک کر چکے ہوتے کہ جو مسائل بلوچستان میں بے چینی کا سبب ہیں ان کی نوعیت اب اقتصادی نہیں ہے کہ اس غیرترقی یافتہ صوبے میں پیسے انڈیلنے سے حل ہو جائیں گے۔ آج جو چیز بلوچوں کی داؤ پر لگی ہوئی ہے‘ وہ اپنے معاملات میں یا ان معاملات میں جو ان سے متعلق ہیں‘ فیصلہ ساز قوت ہونے کی آرزو ہے۔ ان کے نزدیک اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ گوادر کو ایک جدید بندرگاہ کے ساتھ ترقی دی جارہی ہے۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہے کہ بلوچ گوادر کے حوالے سے پالیسی بنانے اور اسے نافذ کرنے میں خودمختار ہوں۔ ان کے صوبے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کی موجودگی اشتعال کا دوسرا سبب ہے‘ کیونکہ یہ چیز ان کے ذہن میں مستقل طور سے یہ تشویش پیدا کرتی ہے کہ خود ان کی اپنی سرزمین پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ان کے اپنے قدرتی وسائل پر ان کا اپنا کوئی کنٹرول نہ ہونا جیسے کہ سوئی گیس قوم پرستوں کے غم و غصے کا سبب ہے۔ یہ مسائل ایک غیرسیاسی حکومت کے فہم سے بالاتر معلوم ہوتے ہیں جو کہ محض بلوچستان کی ترقی میں اپنی کثیر فراہمیٔ فنڈ کے حوالے سے ڈینگیں مار رہی ہے‘ لاقانونیت اور تشدد کے مسائل جو بلوچستان کو درپیش ہیں‘ اقتصادی رشوت سے حل نہیں ہو سکتے جیسا کہ برطانیہ نے سمجھا تھا۔
شمالی مغربی سرحد میں برطانیہ نے قبائل کو بے شمار رقمیں دی تھیں لیکن یہ کچھ ہی دنوں تک انہیں ٹھنڈا رکھنے میں موثر ہو سکیں۔ پرجوش قبائلی معاشروں کو عسکری قوت کے زور پر جھکایا نہیں جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں اطاعت پر مجبور کیا جاسکتا ہے جیسا کہ مشرف حکومت اس حوالے سے پراعتماد ہے کہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ اس ایپروچ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ بلوچوں کو ٹھنڈا کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ گفتگو کا طریقہ اور یہ کہ ان کے ساتھ احترام سے پیش آیا جائے۔ یہ وہ بات ہے جس کا ہمیشہ سے حکومت کو مشورہ دیا جاتا رہا ہے۔ حقیقت یہ کہ مسلم لیگ (ق) میں جو رہنما سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ہیں‘ وہ پرویز مشرف کو مشورہ دیتے رہے ہیں کہ وہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ گفتگو کا آغاز کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر چودھری شجاعت حسین جب ۲۰۰۴ء میں قائم مقام وزیراعظم ہوئے تھے تو انہوں نے اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی سے ملاقات بھی کی تھی۔ دو ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ ایک نے جس کے سربراہ مسلم لیگ (ف) کے جنرل سیکرٹری مشاہد حسین سید تھے‘ رپورٹ تیار کی جس میں بہت ہی قابل فہم تجاویز دی گئی تھیں۔
ان تجاویز کی رو سے بلوچ عوام کے مختلف طبقات سے متعدد ملاقاتیں کی جانی تھیں اور بلوچستان کے متعدد دورے کیے جانے تھے۔ لیکن اس عمل کو آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی اور سفارشات کو عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ جنگ بندی کی جو بات ہوئی تھی‘ وہ ختم ہو گئی اور گفتگو کا سلسلہ اچانک ختم ہو گیا۔ اسلام آباد میں حکمراں اس بات پر مطمئن تھے کہ وہ بلوچوں کو تقسیم کر دیں گے اور سرکش گروہوں کو فوجی قوت سے کچل دیں گے۔ لیکن یہ حکمتِ عملی ناکام ہو گئی۔ گذشتہ ہفتے جو جرگہ بیٹھا تھا اور جس نے صدر کی حمایت کا اعلان کیا تھا‘ وہ محض ایک اسٹیج ڈرامہ تھا۔ یہ بعید از امکان ہے کہ یہ حکومت نواز جرگہ بگٹی کو اس کی غلطیوں پر مذمت کے لیے اس وقت کھڑا ہو جائے۔ بگٹی سرمایۂ افتخار تصور کیے جائیں گے اور حتیٰ کہ اس کے منحرفین بھی اسے اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہوئے اسے بلوچ قوم پرستی کا چمپئن قرار دیں گے۔ ٹھیک اسی طرح سے جس طرح کہ حکومتی پارٹی کے ارکان نے ان کی موت پر اپنے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ بگٹی ایک ذہین سیاستداں تھا اور ضرورت تھی کہ اسے کوئی ایسا سیاستدان بات چیت کرتا جو اس سے زیادہ ذہین ہو۔ پرویز مشرف اس کے شایانِ شان نہیں تھے‘ اس لیے کہ فوجی جرنیل اپنے دشمنوں سے بات نہیں کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے دشمنوں سے لڑتے ہیں تاکہ انہیں فتح کریں۔ یہ ایپروچ بہت ہی مہلک ثابت ہو گا۔ جو سوال ہر سوچنے والے پاکستانی کے ذہن کو جھنجھوڑتا دیتا ہے وہ یہ ہے کہ بگٹی کے بعد کیا ہو گا؟ کیا یہ تشدد اور تضاد جو پھوٹ پڑے ہیں‘ کسی بدتر حالات کی غمازی کر رہے ہیں؟ جن کے ذہنوں میں ۱۹۷۱ء کے بھیانک واقعات اب بھی تازہ ہیں‘ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟ یہ تھوڑے اطمینان کی بات ہے کہ بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف کم از کم لوگوں کو بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش جب گیا تھا تو نہ اس پر رویا گیا نہ گایا گیا۔ لیکن اگر عوام کی یہ واضح بے اطمینانی اس حوالے سے جو بلوچستان میں فوج کر رہی ہے‘ حکومتی سوچ پر اثرانداز نہیں ہوتی ہے تو اظہارِ رائے کی اس آزادی کا فوجی حکمرانوں کو کوئی کریڈٹ نہیں ملے گا۔ اس کے ساتھ ہی مخالف قوتیں اس بحران سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیں گی اور یہ آواز ان کے لیے اپنے گرد لوگوں کو اکٹھا کرنے کا ذریعہ بن جائیں گی۔ ان بہت سارے متضاد مسائل کے ساتھ پاکستان کی گندی سیاست میں کوئی کسی ایسی مستقل تحریک کا تصور نہیں کر سکتا جو ملک کو ایک مستحکم جمہوریت کی طرف لے جائے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ بگٹی کے قتل کے اثرات دور دراز تک مترتب ہوں گے۔ بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات جو جولائی میں ممبئی بم دھماکہ کے بعد سے کمزور پڑ چکے ہیں‘ کے مزید ابتر ہونے کی توقع ہے۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ بلوچستان مسئلے کا سرا خطے میں بھارت کی مداخلت پسندانہ پالیسی سے جا ملتا ہے۔ الزام تراشیوں کا مسئلہ جو پہلے ہی سے شروع ہو چکا‘ پاک بھارت تعلقات کے لیے شاید ہی مفید ہو۔ ایران‘ پاکستان‘ بھارت گیس لائن منصوبہ اب کھٹائی میں پڑ جائے گا اور پاکستان ایران کو اسلام آباد سے دور کر لے گا۔ یہ بات خارجہ پالیسی کے حق میں بہت اچھی نہیں ہو گی۔ بڑا کرم رہا ہے کہ بلوچستان پر امریکا کی خارجہ پالیسی بہت درست رہی ہے۔ اس نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ تنازعہ کا حل ایک متحدہ اور مخلوط پاکستان کے دائرے میں حل کر لیا جائے گا۔ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ بگٹی کی موت سے پاکستان امریکا تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ پرویز مشرف کی حمایت کی ایک اور یقین دہانی ہے۔ لیکن پرویز مشرف سے مطمئن نہیں ہو سکتے‘ اس مضمون اور نقشے کے پیشِ نظر جو امریکی آرمڈ فورسز جرنل میں شائع ہوئے ہیں اور جس میں خطے میں مذہبی اور نسلی بنیادوں پر سرحدوں کا ازسر نو تعین کرتے ہوئے بلوچستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ امریکا نے اس بارے میں انکار کیا ہے کہ وہ ایسا کوئی منصوبہ رکھتا ہے۔ لیکن کیا کوئی اس پر یقین کر سکتا ہے؟
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ ۲۹ جولائی ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply