ملک بھر میں ایک بار پھر یہ نعرہ گونج رہا ہے کہ کرپشن کو کسی بھی حالت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ آصف زرداری کا جہاز کرپشن کے بوجھ ہی سے ڈوبا ہے۔ زرداری دور میں کرپشن کو نہ صرف یہ کہ ختم نہیں کیا گیا بلکہ زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا گیا۔ ملک میں توانائی کے بحران کے بعد سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور سچ تو یہ ہے کہ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کرپشن ہی کی کوکھ سے توانائی کے بحران نے جنم لیا ہے۔
جس طرف دیکھیے، کرپشن ہے!
میں اس کرپشن کی بات کرنا چاہتا ہوں، جس کی حیثیت سمندر کی سی ہے۔ اس سمندر میں ملک کی پوری آبادی ڈوب چلی ہے۔ لوگ ہاتھ پیر مار رہے ہیں مگر کچھ بھی نہیں بن پارہا۔ کنارے تک پہنچنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیے، آپ کو کرپشن پوری توانائی کے ساتھ ملے گی۔ اگر آپ کوئی لائسنس یا سرٹیفکیٹ بنوانا چاہتے ہیں یا اپنی کوئی جائیداد کسی کے نام کرنا یا اس کے اختیار میں دینا چاہتے ہیں تو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور جب تک آپ متعلقہ افسر یا اہلکار کو کچھ نہیں دیں گے، تب تک آپ کا کام شاید بنے گا ہی نہیں۔ جب آپ دفاتر اور میزوں کے چکر لگا لگاکر تھک جائیں گے، تب آپ کو مدد کی پیشکش کی جائے گی۔ تھوڑی سی نقدی خرچ ہوگی اور آپ کا کام بن جائے گا۔ جب آپ جیب ڈھیلی کریں گے تب تمام مشکلات فضا میں تحلیل ہوجائیں گی۔ کسی بھی سرکاری دفتر میں مسائل حل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک انتہائی آسان اور دوسرا انتہائی مشکل۔ ذرا اپنی جیب ڈھیلی کیجیے اور پھر دیکھیے کہ ہر رکا ہوا کام کس طور منزل کی طرف بڑھتا ہے۔
لاچار کردینے والی عقل پرستی
اب ذرا یہ سوچیے کہ کوئی بھی بہتر سرکاری نوکری ملتی کس طرح ہے؟ اگر کسی نوکری کو حاصل کرنے کے لیے کوئی معقول رقم خرچ کرنی پڑی ہو تو اس رقم کو واپس حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے، سوائے رشوت کے؟ یعنی ایک طرف تو لوگ نوکری کے لیے رشوت دے کر کرپشن کو پروان چڑھاتے ہیں اور دوسری طرف اپنی لگائی ہوئی رقم وصول کرنے کے لیے مزید کرپشن کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی کے رشوت لینے پر اعتراض کیجیے تو سیدھا سا جواب ملتا ہے کہ کیا کریں، ہماری بھی تو فیملی ہے، اس کا بھی تو پیٹ بھرنا ہے۔ پولیس اسٹیشن کے انچارج کے پاس بھی تو یہی جواز ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ علاقے کے گشت پر مامور گاڑی کو جتنا ایندھن ملتا ہے وہ تو چند گھنٹوں ہی کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ایسے میں رشوت نہ لی جائے تو گاڑی کیسے چلے گی؟ اور پھر یہ جواز بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر گاڑی میں ایندھن ہی نہیں ہوگا تو مجرموں کا تعاقب کس طرح کیا جائے گا! یہ تمام باتیں کرکے پولیس ہم سے رقم وصول کرتی ہے۔ اس معاملے میں اسے کوئی ہرا نہیں سکتا۔
بغیر لائسنس یا زائد المیعاد لائسنس کے ساتھ
اگر ٹریفک پولیس کے کسی اہلکار کو حکم نہ دیا گیا کہ دن بھر میں چالانوں کی ایک خاص تعداد پوری کرنی ہے تو وہ کبھی آپ کا چالان نہیں کرے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ چالان کاٹنے کی صورت میں اس کے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آتا۔ اگر وہ چالان نہ کاٹے تو اوپر سے کچھ نہ کچھ اس کی جیب میں چلا ہی جاتا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی تو ہے کہ چالان کاٹنے میں کچھ نہ کچھ وقت لگتا ہے۔ باضابطہ رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ ایسے میں ذرا ایک طرف ہٹ کر تھوڑی سی رقم اگر اہلکار کے ہاتھ میں رکھ دی جائے تو کام تیزی سے ہو جاتا ہے اور صرف یہ انتباہ ملتا ہے کہ دستاویز کی تجدید کرالی جائے تو آپ کے حق میں بہتر ہوگا! میرے ساتھ یہ ہوچکا ہے۔ ایک بار میں اپنی کار میں سفر کر رہا تھا۔ میرا لائسنس ختم ہوچکا تھا۔ جب ٹریفک پولیس اہلکار نے مجھے روکا تو میں نے کہا ٹھیک ہے چالان کاٹ دو۔ یہ سن کر اس نے خاصا بُرا منہ بنایا اور میرا لائسنس کار میں پھینکتے ہوئے مجھے جانے کا اشارہ کردیا۔
ریلوے اسٹیشنوں پر طویل قطاریں
آپ کو عید پر گھر جانا ہے مگر ٹرینیں تو بھری ہوئی جارہی ہیں۔ آپ نے سیٹ بک بھی نہیں کرائی اور اب کہیں سے سیٹ ملنے کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں چہرے پر تھوڑی سی پریشانی سجائیے۔ اِس کے لیے آپ کو اداکاری کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ چند ہی لمحات میں کوئی ہمدرد آپ کے پاس آکر کہے گا۔ ’’جناب، آپ کچھ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے بتائیے آپ کی مشکل کیا ہے؟‘‘ آپ اِس ’’فرشتے‘‘ کو اپنی مشکل بتاتے ہیں۔ اور لیجیے، چند ہی لمحات میں آپ کا کام بن گیا۔ اس نے آپ کے لیے ٹکٹ اور سیٹ کا اہتمام کردیا اور آپ اسے کچھ اضافی رقم دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اور یہ سب کچھ ان سرکاری دفاتر کے عین سامنے ہو رہا ہوتا ہے جن کے قیام کا بنیادی مقصد آپ کی خدمت بجا لانا ہے۔ مگر ان دفاتر میں کام کرنے والے تو اپنے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں۔
کرپشن کرنے والے بھی محفوظ نہیں!
اس پورے قصے میں خاص طور پر قابل غور بات یہ ہے کہ جو لوگ کرپشن کرتے ہیں، وہ بھی کرپٹ عناصر سے محفوظ نہیں رہتے۔ جب وہ اپنے کسی کام سے کہیں جاتے ہیں تو انہیں بھی کرپٹ مشینری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یعنی کچھ دیے بغیر ان کا کام بھی نہیں چلتا۔ جو لوٹ رہا ہے وہ لُٹ بھی رہا ہے۔ سب ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں۔ یہ وہ منحوس دائرہ ہے جس میں سب گھوم رہے ہیں مگر اپنی عادات ترک کرنے کو تیار نہیں۔
کیا وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں میں کرپشن کو ختم کرنے کی سکت ہے؟
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ اس وقت ملک میں جس قدر کرپشن ہے یعنی پوری قوم ہی کرپشن کے سمندر میں غرق ہوگئی ہے، اس کے پیش نظر کرپشن کے خاتمے کے لیے لازم ہے کہ کوئی ایسا لیڈر آئے، جو یکسو ہو اور اصولوں پر ذرا بھی سودے بازی نہ کرے۔ بدقسمتی سے نواز شریف میں یہ صفت نہیں پائی جاتی۔ ان کے اپنے کاروباری مفادات ہیں جن کا انہیں خیال رکھنا ہے۔ ان مفادات نے انہیں پنجاب سے ہٹ کر کسی اور صوبے میں جگہ بنانے کی تحریک نہیں دی۔ نواز شریف نے کبھی پارٹی کو گراس روٹ لیول پر فروغ دینے اور قوم کی نظریاتی اساس سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور یوں انہیں ذاتی مفادات سے بلند ہوکر سوچنے کی تحریک ہی نہیں ملی۔
تبدیلی کی حدود
یاد رہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہی نہیں۔ نواز شریف کا آنا اچھی بات ہے کیونکہ زرداری دَور تو صرف اور صرف تباہی سے عبارت تھا۔ مگر ایسی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی جو پاکستان کو معاشی اور نظریاتی طور پر استحکام سے ہمکنار کر سکے۔ نواز شریف نے جو چند فیصلے کیے ہیں، وہ سیاست کے میدان میں ان کی کمزوریوں کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ نواز شریف اپنی کارکردگی سے ہمیں غلط ثابت کردیں۔
☼☼☼
Leave a Reply