جرمنی میں نازیوں کی فتح
ہسپانوی انقلاب نے کچھ لوگوں کو متحیر کر دیا حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی۔ اس نے حالات کے قدرتی تسلسل میں جنم لیا تھا اور گہری نظر رکھنے والے مبصروں کو علم تھاکہ یہ ناگزیر ہے۔ بادشاہ جاگیر داری اور چرچ پر مشتمل پرانا ڈھانچہ کرم خوردہ ہو چکا تھا اور اب اس میں قطعاً کوئی توانائی باقی نہ رہی تھی۔ کسی پکے ہوئے پھل کی طرح یہ از خود زمین پر آگرا۔ ہندوستان میں بھی گئے دور کے ایسے جاگیر داروں کی باقیات موجود ہیں یہ بھی شاید تیزی سے غائب ہو جاتیں اگر انہیں ایک غیر ملکی طاقت نے سہارا نہ دیا ہوتا۔
جرمنی میں حالیہ تبدیلیاں بالکل مختلف قسم کی ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اوربہت سے لوگ تو حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ دراصل جرمنوں جیسی ایک اعلیٰ ترقی یافتہ اور مہذب قوم جس طرح و حشت و بربریت پر اترا ٓئی ہے، لوگوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔
ہٹلر اور اس کے نازی جرمنی میں جیت گئے ہیں۔ انہیں فاشسٹ اور ان کی فتح کو جوابی انقلاب کی فتح قرار دیا گیا ہے اس کے پس منظر میں ۱۹۱۸ ء کا جرمن انقلاب اور بعد کے واقعات ہیں۔ یہ سب کچھ درست ہے کیونکہ ہٹلر ازم میں فاشزم کے تمام اجزاء پائے جاتے ہیں۔ اس میں ایک تندو تیز رجعت پسندی ،آزاد خیال عناصر پر وحشیانہ حملے اور محنت کشوں پر جبر سبھی کچھ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ رجعت پسندی سے بڑھ کر کچھ ہے۔ اٹلی کے فاشزم سے زیادہ وسیع اور عوامی جذبات پر مبنی ایک رد عمل ہے۔ عوامی جذبات بھی، محنت کشوں کے جذبات نہیں ہیں بلکہ فاقہ زدہ اور محروم متوسط طبقہ کا انقلابی بن جاتا ہے اٹلی کے بارے میں لکھے گئے خط میں فاشزم کا ذکر ہوا تھا۔ میں نے اشارہ دیا تھا کہ جب کسی سرمایہ دار ریاست کو سماجی انقلاب کے ذریعے اقتصادی بحران خطرے سے دو چار کرتا ہے تو فاشزم نمودار ہو جا تا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ ایک عوامی تحریک تشکیل دے کر خود کو تحفط دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس تحریک کا مرکز زیریں متوسط طبقہ ہوتاہے جسے سرمایہ داری کے خلاف نعرے دے کر گمراہ کیا جا تاہے۔بے خبر کسان اور محنت کش کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن جب اقتدا ر پر قبضہ حاصل ہوتا ہے اور ریاست کنٹرول میں آجاتا ہے تو تمام جمہوری ادارے تباہ کر دیئے جاتے ہیں۔ دشمنوں کو کچل دیا جا تا ہے اور خاص طور پر محنت کش تنظیمیں توڑ دی جاتی ہیں، یوں ان کا اقتدار بنیادی طور پر تشدد پر قائم ہو تاہے۔ متوسط طبقہ کے حمائتیوں کو نئی ریاست میں ملازمتیں دی جاتی ہیں اور عموماً صنعت پر ریاستی کنٹرول کا انتظام نافذ کر دیا جا تاہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سبھی کچھ جرمنی میں بھی ہوا اور اس کی توقع بھی کی جارہی تھی لیکن اس میں حیران کن بات پس منظر میں شدید قسم کی جاہ طلبی اور لوگوں کی تعداد ہے جنہوں نے ہٹلر کا ساتھ دیا۔
نازی جوابی انقلاب مارچ ۱۹۳۳ء میں برپا ہوا لیکن میں تمہین پیچھے ماضی میں لے جائوںگا تا کہ اس تحریک کے آغاز کو سمجھا جا سکے۔ ۱۹۱۸ ء کا جرمن انقلاب ایک غیر فطری واقعہ تھا۔ یہ انقلاب تو بالکل نہیں تھا۔ قیصر ملک چھوڑگیا اور جمہوریہ کا اعلان کر دیا گیا لیکن پرانا سماجی سیاسی اور اقتصادی نظام باقی رہا۔ کچھ برسوں تک سوشل ڈیموکریٹ حکومت چلاتے رہے۔ وہ رجعت پسند اور مخصوص مفادات رکھنے والوں سے بہت خائف تھے چنانچہ ان سے ہمیشہ مفاہمت کرتے رہے۔ سوشل ڈیموکریٹ حکمرانوں کی پشت پر پارٹی کی انتہائی طاقت ور مشین تھی۔ پارٹی میں لاکھوں ارکان تھے۔ ٹریڈ یونینز تھیں اور کئی شعبوں کے لوگوں کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ لیکن رجعت پسندوں کے سامنے وہ ہمیشہ مدافعانہ طرز عمل اپنائے رہے۔ ان کی جارحیت صرف اپنے انتہا پسند بازو والے کیمونسٹوں کے لیے تھی۔ انہوں نے اپنا کردار اتنے بھونڈے طریقے سے سرنجام دیا کہ ان کے بہت سے حامی بھی انہیں چھوڑگئے۔ جن کارکنون نے انہیں چھوڑا وہ کیمونسٹ پارٹی میں چلے گئے۔ کیمونسٹ پارٹی اب اپنے لاکھوں ارکان کے ساتھ بہت طاقت ور ہوچکی تھی۔ متوسط طبقہ کے منحرف ہونے والے افراد رجعت پسند پارٹیوں میں چلے گئے سوشل ڈیموکریٹوں اور کیمونسٹوں کے درمیان مسلسل جنگ جاری تھی جس نے دونوں کو کمزور کردیا۔
جب جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں خوفناک افراط زر پھیلا تو جرمن صنعت کار اور بڑے زمیندار بہت خوش اور اس کے حق میں تھے۔ زمیندار بھاری قرضوں میں مبتلا تھے جن کی وجہ سے ان کی زمینیں رہن تھیں۔ افراط زر نے انہیں اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے قرضے اتار سکیں۔ افراط زر کی ماری ہوئی کرنسی اگرچہ بے وقعت تھی لیکن اس کی مقدار بے تحاشا تھی چنانچہ زمینداروں نے اپنی زمینیںواپس اپنی تحویل میں لے لیں۔ بڑے بڑے ٹرسٹ قائم ہو گئے۔ جرمن مصنوعات اتنی ارزاں ہو گئیں کہ دنیا کی ہر منڈی انہیں ہاتھوں ہاتھ لینے پر تیار رہتی۔ بے روزگاری غائب ہو گئی۔ محنت کش طبقہ ٹریڈ یونین میں پوری قوت کے ساتھ منظم تھا وہ جرمن مارک پر انحطاط آنے کے باوجود اپنی اجرتیں اعلیٰ سطح پر رکھنے میں کامیاب رہا۔ البتہ افراط زر نے متوسط طبقے کو بری طرح متاثر کیا اور وہ غربت کی سطح پر آگیا یہی متاثرہ متوسط طبقہ ۲۴/۱۹۲۳ میں سب سے پہلے ہٹلر کے گرد اکٹھا ہوا۔ بعد ازاں جب کساد بازاری کا حملہ ہوا، بینک دیوالیہ ہو گئے اور بے روز گاری پھیلی تو سبھی متاثرہ لوگ ہٹلر کے ساتھ مل گئے ہٹلر بے چین اور مضطرب لوگوں کی پناہ بن گیا۔ ایک اور طبقہ جس سے خو د اس کا بھی تعلق تھا یعنی پرانی فوج کے افسران، اس کے حلقہ اثر میں آگیا۔ اس فوج کو جنگ کے بعد معاہدہ ورسلیز کی شرائط کے تحت توڑ دیا گیا تھا۔ چنانچہ ہزاروں فوجی افسر جو بے روز گار اور فارغ بیٹھے تھے، نے اپنی فراغت کا خاتمہ مختلف عسکری تنظیموں میں شمولیت کے ذریعے کیا۔ نازیوں کی عسکری تنظیم کا نام ’’اسٹارم ٹروپس‘‘ اور قوم پرستوں کی تنظیم کا نام ’’اسٹیل ہیلمٹ ‘‘تھا۔ قوم پرست قیصر کی واپسی کے حامی تھے۔
ایڈولف ہٹلر کون تھا؟ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے محض دو یا ایک سال پہلے تک وہ جرمن شہری نہیں تھا۔ وہ ایک آسٹروی تھا جس نے جنگ میں ادنیٰ حیثیت سے فوجی خدمات سر انجام دیں۔ اس نے جرمن جمہوریہ کے خلاف ایک ادھوری بغاوت میں حصہ لیا۔ اگرچہ اسے قید کی سزا سنائی گئی لیکن حکام نے اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا۔ پھر اس نے اپنی پارٹی قائم کی جس کا نام ’’نیشنل سوز یلسٹ‘‘ ’’نیشنل سوشلسٹ ‘‘رکھا۔ یہ سوشل ڈیموکریٹوں کی مخالفت میں بنائی گئی۔ لفظ نازی پارٹی کے نام سے اخذ کیا گیا۔ ’’نا‘‘ نیشنل اور ’’زی‘‘ سوزیلسٹ سے لیا گیا۔ اگرچہ پارٹی کہلاتی تو سوشلٹ تھی لیکن سوشلزم سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ ہٹلر سو شلزم کا کٹر دشمن تھا اور جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ پارٹی نے ’’سواستیکا‘‘ کو علامت کے طور پر اپنایا۔ سواستیکا ایک سنسکرت لفظ ہے لیکن یہ علامت پوری دنیا میں قدیم زمانے سے معروف ہے۔ ہٹلر کے ساتھیوں یا نازیوں نے ایک عسکری تنظیم ’’اسٹار م ٹروپس‘‘ بنائی جس کی وردی بھوری یا بادامی تھی۔ نازیوں کو اسی وجہ سے برائون شرٹس(بھوری پوش)کہتے ہیں جس طرح اٹلی کے فاشسٹوں کو بلیک شرٹس یا سیاہ پوش کہا جا تاہے۔
نازیوں کا پروگرام واضح یا کم از کم مثبت نہیں تھا۔ یہ شدت کے ساتھ قوم پرستی پر مبنی اور جرمنی اور جرمنوں کی عظمت کا دعویدار تھا۔ جرمنوں کے علاوہ ان کی نظر میں سبھی قومیں قابل نفرت تھیں۔ نازی معاہدہ و رسیلز کے خلاف تھے اور سے جرمنی کی تذلیل قرار دیتے تھے۔ اسی وجہ سے جرمنوں کی اکثریت نازیوں کی ہمرکاب ہو گئی تھی نازیوں کا نصب العین مارکسٹوں، کیمونسٹوں سوشلسٹوں اور محنت کشوں کی ٹریڈ یونینز کی مخالفت تھا۔ نازی، یہودیوں کے بھی خلاف تھے اور انہیں ایک اجنبی قو م سمجھتے تھے جس نے آریائی جرمن نسل کے اعلیٰ معیار کو کمتر اور آلودہ کر رکھا تھا۔ نازی مبہم انداز میں سرمایہ داری کے بھی خلاف تھے لیکن یہ محض منافع خوروں اور دھنوانوں کی مذمت اور مخالفت تک محدود بات تھی۔ یہ لوگ سوشلزم کا تذکرہ ریاستی انتظام کے طور پر کرتے تھے۔
ان سب باتوں کے پیچھے تشدد کی غیر معمولی فلاسفی موجود تھی۔ نہ صرف تشدد کی تحسین اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی بلکہ اسے آدمی کا اعلیٰ ترین فریضہ قرار دیا جا تا تھا ایک مشہور جرمن فلاسفر اوسوالڈا سپینگلر اس فلاسفی کا شارح ہے۔ اس کا کہا تھا کہ’’ انسان ایک غارت گر، بہادر، عیار اور ظالم مخلوق ہے‘‘ نظریات بزدل بناتے ہیں‘‘ شکاری جانور متحرک زندگی کی اعلیٰ ترین شکل ہے۔‘‘ اسپنگلر کا کہنا ہے کہ’’ ہمدردی، مفاہمت اور خاموشی بے جان محسوسات ہیں۔ جب کہ نفرت غارت گر جانور کے نسلی محسوسات کا جوہر ہے۔ انسان کو ایک شیر کی طرح ہونا چاہیے جو اپنے غار میں اپنے کسی ہم سر کو برداشت نہیں کرتا۔ بزدل گائے کی طرح نہیںجو ریوڑ میں رہتی ہے اور ادھر سے ادھر ہنکائی جا سکتی ہے۔ ایسے انسان کے لیے جنگ ہی اعلیٰ ترین مصروفیات اور وجہ مسرت ہے۔
اوسوالڈ اسپنگلر، آج کے انتہائی عالم فاضل افراد میں سے ایک ہے اس نے جتنی کتابیں لکھیں۔ ان میں موجود بے پناہ علم کو دیکھ کر پڑھنے والا حیران رہ جا تا ہے۔اس تمام علم نے اسے نفرت سے بھرے نتائج اخذ کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔ میں نے اسپنگلر کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ ہمیں ہٹلر ازم کے پیچھے موجود ذہنیت سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور نازی دور کی بہیمت اور بربریت کی وضاحت کرتا ہے۔ لیکن ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہر نازی اس طرح کی سوچ کا مالک نہیں۔ لیکن نازی پارٹی کے لیڈر اور جارحیت پسند عناصر یقینا ایسی ہی سوچ رکھتے تھے۔ انہوں نے اس انداز کر اور طرز عمل کو رائج کیا۔ شاید یہ کہنا زیادہ درست ہو کہ اوسط درجے کا نازی تو بالکل کچھ نہیں سوچتا وہ اپنی بدحالی اور قومی تذلیل کے احساس کے تحت برہم ہے۔ روہر کے علاقے پر فرانسیسی قبضہ نے جرمنوں کو بہت برہم کر رکھا تھا اسی طرح وہ بقیہ صورت احوال پر نالاں تھا۔ ہٹلر ایک زبردست مقرر ہے۔ وہ اپنے سامنے موجود بڑے بڑے اجتماعات کو اپنی شعلہ بیانی سے آتش بداماں کر دیتا ہے۔ جرمن کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ اس کا ذمہ دار مارکسٹوں اور یہودیوں کو ٹھہراتا ہے۔ جرمنی کے ساتھ فرانس یا دیگر ممالک نے جو برا سلوک کیا اس نے لوگوں کی اکثریت کو نازیوں کا ہمنوا بنا دیا کیونکہ ان کے خیال میں اب نازی ہی جرمنی کا وقار بحال کر سکتے ہیں۔ اقتصادی بحران بڑھا تو بے روز گار جرمن نازیوں کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کی گرفت حکومت پر بہت جلد کمزور پڑ گئی اور ایک اور گروپ (کیتھولک سینٹر پارٹی) دیگر پارٹیوں کی باہمی آویزشوں کی وجہ سے اقتدار میں آگیا۔ کوئی ایک پارٹی اتنی طاقتور نہیں تھی کہ وہ پارلیمنٹ میں دوسری پارٹیوں کو نظر انداز کر سکے۔ چنانچہ اوپر تلے انتخابات منعقد ہو رہے تھے۔ سازشیں جاری تھیں اور پارٹیوں کا گٹھ جوڑ بدلتا رہتا تھا۔ نازیوں کی ابھرتی ہوئی طاقت نے سوشل ڈیموکریٹوں کو اتنا خوفزدہ کیا کہ انہوں نے سرمایہ داروں کی سینٹر پارٹی کی حمایت شروع کر دی۔ اسی وجہ سے انہوں نے صدارتی انتخاب میں جنرل وان ہنڈن برگ کی بھی حمایت کی۔ نازیوں کی تیز تر مقبولیت کے باوجود محنت کشوں کی دو پارٹیاں (سوشل ڈیموکریٹ اور کیمونسٹ ) بہت مضبوط تھیں اور دونوں کے پاس ہزاروں کارکن تھے لیکن یہ دونوں مشترکہ خطرے کے سامنے متحدنہ ہو سکیں۔ کیمونسٹوں کو وہ اذیتیں یاد تھیں جو سوشل ڈیموکریٹوں نے اپنے اقتدار کے دوران انہیں پہنچائی تھیں اور پھر ہر بحران کے موقعہ پر سوشل ڈیموکریٹوں نے ہمیشہ رجعت پسندوں کا ساتھ دیا تھا۔ سوشل ڈیموکریٹ پارٹی برطانوی لیبر پارٹی کی طرح ایک وسیع اور دولت مند تنظیم تھی جس کے سر پرستوں کی تعداد بھی بہت تھی۔ اس کے پاس آخری دم تک لڑنے والے کارکن بھی تھے لیکن یہ اپنی حفاظت اور حیثیت کو خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرتی تھی۔ یہ قانون کے خلاف کوئی حرکت کرنے یا راست اقدام جیسے کسی عمل میں ملوث ہونا مناسب خیال نہیں کرتی تھی۔ اس نے اپنی زیادہ تر توانائیاں کیمونسٹوں سے لڑنے میں ضائع کر دیں۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں ایک طرح سے مارکسسٹ تھیں۔
جرمنی ہم پلہ قوتوں کی مسلح لشکر گاہ بن گیا۔ پے در پے فسادات اور قتل ہونے لگے بالخصوص نازیوں کے ہاتھوں کیمونسٹ کا رکن ہلاک ہو رہے تھے۔ بعض اوقات کارکن جوابی کارروائیاں بھی کرتے۔ ہٹلر مختلف الخیال لوگوں کو اپنے حلقہ اثر میں رکھنے میں خاصا کامیاب رہا۔ اس کے گرد اکھٹے ہونے والے لوگوں میں قدر مشترک بہت معمولی تھی۔ اس دلچسپ اتحاد میں زیریں متوسط طبقہ بڑے صنعت کار اور متمول زمیندار سبھی شامل تھے۔ صنعت کار اس لیے ہٹلر کے حامی اور مدد گار تھے کہ وہ سوشلزم کو برا کہتا تھا۔ ان کے خیال میں صرف وہی مارکسزم یا کمونزم کی یلغار روک سکتا تھا۔ متوسط طبقہ غریب کسان اور کچھ محنت کش اس گمان میں مبتلا تھے کہ ہٹلر سرمایہ داروں کے خلاف نعرے لگاتا ہے۔
۳۰ جنوری ۱۹۳۳ء کو ۸۶ سالہ صدر ہنڈن برگ نے ہٹلر کو چانسلر بنا دیا۔ چانسلر کا منصب جرمنی میں سب سے بڑا انتظامی عہدہ ہے جو وزیر اعظم کے اختیارات رکھتا ہے۔ نازیوں اور نیشنلسٹوں کے درمیان ایک تحاد قائم کیا گیا لیکن بہت جلد یہ بات واضح ہو گئی کہ تمام اختیارات نازیوں کے پاس ہیں اور کوئی دوسرا کسی شمار قطار میں نہیں ہے۔ عام انتخابات میں نازیوں اور ان کے اتحادیوں کو پارلیمنٹ کے لیے اکثریت مل گئی۔ اگر انہیں یہ اکثریت نہ بھی ملتی تو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ نازیوں نے پارلیمنٹ میں اپنے مخالفوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ تمام سوشل ڈیموکریٹ اور کیمونسٹ ارکان کو منظر عام سے ہٹا دیا گیا۔ انہی دنوں میں پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگ گئی اور وہ جل کر راکھ ہوگئی نازیوں کا کہنا تھا کہ یہ کام کیمونسٹوں کا ہے اور یہ لوگ ریاست تباہ کرنے کی ساز ش میں مصروف ہیں۔ کیمونسٹوں نے اس الزام کی سختی سے تردید کی اور جوابی الزام میں کہا کہ نازیوں نے آتش زنی خود کی ہے تا کہ کیمونسٹوں کو مزید کچلنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔
اب پورے جرمنی میں بھوری یا نازی دہشت کا دور دورہ تھا اس کا آغاز پارلیمنٹ کے گھیرائو کے ساتھ ہوا۔ حالانکہ پارلیمنٹ میں نازیوں کو اکثریت حاصل تھی۔ پارلیمنٹ کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور تمام تر اختیار ہٹلر اور اس کی کابینہ کے پاس آگئے۔ یہ قانون سازی کر سکتے تھے اور ملک بھر میں جو چاہتے کرتے پھرتے تھے۔ جمہوریہ کا آئین ایک طرف رکھ دیا گیا اور جمہوری قدرو ں کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا۔ جرمنی ایک قسم کی فیڈریشن تھی۔ اس کا بھی خاتمہ کر دیا گیا اور تمام اختیارات برلن کو دے دیے گئے۔ ہر جگہ ڈکٹیٹر مقرر کر دیئے گئے جو صرف اپنے اوپر موجود ڈیکٹیٹر کو جواب دہ ہوتے تھے۔ اس طرح ہٹلر ڈکٹیٹر انچیف تھا۔
ایک طرف یہ تبدیلیاں جنم لے رہی تھیں تو دوسری طرف نازی ’’اسٹارم ٹروپس‘‘ پورے جرمنی میں لوٹ مار میں مصروف تھے۔ انہوں نے دہشت و بربریت اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا۔ عجیب و غریب صورت حال تھی۔ دہشت گردی تو پہلے بھی ہو اکرتی تھی۔ سرخ دہشت اور سفید دہشت سے دنیا آگاہ ہے لیکن انہوں نے اس وقت جنم لیا۔ جب ایک ملک یا غالب گروہ خانہ جنگی میں اپنی بقا کے لیے لڑ رہا تھا۔ یہ دہشت سنگین خطرے اور مسلسل خوف کا رد عمل تھی۔ لیکن نازیوں کو تو ایسی کوئی صورت حال درپیش نہیں تھی۔ انہیں نہ کسی خطرے کا سامنا تھا اور نہ وہ کسی بات سے خوفزدہ تھے۔ حکومت پہ ان کا اختیار تھا۔ مسلح مزاحمت یا مخالفت بھی نہیں تھی۔ چنانچہ بھوری دہشت کسی اضطراری یا انتقامی کیفیت کا نتیجہ نہیں بلکہ شعوری خون ریزی، بلا اشتعال بربریت اور ان لوگوں کے خلاف مذموم جبری کاروائی تھی جو نازیوں کے ہم خیال نہیں تھے۔
نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی میں ہونے والے ظلم و ستم کی فہرست دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن سر عام نہیں۔ مردوں اور عورتوں کو وحشیانہ مار پیٹ اور اذیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بے دردی سے قتل کر دیا جا تا ہے۔ لاتعداد افراد کو جیلوں اور عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا ہے جہاں مبینہ طور پر ان کے ساتھ بہت برا سلوک ہوتا ہے ۔کیمونسٹوں کو تو بری طرح وحشیانہ حملوں کی زد پہ لایا جاتا ہے۔ اعتدا پسند سوشل ڈیمو کریٹوں کو البتہ نرم سلوک کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ یہودیوں کو بھی خصوصی طو ر پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ نازیوں کا دعویٰ ہے کہ’’ یہ جنگ جرمنی کو مارکسزم اور مارکسٹسوں سے پاک کرنے بلکہ بائیں بازو سے نجات پانے کے لیے ہے۔ یہودیوں کو بھی تمام عہدوں اور شعبوں سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔‘‘ ہزاروں یہودی پروفیسروں، ڈاکٹروں نرسوں، استادوں، موسیقاروں، وکلاء، ججوں اور دیگر سرکاری ملازمتوں کو نکال باہرکیا گیا۔ یہودی دکانداروں کا بائیکاٹ کیا گیا اور یہودی محنت کشوں کو فیکٹروں سے نکال دیا گیا ایسی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا اور یہودی محنت کشوں کو فیکٹریوں سے نکال دیا گیا ایسی جنہیں نازی پسند نہیں کرتے تھے۔ اخبارات کومعمولی اختلاف یا تنقید پر بے دردی سے انتقامی کاروائیوں کانشانہ بننا پڑتا۔ دہشت گردی کی کاروائیاں شائع کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایسے واقعات پر سرگوشیاں بھی ممنوع تھیں۔ مرتکب افراد کو سخت سزائیں دی جاتیں۔
نازی پارٹی کے علاوہ سبھی پارٹیوں اور تنظیموں کو دبادیا گیا۔ سب سے پہلے کیمونسٹ پارٹی کی باری آئی۔ پھر سو شل ڈیموکریٹک پارٹی اور پھر کیتھولک سینٹر پارٹی کے بعد نازیوں کی اتحادی پارٹیوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں کو توڑ دیا گیا۔ ان کے فنڈز اور املاک کو ضبط کر لیا گیا۔ صرف ایک پارٹی اور ایک تنظیم باقی بچی اور وہ تھی نازی پارٹی۔
عجیب و غریب نازی فلاسفی کو ہر ایک گردن پر مسلط کر دیا گیا دہشت اور خوف کا یہ عالم ہے کہ کسی کو سر اٹھانے کی جرات وہمت نہیں۔ تعلیم تھیٹر، آرٹ، سائنس سب پر نازی رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ ’’سچا جرمن اپنے خون کے ساتھ سوچتا ہے‘‘ ہٹلر کے ایک قریبی ساتھی ہر من گوئیرنگ کا کہنا ہے۔ ’’شفاف استدالال اور غیر متعصب علم کا دور ختم ہوگیا‘‘ ہے۔ بچوں کو سکھایا جا تاہے کہ ہٹلر مسیح ثانی ہے لیکن پہلے مسیح سے عظیم ہے۔ نازی حکومت عوام میں تعلیم کے فروغ کو زیادہ پسند نہیں کرتی۔ عورتوں کی گھر اور باورچی خانہ اور اس کا اصل کردار ریاست کے لیے جینے اور مرنے والے بچوں کو جنم دینا ہے۔ ہٹلر کے ایک اور ساتھی ڈاکٹر جوزف گوئیبلز کا کہنا ہے کہ’’ عورت کا مقام گھر اور فریضہ اپنے ملک و قوم کو بچے مہیا کرنا ہے۔ عورتوں کی آزادی ریاست کے لیے خطرہ ہے۔ اسے وہ باتیں مردوں پہ چھوڑ دینا چاہئیں جن کا تعلق مردوں سے ہے۔‘‘ گوئیبلز، ہٹلر کا معتمد خاص اور عوامی آگاہی اور پراپیگنڈہ کا وزیر ہے۔ اسی گوئیبلز کا کہنا ہے کہ ’’میں پریس کو پیانو کی طرح بجانا چاہتا ہوں۔‘‘
اس تمام بربریت، ظلم و ستم اور آگ و خون کے کھیل کے پیچھے محروم متوسط طبقات کی بھوک اور افلاس ہے۔ حقیقتاً یہ روٹی اور روزگار کی لڑائی تھی۔ یہودی ڈاکٹروں، نرسوں، اساتذہ اور وکلاء کو اس لیے ملازمتوں سے نکال دیا گیا تھا کہ آریائی جرمن، تھے یہودیوں کی دکانیں اس لیے بند کر دی گئیں کہ وہ کامیاب حریف تھے۔ بہت سی غیر یہودی دکانیں بھی بند کر دی گئیں اور ان کے مالکان کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ ان پر ناجائز منافع خوری کا الزام تھا۔ نازیوں کے حامی کسانوں نے مشرقی پر شیا میں وسیع و عریض زمینوں پر نظریں جما رکھی تھیں۔ وہ انہیں آپس میں بانٹ لینا چاہتے تھے۔
نازی پروگرام کا ایک دلچسپ نکتہ تنخواہوں میں کمی کی تجویز تھی۔ تجویز کیا گیا کہ زیادہ سے زیادہ تنخواہ ۱۲ ہزار مارک سالانہ رکھی جائے جو ہندوستانی کرنسی کے مطابق ۸ ہزار روپیہ سالانہ یا ۶۶۶ روپے ماہانہ ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے کیونکہ آج کل چانسلر کی تنخواہ ۲۶ ہزار روپے سالانہ (۱۴۰۰ روپے ماہانہ) ہے۔ تجویز کیا گیا کہ پرائیویٹ کمپنیوں کو حکومت امدادی رقوم دیا کرتی تھی۔ ان اعدادو شمار کا موازنہ ذرا ان تنخواہوں سے کرو جو غریب ہندوستان اپنے ملازمین کو دیتا ہے۔ کانگریس نے کراچی میں تجویز دی تھی کہ تنخواہوں کی حد ماہانہ ۵۰۰ روپے مقرر کی جائے۔
یہ سوچنا غلط ہو گا کہ نازی تحریک کے پیچھے صرف سفا کی اور دہشت ہی تھی جیسا کہ یہ نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ جرمنوں کی اکثریت ہٹلر کے لیے زبردست جوش و خروش رکھتی تھی۔ سابقہ انتخابات کے اعداو شمار کے مطابق جرمنوں کی ۵۲ فیصد آبادی ہٹلر کے ساتھ تھی اور یہی ۵۲ فیصد بقیہ ۴۸ فیصد کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی تھی۔ جو لوگ جرمنی سے ہو کر آئے ہیں وہ وہاں پہ موجود عجیب و غریب نفسیاتی ماحول کا ذکر کرتے ہیں جرمن لوگ محسوس کرتے ہیں کہ معاہدہ ورسیلز کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تحقیر اور دبائو کے طویل برس ختم ہو چکے ہیں اور اب وہ آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ مذکورہ محسوسات صرف اسی ۵۲ فی صد لوگوں کے ہیں۔ بقیہ لوگ مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ جرمن محنت کش طبقہ شدید قسم کی نفرت اور برہمی سے مغلوب ہے۔ ان کو نازیوں کے خوفناک جبروتشدد نے باندھ کر رکھا ہوا۔ اگرچہ وہ طاقت اور دہشت کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں لیکن وہ انتہائی دکھ اور مایوسی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنی محنت اور قربانیوں سے بنایا تھا وہ تباہ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں جو کچھ جرمنی میں ہوا اس میں عظیم سوشل ڈیموکریٹک پارٹی مزاحمت کی معمولی سی کوشش کیے بغیر ہی ڈھیر ہو گئی۔ یہ پارٹی یورپ بھر میں محنت کشوں کی سب سے پرانی، سب سے بڑی اور انتہائی منظم جماعت تھی۔ یہ دوسری انٹرنیشنل کی ریڑھ کی ہڈی تھی لیکن پھر بھی اس نے اتنی فرمانبرداری سے سر جھکایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ اگرچہ احتجاج، مزاحمت کی انتہائی معمولی اور بے ضرر صورت ہوتی ہے لیکن اس سے یہ بھی نہ ہوا اور پھر انتہائی بے عزتی اور تضحیک کے ساتھ ختم ہو گئی۔ ایک ایک کر کے سوشل ڈیمو کریٹک لیڈر نازیوں کے سامنے جھکتے گئے۔ شاید اس توقع میں کہ ان کی اطاعت اور بے وقعتی کچھ تو تحفظ دے گی۔ لیکن ان کی اطاعت انہیں کے خلاف ایک ہتھیار بن گئی۔ نازیوں نے محنت کشوں کو باور کرانا شروع کر دیا کہ یہ لیڈر ان کے بہی خواہ نہیں تھے، اس لیے برے وقت میں ان کاساتھ چھوڑ گئے۔ یورپی محنت کش طبقے کی تاریخ میں کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ ہیں لیکن اس طرح شرمناک طریقے سے ہتھیار ڈالنا اور محنت کش طبقے کے کاز سے دھوکہ دہی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ کیمونسٹ پارٹی نے مزاحمت کی کوشش کی اور عام ہڑتال کا اعلان کیا۔ سوشل ڈیموکریٹک لیڈروں نے بالکل ساتھ نہ دیا۔ ہڑتال نا کام ہو گئی۔ محنت کشوں کی تحریک اگرچہ سرکاری طور پر توڑی جا چکی تھی لیکن خفیہ تنظیم کی صورت میں جاری تھی اور پورے ملک میں موجود تھی۔ نازیوں کے جاسوسی نظام کے باوجود خفیہ طور پر شائع ہونے والے اخبارات کی سرکولیشن لاکھوں میں تھی۔ کچھ سوشل ڈیموکریٹ لیڈر جو ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے وہ بھی بیرون ملک رہ کر خفیہ طریقوں سے پراپیگنڈہ جاری رکھنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔
جرمنی میں محنت کش طبقہ بھوری دہشت کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہا تھا۔ چنانچہ اس کا برا حال تھا۔ لیکن عالمی رائے عامہ اس کے بجائے یہودیوں سے کیے جانے والے سلوک پر احتجاج کر رہی تھی۔ یورپ کسی حد تک طبقات کی بنیاد پر جاری مخاصمتوں کا عادی ہے اور ہمدردیاں طبقے کے حوالے سے اظہار پاتی ہیں۔ یہودیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نسلی معاملہ تھا۔ کچھ ایسی بات جو دور وسطیٰ میں ہوتی تھی یا پھر حالیہ برسوں میں غیر سرکاری سطح پر زاروں کے روس جیسے پسماندہ ملکوں میں دیکھنے میں آئی ہے۔ سرکاری طور پر پوری نسل کو اذیت رسانی پر یورپ اور امریکا چیخ اٹھے۔ یورپی اور امریکی ردعمل دان، ڈاکٹر، قانون دان، موسیقار اور ادیب تھے جن کا سربراہ عظیم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن تھا۔ یہ لوگ جرمنی کو اپنا وطن سمجھتے تھے اور انہیں ہر جگہ جرمن سمجھا جا تا تھا۔ کوئی بھی ملک انہیں اپنانے میں فخر محسوس کرتا۔ لیکن نازی اپنے نسلی پاگل پن میں انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہے تھے۔ چنانچہ ساری دنیا میں شور مچ گیا۔ پھر نازیوں نے یہودی دکانداروں اور پیشہ ور افراد کا بائیکاٹ کر دیا۔ا ن تمام منفی سر گرمیوں کے باوجود حیرت کی بات ہے کہ ان یہودیوں کو اصولاً جرمنی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ اس طرح کی پالیسی کا مطلب یہی تھا کہ یہودیوں کو بھوکوں مار دیاجائے۔ عالمی احتجاج نے نازیوں کو مجبور کر دیا کہ وہ یہودیوں کے ساتھ کھلے عام کیے جانے والے سلوک میں ذرا نرمی پیدا کر دیں۔ لیکن پالیسی بہر حال وہی جاری ہے۔
یہودی النسل لوگ اگرچہ پوری دنیا میں منتشر ہیں اور کسی ملک کو اپنا وطن نہیں کہہ سکتے لیکن اتنے بھی بے یارو مددگار نہیں کہ جوابی کاروائی نہ کر سکیں عالمی سطح پر مالیات اور مختلف قسم کے کاروباروں پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ انہوں نے انتہائی خاموشی سے اور کوئی منتقمانہ تاثر دیئے بغیر جرمنی کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اسی پر اکتفا نہ کیا گیا۔ یہودیوں کی بین الاقوامی برادری آہستہ آہستہ کھل کر سامنے آگئی۔ مئی ۱۹۳۳ء میں نیویار ک میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جس میں جرمن کی مصنوعات اجناس اور خام مال کا بائیکاٹ کرنے کا باضابطہ اعلان کیا گیا ۔جرمنی کی جہاز ران کمپنیوں، فضائی سروس اور ٹرانسپورٹ سے دور رہنے کی مہم شروع کی گئی۔ مختصر یہ کہ ہر اس اقدام سے گریز کرنے کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا گیا جس سے جرمنی کی موجودہ حکومت کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔
بیرونی دنیا میں ہٹلر ازم کے خلاف یہ محض ایک ردعمل تھا کچھ اور ردعمل بھی سامنے آئے جو زیادہ دور رس تھے۔ نازی مسلسل معاہدہ ورسیلز کی مذمت کرتے چلے آرہے تھے۔ اور اس پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مشرقی سرحدپر پولینڈ کو ڈینزگ کے لیے راہداری دینے والا انتظام واپس لیا جائے کیونکہ اس طرح جرمنی کٹ چکا تھا۔معاہدہ امن کے تحت جرمنی کو فوجوں میں کمی اور تحفیف اسلحہ پر مجبور کیا گیا تھا۔ نازی بڑی شدت سے اس عدم توازن کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے۔ ہٹلر کی شعلہ فشاں تقریروں اور دوبارہ مسلح ہونے کی دھمکیوں سے یورپ بری طرح پریشان تھا۔ بالخصوص فرانس، جرمنی کی بڑھتی ہوئی قوت سے خوف زدہ تھا۔ کچھ عرصہ تک تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یورپ ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ نازیوں کے خوف نے اچانک یورپ میں نئی دھڑے بندی کا راستہ کھول دیا۔ فرانس کا رویہ سوویت روس کے لیے مفاہمانہ ہو گیا۔ معاہدہ ورسیلز پہ نظر ثانی کے خوف سے اس معاہدہ کے تحت وجود میں آنے والے ممالک یااس کی وجہ سے فائدہ اٹھانے والے ملک مثلا پولینڈ، چیکو سلواکیہ، یوگو سلادیہ اور رومانیہ اکھٹے ہوگئے۔ نئی صورت حال میں وہ سوویت روس کے قریب بھی ہوگئے۔ آسٹریا میں ایک حیرت انگیز صورت حال پید اہو گئی۔ ایک فاشسٹ چانسلر، ڈولفس، جو اگرچہ پہلے سے اقتدار میں تھا لیکن اس کا فاشزم کچھ مختلف قسم کا تھا نازیوں کی مخالفت پر اتر آیا۔نازی آسٹریا میں خاصے طاقتور ہیں لیکن ڈولفس کی مخالفت ان کے لیے پریشانی کا سبب بن گئی۔
اٹلی نے ہٹلر کی کامیابی کا خیر مقدم کیا تھا لیکن وہ اس کی پالیسیوں کا حامی نہیں تھا۔ انگلستان میں کئی برسوں سے جرمنی کی حمایت میں عوامی رحجان نظر آرہا تھا لیکن اب انگریز بھی جرمن مخالف لہر کی لپیٹ میں آگئے اور ’’ہنوں‘‘ کا ذکر پھر سے ہونے لگا۔ہٹلر کا جرمنی یورپ میں تنہا رہ گیا۔ ظاہر ہے جنگ کا مطلب غیر مسلح جرمنی کی تباہی تھا۔ ہٹلر نے اپنے حربے بدل لیے اور امن کی باتیں شروع کر دیں۔ مسولینی اس کی مدد کو آگیا۔ اس نے فرانس انگلستان، جرمنی، اور اٹلی پر مشتمل ایک ۴ ملکی معاہدے کی تجویز پیش کر دی۔
مجوزہ معاہدہ پر بالا خر جون ۱۹۳۳ میں چاروں طاقتوں نے دستخط کر دیئے۔ فرانس نے البتہ طویل ہچکچاہٹ کے بعد اس پر دستخط کیے۔ جہاں تک معاہدے کی زبان کا تعلق ہے یہ انتہائی پر امن اورغیر جارحانہ ہے۔ اس کے مطابق چاروں طاقتیں مخصوص بین الاقوامی امور میں ایک دوسرے سے مشورہ کریں گی اور خاص طورپر معاہدہ ورسیلز پہ نظر ثانی کے معاملہ پر غور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ بظاہر ایک سوویت مخالف بلاک کی تشکیل کے لیے ایک کوشش نظر آتا ہے فرانس نے اس پر خوشدلی سے دستخط نہیں کیے۔ شاید اس کے نتیجے میں یا اس کے جواب میں یکم جولائی ۱۹۳۳ء کو لندن میں سوویت یونین اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان عدم جارحیت کے ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فرانس نے سوویت یونین کے ساتھ اس معاہدہ کے حوالے سے گہری ہمدردی اور خیر سگالی کا اظہار کیا۔
ہٹلر کا بنیادی پروگرام، جو دراصل جرمن سرمایہ داری کا پروگرام ہے۔ سوویت یونین کے خلاف یورپ کا چیمپیئن بننے کے لیے متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر جرمنی کو کوئی مزید علاقہ مل سکتا ہے تو وہ سوویت یونین کی قیمت پر مشرقی یورپ میں ہی مل سکتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جرمنی کو مسلح کیا جا نا ضروری ہے۔ظاہر ہے اس کے لیے معاہدہ ورسیلز پر نظر ثانی یا کم از کم جرمنی کی پیش رفت میں عدم مداخلت کی یقین دہانی ضروری ہے۔ہٹلر اٹلی کی حمایت پر انحصار کر رہا ہے۔ا گر اسے انگلستان کی حمایت بھی مل جائے تو معاملات آسان ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ اسے امید ہے کہ ایسا ہو جانے پر وہ ۴ ملکی معاہدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات میں فرانس کی مخالفت غیر موثر بنا سکتا ہے۔
اس پس منظر میں ہٹلر برطانوی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے وہ سر عام کہہ رہا ہے کہ ہندوستان پر برطانوی گرفت کا کمزور ہو جا نا ایک المیہ ہو گا۔ اس کا سوویت مخالف کردار بذات خود برطانیہ کے لیے ایک کشش رکھتا ہے۔ برطانیہ کو جس قدر نفرت سوویت یونین سے ہے کسی اور ملک سے نہیں لیکن برطانوی عوام نازی سر گرمیوں پر اتنے نالاں ہیں کہ انہیں ہٹلر ازم کا ساتھ دینے کے لیے کسی تجویز پر رضا مند ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔
نازی جرمنی یورپ میں ایک طوفانی مرکز بن چکا ہے۔ اور اس سراسیمہ دنیا کے خدشات و خطرات میں اضافہ کر رہا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ خود جرمنی میں کیا ہوگا ؟ کیا نازی اقتدار قائم رہے گا؟ نازیوں کے خلاف جرمنی میں خاصی نفرت اور عداوت پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ وہاں منظم مخالفت کو ختم کیاجا چکا ہے۔ جرمنی میں اب کوئی پارٹی یا تنظیم باقی نہیں ہے۔ نازی ہی برتر قوت ہیں۔ نازیوں میں بھی ۲ گروہ پائے جاتے ہیں۔ سرمایہ دار عناصر اور کاروباری برادری پر مشتمل دایاں بازو اور پارٹی کے کارکن اور عہدیدروں پر مشتمل بایاں بازو، جس میں حال ہی میں محنت کشوں کی بڑی تعداد شامل ہو چکی ہے اورجن لوگوں نے ہٹلر کی تحریک کو انقلابی روح دی، وہ سرمایہ داریت کے شدید مخالف ہیں۔ انہوں نے متعدد مارکسٹوں اور سوشلسٹوں کو اپنی صفوں میں جگہ دے دی ہے۔ نازی تحریک کے بائیں بازو اور دائیں بازو میں بہت کم اشتراک پایا جا تا ہے۔ ہٹلر کی کامیابی کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ انہیں اپنے ساتھ رکھے ہوئے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتا رہتا ہے۔ یہ اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک مشترکہ دشمن نظر آتا رہے۔ اب جب کہ دشمن کچل دیا گیا ہے یا منتشر ہو چکا ہے تو دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان تصادم ہونا نا گزیر ہے۔
ٹکرائو کی گڑگڑاہٹ فضائوں میں موجود ہے۔ بائیں بازو کے نازی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پہلا انقلاب کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اس لیے اب دوسرا انقلاب شروع کیا جا نا چاہیے جو سرمایہ داروں، زمینداروں اور استحصالی عناصر کے خلاف بر سر عمل ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔ ہٹلر نے ابھی تک تو اس دوسرے انقلاب کو بے رحمی سے کچل دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور اس طرح ایک بار پھر سرمایہ دار دائیں بازو کی بھر پور پشت پناہی حاصل کر لی ہے۔ اس کے لیے کسی فوری خطرے کا امکان اس لیے بھی نہیں ہے کہ اس کے بہت سے بااعتماد ساتھی کلید عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں اور پوری طرح مطمئن ہونے کی وجہ سے وہ کسی تبدیلی کے خواہش مند نہیں ہیں۔
ہٹلر کا تذکرہ کچھ طویل ہو گیا ہے لیکن تم اس بات سے اتفاق کرو گی کہ نازیوں کی فتح اور اس کے نتائج یورپ ہی نہیں پوری دنیا کے لیے دور رس اثرات کے حامل ہونے کی وجہ سے اتنے اہم ہیں کہ طویل تذکرہ ضروری تھا۔ بلاشبہ یہ فاشزم ہے اور ہٹلر بذات خود ایک حقیقی فاشسٹ ہے۔ لیکن نازی تحریک اطالوی فاشزم سے مختلف وسیع اور بنیادی تبدیلیوں کی خواہشمند ہے۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ٓایا یہ تبدیلی کے خواہشمند عناصر کوئی انقلاب لانے میں کامیاب ہو سکیں گے یا آسانی سے کچل دیئے جائیں گے۔
خالص مار کسی نظریہ کسی حد تک نازی تحریک کے فروغ کی وجہ سے درہم برہم ہو گیا ہے۔ کٹر مارکسسٹ سمجھتے تھے کہ حقیقی انقلابی طبقہ صرف محنت کشوں پر مشتمل ہوتاہے اور جب اقتصادی حالات خراب ہو جاتے ہیں تو یہ طبقہ متوسط طبقہ کے محروم اور ناراض عناصر کو لے کر آگے بڑھتا ہے اور بالا خر محنت کش انقلاب لے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی میں تو کچھ اور ہی ہوا ہے جب بحران آیا تو محنت کش طبقہ انقلابیوں سے محروم تھا۔ ایک نیا انقلابی طبقہ زیریں متوسط طبقے کے محروم لوگوں اور دوسرے مضطرب عناصر پہ مشتمل تھا۔ یہ حقائق خالص مار کسی تصورات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن دیگر مارکسٹوں کا کہنا ہے کہ مارکسزم کو کسی مذہبی عقیدے کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے۔ جو تحکمانہ انداز میں حتمی صداقت پیش کرتا ہے۔ ایک حکمت عملی ہے کہ سوشلزم یا سماجی مساوات کے حصول میں مدد گار ہوتی ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں کو مختلف زمانوں اور مختلف ممالک میں بدلتے ہوئے حالات سے عہدہ برا ہونے کے لیے مختلف انداز میں لاگو کیا جا سکتاہے۔
نوٹ: (نومبر ۱۹۳۸ء) یہ خط سوا ۵ سال پہلے لکھا گیا تھا تب سے لے کر اب تک عالمی سیاست میں کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں ہوا۔ نازی جرمنی کی طاقت اور اس کے وقار میں اضافہ ہٹلر کے اقتدار کے دوران جاری ہے۔ آج یورپ میں ہٹلر کا طوطی بول رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اور وہ ملک جو کبھی بڑی طاقتیں رہے ہیں۔ ہٹلر کے سامنے سرنگوں اور اس کی دھمکیوں پر لرزہ براندام ہیں۔۲۰ سال پہلے جرمنی کو شکست ہوئی تھی اسے تذلیل کے ساتھ کچل دیا گیا تھا اور اب کسی عسکری تصادم یا فتح کے بغیر ہی ہٹلر نے اسے فاتح قوم بنا دیا ہے۔ معاہدہ و رسیلز مردہ اور دفن ہو چکا ہے۔
ہٹلر کا پہلا ہدف اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی میںاپنے مخالفین کو کچلنا اور نازیوں کو استحکام دینا تھا۔ جرمنی کو نازی بنا کر اس نے نازی پارٹی سے بائیں بازو کے رحجانات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو سرمایہ داریت کے خلاف انقلاب لانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ بھوری وردی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور بھوری پوش تنظیم کے قائدین کو ۳۰ جون ۱۹۳۴ء کو گولیوں سے اڑا دیا گیا۔ کئی اور لوگ بھی قتل کیے گئے جن میں سابق چانسلر جنرل وان شیلسر بھی شامل تھے۔
اگست ۱۹۳۴ ء میں صدر دان ہنڈن برگ انتقال کر گیا۔ ہٹلر نے اس کی جگہ لے لی۔ اب وہ چانسلر صدر تھا۔ اب وہ جرمنی میں تمام تر اختیارات کا مالک تھا۔ جرمن عوام کا فیوہر ر یا لیڈر تھا۔ عوام میں بے تحاشا غربت تھی، خیراتی فنڈ قائم کیا گیا۔ اس میں حصہ لینا اور چندہ دینا لازمی قرار دیا گیا تاکہ عوام کی بد حالی دور کی جا سکے۔ جبری محنت یا بے گار کے کیمپ قائم کیے گئے جہاں بے روزگاروں کو کام کرنے کے بھیجا جاتا۔ یہودیوں کی بہت بڑ ی تعداد کو زبردستی ان کے عہدوںاور کاموں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ان کی جگہ جرمنوں نے لے لی۔ جرمنی کی اقتصادی حالت بہتر نہ ہو سکی۔ درحقیقت یہ مزید ابتر ہوئی۔ لیکن بے روزگاری دیکھنے میں نہیں آرہی تھی۔ دریں اثناء خفیہ طور پر مسلح ہونے کا کام جاری رہا اور جرمنی کا خوف یورپ میں بڑھتا گیا۔
۱۹۳۵ ء کے آغاز میں سار طاس میں ہونے والی رائے شماری اکثریت کے ساتھ جرمنی سے الحاق کے حق میں نکلی۔ اس علاقے کو اسی سال جرمنی میں ضم کر دیا گیا۔ مئی ۱۹۳۵ء میں ہٹلر نے کھل کر معاہدہ ورسیلز کی تخفیف اسلحہ اور فوجوں میں کمی کی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے جبری فوجی بھرتی کا حکم دے دیا۔ ایک بہت بڑا فوجی پروگرام شروع کر دیا گیا۔ لیگ آف نیشنز کے کسی رکن نے کچھ نہ کیا۔ خوف نے انہیں جکڑ لیا۔ فرانس تو مبہوت رہ گیا۔ فرانس نے سوویت روس کے ساتھ اتحاد کے لیے مذاکرات شروع کر دیئے۔ برطانوی حکومت نے نازی جرمنی کا ساتھ دینے کو ترجیح دی اور جون ۱۹۳۵ء میں اس کے ساتھ ایک بحری معاہدہ کر لیا۔
عجیب و غریب نتائج مرتب ہونے لگے۔ فرانس نے محسوس کیا کہ انگلستان بے وفائی کر رہا ہے چنانچہ اس نے اٹلی کی طرف دوسری کا ہاتھ بڑھا دیا۔ مسولینی نے محسوس کیا کہ مناسب وقت آگیا ہے۔ اس نے ایبے سنینیا پر حملہ کر دیا۔
مارچ ۱۹۳۸ ء میں ہٹلر نے آسٹریا پر قبضہ کر لیا اور اسے جرمنی کی یونین میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا۔ لیگ آف نیشنز کے ارکان اب بھی دم سادھے رہے۔ نازیوں نے یہودیوں کے خلاف جارحانہ سفاک مہم شروع کر دی۔
نازی جارحیت کا اگلا نشانہ چیکو سلواکیہ تھا۔ کئی ماہ تک سوڈٹین جرمن کے مسئلہ نے یورپ کو مضطرب رکھا۔ برطانوی پالیسی نازیوں کی زبردست مدد گار تھی۔ فرانس اس پالیسی کے خلاف کچھ کرنے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔ انجام کار جرمنی کی طر ف سے فوری جنگ کے خطرے کے تحت فرانس نے اپنے اتحادی چیکو سلو یکیہ کو چھوڑ دیا۔ انگلستان اس دغابازی میں ایک فریق تھا۔ جرمنی، انگلستان، فرانس اور اٹلی کے درمیان معاہدہ میونخ ہوا جس نے ۲۹ ستمبر ۱۹۳۸ء کو چیکو سلواکیہ کی قسمت پر مہر لگا دی۔ سوڈٹین علاقے کے کچھ اور علاقوں کے ساتھ جرمنی کے قبضہ میں آگئے تھے۔ اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولینڈ اور ہنگری نے بھی چیکو سلواکیہ کے کچھ حصہ اڑا لیے۔
یوںیورپ کی ایک نئی تقسیم شروع ہو گئی۔ ایک ایسا یورپ جس میں انگلستان اور فرانس دوسرے درجہ کی طاقتیں بن رہی تھیںاور نازی جرمنی، ہٹلر کی سر براہی میں فاتحانہ انداز کے ساتھی چوٹی پر آرہا تھا۔
(مکتوب مورخہ ۳۱ جولائی ۱۹۳۲ء از ’’تاریخ عالم پر ایک نظر‘‘
“Glimpses of the World History” کا ترجمہ)