
صدر آصف علی زرداری نے حال ہی میں ۲۲ رکنی وفاقی کابینہ سے حلف لیا ہے۔ یہ اچھے طرزِ حکمرانی کی جانب پہلا قدم قرار دیا جارہا ہے۔ تاہم اچھے طرزِ حکمرانی کے حوالے سے اور بھی چند امور جو صدر اور وزیر اعظم کرسکتے ہیں اور انہیں کرنے ہی چاہئیں۔
اول تو ہمیں جمہوری حکمرانی کی طرف بڑھنا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ہر اعتبار سے خود مختار اور غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو رجسٹر کیا جائے، انہیں اپنے آڈٹ شدہ حسابات جمع کرانے چاہئیں، ان میں انتخابات باقاعدگی سے ہونے چاہئیں، انہیں اپنے قائدین اور ارکان کے اثاثوں کے گوشوارے جمع کرانے چاہئیں، ان کے اخراجات قواعد کے مطابق ہونے چاہئیں اور ان کی سرگرمیاں الیکشن کمیشن کے طے کردہ دائرے میں ہونی چاہئیں۔ الیکٹرانک پولنگ سے شفافیت کو یقینی بنانے میں غیر معمولی حد تک مدد مل سکتی ہے۔ تمام قانون سازوں (منتخب ارکان) کو ایوان چلانے سے متعلق ضروری تربیت فراہم کی جانی چاہیے۔ پارلیمانی کمیٹیوں کو ماہرین کی مدد فراہم کی جائے تاکہ اہم امور پر کی جانے والی بحث معنی آفرین اور سودمند ہو۔ اہم سرکاری اداروں میں ہر بڑے اور اہم منصب پر کوئی بھی تقرری سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کی رضامندی کے بغیر نہ کی جائے۔
دوم: ہمیں پولیس میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ عام آدمی کے لیے ریاست کا فوری چہرہ پولیس ہے۔ اور یہ چہرہ کچھ خوش نما نہیں! پولیس ہی کا عوام سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ غلط مقدمات قائم کرتی ہے، لوگوں کو بلا جواز جبر کا نشانہ بناتی ہے، مجرمانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کرتی ہے اور سیاسی کھیل کا حصہ بن جاتی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں پولیس آرڈر کا نفاذ ایک اچھا آغاز تھا مگر یہ اسی سال ہونے والے انتخابات کی نذر ہوگیا۔ کسی بھی معاملے میں مقدمہ چلانے کی ریاستی صلاحیت خاصی محدود اور پیچیدہ ہے۔ بیشتر معاملات میں شاہدین یا تو غائب کردیئے جاتے ہیں یا پھر انہیں دنیا ہی سے رخصت کردیا جاتا ہے۔ جیلوں کے لیے اب تک متوازن قواعد کا کوئی مجموعہ سامنے نہیں لایا جاسکا۔ جو بھی وارڈن کو خوش رکھ سکتا ہے اسے جیل میں ہر قسم کی سہولت میسر آسکتی ہے۔ جیلوں سے مجرمین کا فرار بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں پولیس کا نظام، مقدمہ چلانے کی صلاحیت، عدل کی فراہمی اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا معاملہ محض اسکینڈل سے زیادہ کچھ نہیں۔ پاکستان اب تک برطانوی دور کے قوانین کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔ چیف جسٹس کی قیادت میں نیشنل جوڈیشل (پالیسی میکنگ) کمیٹی نے حال ہی میں نچلی سطح کی عدلیہ میں اصلاحات کی عمدہ کوشش کی ہے تاہم ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ اصلاحات مکمل طور پر کامیاب ہوسکیں گی یا نہیں۔ عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد بحال کرنے اور اخراجات گھٹانے کے لیے انصاف تیزی سے فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
سوم: سرکاری اخراجات میں غیر معمولی کمی کی ضرورت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاقی سطح پر ڈویژنوں کی تعداد ۴۸ سے گھٹاکر ۲۳ کی جانی ہے۔ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے اور قومی خسارے میں اضافے کا باعث بننے والے نصف سے زائد سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کو یا تو فروخت کرنا، دوسرے اداروں میں ضم کرنا یا پھر صوبائی حکومتوں کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ فیصلہ سازی کا عمل جامد اور مرکزیت پسند نہیں ہونا چاہیے۔ اگر صوبائی اور بلدیاتی سطح پر اختیارات منتقل کیے جائیں تو بہبود عامہ کے منصوبوں کو بہتر طور پر چلانا ممکن ہوسکے گا۔ ای گورنمنٹ متعارف کرانے سے اخراجات کم کرنے میں خاصی مدد مل سکے گی۔ اسٹیٹ بینک اور چند دوسرے بڑے سرکاری اداروں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادے کے معاملے میں عمدہ مثالیں قائم کی ہیں۔ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے سے معاملات کو بہتر طور پر چلانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ ایک طرف تو پورے سرکاری ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف نچلی سطح کے سرکاری افسران سے صوابدیدی اختیارات واپس لینے سے بھی معاملات بہتر بنائے جاسکیں گے۔ اس صورت میں اخراجات گھٹانا بھی ممکن ہوسکے گا۔
کسی بھی اقدام کو مکمل کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ متعلقہ عملہ موزوں ترین، شفاف اور باصلاحیت ہو۔ فوجی ادارے اور نیشنل ہائی وے اور موٹر وے پولیس اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اگر میرٹ کو بنیاد بنایا جائے تو ریاستی ادارے کس قدر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی سول سروس ۱۹۵۸ء تک میرٹ کی بنیاد پر کام کرتی تھی۔ جب جنرل ایوب خان اقتدار پر متصرف ہوئے تو سیاسی وفاداری تقرری اور تبادلوں کے لیے معیار میں تبدیل ہوگئی۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے میاں شہباز شریف کا پہلا دور اورکراچی میں سٹی ناظم کی حیثیت سے نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اور مصطفیٰ کمال کے ادوار عمدہ حکمرانی کی اچھی مثال ہیں اور یہ کہ اس سے سیاست میں بہتری آتی ہے۔
جمہوری حکمرانی کا فروغ، قانون پر عملدرآمد کی کیفیت بہتر بنانا، سرکاری ڈھانچے کی تشکیل نو، میرٹ کی بنیاد پر تقرری، ای گورنمنٹ کا متعارف کرایا جانا اور طاقت کا عدم ارتکاز شہری اداروں کے قیام اور انہیں مضبوط بنانے کے بہترین طریقے ہیں۔ اگر لوگوں کو ریاستی طاقت کے ڈھانچے سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملے اور ان کی شکایات کا فوری ازالہ ہو تو فوج کے اقتدار میں آنے کی راہ خود بخود مسدود ہو جاتی ہے۔ جب یہ مقام آ جائے تو سلامتی اور ترقی زیادہ دور نہیں رہ جاتی۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک ‘‘ پاکستان۔ ۲۱ فروری ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply