
جس طرح جاپانی کتابوں میں حروف اوپر سے نیچے لکھے جاتے ہیں‘ اسی طرح زندگی بھی اوپر سے نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے اور سینیارٹی کا عمر سے گہرا تعلق ہے۔ سیاست میں اونچے عہدے کے لیے بڑی عمر نااہلی نہیں۔ نئی کابینہ اوسطاً ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ بزنس میں سینیارٹی کا نظام محدود ہے۔ گھروں میں اہمیت نوجوانوں سے شروع ہوتی ہے اور حکم چلانے والی بڑی بہنوں پر چھوٹے بھائی حاوی ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اوپر لوگوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ۴۵ سال کے ادھیڑ عمر لوگوں کی آبادی اتنی ہی ہو گی جتنی اس سے کم عمر لوگوں کی۔ اس کا مطلب ناصرف یہ ہے کہ جھکنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گی بلکہ ترقی سے پہلے کافی تعداد میں لوگوں کو باہم مسابقت کا سامنا ہو گا اور پنشنرز کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ (۲۰۱۰ء میں ۴۰ لاکھ بچے پالنے والے ریٹائر ہو جائیں گے۔ گویا ان کی تعداد جاپان کے دوسرے سب سے بڑے شہر یوکو ہاما کی آبادی کے مساوی ہو گی)۔
یہ بچے پالنے والی ریٹائر نسل اپنی کامیابی پر فخر کرنے کی واضح وجوہ رکھتی ہے۔ ان کے زمانے میں جاپان کی صنعت کاری انتہا کو پہنچی اور پرانے لوگوں نے اتنی بچت کر لی کہ وہ اب اپنی باقی زندگی بڑے آرام سے گزار سکیں گے۔ لیکن کیا وہ سب کچھ حاصل کرنے کے حق دار ہیں جو انہیں ملنا چاہیے۔ ۲۰۱۰ء میں ایسے اعداد و شمار سامنے آئیں گے جن کی توقع نہیں ہو گی۔ اول تو جاپان کی معیشت‘ جو ۱۹۶۰ء کے بعد سے دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت تھی‘ اس بری طرح زوال کا شکار ہوئی کہ ۲۰۱۰ء میں یہ اپنے سائز کے اعتبار سے چین سے پیچھے ہو گی۔ چنانچہ دنیا کو اب یہ یقین دلانا مشکل ہوتا جائے گا کہ جاپان کی بڑی اہمیت ہے۔
گزشتہ ایک نہیں بلکہ دو عشروں کے نقصانات سے جاپان کی مستقبل کی نسلیں ایسے قرضوں کے وبال میں دب کر رہ گئیں جن کی او ای سی ڈی میں مثال نہیں ملتی۔ ۲۰۱۰ء میں قرضوں کا حجم مجموعی قومی پیداوار سے ۲۰۰ فیصد سے تجاوز کر چکا ہو گا۔ اس کو کسی حد تک غیرمعمولی بچتوں کے ذریعہ قابو کیا جاسکتا ہے لیکن جاپان میں بے روزگاروں اور غریبوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ ۲۰۰۹ء میں معیشت کے زوال کے بعد مالیاتی خسارہ ۲۰۱۰ء میں دس فیصد تک پہنچ جائے گا۔ اگرچہ سماجی اخراجات نسبتاً کم ہوں گے لیکن جوں جوں لوگوں کی عمر بڑھے گی ان میں اضافہ ہو گا۔
جلد یا بدیر جاپانیوں کو یہ اندازہ ہو گا کہ ایک ملک جو تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے اپنے وسائل سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ یوکو ہتومایا کی حکومت نے جو ۲۰۰۹ء میں اقتدار میں آئی اور جس نے لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی کے نصف صدی کے اقتدار کا خاتمہ کیا‘ پہلے سال ہی اپنے لیے انتہائی سخت اہداف کا انتخاب کیا۔ یہ جماعت صرف اس لیے انتخابات میں کامیاب ہوئی کہ جاپانی عوام گزشتہ جماعت کے سرمایہ دارانہ ہتھکنڈوں سے تنگ تھے۔ حکومت‘ نوکر شاہی اور حمایت یافتہ صنعتیں ملکی بجٹ کو کھائے جارہی تھیں۔ اب معیشت کو دوبارہ متوازن کرنے کے لیے برآمدات اور تعمیراتی صنعتوں سے ترجیحات کا رخ مقامی فرموں کی جانب موڑنا ہو گا۔ اس کے لیے قدیم لیبر مارکیٹ اور مشاہروں کے سخت رواج بھی بدلنے ہوں گے۔ اس سے عارضی طور پر بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ اس کا مقابلہ اس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک ایک مضبوط فلاحی نظام اور اعانتی سبسڈیز دستیاب نہ ہوں۔ حکومت کو براہِ راست خاندانوں کو مالی مدد کرنا ہو گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں اور ساتھ ہی بوڑھی آبادی کے لیے پنشن کی فراہمی ضروری ہو گی۔ یہ واضح نہیں کہ ۲۰۱۰ء کے بجٹ میں حکومت اخراجات کے زیاں کو کم کر کے لوگوں کی مدد کر سکے گی یا نہیں۔ جاپان کو جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ ٹیکس نظام کی اصلاحات ہیں تاکہ حکومت کی آمدنی بڑھ سکے۔ موسم گرما میں ایوانِ بالا کے انتخابات متوقع ہیں جن میں ہتومایا کی ڈیمو کریٹک پارٹی آف جاپان کو اکثریت حاصل کرنے کی توقع ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو حکومت اتحادیوں کی مدد کے بغیر دونوں ایوانوں میں اپنی مرضی کی قانون سازی کر سکے گی۔
(بشکریہ: ’’دی اکانومسٹ‘‘ لندن)
Leave a Reply