ڈاکٹر رفیق زکریا
(۵ اپریل ۱۹۲۰ء ۔۔۔ ۹ جولائی ۲۰۰۵ء)
۸۵ سالہ رفیق زکریا جن کا ممبئی میں ۹ جولائی ۲۰۰۵ء کو حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال ہو گیا‘ ہندوستان کے صحافتی‘ علمی‘ تحقیقی ‘ تاریخی اور سیاسی حلقوں میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر معروف تھے۔ وہ مہاراشٹر میں ۱۵ برسوں تک وزیر رہے‘ کانگریس میں مختلف تنظیمی ذمہ داریوں خود سنبھایا اور ۱۹۷۸ء میں راجیہ سبھا میں ڈپٹی لیڈر کے فرائض بھی انجام دیئے۔ ایک درجن سے زائد مختلف موضوعات پر علمی و تحقیقی کتابیں لکھیں۔ وہ ملک میں ایک اسلامی دانشور کے طور پر بھی متعارف تھے۔
ڈاکٹر زکریا کے تین بیٹے اور بیٹی ہیں۔ ان کے تیسرے بیٹے فرید زکریا معروف امریکی ہفتہ وار ’’نیوز ویک‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ اہلیہ فاطمہ زکریا بھی صحافی ہیں۔
ڈاکٹر رفیق زکریا ریاست مہاراشٹر کے ضلع تھانے کے سوپارا میں ۵ اپریل ۱۹۲۰ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم پونہ کے اینگلو اردو ہائی اسکول میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے اسماعل یوسف کالج سے ۱۹۴۳ء میں ایم اے کیا اور پھر بمبئی کے گورنمنٹ لاء کالج سے قانون کی ڈگری لی۔ بعد ازاں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی اور لنکنس ان سے بار ایٹ لاء کیا۔۱۹۴۵ء سے ۱۹۴۷ء تک لندن مجلس اور ۱۹۴۷ء مین برطانیہ اور یوروپ میں ہندوستانی طلباء کی سوسائٹیز کے فیڈریشن کے صدر رہے۔ انہوں نے ۱۹۴۶ء میں پراگ میں طلباء کی بین الاقوامی یونین کے افتتاحی اجلاس میں شرکت کی۔ لندن میں ’’نیوز کروینکل‘‘اسپیشل پروسیکوٹر اور گورنمنٹ قونصل رہے۔ یوتھ کانگریس سے نوجوانی میں تعلق ہوگیا اور یہی تعلق کانگریس میں شمولیت کا سبب بنا۔ جون ۱۹۶۰ء میں مہاراشٹر قانون ساز کونسل کے رکن ‘ جولائی ۱۹۶۰
ء میں کانگریس کے چیف وہپ اور پھر متعدد بار ایم ایل اے ہوئے۔ ۱۹۶۵ء میں اقوام متحدہ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ علاوہ ازیں متعدد انجمنوں اور تعلیمی اداروں کو قائم کیا۔
ڈاکٹر رفیق زکریا اگرچہ سیاست میں سرگرم رہے اور ایک لمبے عرصے تک وزارت کی ذمہ داریوں کو سنبھالا لیکن ان کا انداز عام سیاست دانوں سے قطعی مختلف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیاست میں اصول پسندی کا مظاہرہ کرنے میں دشواری محسوس کی تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور مکمل طور پر تصنیف و تالیف اور کالم نویسی میں مصروف ہوگئے۔ کبھی ٹائمز آف انڈیا میں کالم نویسی کی تو کبھی ’’ایشین ایج‘‘ میں مضامین لکھے۔ کالم نویسی میں مسلمانوں سے متعلق مسائل اور معاملات کو ہمیشہ موضوع بحث بنایا۔ سلمان رشدی کے بدنامِ زمانہ ناول ’’شیطانی آیات‘‘ (Satanic Verses) پر انہوں نے بہت کچھ لکھا‘ بابری مسجد کے انہدام اور پھر اس کے بعد ممبئی اور دیگر مقامات میں پے در پے ہونے والے فسادات پر بھی ان کے قلم نے جولانی دکھائی۔ ان کی تحریر میں زبردست کاٹ ہوا کرتی تھی۔ ایک بار صدر جمہوریہ ہند کے انتخاب کے موقع پر جب اے پی جے عبدالکلام کا نام آیا تو انہوں نے ’’ایشین ایج‘‘ میں ان کے مذہبی عقیدہ پر بھی سوالہ نشان لگادیا جس سے میڈیا میں زبردست بحث بھی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ عبدالکلام نام ہی صحیح نہیں اور اسلامی نام ابوالکلام ہونا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ قران کے بجائے ہندوئوں کے ’’رگ وید‘‘ کو پڑھتے ہیں اور نماز بھی نہیں پڑھتے ہیں۔ کوئی ان سے اتفاق کرے یا نہ کرے وہ اپنی بات کہہ ہی دیتے تھے۔
تصنیف و تالیف میں بھی انہوں نے یہی انداز اختیار کیا۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل جن کے بارے میں مسلمانوں کی رائے بہت اچھی نہیں پائی جاتی‘ انہوں نے تاریخی حقائق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سردار پٹیل مسلمانوںکے ہمدرد تھے۔ اسی طرح انہوں نے تقسیم وطن پر کام کرتے ہوئے محمد علی جناح کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔ علامہ اقبال پر ان کی مشہور کتاب ’’اقبال۔ شاعر اور سیاست داں‘‘ کو بھی داد تحسین ملی۔ اس میں انہوں نے علامہ کی شاعرانہ اور سیاسی سوچ و خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے عروج پر انہوں نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی تھی۔لہٰذا اس مقالہ کو کتابی شکل میں شائع کیا گیا جو کہ اس موضوع پر ایک معیاری کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔کانگریس کی ۱۹۸۵ء میں صد سالہ تقریبات کے موقع پر شائع ہونے والی ان کی “Hundred Glorious Years” تاریخِ کانگریس پر ایک مستند کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس میں مسلمانوں کے رول پر بھی بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ سیاسی بدعنوانی پر ان کی کتاب “Price of Power” نے بھی کافی ہنگامہ کیا۔ انہوں نے اسلام کے حاملین کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے لے کر آج تک کے تنازعات کو سمیٹتے ہوئے “Struggle Within Islam: Conflict between Religion and Politics” لکھا۔ یہ کتاب بعض حلقوں میں متنازعہ فیہہ بھی قرار دی گئی۔ “Trial of Benazir” کے ذریعے انہوں نے اسلام میں خواتین کی حیثیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سلمان رشدی کی کتاب کے جواب میں انہوں نے “Mohammad and The Qur`an” لکھا۔ ہندوستان میں ہندو۔ مسلم تعلقات پر انہوں نے بہت ہی پُرمغز کتاب “Widening Divide” لکھی۔ ان کی “Price of Partition” اور “Man who Divided India” تقسیم وطن کے تعلق سے متعدد گوشوں کو سامنے لاتی ہیں جن میں انہوں نے محمد علی جناح کو تقسیم وطن کے لئے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ لہٰذا “Gandhi and Break-up of India” کتاب میں گاندھی جی کے مسلمانوں سے تعلقات‘ تحریک خلافت میں ان کے رول اور دیگر حقائق کی روشنی میں گاندھی جی کو تقسیم وطن سے بری الذمہ قرار دیا گیا ہے۔
۲۰۰۲ء میں گجرات کے سانحہ نے ڈاکٹر رفیق کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ہندتّو کے عروج کی تاریخ کو ٹٹولتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کے موضوع پر اپنی کتاب “Communal Rage in Secular India” میں بڑی گہرائی سے تجزیاتی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ڈاکٹر رفیق زکریا ایک ایسے مسلم دانشور تھے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی ہندوستان میں صحیح صورتحال پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور ان کا دفاع بھی کیا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ملت کی اندرونی کمیوں اور خامیوں کی بھی نشاندہی کی اور اس کے لئے بعض حلقوں میں معتوب بھی ہوئے۔ اس ضمن میں انہوں نے “Struggle within Islam….” کے علاوہ “Indian Muslims”Where Have They Gone Wrong?” بھی لکھا ہے یہ ان کی ۵۶۵ صفحات پر مشمل آخری کتاب ہے جو ۲۰۰۴ء کے اواخر میں منظر عام پر آئی اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ ایم جے اکبر کا اس میں بڑا ہی پُرمغز پیش لفظ ہے۔ اس کتاب میں ایک درجن ابواب ہیں۔ پہلے باب کا تعلق تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کے کردار‘ دوسرے کا ہندو۔مسلم تعلقات کے بگڑنے‘ تیسرے کا پاکستان کے ٹوٹنے‘ چوتھے کا تقسیم وطن کے بعد ہندوستانی مسلمان‘ پانچویں کا فرقہ وارانہ منافرت کے اسباب ‘ چھٹے کا ہندوستانی مسلمانوں کے دفاع‘ ساتویں کا ہندوستانی مسلمان اور ہندتو‘ آٹھویں کا مسلم نقطہ نظر میں تبدیلی کی ضرورت‘ نویں کا ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل‘ دسویں کا مستقبل سے نمٹنے‘ گیارہویں کا اسلام کے سیکولر ہونے کے متعلق اور بارہویں کا تعلق ہندوستانی اتحاد سے کسی طرح کی مصالحت نہ ہونے سے ہے۔
لیفٹیننٹ جے ایس اروڑا
(۱۳ فروری ۱۹۱۷ء ۔۔۔ ۳ مئی ۲۰۰۵ء)
۳ مئی ۲۰۰۵ء کو لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے نئی دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال میں انتقال سے بنگلہ دیش لبریشن کی تاریخ کا ایک اہم باب بند ہو گیا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل جے ایس اروڑا ہندوستانی فوج کا ایک معروف نام تھا۔ فیلڈ مارشل کے ایم کریپّا‘ جنرل جے این چودھری اور فیلڈ مارشل مانِک شا کی طرح جنرل اروڑا بھی بھارتی عوام میں اپنے فاتحانہ کارناموں کی وجہ سے مقبول تھے۔ گذشتہ ۳۲ سالوں یعنی ۱۹۷۳ء سے نئی دہلی میں واقع فرینڈز کالونی کے اپنے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں تن تنہا ریٹائرڈ زندگی گزا رہے تھے۔ جب راقم الحروف ۲۹ مئی ۱۹۹۹ء کو کارگل کے واقعات شروع ہونے کے بعد ان کے خیالات جاننے کے لیے ان سے ملا تو پورے مکان میں ان کو اکیلے پاکر اسے حیرت ہوئی اور پوچھا کہ کیا آپ یہاں تن تنہا رہتے ہیں؟ اس پر ان کا جواب تھا کہ جی ہاں! میری بیوی بھگونت کور ۱۹۹۷ء میں پرلوک سدھار چکی ہیں۔ ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹا کیرن جیت سنگھ سان فرانسکو‘ امریکا میں پبلشر ہے اور اس نے شادی نہیں کی ہے۔ وہیں آنجہانی فرانسیسی مفکر جیاں پال سارترے کی طرح وہ ایک لائف پارٹنر کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔ لہٰذا اسے کوئی اولاد بھی نہیں ہے۔ یہ وہی بیٹا ہے جو ۴ مئی کو والد کے انتقال کی خبر سن کر دہلی پہنچا اور ۵ مئی کو ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اور اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان کی زندگی مثالی تھی اور پورا ملک ان کی خدمات سے واقف ہے‘‘۔ بیٹی انیتا کالرا دہلی ہی میں رہتی ہے۔ ان کے نواسہ اور نواسی اپنے والدین کے ساتھ کبھی کبھی اپنے نانا سے ملنے آتے تھے۔ راقم الحروف کو ابھی تک یاد ہے کہ جب وہ ۶ سال قبل ان کے فلیٹ کے بیڈ روم میں داخل ہوا تب لیفٹیننٹ جنرل اروڑا “A Short Story Of World Leaders” نامی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ یہ کتاب انہیں انہی کے الفاظ میں ’’بنگلہ دیش کے ایک فریڈم فائٹر‘‘ نے تحفتہً دی تھی۔
اس وقت ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’وہ فوجی ڈسپلن کے پابند ہونے کے باوجود ایک انسان کا دل بھی رکھتے ہیں‘‘۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ۱۹۸۴ء میں سکھ مخالف فسادات کے بھڑکنے کے بعد سیاسی و سماجی طور پر بہت فعال ہو گئے تھے۔ سکھ متاثرین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے انہوں نے بہت کام کیا۔ ایک ہزار سے زائد یتیم اور اجڑے ہوئے بچوں اور ہزاروں بیوائوں کی نوآباکاری کروائی۔ نیز ۱۹۸۴ء میں سکھ مخالف فسادات کے بھڑکنے کے بعد سیاسی و سماجی طور پر بہت فعال ہو گئے تھے۔ سکھ متاثرین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے انہوں نے بہت کام کیا۔ ایک ہزار سے زائد یتیم اور اجڑے ہوئے بچوں اور ہزاروں بیوائوں کی نوآبادکاری کروائی۔ نیز ۱۹۸۴ء کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے زندگی بھر کوشاں رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف فسادات اور مظالم کے پیشِ نظر ایک مشترکہ فورم بھی بنا رکھا تھا۔
فیلڈ مارشل ایوب خاں سے قریبی تعلق کی دہائی دینے والے لیفٹیننٹ جنرل اروڑا نے مئی ۱۹۹۹ء میں کارگل جنگ کے وقت اظہارِ خیال کرتے ہئے کہا تھا کہ جنگ جیسی صورتحال کے باوجود جنگ ہرگز نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ممالک اب نیوکلیائی قوت ہیں اور ذرا سا بھی اشتعال بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ایئر فورس کے مارشل ارجن سنگھ کہتے ہیں کہ ’’پنجاب میں Insurgency اور ۱۹۸۴ء کے سکھ مخالف فسادات کے وقت لیفٹیننٹ جنرل اروڑا کے ساتھ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لیے کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ ہم نے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لمبے لمبے سفر کیے۔ میری نظر میں وہ بہت رحم دل آدمی تھے‘‘۔
۱۳ فروری ۱۹۱۷ء کو پیدا ہوئے لیفٹیننٹ جنرل اروڑا کا اصل وطن پاکستان کے ضلع جہلم میں کالے گجران گائوں میں تھا۔ ان کے والد سردار دیوان سنگھ اور والدہ سردارنی بھگونتی کور گائوں کے معزز افراد میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم راولپنڈی کے ایک مشن اسکول میں ہوئی۔ اس کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد دہرہ دون کی انڈین ملٹری اکیڈمی میں داخل ہوئے۔ ۱۹۳۹ء میں انڈین آرمی سے باضابطہ منسلک ہونے پر انہیں دوسری پنجاب ریجی منٹ میں بھیجا گیا۔ یہ وہی ریجی منٹ ہے جو کہ تقسیمِ وطن کے بعد پارا شوٹ ریجی منٹ کی پہلی بٹالین میں تبدیل ہو گئی۔ ۱۹۴۱ء ہی میں ان کی بھگونت کور سے شادی ہو گئی تھی۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء میں وہ راولپنڈی (پاکستان) سے ہندوستان منتقل ہو گئے۔
انہیں پہلی دفعہ جنگ لڑنے کا تجربہ جنگ عظیم دوم کے وقت ہوا تھا۔ آزاد ہندوستان میں انہوں نے مختلف جنگوں میں فوج کی قیادت کی۔ ۱۹۶۲ء میں بھارت چین جنگ ہو یا ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء میں ہندو پاک جنگیں‘ لیفٹیننٹ جنرل اروڑا اس کی بین مثال ہے۔ ایسٹرن کمانڈ میں انہوں نے بریگیڈیئر سے لے کر دیگر اونچے عہدوں تک خدمات انجام دیں۔ انہیں ایسٹرن کمانڈ میں GOC-in-C بنایا گیا اور اسی حیثیت میں انہوں نے ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے جنگ لڑی اور پھر پاکستان کی شکست فاش پر تاریخی دستاویز “Instrument of Surrender” پر دستخط کیے۔ اسی کے ساتھ ۹۳ ہزار پاکستانی فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ ان دنوں وہ ایسٹرن تھیٹر میں ہندو بنگلہ دیش افواج کے GOC-in-C تھے۔ پاکستان کی جانب سے ہتھیار ڈالنے والی افواج کی قیادت مرحوم لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداﷲ خاں نیازی (یکم جنوری ۱۹۱۵ء۔ یکم فروری ۲۰۰۴ء) نے کی تھی جو کہ پاکستان کی ایسٹرن کمانڈ کے کمانڈر اور زون بی کے مارشل لا ایڈ منسٹریٹر تھے۔ گذشتہ سال ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
اس طرح اس تاریخی دستاویز پر دستخط کرنے والے دونوں فوجی لیڈران لیفٹیننٹ جنرل اروڑا اور لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی جو کہ Batch Mate بھی تھے اب اس دارِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ۱۹۷۳
ء میں ریٹائرمنٹ کے وقت اروڑا ایسٹرن کمانڈ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ انچیف تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل اروڑا کو ۱۹۷۱ء میں فوجی خدمات کے پیشِ نظر پرم وشٹ سیوا میڈل اور ۱۹۷۲ء میں پدم بھوشن کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ وہ ۱۹۸۶ء سے ۱۹۹۲ء تک اکالی دل کی نمائندگی کرتے ہوئے راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے۔ لیکن ان سب کے باوجود انہیں یہ قلق رہا کہ بنگلہ دیش کے قیام میں خدمات کے عوض اس وقت کی حکومت نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے جس کے تحت انہیں اور چند دوسرے افراد کو مکمل جنرل (Full General) یا فیلڈ مارشل بننا چاہیے تھا۔ اس ضمن میں انہیں سابق وزیراعظم اندرا گاندھی سے بڑی شکایتیں تھیں۔
حیات میں لیفٹیننٹ جنرل اروڑا کو جو بھی شکایتیں رہی ہوں‘ ان کی موت کے بعد وزیراعظم من موہن سنگھ‘ یو پی۔اے کی چیئرپرسن و صدر کانگریس سونیا گاندھی اور وزیرِ دفاع پرنپ مکھر جی انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے ان کی رہائش پر پہنچے۔ دہلی کینٹ کے شمشان گھاٹ میں ان کے بیٹے کے ذریعے چتا میں آگ لگاتے وقت وزیرِ مملکت برائے دفاع بی کے ہانڈیک‘ ایئر فورس کے مارشل ارجن سنگھ‘ دفاع سیکرٹری اجے وکرم سنگھ‘ ہندوستانی فوج کے وائس چیف لیفٹیننٹ جنرل جی ایس ٹھاکر‘ سابق وزیراعظم اندر کمار گجرال‘ بی جے پی لیڈران وی کے ملہوترا اور مدن لعل کھورانہ اور قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ تر لوچن سنگھ موجود تھے۔ سوگواران میں سابق فوجی سربراہان جنرل وی این شرما اور این سی وہج شامل تھے۔ موجودہ فوجی سربراہ جنرل جے جے سنگھ اور بحری فوج کے سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش دہلی میں موجود نہ رہنے کے سبب آخری رسومات میں شرکت نہ کر سکے۔
خاص بات یہ تھی کہ آخری رسومات میں بنگلہ دیشی افواج کے ایئر وائس مارشل اے کے کھانڈیکر‘ لیفٹیننٹ شوکت علی اور کرنل اتل چودھری بھی پہنچ گئے تھے۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے قائم مقام ڈپٹی ہائی کمشنر مسعود بن مومن نے کہا کہ ’’۱۹۷۱ء سے حالات میں بھلے ہی تبدیلی آگئی ہو لیکن میرے ملک میں اروڑا کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میڈیا نے ان کی موت کی خبر پوری طرح Cover کی۔ میرے ملک میں اروڑا کا نام بچہ بچہ کی زبان پر رہتا ہے‘‘۔ عیاں رہے کہ موت کی خبر سنتے ہی بنگلہ دیش کے وزیرِ دفاع مرشد خاں نے ہندوستانی وزیرِ دفاع کو ایک خصوصی پیغام میں کہا کہ ان کے ملک کے لبریشن کی تاریخ میں اروڑا ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ قابلِ ذکر ہے کہ دسمبر ۱۹۹۶ء میں بنگلہ دیش کی عوامی لیگ حکومت نے آزادی کی سلور جوبلی کے موقع پر انہیں ڈھاکہ بلا کر عزت افزائی کی تھی۔
(بشکریہ: ’’اردو بک ریویو‘‘۔ نئی دہلی۔ شمارہ۔ جولائی اگست ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply