
ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوغلو نے کسی بھی ہمسائے سے کسی بھی معاملے میں کشیدہ تعلقات نہ رکھنے اور کوئی بھی تنازع کھڑا نہ کرنے کی پالیسی (Zero Problems with Neighbours) اپنائی ہے۔ مگر کیا یہ پالیسی کامیاب رہی ہے؟ اس سوال کے مختلف جواب سامنے آ رہے ہیں۔ سینئر صحافی اور لندن سے شائع ہونے والے عربی اخبار القدس العربی کے ایڈیٹر انچیف عبدالباری اتوان کا کہنا ہے کہ احمد داؤد اوغلو کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے کیونکہ ترکی کے ہمسائے اس کے عدم استحکام کے درپے ہیں۔ شام اور عراق کے حالات خراب ہیں اور پورے خطے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کی پالیسیاں بھی پورے خطے کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔ اسرائیل نے ترکی کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ اسرائیلی حکام یونان، رومانیہ، بلغاریہ اور دیگر یورپی ممالک میں ترکی کے خلاف لابنگ کرتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ایران واضح طور پر فرقہ وارانہ بنیاد پر کام کرتا ہے۔
عبدالباری اتوان نے ایک انٹرویو میں ایران اور دیگر علاقائی ممالک کی جانب سے ترکی کو لاحق خطرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں اب بھی یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس خطے میں اس قدر اکھاڑ پچھاڑ ہے اس میں ترکی متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکے گا؟ ترک حکومت کو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ترکی کے ہمسائے اس کے استحکام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ اگر ترکی کسی بھی ہمسائے سے کوئی تنازع نہ رکھنے کی اپنی پالیسی پر کاربند رہنا اور اسے کامیاب بنانا چاہتا ہے تو اسے خطے میں مضبوط اتحادی بنانے ہوں گے۔ عرب دنیا میں بیداری کی جو لہر اٹھی ہے اس کے بعد بیشتر متعلقہ ممالک کو تعمیر نو اور سیاسی استحکام کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں ترکی نہایت اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہر طرف شدید عدم استحکام ہے۔ اس کیفیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صورت میں ترکی خود بھی عدم استحکام سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ آج شام اور عراق سے ترکی کے تعلقات اچھے نہیں۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے لازم ہے کہ ترک حکومت مصر، تیونس اور لیبیا سے تعلقات بہتر بنائے جہاں آمرانہ حکومتیں گرائی جاچکی ہیں۔ ساتھ ہی یمن میں بھی استحکام پیدا کرنے کے لیے ترکی کو بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔
’’جن ممالک میں عوام نے حکومتوں کا خاتمہ کیا ہے وہاں ترکی کو ماڈل کے طور پر لیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں شدید سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات سے دوچار ممالک کے عوام جب بھی بد عنوان اور نا اہل حکومتوں کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ترکی ہی ماڈل کے طور پر ہوتا ہے۔ ترکی کو اس نفسیاتی کیفیت کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بہتر ہے کہ ترکی حکومت خطے میں کمزور ممالک کو مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائے تاکہ وہ ترکی کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا کردار عمدگی سے ادا کرسکیں‘‘۔
عبدالباری اتوان کو ایرانی پالیسیوں میں شدید نقائص دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ ایران نے بدلتی ہوئی صورت حال کے مطابق اپنی پالیسیوں میں موزوں تبدیلیاں نہیں کیں اور اب تک پرانی ڈگر ہی پر چل رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ایران واضح فرقہ وارانہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ وہ خطے میں شیعیت کو فروغ دے رہا ہے اور جہاں جہاں بھی شیعہ ہیں صرف انہی کے مفادات کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یہ غلط سوچ ہے۔ اگر وہ اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ دینا چاہتا ہے تو اس کا رویہ مسلم ملک کا سا ہونا چاہیے اور اسے اپنی ترقی اور مہارت سے پورے خطے کو مستفید کرنا چاہیے۔ راستے بند کرنے کے بجائے اسے پُل تعمیر کرنے اور خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔
شام کی صورت حال کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے عبدالباری اتوان کہتے ہیں کہ شام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے عرب دنیا کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور کوئی حل جلد از جلد تلاش کرلینا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں ’’شام میں عسکری مداخلت معاملات کو درست کرنے کے بجائے مزید الجھا دے گی۔ مصر اور لیبیا میں اپوزیشن مضبوط اور متفق علیہ امور کی حامل تھی۔ شام میں اپوزیشن کے اندرونی اختلافات زیادہ ہیں۔ اگر عسکری مداخلت کے ذریعے بشارالاسد کی حکومت ختم کردی جائے تب بھی یہ ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ شام میں قتل و غارت رک جائے گی اور امن قائم ہو جائے گا۔ عرب لیگ نے حال ہی میں اقوام متحدہ سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ یہ کوئی دانش مندانہ کال نہیں۔ عرب ممالک کو اس مسئلے کا علاقائی حل تلاش کرنا چاہیے‘‘۔
ایک سال سے بھی زائد مدت سے مشرق وسطیٰ کی صورت حال غیر یقینیت کا شکار ہے۔ کئی حکومتیں گر چکی ہیں اور کئی گرنے کی پوزیشن میں آنے والی ہیں۔ شدید سیاسی عدم استحکام پایا جاتا ہے جس سے معاشی پالیسیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ شام میں صورت حال دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ امریکی فوج کے انخلاء نے عراق میں شیعہ سنی تصادم کی سطح بلند کردی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ ترکی ترقی یافتہ اور مستحکم ہے۔ اگر خطے میں حالات خراب ہی رہے تو ترکی کے لیے عدم استحکام سے بچنا خاصا دشوار اور بعض حالات میں ناممکن ہو جائے گا‘‘۔
’’ترکی نے شام میں کریک ڈاؤن کے خلاف آواز بلند کی ہے اور ’فرینڈز آف سیریا‘ کے نام سے گروپ قائم کیا ہے۔ یہ معاملہ صرف شام تک محدود نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ ترکی کو چاہیے کہ ’فرینڈز آف ایجپٹ‘، ’فرینڈز آف لیبیا‘، ’فرینڈز آف تیونس‘ اور ’فرینڈز آف یمن‘ بھی قائم کرے تاکہ دوستی کی فضا مزید وسیع ہو اور پورے خطے کو یہ پیغام ملے کہ ترکی اس کا بھلا چاہتا ہے۔ سوال صرف مشکلات میں گھرے ہوئے، کریک ڈاؤن کا سامنا کرنے والے ممالک کے لوگوں کی مدد کرنے کا نہیں بلکہ ترکی کو چاہیے کہ ان ممالک کی مدد کو بھی ترجیح دے جن میں انقلاب برپا ہوچکا ہے اور انتخابات بھی منعقد کیے جاچکے ہیں‘‘۔
ایران کے لیے بہتر پالیسی کیا ہوسکتی ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عبدالباری اتوان کہتے ہیں ’’ایران کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر اس کے جوہری پروگرام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے بحران نے شدت اختیار کی اور جنگ چھڑی تو پورا خطہ شدید عدم استحکام کی نذر ہو جائے گا۔ ایران ایک طاقتور ملک ہے اور امریکیوں کے اتحادی ہونے کے باعث خلیج کے ممالک کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے۔ ایرانی قیادت پہلے ہی دھمکی دے چکی ہے کہ ایران ہر اس ملک پر حملہ کرے گا جو امریکیوں کے ساتھ مل کر اس پر بمباری کرے گا‘‘۔
’’اگر ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کوئی جنگ شروع کرتے ہیں تو خطے میں شدید مشکلات پیدا ہوں گی۔ حزب اللہ یقینا ایران کا ساتھ دے گی۔ اگر جنگ چھڑتی ہے تو پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آئے گا۔ کویت پر عراقی قبضے اور اس قبضے کو ختم کرانے کے لیے کی جانے والی جنگ میں بھی تو یہی ہوا تھا۔ ایک سال کی مدت بہت اہم ہے۔ شام کی صورت حال بھی قابو میں نہیں آرہی۔ یہ ایک بحران پورے خطے کا جغرافیہ، آبادی کا توازن اور سیاسی نظام سبھی کچھ بدل سکتا ہے۔ خطے میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کب کیا ہونے والا ہے۔ امریکا نے عراق میں حکومت کی تبدیلی کا مقصد تو حاصل کرلیا مگر سوال یہ ہے کہ اب امریکا کہاں کھڑا ہے جبکہ عراق میں شدید عدم استحکام ہے اور فرقہ واریت کا اژدہا سب کچھ نگل رہا ہے۔ امریکا نے دس سال بعد عراق سے رخت سفر باندھا اور ایک ہزار ارب ڈالر جنگ کی بھٹی میں پھونکنے کے بعد اس طرح گیا ہے کہ عراق کو پلیٹ میں رکھ کر ایران کو دے گیا ہے!‘‘
عرب دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے بہتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ تیونس، مصر اور یمن میں آمروں کا اقتدار ختم ہوچکا ہے۔ تیونس اور مصر میں عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ لیبیا میں بھی عوامی بیداری کی لہر ایسی اٹھی کہ سب کچھ بدل گیا اور کرنل معمر قذافی کو سخت نامساعد حالات میں موت کا سامنا کرنا پڑا۔ اب خطے میں جمہوریت کی ہوا چلی ہے۔ ایسے میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں؟ اس حوالے سے عبدالباری اتوان کہتے ہیں ’’عرب دنیا میں بیداری کی لہر ابتداء میں غیر معمولی اثبات کی حامل تھی۔ جو آمر کئی عشروں سے اقتدار کے ایوانوں پر قابض تھے ان سے گلو خلاصی ممکن نہیں ہو پارہی تھی۔ عوام تنگ آکر اٹھے اور آمروں کا صفایا کردیا۔ مصر میں حسنی مبارک، تیونس میں زین العابدین بن علی، لیبیا میں معمر قذافی اور یمن میں علی عبداللہ صالح کے اقتدار کا سورج غروب ہوا۔ عوام بہت خوش تھے کہ اب ان کے خطے کی تقدیر بدلے گی مگر چند ایک مشکلات اب تک پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔ شام میں بشار الاسد کو باہر سے بھرپور مدد مل رہی ہے۔ خطے میں آمریت کا دور ختم ہوا چاہتا ہے مگر اب بیرونی قوتیں اپنا کھیل کھل کر کھیل رہی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کھل کر کہا ہے کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو مغربی مفادات محفوظ رہیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ مغربی مفادات کس طرح محفوظ رہ پائیں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ اقدامات کریں گے۔ یہی مرحلہ ہے انقلاب کو بچانے کا۔ لیبیا میں حکومت کی تبدیلی کے لیے اگر مغربی قوتوں نے مداخلت کی تو اس کا ان کے پاس ٹھوس جواز تھا۔ یہ معاملہ جمہوریت اور انسانی حقوق سے کہیں بڑھ کر تیل کا تھا۔ لیبیا یورپ سے بہت نزدیک ہے۔ اس کا تیل اعلیٰ ترین معیار کا ہے۔ گیس کے بھی بڑے ذخائر ہیں۔ امریکا اور یورپ کے لیے لیبیا کو بچانا لازم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ تیل کی فراہمی کسی تعطل کے بغیر جاری رہے۔ اور ایسا ہی ہوا‘‘۔
’’عرب دنیا کو بہت محتاط رہنا ہوگا۔ اس کے عوامی انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ مصر میں عوامی انقلاب کو ناکام بنانے کی تیاریاں کی جاچکی ہیں۔ بیرونی قوتیں اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ روس اور چین نے شام کے معاملات میں ملوث ہوکر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں بڑی طاقتوں کی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے۔ شام کے حوالے سے بڑی طاقتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ در اصل اس کھیل کی مشق ہوسکتی ہے جو شاید وہ ایران میں کھیلنا چاہتی ہیں۔ وہ تیل اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت کی تقسیم کا معاملہ ہوسکتا ہے‘‘۔
’’یہ نہ سمجھا جائے کہ میں عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے خلاف ہوں۔ عرب دنیا کے لوگوں نے بہت کچھ جھیلا ہے۔ ان کے حقوق کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں اور ان کے بعد آسائشیں ملنا چاہئیں مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو انقلاب عرب دنیا کے لوگوں نے برپا کیا ہے وہ کسی بھی صورت ہائی جیک نہیں ہونا چاہیے اور امریکی اور اسرائیلی مفادات کی چوکھٹ پر سب کچھ قربان نہیں ہونے دینا چاہیے‘‘۔
شام میں صورت حال دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ کریک ڈاؤن رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ امریکا اور دیگر طاقتور ممالک اگر مداخلت نہ کریں تو یہ سب کچھ کس طور روکا جاسکتا ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ عبدالباری اتوان کا کہنا ہے کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ طویل مدت تک جاری نہیں رہ سکتا۔ ’’شام کی حکومت کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ عوام کی رائے کو زیادہ دیر کچل کر نہیں رکھا جاسکتا۔ ایک سال سے بھی زائد مدت سے شام کے عوام بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اب تک کریک ڈاؤن میں سات ہزار سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں مگر عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ وہ اب بھی تبدیلی کے لیے متحرک ہیں۔ حکومت ان کے خلاف سفاکی سے طاقت استعمال کر رہی ہے مگر وہ کسی بھی طور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
’’شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پورے خطے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ کو اب لازمی طور پر عوام کو چند ایک رعایات دینا ہوں گی۔ آئین میں ترامیم کے ذریعے سیاسی اصلاحات کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ اس کام میں جتنی تاخیر ہوگی، خرابی اتنی ہی بڑھے گی۔ شام میں اب تک غیر ملکی مداخلت نہیں ہوئی کہ اس کے پاس تیل نہیں۔ عراق اور لیبیا میں اس لیے مداخلت کی گئی کہ ان کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ شام میں مغربی مداخلت کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ یہ خدشہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ صورت حال یوں ہی بے قابو پاتی رہے گی‘‘۔
شام میں القاعدہ کے ملوث ہونے کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ الیپو اور دمشق میں حالیہ خود کش حملوں میں القاعدہ کو ملوث قرار دیا جارہا ہے۔ اگر القاعدہ عناصر مستحکم ہوگئے تو صورت حال انتہائی نازک ہو جائے گی۔ اس وقت شام کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور اسلحہ بڑے پیمانے پر اسمگل کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ منطقی انجام کو پہنچے گا تو مزید عدم استحکام کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ عرب دنیا کو اس حوالے سے جاگنا ہوگا۔ عرب لیگ ناکام ہوچکی ہے۔ شام کے معاملے میں بین الاقوامی مداخلت کی بات کرکے عرب دنیا نے عقل مندی کا ثبوت نہیں دیا۔ بہتر یہ ہوگا کہ اپنے مسائل خود نمٹائے جائیں‘‘۔
(“Atwan says neighbors threaten stability in Turkey”. “Todays Zaman”, Turkey. February 12th, 2012)
Leave a Reply