
ایک ایسے وقت میں کہ جب بھارتی قیادت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، خشکی میں گِھرے ہوئے (Land Locked) نیپال نے بھارت پر معاشی ناکہ بندی کا الزام عائد کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت پر چھ عشروں سے ناگا لینڈ کو غیر قانونی طور پر ہتھیانے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی نیپال جیسے غریب ہمسائے کی طرف سے بھارت پر معاشی ناکہ بندی کا الزام بھارت کی ساکھ پر دھبّے کے مترادف ہے اور امریکا کی واضح حمایت کے باوجود بھارت کے لیے سلامتی کونسل میں مستقل نشست کا حصول مزید مشکل ہوجائے گا۔
بھارت نے کئی ماہ سے نیپال کے لیے بنیادی اشیا کی فراہمی روک رکھی ہیں۔ نیپال کی تجارت بھارت کے راستے ہوتی ہے۔ خشکی میں گِھرا ہوا نیپال بیرونی دنیا سے رابطے کے معاملے میں بھارت کا دستِ نگر رہنے پر مجبور ہے۔ نیپال میں چند برسوں کے دوران سیاسی اور معاشرتی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان کے نتیجے میں بھارت کا اثر و رسوخ کم ہوتا گیا ہے۔ نیپال میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کی پشت پر بھارت کا ہاتھ رہا ہے مگر اب چند برسوں کے دوران نیپال کے سیاست دانوں نے طے کیا ہے کہ وہ بھارت کے زیر اثر رہتے ہوئے زندگی بسر نہیں کریں گے۔ چند ماہ کے دوران بھارت نے سرحدی تجارت روک رکھی ہے جس کے نتیجے میں نیپال میں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیا کی واضح قلت پیدا ہوچکی ہے۔ ۳؍اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نیپال کے نائب وزیراعظم پرکاش مان سنگھ نے بھارت پر نیپال کی معاشی ناکہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی کہ خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک کے حقوق کی پاسداری کی جائے اور انہیں باعزت طریقے سے عالمی برادری سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینے کا حق دیا جائے۔
نیپال کے نائب وزیراعظم نے اپنی تقریر میں خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک کے لیے سمندر تک رسائی کے حق کو ہر حال میں یقینی بنانے کے لیے عالمگیر نوعیت کے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے بھی ملاقات کی جس میں انہوں نے بھارت کی طرف سے نیپال کی معاشی ناکہ بندی کا خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ نیپال میں پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت پیدا ہوجانے کے بعد شہریوں کی مشکلات دوچند ہوگئی ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ عالمی برادری مداخلت کرتے ہوئے نیپال کو اس کے حقوق سے محروم ہونے سے بچائے۔ پرکاش مان سنگھ نے بان کی مون کو بتایا کہ نیپال میں ۲۴؍اپریل کو آنے والے زلزلے کے زخمیوں کے علاج اور بحالی کے کاموں میں غیرمعمولی دشواریوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل کو بتایا کہ بھارت کے ہاتھوں نیپال میں لاکھوں افراد کے لیے انتہائی مشکلات پائی جاتی ہیں۔ اگر بنیادی اشیا کی فراہمی کا راستہ روکنے کا سلسلہ جاری رہا تو نیپال میں لاکھوں افراد کی زندگی خطرے میں پڑجائے گی۔ بان کی مون نے صورت حال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے نیپالی نائب وزیراعظم کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لیں گے تاکہ ضروری اقدامات کی راہ ہموار کی جاسکے۔
نیپال نے معاشی ناکہ بندی کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھاکر بھارت کو حیرت زدہ کردیا۔ بھارتی قیادت کے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ نیپال اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔ نیپال عشروں سے بھارت کے سیاسی اور معاشی دباؤ کے تحت رہا ہے۔ ایسے میں یہ بات بھارتی قیادت کے لیے انتہائی حیرت انگیز تھی کہ پہلے سے مشاورت کے بغیر نیپال معاشی ناکہ بندی کا معاملہ اقوام متحدہ میں کیسے لے جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کی سفارتی ناکامی ہے کہ وہ نیپالی قیادت کے عزائم جاننے میں ناکام رہا اور معاملہ جنوبی ایشیا سے نکل کر اقوام متحدہ تک پہنچ گیا۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ تک پہنچنے سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی خِفَت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت نے نیپال کے نئے آئین کی مخالفت کرنے والے بھارتی نژاد نیپالیوں کی حمایت کرکے نیپال میں سیاسی جماعتوں کو ناراض کردیا ہے۔ تین بڑی نیپالی سیاسی جماعتوں نے مل کر بھارت کے خلاف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب یہ تینوں جماعتیں بیشتر معاملات میں بھارت کی مرضی کے خلاف کام کرنے کے ارادے میں دکھائی دے رہی ہیں۔ بظاہر ان کا اتحاد بھارت کے اثرات سے نکلنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
بھارت کی ریاست بہار، جھاڑ کھنڈ اور اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے نیپالی باشندوں کو نیپال میں مدھیشی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ بہتر معاشی امکانات کی تلاش میں نیپال میں آباد ہوئے ہیں۔ بھارت کے دباؤ پر نیپالی حکومت نے انہیں شہریت بھی دی ہے۔ ایک نیپالی سفارت کار نے بھارت کے شہر ممبئی سے شائع ہونے والے اخبار ڈی این اے (ڈیلی نیوز اینالسز) کو بتایا کہ مدھیشیوں کی حمایت کرکے بھارت نے باقی ماندہ نیپال میں اپنی ساکھ خراب کرلی ہے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے سرحدی تجارت بند نہیں کی اور کسی بھی طور کی معاشی ناکہ بندی نافذ نہیں کی۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مدھیشی نیپالیوں نے سرحدی علاقوں میں چیک پوسٹوں کا گھیراؤ کرکے پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیا سے بھرے ہوئے ٹرک روک لیے۔ بھارت کے اس مؤقف پر نیپال میں کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ بھارت کی مرضی کے بغیر ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ بھارت اگر سرحدی تجارت جاری رکھنا چاہے تو کوئی بھی اسے روکنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
نیپال نے اقوام متحدہ میں معاملہ اٹھایا تو بھارتی قیادت کو کچھ ہوش آیا اور اس نے گیارہویں دن ناکہ بندی ختم کرکے نیپال کے لیے بنیادی اشیا کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں نہیں ہوسکتا تھا۔ نئی دہلی میں نیپال کے سفیر دیپ کمار اپادھیائے نے بھارتی قیادت پر زور دیا کہ نیپال کے لیے پٹرولیم مصنوعات اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی بالکل نہ روکی جائے اور اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں تاکہ نیپال میں ناکہ بندی سے پیدا ہونے والے شدید منفی اثرات کا خاتمہ ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپالی سفارت کاروں نے بھارتی حکام سے یہ بھی کہا ہے کہ معاملات کو اس حد تک نہ بگاڑا جائے کہ نیپال کی حکومت مجبور ہوکر ہر معاملے میں چین کی طرف دیکھنے پر مجبور ہوجائے، گو کہ ایسا کرنا جغرافیائی اعتبار سے نیپال کے لیے انتہائی دشوار اور پریشان کن ہوگا۔
۲۰۰۶ء کے سیاسی بحران کے دوران بھارت کی اُس وقت کی حکمران جماعت کانگریس اور خفیہ ادارے ’’را‘‘ نے نیپال کے کمیونسٹ (مارکسسٹ) عناصر اور دیگر کرپٹ سیاست دانوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں نیپال میں سیاسی محاذ آرائی مزید شدت اختیار کرگئی۔ ۱۲؍نومبر ۲۰۰۵ء کو نیپال کے اِن بدعنوان اور غدار سیاست دانوں نے بھارت سے ایک سمجھوتا کیا جس کا بنیادی مقصد نیپال کے سیاسی بحران کو سنگین تر بنانا تھا۔ یہ سمجھوتا یقینی بنانے میں نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر اور بھارتی وزارت خارجہ کے مشیر ایس ڈی مُنی نے اہم کردار ادا کیا۔ ۱۵؍ستمبر ۲۰۰۸ء کو روزنامہ ’’ہندو‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’’ڈیلنگ وِد نیپال‘‘ میں ایس ڈی مُنی نے کھل کر اعتراف کیا کہ سیاسی بحران کو سنگین تر کرنے کے لیے بھارت نے تین نیپالی سیاسی جماعتوں کو ایک ارب روپے فراہم کیے تھے! گرجا پرشاد کوئیرالہ کے سوا تمام متعلقہ سیاست دان زندہ ہیں۔
نیپال کے باشندوں میں عمومی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے ملک کے حالات خراب کرنے میں بھارت کا ہاتھ رہا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ نیپال کو غیر مستحکم رکھنا بھارت کا خفیہ ایجنڈا ہے جس پر عمل کے لیے وہ نیپالی سیاست دانوں کو خریدتا رہتا ہے۔ جن سیاست دانوں کو خریدا جاتا ہے، وہ بھی اس بات کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے کہ انہیں بھارت کی طرف سے مدد مل رہی ہے۔ اپیندر یادو کی سربراہی میں قائم فیڈرل سوشلسٹ فورم کے رہنما اشوک رائے نے ستمبر کے آخری ہفتے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ ہم نے بھارت کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے (یا اس کی ایما پر) احتجاج کا طریقِ بدل دیا ہے اور اب ہم چیک پوسٹوں اور سرحدی علاقوں میں بنیادی اشیا فراہم کرنے والے ٹرکوں کا راستہ بند کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اشوک رائے نے یہ بھی کہا کہ بھارت نے ہمارے احتجاج کی حمایت کی ہے اور ہمارے احتجاج کو مستحکم کرنے ہی کے لیے بنیادی اشیا کی فراہمی روک دی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت نیپال سے ملنے والی سرحد کے علاقوں میں گڑبڑ کیوں چاہتا ہے اور عدم استحکام پیدا کرنے کے درپے کیوں ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت نیپال کے ان علاقوں کو ضم کرنا چاہتا ہے جن میں بہار اور اتر پردیش سے گئے ہوئے لوگ یا ان کی نسلیں رہتی ہیں۔ یہ سب کچھ سابق وزیراعظم آنجہانی مسز اندرا گاندھی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ کئی خطوں اور علاقوں کو بھارت کا حصہ بنادیں۔ اس منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ۱۹۹۵ء میں سِکّم کو بھارت کا حصہ بنالیا گیا۔ اس پر کسی نے شور نہیں مچایا، کسی بھی سطح پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ اسی منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے اب نیپال کے سرحدی علاقوں کو بھارت میں ضم کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔
ناگا لینڈ میں قائم ناگا نیشنل کونسل نے (جو بھارت کی اس ریاست کے اندر رہتے ہوئے اپنا الگ انتظامی ڈھانچا رکھتی ہے اور خود کو بھارت کا حصہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں) سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے سے متعلق بھارتی کوششوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ ناگا نیشنل کونسل کے چھ سرکردہ رہنماؤں نے حال ہی میں اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی دائمی رکنیت حاصل کرنے سے متعلق بھارتی کوششوں پر بالکل متوجہ نہ ہوں۔ ان رہنماؤں نے عالمی ادارے کو بتایا ہے کہ کس طور بھارت نے چھ عشروں سے شمال مشرقی بھارت کے علاقوں میں جبر کا ماحول بنا رکھا ہے، میانمار (برما) سے متصل ناگا لینڈ پر غیر قانونی قبضہ جمایا ہوا ہے، جموں و کشمیر کے لوگوں پر اپنی مرضی اور فوج تھوپ رکھی ہے اور جہاں کہیں بھی آزادی یا داخلی خود مختاری کے حق میں آواز اٹھتی ہے، اسے بری طرح کچل دیا جاتا ہے۔ ناگا رہنماؤں نے اقوام متحدہ کو یہ بھی بتایا کہ بھارتی فوج کو خصوصی قوانین کے تحت غیر معمولی اختیارات دیے گئے ہیں جن سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے، وہ حقوق اور علیحدگی کی ہر آواز کو کچل دیتی ہے۔
سلامتی کونسل میں دائمی رکنیت کے حصول کی بھارتی کوشش کے خلاف ایسا ہی ایک بیان شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں کے ۹ باغی گروپوں پر مشتمل یونائٹیڈ نیشنل لبریشن فرنٹ آف ویسٹرن ساؤتھ ایسٹ ایشیا نے بھی جاری کیا ہے۔ اس گروپ کے سربراہ ناگا لیڈر ایس ایس کھپلانگ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل میں بھارت کو دائمی رکنیت کا دیا جانا اس کے جابرانہ اطوار میں مزید شدت پیدا کرے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Nepal takes Indian blockade to UN”. (“weeklyholiday” Dhaka. Oct. 9, 2015)
Leave a Reply