
ویسے تو عمومی طور پر چھوٹی ریاستیں عسکری مہم جوئی میں کم ہی مشغول ہوتی ہیں کیوں کہ فوج کو تو صرف مضبوط ریاستوں کا آلہ کار تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ نیپال ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود بھی کئی صدیوں سے عسکری سفارت کاری میں ملوث رہا ہے۔ رانا شاہی خاندان، کہ جنھوں نے نیپال پر ۱۸۴۶ء سے ۱۹۵۱ء تک حکمرانی کی، ان کے برطانیہ کے ساتھ کافی گہرے تعلقات تھے اور اُنھوں نے ۵۸۔۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں برطانوی راج کی مدد کی تھی۔ پھر نیپال نے ۰۴۔۱۹۰۳ء میں تبت پر برطانوی مہم جوئی کی بھی حمایت کی، اس کے علاوہ عالمی جنگ میں بھی برطانیہ کی مدد کی۔ اس طویل تاریخ نے نیپال کو سفارت کاری میں عسکری ذرائع استعمال کرنے کا ہنر سکھا دیا ہے اور ان سفارتی تعلقات کی وجہ سے وہ اپنے جنوبی پڑوسی ممالک کے زیادہ قریب ہے۔
نیپالیوں کی غیر ملکی قوتوں کے لیے کرائے کے فوجیوں کے طور پر اُن کی جنگوں میں شریک ہونے کی تاریخ کافی پرانی رہی ہے۔نیپال کے گورکھا خصوصی طور پر اپنی جنگی ثقافت کی وجہ سے کافی مشہور ہیں۔لیکن نیپال کے لوگ بہت غربت اور مشکلات کا شکار رہتے ہیں،اس لیے اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نیپال یا کسی غیر ملکی فوج میں اپنا اندراج کروا کر غربت سے نجات پا سکیں۔
’’گورکھا‘‘ کی اصطلاح سلطنتِ گورکھا سے ماخوذ ہے، کہ جنھوں نے نیپال اور دوسری ہمالیائی ریاستوں کو فتح کیا تھا۔ البتہ ’’گورکھا‘‘ فوج کے دیگر سپاہیوں کا اس تاریخی ریاست سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ Magar, Gurung, Rai اور Limbu وہ بت پرست گروہ ہیں جنہیں عمومی طور پر سب سے پہلے فوج میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ جس کے نتیجے میں دوسرے بت پرست گروہ کے افراد نے اپنا خاندانی نام تبدیل کردیا تاکہ اُن کو بھی فوج میں بھرتی ہونے کا موقع مل سکے۔
نیپالی فوج اقوامِ متحدہ امن مہم کی بھی شراکت دار ہے۔ بلکہ نیپال کے کئی نوجوان فوج میں شامل ہی اسی امید کے ساتھ ہوتے ہیں کہ انھیں کم مدت کے لیے اچھی تنخواہ پر اقوامِ متحدہ کی کسی مہم پر روانہ کر دیا جائے۔ برطانیہ،بھارت اور اقوامِ متحدہ میں خدمت انجام دینے کے علاوہ، نیپال کے گورکھا سنگاپور میں پولیس اور برونائی میں گورکھا ریزرو یونٹ کی حیثیت سے بھی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ تاریخی طور پر، نیپال کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کا تعین جنگ اور فوجی امور کی بنا پر کیا جاتا تھا۔ مگر اب صورتحال کافی تبدیل ہو گئی ہے۔نیپال اب چین کے ساتھ عسکری تعلقات کو پہلے کے مقابلے میں مزید بہتر کر رہا ہے۔
۱۹۸۹ء میں بھارت نے نیپال پر کافی پابندیاں عائد کردیں تھیں،اس وقت ملک کی حکمرانی ایک آمرانہ پنچایت کے پاس تھی۔پابندی کی اصل وجہ یہ تھی کہ نیپالی حکومت نے چین سے ہتھیاروں کی خریداری کی تھی۔کچھ ہی سالوں میں پنچایت حکومت ختم ہوگئی اور نیپال میں کثیر الجماعتی جمہوریت قائم ہوگئی۔ ۲۰۰۵ء میں نیپال کے بادشاہ Gyanendra نے بھی چین سے ہتھیاروں کی خریداری کی، جس کے کچھ ہی سالوں بعد اس کو معزول کر دیا گیا اور نیپال کو ایک جمہوری سلطنت میں تبدیل کر دیا گیا۔اس سے یہ بات تو صاف ظاہر ہو جاتی ہے کہ نیپال اور چین کے بڑھتے ہوئے عسکری تعلقات نے ہمیشہ بھارت کے خدشات میں اضافہ کیا ہے، کیوں کہ شاید بھارت کو ابھی بھی ۱۹۶۲ء میں چین کے ساتھ ہونے والی جنگ کی تلخیاں یاد ہیں۔
نیپال کی وہ حکومتیں جن کو بھارت اپنے لیے خطرہ سمجھتا تھا، وہ تاریخی طور پر زیادہ نہیں چل سکیں۔لیکن ۲۰۱۵ ء میں بھارتی ناکہ بندی کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی، بھارتی ناکہ بندی کے وقت نیپال کی کمیونسٹ پارٹی United Marxist Leninist برسرِ اقتدار تھی۔ بھارت کی جانب سے نیپال کے اندرونی معاملات میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور پھر اس ناکہ بندی سے عام آدمی بہت زیادہ متاثر ہوا اور دوسری طرف حکومت کو بھارت کے سامنے ڈٹ جانے کی وجہ سے بھر پور عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ ۲۰۱۷ء کے انتخابات کے بعد وہ نیپال کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔پھر ان کا ملک کی تیسری بڑی جماعت کے ساتھ سیاسی اتحاد سونے پر سہاگہ ثابت ہوا۔اس اتحاد کی وجہ سے اب پارلیمان کی دو تہائی اکثریت ان کو حاصل ہے۔ اس واضح اکثریت کی وجہ سے ماضی میں جوفیصلے سیاسی طور پر ممنوع تھے وہ اب نہیں رہیں گے۔جیسا کہ ’’چین کے ساتھ فوجی تعلقات‘‘۔
نیپال نے ابھی بھی بھارت کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں جاری رکھی ہوئی ہیں، جس میں تازہ ترین مشق Surya Kiran XIII کا آغاز جون ۲۰۱۸ء میں ہی کیا گیا۔مگر دوسری جانب نیپال نے چین کے ساتھ بھی فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے، جس کی وجہ سے نیپال کی عسکری سفارت کاری بالکل تبدیل نظر آرہی ہے۔بلکہ نیپال بھارت میں حال ہی میں ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے جو کہ BIMSTEC ریاستوں کے ساتھ ہونی تھیں، مگر دوسری طرف چین کے ساتھ مشقیں جاری رکھی ہوئی ہیں، جن کا آغاز ۱۷ ستمبر کو صوبہ سچوان میں ہوا۔
یہ جڑواں فیصلے شاید نیپال اور بھارت کے تعلقات خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کو بہت جلد اس بات سے آگاہی حاصل ہوگئی کہ نیپال اپنے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار کے ساتھ ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں کے فیصلے سے پیچھے ہٹ رہا ہے اور اس کی وجہ نیپال کی جانب سے چین کے ساتھ معاہدے پر کیے جانے والے دستخط ہیں۔ اس معاہدے کے تحت نیپال کے جہاز چینی بندرگاہوں کا استعمال کر سکیں گے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے شاید بھارتی فوج میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔بھارتی آرمی چیف بپن راوت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ نیپال اور بھوٹان کو اپنے جغرافیائی حالات کی وجہ سے بھارت کے ساتھ ہی رہنا ہوگا‘‘۔ مگر چین کی جانب سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے آغاز نے شایدان تمام ظاہری رکاوٹوں کو ختم کر دیا ہے جو کہ صدیوں سے موجود تھیں۔
چین کے ساتھ نئی عسکری مشقوں کے علاوہ، نیپال کی مسلح پولیس فورس چین سے امداد حاصل کرتی رہی ہے، تاکہ دونوں ممالک اور اُن کی مشترکہ سرحد کو کسی بھی ناپسندیدہ سرگرمی سے محفوظ رکھ سکیں۔ ماضی میں نیپال کی چین سے اسلحہ کی خریداری نے بھارت کو بُری طرح متاثر کیا،جو کہ نیپال میں حکومتوں کے تبدیل ہونے کی وجہ بنی۔نیپال کی چین کے ساتھ موجودہ عسکری سفارت کاری شاید بھارت اور نیپال کے تعلقات کو مزید کشیدہ کردے۔
اگر چین ’اقوامِ متحدہ امن مہم‘ میں نیپال کی موجودگی کو بڑھانے میں اس کی حمایت کرے اور ان کی سیکورٹی فورسز کو اپ گریڈ کرے، ان کے فوجی اور پولیس اہلکاروں کی تربیت جاری رکھے تو دونوں ملکوں کے تعلقات آپس میں مزید بہتر ہو سکتے ہیں۔اور سب سے بڑھ کر اقتصادی ترقی کی وجہ سے نیپال کے نوجوانوں کی غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے کی خواہش بھی ختم ہو جائے گی، اور پھر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکے گی کہ کوئی نیپالی نوجوان چین کے خلاف جنگ میں کبھی بھی بھرتی نہیں ہوگا، جیسا کہ Boxer بغاوت کے دور میں ہواتھا۔
(ترجمہ: عبدالرحیم کامران)
“Nepal’s military diplomacy”. (“thediplomat.com”. Sept. 25, 2018)
Leave a Reply