گزشتہ ماہ سویڈن کی نئی حکومت نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ برطانیہ کے دارالعوام اور آئرلینڈ کی سینیٹ نے بھی اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس عمل کی پیروی کریں۔ اب فرانس کے سوشلسٹ حکمران بھی اسی سے ملتی جلتی ایک قرارداد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یورپی یونین کی نئی سربراہ برائے امورِ خارجہ فیڈریکا موگرینی نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی مدت کے دوران ایک فلسطینی ریاست بنتے دیکھنا چاہتی ہیں۔
کیا فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے ہٹ دھرم رویہ پر اسرائیل اور یورپ کے تعلقات ٹوٹنے کی جانب بڑھ رہے ہیں؟ کیا اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے خلاف غم و غصہ اور مقبوضہ عرب زمین پر یہودی بستیوں کو توسیع دینے کا معاملہ، جو بین الاقوامی قانون کے لحاظ سے ممنوع ہے، یورپ کو مائل کر رہا ہے کہ وہ علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیں؟
یہودی ریاست کے غیر مشروط اور ناگزیر سرپرست امریکا کے مقابلے میں یورپ کے تعلقات اسرائیل کے ساتھ ہمیشہ پیچیدہ نوعیت کے رہے ہیں۔ یورپ تقریباً چار دہائیاں قبل ہی فلسطینیوں کے لیے علیحدہ ریاست کے حق کو تسلیم کر چکا ہے، لیکن سیاسی طور پرنظر انداز کمزور معاشی قوت ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ اپنے آپ کویورپی یونین کا کرم فرما ثابت کرے اور یہ تاثر دے کہ چونکہ یورپی یونین کے ارکان میں سے نہ صرف جرمنی کی تاریخ نازیوں کی یہود دشمنی اور یہودی ہولو کاسٹ سے عبارت ہے بلکہ بیشتر کا ماضی یہود دشمنی پر مبنی ہے، لہٰذا یورپی یونین کو اپنے ماضی کا کفارہ ادا کرنا ہے۔
ابھی تک تو متواتر اسرائیلی حکومتیں کسی نہ کسی طرح یورپ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ ان کی جانب سے کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ اسرائیل کو امن مذاکرات کے عمل سے باہر کردے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ امن مذاکرات کا یہ عمل بہت عرصہ پہلے ہی اپنا برائے نام وجود بھی کھو چکا ہے، لیکن اسرائیل یہ حقیقت سمجھنے میں دیر کر رہا ہے کہ یورپ کے جذبات میں تبدیلی آئی ہے اور یہ تبدیلی فوری نہیں بلکہ ٹھوس ہے جو بالآخر اسرائیل کی قانونی حیثیت کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں مغربی یورپ میں اسرائیل کے خلاف مخاصمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی کے لیے گیلپ کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ، اسپین، جرمنی، فرانس اور اٹلی میں دو تہائی سے تین چوتھائی کے درمیان لوگ اسرائیل کے خلاف منفی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔
سویڈن یورپی یونین کا پہلا رکن ملک نہیں جس نے فلسطین کو تسلیم کیا، بلکہ آٹھ دیگر ارکان بھی اسے تسلیم کرچکے ہیں، اگرچہ ان تمام ممالک نے یہ فیصلہ یورپی یونین میں شمولیت سے پہلے کیا تھا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ نصف یورپی یونین، یعنی چودہ ارکان بشمول فرانس، دسمبر ۲۰۱۲ء میں اقوام متحدہ میں فلسطین کو بطور مبصر ریاست شامل کرنے کے حق میں ووٹ دے چکے ہیں۔ نیتن یاہو حکومت نے بظاہر تو اس ووٹ کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا، لیکن سفارتی سطح پر اس فیصلے پر اثرانداز ہونے کے لیے زمین آسمان ایک کردیے، اس ووٹنگ میں اسرائیل کے لیے حیرت کی انتہا نہ رہی جب جرمنی نے ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔
حالانکہ یہ حیران کن بات نہیں تھی، کیونکہ ایک دہائی قبل دوسری انتفاضہ یعنی فلسطینیوں کی آزادی کی تحریک کے دوران جرمنی ووٹنگ سے الگ رہا تھا، البتہ فروری ۲۰۱۱ء میں جرمنی نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی توسیعی بستیوں کے خلاف ووٹ دیا۔ اس ووٹنگ کے فیصلے کو امریکا نے چودہ کے مقابلے میں ایک ووٹ سے ویٹو کر دیاتھا۔
جرمن چانسلر انجیلا مرکل کا نیتن یاہو پر سے پہلے ہی اعتماد اٹھ چکا ہے۔ لیکن جرمن سفارت کار کہتے ہیں کہ برلن اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ اسرائیل کی نہ تو یہ اتحادی حکومت اور نہ ہی کوئی اور متوقع اتحاد اس بات پر تیار، یا اس قابل ہو گا کہ مقبوضہ سرحدوں کو پیچھے لے کر جائے تاکہ فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہو سکے۔ پھر ایک ایسی صورت حال میں کہ جب تمام اسرائیلی حکومتوں نے اہم یہودی بستیوں کو مستقل کرنے کا ارادہ کیا ہے اور نیتن یاہوکی جانب سے بھی یروشلم کے مشرق اور شمال میں یہودی بستیوں کو توسیع دینے کے منصوبے کی تجدید سامنے آئی ہے، ملحقہ فلسطینی ریاست کا قیام پہنچ سے دور دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ برس یورپی یونین جرمنی کی حمایت کے بغیر شاید وہ قوانین لاگو نہیں کر پاتا، جس میں غیر قانونی یہودی بستیوں میں سرگرم اسرائیلی اداروں کی مالی معاونت کو ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اسرائیل یورپی یونین کی وہ واحد غیر رکن ریاست ہے جسے یورپی یونین نے ۸۰؍ارب یورو لاگت کے تحقیق و ترقی پروگرام “Horizon 2020” میں شامل کیا ہے۔ اس طرح اسرائیل کے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل بہترین دماغوں کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ یورپی عوام کا پیسہ استعمال کریں بشرطیکہ یہ پیسہ اسرائیلی توسیعی بستیوں میں استعمال نہ ہو۔
اگرچہ یہ قوانین اس بین لاقوامی مہم سے کافی مختلف ہیں جس میں اُس وقت تک اسرائیل کے با ئیکاٹ کی بات کی جاتی ہے، جب تک وہ مقبوضہ مغربی کنارے اور عرب مشرقی یروشلم سے نکل نہیں جاتا، تاہم سیاسی لحاظ سے ان کا مفہوم کم و بیش یہی ہے۔ کچھ یورپی پنشن فنڈز نے یورپی یونین کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے اپنا پیسہ اُن اسرائیلی بنکوں سے نکالنا شروع کردیا ہے جن کی شاخیں غیر قانونی بستیوں میں قائم ہیں۔ غالباً اس عمل کے پیچھے سماجی سطح پر متحرک اسرائیل مخالف لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔
فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا رجحان بڑھنے کا امکان ہے۔ اگر یورپی یونین سے باہر بات کی جائے تو سویڈن ایسا کرنے والا ۱۳۵؍واں ملک ہے۔ سابقہ اور موجودہ اسرائیلی رہنماؤں نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل مسئلہ فلسطین کا کوئی حل نکالنے پر تیار نہیں ہوتا تو اسے بین الاقوامی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے باوجود بھی اگر ایک علیحدہ ریاست کے حصول کی راہیں مسدود رہیں تو فلسطینی ایک ریاست کے اندر مساوی حقوق کے لیے جنوبی افریقا کی طرز پر مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ ابھی تک تو یورپی یونین نے غیر قانونی بستیوں ہی کو نشانہ بنا یا ہے، لیکن اس کے جو بھی ارادے ہوں، یہ کہنا دشوار نہیں کہ بالآخر یورپ کے باشندے ایک زیادہ سخت اور عمومی بائیکاٹ کے لیے بھی آواز اٹھائیں گے۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“Netanyahu is losing Europe’s goodwill, even Germany’s”. (“Financial Times”. Nov.10, 2014)
Leave a Reply