
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ۲۵ نومبر کو کابینہ کو بتایا کہ چاڈ کے صدر ادریس دیبی کا دورۂ اسرائیل اس امر کا غمّاز ہے کہ اقوامِ عالم میں اسرائیل کا درجہ بلند ہو رہا ہے۔ اگلے ہی دن نیتن یاہو نے چیک جمہوریہ کے صدر میلوز زیمن کا خیر مقدم کیا جنہوں نے از راہِ تفنّن کہا کہ وہ کوئی آمر تو ہیں نہیں کہ چیک جمہوریہ کے سفارت خانے کو تل ابیب سے (مقبوضہ) بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کردیں مگر خیر، وہ اس حوالے سے وہ سب کچھ کریں گے جو کیا جاسکتا ہے۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نیتن یاہو اور سوڈان کے صدر عمر البشیر کے درمیان رابطے ہیں۔ عمر البشیر کے خلاف جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے بین الاقوامی وارنٹ موجود ہے۔ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ اب عمر البشیر کے لیے وقت آگیا ہے کہ اسرائیل سے رابطوں کا اعتراف کریں اور واشنگٹن میں اپنے ملک کی پوزیشن بہتر بنانے کے حوالے سے جو کچھ بھی کیا ہے اس کے حوالے سے ’’سفارتی کرنسی‘‘ میں کچھ ادا کریں، یعنی اسرائیل سے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کریں۔
اب یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اسرائیل نے چاڈ، سوڈان اور دیگر ممالک کو بیک ڈور چینل کے ذریعے اسلحہ بھی فروخت کیا ہے۔ چاڈ کے صدر ادریس دیبی نے مقبوضہ بیت المقدس میں کہا کہ اس صدی کے سب سے بڑے ناسور یعنی دہشت گردی پر چاڈ اور اسرائیل کا موقف یکساں ہے۔
اسرائیل کے موقر روزنامے ہاریز نے ۱۹؍اکتوبر کی اشاعت میں ۱۵ ریاستوں کے ۱۰۰ سے زائد ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دنیا بھر میں مطلق العنان حکمران اپنے مخالفین پر نظر رکھنے اور بنیادی حقوق کچلنے کے لیے اسرائیل کے فراہم کردہ خفیہ آلات استعمال کرتے ہیں۔ خود نیتن یاہو کو یہ کہنے میں کچھ باک محسوس نہیں ہوتا کہ اسرائیل کو عالمی برادری میں بلند مقام دلانے کے لیے انہوں نے اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ (مطلق العنان حکمرانی والی) ریاستوں میں معاشی امور سے متعلق ٹیکنالوجی کو سیکورٹی اور انٹیلی جنس سے متعلق آلات کے ساتھ جوڑ کر زیادہ سے زیادہ سیاسی و سفارتی گنجائش پیدا کی جائے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مطلق العنان حکمرانوں کو اسلحہ اور جاسوسی کے آلات فروخت کرکے اور تعلقاتِ عامہ کے حوالے سے مساعی سے عالمی برادری میں اسرائیل کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے اور خود نیتن یاہو کے لیے بھی یہ سب کچھ سیاسی سطح پر غیر معمولی افادیت کا حامل ہے۔ نیتن یاہو کا خیال ہے کہ غیر معمولی نوعیت کی عسکری ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ میڈیا میں زیادہ ایکسپوژر حاصل کرسکتے ہیں، نمایاں ہوسکتے ہیں۔ اس پورے معاملے میں نہ غرب اردن پر اسرائیلی قبضے کی کوئی بات ہوتی ہے نہ وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کا کچھ ذکر ہوتا ہے۔ اور ہاں، غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی اقتصادی ناکہ بندی کا تذکرہ بھی کسی سطح پر نہیں کیا جاتا۔ حال ہی میں نیتن یاہو کے عمان کے دورے، اس سے قبل جولائی میں ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ کے دورے اور اپنے ملک میں چاڈ اور چیک جمہوریہ کے صدور کے خیرمقدم سے نتین یاہو کی غیر معمولی اور منفرد اہلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ غرب اردن پر قبضہ مزید مستحکم کرسکتے ہیں، فلسطینیوں کو سفارتی سطح پر تنہا کرسکتے ہیں، یورپی برادری سے تعلقات بہتر بناسکتے ہیں اور عرب مسلم دنیا کی طرف سے بائیکاٹ کی دیوار میں شگاف ڈال سکتے ہیں۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے نہ آخری بار کہ نیتن یاہو نے عوام کے کمزور حافظے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ نوجوان نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے انہوں نے ۱۹۹۱ء میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں امن کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں ایک درجن عرب ریاستیں بھی شریک ہوئی تھیں۔ دو سال بعد امریکا کی امن ٹیم کے سربراہ ڈینس راس نے کہا تھا کہ میڈرڈ کی امن کانفرنس میں اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کا بیج ڈالا گیا تھا۔ یہ جملہ اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر Eytan Ben-Tsur کی کتاب The Road to Peace Crosses Madrid سے لیا گیا ہے۔ اس امن کانفرنس نے روس اور چین کے دروازے بھی اسرائیل کے لیے کھولے۔ بھارت سے جامع سفارتی تعلقات کی راہ ہموار ہوئی اور جنوبی کوریا سے بھی قربت پیدا کرنے کا موقع پیدا ہوا۔
نیتن یاہو اس حقیقت کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں کہ یورو میڈیٹیرینین پارٹنر شپ (جسے بارسلونا پروسیس بھی کہا جاتا ہے) کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں۔ اس شراکت داری کی ۲۳ ویں سالگرہ ۲۷ نومبر کو منائی گئی۔ شمعون پیریز کی حکومت میں تب کے وزیر خارجہ ایہود بارک نے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے نتیجے میں اسرائیل کے لیے پہلی بار آزاد تجارت کی راہ ہموار ہوئی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیلی مصنوعات پر یورپی یونین میں ٹیرف کا بتدریج خاتمہ ہوا۔ اس معاہدے کا یہی ایک میٹھا پھل نہ تھا۔ ۱۹۹۳ء میں فلسطینیوں سے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں طے پانے والا امن معاہدہ بھی دی بارسلونا پروسیس ہی کا نتیجہ تھا۔ دی بارسلونا پروسیس کے دیگر ارکان میں الجزائر، تیونس، ترکی، اردن، لبنان، مالٹا، مصر، قبرص، فلسطینی اتھارٹی اور مراکش بھی شامل تھے، جبکہ لیبیا کو مبصر کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔ دی بارسلونا پروسیس کا بنیادی مقصد بحیرۂ روم کے خطے میں حقیقی اور پائیدار امن یقینی بناکر خطے کے تمام ممالک کے درمیان اقتصادی اشتراکِ عمل کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا تھا۔ ۱۹۹۵ء میں اسرائیل اور یورپ کے درمیان دی ایسوسی ایشن معاہدہ طے پایا جو اب تک برقرار ہے جبکہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومتوں نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کو آباد کرنے کا عمل روکنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
اگر تب نیتن یاہو کی حکومت ہوتی تو یورپی یونین معاہدے پر دستخط ہرگز نہ کرتی کیونکہ نیتن یاہو انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے ان اداروں کو بھی اذیت دینے سے باز نہیں آتے جنہیں یورپی یونین کی طرف سے امداد ملتی ہے۔ اگر ۱۹۹۳ء میں اوسلو میں امن معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو اردن کبھی ۱۹۹۴ء میں اس امن معاہدے پر دستخط نہ کرتا جس کے نتیجے میں اس نے رامت گین میں سفارت خانہ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر اس وقت اسرائیل میں نیتن یاہو کی حکومت ہوتی اور ان کی کابینہ میں نیفتالی بینیٹ اور ایلت شیکید جیسے انتہا پسند ہوتے تو اسرائیل خلیجی ریاستوں میں سفارتی مشن کھولنے میں کامیاب نہ ہوا ہوتا اور سعودی عرب و بحرین نے ۲۰۰۴ء اور ۲۰۰۵ء میں اسرائیل کے بائیکاٹ کے معاہدے سے الگ ہونا گوارا نہ کیا ہوتا۔
نیتن یاہو اس حقیقت سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں کہ کم ہی لوگوں کو ۲۷ نومبر ۲۰۰۷ء کو منعقدہ ایناپولس کانفرنس یاد ہوگی، جس میں سیاست کے مغربی نو گزے پیروں کے ساتھ مصر اور اردن نے بھی اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش کی دعوت قبول کرکے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ اور فلسطینی مقتدرہ کے صدر محمود عباس کے ساتھ کھڑے ہونے کی دعوت قبول کی تھی۔ ایناپولس کانفرنس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، عمان، سعودی عرب، قطر، یمن، عراق، پاکستان، ماریطانیہ، انڈونیشیا، ملیشیا، الجزائر، تیونس اور سینیگال نے بھی شرکت کی تھی۔ اسرائیلی وزیر اعظم اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر نے دو ریاستوں کے نظریے کو قبول کرتے ہوئے یہودیوں اور فلسطینیوں کے لیے الگ الگ مگر ساتھ ساتھ ریاست کے قیام پر رضا مندی ظاہر کی تھی اور طے کیا تھا کہ اس حوالے سے ایک سال کے اندر جامع سمجھوتے تک پہنچ جائیں گے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ ایہود اولمرٹ بدعنوانی کے الزامات پر جیل گئے اور نیتن یاہو کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل گیا۔ اوسلو اور اینوپولس سے چلنے والی امن کی ہواؤں کی جگہ دہشت گردی اور ناکہ بندی کے جھکڑوں نے لے لی۔ ساتھ ساتھ قبضے اور اخراج کے جھکڑ بھی چلے۔ انصاف اور مساوات کی بنیاد پر کام کرکے آگے بڑھنے کے بجائے اسرائیل ہتھیار بیچ کر دوست خرید رہا ہے اور سفارتی معاہدوں کے ذریعے عالمی سیاست میں اپنا قد بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ۱۶ سال پہلے کے The Arab Initiative نے مسلم دنیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہتر بنانے اور ماحول کو پرامن رکھنے کے حوالے سے جو کچھ طے کیا تھا اس پر اب تک عمل کیا جارہا ہے مگر اسرائیلی وزیر اعظم مطلق العنان حکمرانوں اور نسل پرست قائدین پر زیادہ متوجہ ہوکر اپنا اور اپنے ملک کا قد اونچا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Netanyahu’s diplomacy: Buying friends by selling weapons”.(“al-monitor.com”. November 29, 2018)
Leave a Reply