
افغانستان کا ایک بحران سے دوسرے بحران کی جانب سفر جاری ہے۔افغانستان اب وہ جگہ نہیں رہی جہاں انتہا پسند ایک دوسرے کے ساتھ مل کر،دہشتگردی کو استعمال کر کے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ اب ایسی جگہ بنتی جا رہی ہے جہاں انتہا پسند اپنے غلبے کے حصول کے لیے لڑ رہے ہیں اور بیرونی طاقتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہو گئی ہیں۔ یہ سب باتیں بھارت کی اس ملک کے بارے میں طویل مدتی سوچ پر سوال اٹھاتی ہے۔
بھارت کی افغان پالیسی کی بنیاد،خاص کر ۱۹۷۹ء کی روسی مداخلت کے بعد، اس بات پر تھی کہ ملک کی سیاسی اور سلامتی کے معاملات زیادہ تر دوستانہ تعلقات والی بیرونی طاقت کے ہاتھ میں ہوں گے۔اور بھارت بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اسی جیسے دوسرے شعبہ جات میں سرمایہ کاری کرے گا۔ اور سیکورٹی کے شعبے میں اپنا کردار محدود رکھا جائے گا۔ نوے کی دہائی میں بھارت کی افغانستان پالیسی روس اور ایران کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، ان تین ریاستوں کے درمیان علاقائی اتحاد ایک کامیاب حکمت عملی تھی۔ان ممالک نے باہمی اختلاف کے باوجود طالبان کے خلاف شمالی اتحاد کی حمایت کی۔ اس حکمت عملی نے بھارت کو تنازعہ میں براہ راست ملوث ہونے سے بچنے کا موقع فراہم کیا۔
یہ ممکنہ طور پر ایک قابل قبول انتخاب تھا، جہاں دیگر اہم اداکار بھارتی مفاد اور مقاصد کے مطابق کردار ادا کر رہے تھے۔ مگر آج تو منظر نامہ بدل چکا ہے۔ روس اور ایران کا نقطہ نظر اب بھارت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ روس کی افغان طالبان اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری سے اس بات کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ ماسکو، بھارت کے ساتھ مل کر بنائی جانے والی سابقہ پالیسی سے منہ موڑ سکتا ہے۔ افغان قیادت، افغانی سربراہی اور افغان کنٹرول مصالحتی عمل والے بھارتی موقف کو ماسکو اور تہرا ن چیلنج کر رہے ہیں۔بھارت افغانستان میں استحکام برقرار رکھنے کے لیے کابل کی امریکی مدد پرانحصار کرتا ہے اور اس کی حمایت کرتا ہے،کیوں کہ اسے پاکستان کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔ لیکن کیا امریکا پر اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ پاکستان پر بھارتی موقف اس کے روس اور ایران سے تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے۔
حالات کی اس تبدیلی کے پیش نظر بھارت کو افغانستان پر اپنی طویل مدتی حکمت پر نظر ثانی کرنا ہو گی،اور تنازع کے سفارتی حل کے لیے کی جانے والی کو ششوں میں فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔
روس کے بعد کا افغانستان
۱۹۸۹ء میں افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد ملک کو مذہبی، قبائلی، نسلی بنیادوں پر تقسیم کا سامنا کرنا پڑا اور ملک میں خانہ جنگی پھیل گئی۔۱۹۹۶ء میں طالبان کے عروج کے بعداور ان کی طرف سے کی جانے والی جہادی تنظیموں (مثلاً القاعدہ) کی مددکی وجہ سے خطے کی تمام طاقتیں ہی انھیں اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگیں،سوائے پاکستان کے،جو طالبان حکومت پر کمزور مگر مستقل کنٹرول رکھے ہوئے تھا۔ نوے کے عشرے میں بھارت کی افغان پالیسی بیرونی طاقتوں پر منحصر تھی۔جیسا کہ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۰ ء تک رہنے والے بھارت کے سابق سیکرٹری خارجہ للت مان سنگھ نے کہا کہ’’ہم (بھارت) جانتے تھے کہ ہم طالبان دور میں شمالی اتحاد کے قیام کے دوران سیکورٹی کردار ادا کر سکتے ہیں، اور چونکہ اس وقت روس اور ایران بھی ایک صفحے پر تھے،اس لیے ہم آسانی کے ساتھ فوجی امداد بھی دے سکتے تھے۔ہمیں راستوں کے بارے میں بھی کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ ہمیں ایرانیوں کی بھرپور مدد حاصل تھی، اس لیے شمالی اتحاد کو عسکری مدد کی فراہمی کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا مگر ہم یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت اکیلے کام نہیں کر سکتا تھا، افغان کی سیکورٹی صورتحال میں بھارت خود کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا‘‘۔
نوے کی دہائی میں بھارت، روس اور ایران ایک ساتھ تھے اور یہ تینوں ممالک خطے میں امریکا کی موجودگی کو ناپسند کرتے تھے۔ روس اور امریکاکے تعلقات پر سرد جنگ کے اثرات تھے، جبکہ پاکستان کے لیے امریکی امداد بھارت کی تشویش کا اہم سبب تھا اور انقلاب کے بعد ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ تھے۔
تینوں ممالک طالبان کو اپنی داخلی سلامتی کے لیے ایک خطرے کے طور پر بھی دیکھتے تھے۔ ایران کے لیے مشرقی سرحد پر سعودی نواز سنی حکومت خطر ہ تھی، ماسکو کو خدشہ تھا کہ طالبان نے القاعدہ کے حمایت سے افغانستان میں اقتدار مضبوط کیا تھا جس کی وجہ سے چیچنیا میں اسلامی تحریکیں مضبوط ہوسکتی تھیں اور بھارت کی نظر میں طالبان پاکستان کی بنائی ہوئی حکومت تھی جو کشمیر میں جاری شورش میں اضافے کا سبب بن سکتی تھی۔
افغانستان میں مختلف جنگجو گرپوں کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کی جانے والی اقوام متحدہ کی کوششوں کی ناکامی کے بعد ۱۹۹۶ء میں ایران نے تنازعے پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی نے بھارت کو کانفرنس سے الگ کرنے کے پاکستانی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ جس پر پاکستان نے کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا۔اس سے ایک ہفتے قبل ہی بھارتی صدر کے آر نارائن نے افغانستان اور کشمیر پر تبادلہ خیال کے لیے تہران کا دورہ کیا تھا، جو ان کے لیے کافی حوصلہ افزا ثابت ہوا تھا۔
اس سے قبل بھی بھارت اور ایران کےآپس میں مضبوط تعلقات تھے۔ پاکستان کے سابق صدر ضیاالحق اور انکے بعد اسلام آباد میں آنے والی قیادتوں نے عملی طور بھارت اور ایران کے تعلقات کو مضبوط ہونے سے روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ناکام رہے۔صدر رفسنجانی نے اپریل۱۹۹۵ء اور ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے جنوری ۱۹۹۶ء میں بھارت کا دورہ کیا، یہ دورے تزویراتی مسائل پر ہم آہنگی میں اہم ثابت ہوئے۔ ان دوروں نے پاک امریکا مضبوط تعلقات کے تاثر کو مزید گہرا کر دیا جو بھارتی مفادات کیلیے خطرناک ہوسکتے تھے۔ ماسکو سے جوہری ریکٹرز حاصل کرنے اور طالبان کو اسلام آباد کی مدد سے کی گئی امریکی تخلیق قرار دینے کے بعد تہران اور واشنگٹن کے تعلقات بھی سخت کشیدہ تھے۔دوسری طرف افغانستان میں طالبان کے عروج اور پاکستان کے اندر جاری شیعہ عسکریت پسندی نے اسلام آباد اور تہران کے درمیان تعلقات کو معمول پر نہ آنے دیا۔ نوے کی دہائی کی درمیان اور آخر میں بھارت کی جانب سے ایران کی سفارتی حمایت نے بھی مزید کام کیا، جب بھارت نے ایران کو دہشتگردی سے منسک کرنے کی امریکی کوششوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ماسکو کی جانب سے طالبان کیخلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی کے بعد افغانستان پر بھارت، ایران اور روس کا اسٹریٹجک اتحاد مزید مضبوط ہوگیا۔ اکتوبر ۱۹۹۶ء میں روسی صدر بورس یلسن کے بین الاقوامی امور کے مشیر ولادی میر لوکین نے کہا کہ ایران سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں کھلی امریکی مداخلت دراصل نا عاقبت اندیشی کا نمونہ ہے۔، ماسکو طالبان کی ایک بالادست قوت کی طور پر ابھرنے کی وجہ سے فکر مند تھا۔ ماسکو اس وقت پہلی چیچن جنگ ہار چکا تھااور ناگوروکارابخ کی خونی جنگ میں ایک کمزور جنگ بندی قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف تھا، تا جک خانہ جنگی ابھی خاتمے سے دورتھی اور جارجیا میں ہونے والی خانہ جنگی کی یادیں بھی ابھی تازہ تھیں،لیکن ماسکو طالبان کی مخالفت کے لیے پر عزم تھا۔ ماسکو نے افغان سرحد کے قریب تاجکستان میں پہلے ہی ایک ڈویژن فوج تعینات کر رکھی تھی۔
اکتوبر۱۹۹۶ء میں ہی قازقستان، کرغزستان، ازبکستان اور روس نے قازقستان کے شہر الماتے میں خطے کی سلامتی اور استحکام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ ان ممالک نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ طالبان علاقائی سلامتی، روسی کامن وہیلتھ کے ارکان ممالک اور خطے کے ممالک کے قومی مفاد کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔طالبان کے عروج کی وجہ سے روسی کامن وہیلتھ کے ممبر ممالک اپنی زمین پر روسی موجودگی کے بارے میں فکرمند نہیں تھے، وہ مسئلے کے حل کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار تھے مگر اجلاس کے حتمی نتائج میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ ترکمانستان اس وقت طالبان کو بجلی فراہم کر رہا تھا اور افغانستان میں موجود تمام شراکت داروں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا تھا تاکہ تیل پائپ لائن کے لیے محفوظ راستے کو یقینی بنایا جاسکے، جس کے لیے امریکا اور ارجنٹائن کی کمپنیاں زبردست لابنگ کر رہی تھیں۔
الماتے اجلاس میں روسی کامن وہیلتھ کے ممبران نے طالبان سے فوجی سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا اور ایسا نہ کرنے پر مناسب ردعمل دینے کی دھمکی دی۔ روسی حمایت برقرار رکھنے کے لیے بھارت کے دفتر خارجہ نے الماتے اجلاس کے فیصلے کی بھرپور انداز میں توثیق کردی۔
یہاں ایک مشکل تھی، بھارتی پالیسی ساز طالبان سے رابطہ کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے یہاں تک کے غیر سرکاری تعلقات کے بارے میں بھی تذبذب کا شکار تھے، مئی ۱۹۹۷ء میں مزار شریف پرطالبان کے قبضے نے طالبان کے بائیکاٹ کرنے کی پالیسی پر سے بھارتی اعتماد کر ہلا کر رکھ دیا۔ شہر پر قبضے کے چند دن بعد بھارتی وزارت خارجہ ایک محتاط بیان کے ساتھ سامنے آیا کہ ’’افغانستان کی نئی صورتحال مکمل طور پر اندرونی معاملہ ہے، مزید کہا گیا کہ کسی بیرونی مداخلت کے بغیر افغانی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔اس کے بعد بھارتی ذرائع ابلاغ نے کہا کہ حکومت طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے، رپورٹ کے مطابق وزارت میں غالب سوچ یہی تھی کہ طویل مدتی قومی مفاد کے لیے ’’بھارت کو افغانستان میں حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا‘‘۔ حکام نے ذاتی طور پر اس بات کو تسلیم کرنا شروع کر دیا تھا کہ بھارت کی افغان پالیسی کو دھچکا لگا ہے۔ جلد ہی یہ ظاہر ہوگیا کہ طالبان بھی بھارت کے ساتھ تعلقات میں دلچسپی رکھتے تھے۔
مگر طالبان کے ساتھ تعلقات مہنگے ثابت ہوسکتے تھے، جیسا کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت کی سفارتی حمایت کے ساتھ روس، ایران اور روسی کامن وہیلتھ ممالک کے ساتھ دفاعی، توانائی معاہدے و دیگر مادی فوائد خطرے میں پڑ سکتے تھے، اس لیے بھارت نے افغان معاملات کے لیے ایران اور روس پر انحصار جاری رکھا اور طالبان سے تعلقات قائم نہیں کیے۔
آج کا افغانستان
چند سال قبل ایک بار پھر افغانستان میں بیرونی فوجی مداخلت ہوئی،۲۰۰۱ء بعد سے نیٹو اور طالبان کی جانشین حکومت افغان ریاستی اداروں کی تعمیر اور طالبان کو عسکری شکست دینے میں ناکام رہے ہیں، طالبان نے پاکستان کے اندر سے ملنے والی مدد کے ساتھ مغربی افواج کیخلاف طاقتور بغاوت برپا کر رکھی ہے اور یہ ۲۰۱۷ء کے وسط میں بھی جاری ہے۔ ایساف کے بعد سے افغانستان میں اوپر بیان کی گئی بہت سے باتیں موجود ہیں مگر ملک گواہی دے رہا ہے کہ حالات نوے کی دہائی سے بہت مختلف ہیں۔ جہاں کبھی عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوا کرتی تھیں اور بنیاد پرست نظریات دہشتگردی کو سیاسی آلے کے طورپر آسانی سے استعمال کیا کرتے تھے،اب افغانستان اس طرح کے نظریات کے مقابلے کی جگہ بن گیا ہے۔ مگر نوے کے عشرے کے برعکس جب پر اعتماد طالبان قیادت نے اپنے لوگوں کی شکایتوں کے باوجود القاعدہ کی موجودگی کو اپنی سرزمین پر قبول کیا تھا، آج یہ کرنا بہت زیادہ خطرناک ہے، جیسا کہ داخلی نظریاتی کشمکش میں اضافہ ہوا ہے اور خود کو اسلامی ریاست خراسان کہنے والی تنظیم کی شہرت میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان امور کے ماہر Antonio Giustozzi نے کنگ کالج لندن میں حالیہ بات چیت کے دوران اشارہ کیا کہ اسلامی ریاست خراساں کے قیام کا مقصد افغانستان میں داعش کا ذیلی شاخ بنانا ہے۔ اسلامی ریاست خراساں نے خود کو طالبان کے اتحادی کے طور پر پیش نہیں کیا بلکہ زیادہ بہتر، زیادہ سخت اور تشدد پسند متبادل کے طور پر پیش کیا ہے، یہ گروپ مسلح نوجوانوں کے لیے مالی اور نظریاتی طور پر بہتر امکانات پیش کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ء میں ان کی مالی حیثیت تقریبا۲۷۱ملین ڈالر تک پہنچ گی تھی، یہ بات حیرت انگیز نہیں کہ اسلامی ریاست خراساں نے چین کے متعدد گرپوں کے ساتھ ساتھ افغان اور پاکستانی طالبان سے الگ ہونے والے مختلف گرہوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔۲۰۱۷ء میں ایک اندازے کے مطابق اسلامی ریاست خراساں کے جنگجوؤں میں کمی آئی ہے، جو مبینہ طور پر ۶۔۸ ہزار سے کم ہوکر ہزار سے پندرہ سو کے درمیان رہ گئے ہیں۔
مستقبل میں اس تنظیم کی سمت کیا ہوگی اور لوگ اس کی پیروی کریں گے یہ واضح نہیں، مگر اس نے افغانستان میں جاری اسلام پسندوں کی بغاوت کے منظر نامے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، افغان ریاست میں بنیادی ڈھانچے کی کمی اور گہری سماجی تقسیم موجود ہے، اسلامی ریاست خراساں کا ابھرنا، کابل حکومت میں داخلی تقسیم، ناقابل بھروسہ امریکا اور گہری تقسیم کا شکار طالبان ایک ایسا منفرد منظر نامہ ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
مزید یہ کہ روس اور ایران کے اسٹریٹجک مفادات نوے کی دہائی سے بہت مختلف ہیں،جو بھارت کی حیثیت کو پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا مقصد امریکا کو کمزور کرنے کے ساتھ افغانستان میں اپنی قیادت کو دوبارہ بحال کرانا ہے، دونوں ممالک کے واشنگٹن سے تعلقات خراب ہیں، صدر ٹرمپ کی جانب سے تہران کو خطرے قرار دینے کی بیان بازی سے۲۰۱۵ء میں ہونے والے امریکا ایران جوہری معاہدے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس جوہری معاہدے کے بعد امریکا اور ایران تعلقات معمول پر آنے کی امید تھی۔امریکا اور روس کے تعلقات میں بھی کشیدگی جاری ہے، خاص طور پر۲۰۱۴ء میں کریمیا سے الحاق اور شام کی خانہ جنگی میں ماسکو کی فوجی شمولیت کے بعد سے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے ہیں۔
روس اسلامی ریاست خراساں کے پھیلاؤ کی وجہ سے فکر مند ہے مگر وہ اب افغانستان میں پاکستان کے کردار کیخلاف نہیں ہے۔افغانستان کے عسکر ی منظر نامے میں اسلامی ریاست خراساں اور طالبان کے درمیان غلبہ حاصل کرنے کے لیے کشمکش جاری ہے،جبکہ ماسکو اسلام آباد کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر چکا ہے، جس سے طالبان کی قیادت پر اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ روس چین کے ساتھ بھی تعلقات تیزی سے مضبوط بنا رہا ہے۔ خاص طور پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے بعد سے ماسکو،اسلام آباد میں تزویراتی تعاون اور دوستی میں اضافہ ہوا ہے۔ کابل کے لیے روسی صدر کے خصوصی سفیر ضمیر کابلوو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اس نئی تنظیم سے لڑنے کے معاملے میں روس اور طالبان کے مفادات ایک جیسے ہیں۔دسمبر۲۰۱۶ء میں چین، روس اور پاکستان کے مشترکہ اجلاس میں صرف اسلامی ریاست خراساں کیخلاف کارروائی پر اتفاق کرکے ضمیر کابلوو کی بات کی تائید کی گئی. اپریل میں امریکا کی سرکاری افسران نے الزام لگایا کہ روس طالبان کو خفیہ طور پر ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ افغان طالبان کے گروہوں کے ساتھ ایران کے گرم جوش تعلقات اور ان کی مدد بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ سخت مخالفت ہونے کے باوجود تہران سنی طالبان سے رابطے قائم کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
امریکا کے روس کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے تناظر میں، ماسکو کے طالبان کے ساتھ تعلقات اور اسلامی ریاست خراساں کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا افغانستان میں پہلے ہی سے ناکام انسداد دہشتگردی کی امریکی کوششوں کو مزید کمزور کرنے کی ایک حکمت عملی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ ایران کے تعلقات کو امریکا کے ساتھ تاریخی کشیدہ تعلقات سے منسوب کیا جاسکتا ہے۔اسی طریقے سے سیاسی گروہوں پر اثر انداز ہونے کی تہران کی بھی خواہش ہے۔کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی ایک دن کابل حکومت کا حصہ بھی بن سکتا ہے۔
امریکا کی مالی اور فوجی امداد پرکابل کا انحصار ہے، تہران اور ماسکو کے تعلقات واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ ہیں، افغانستان کے وسیع علاقے پر افغان طالبان کے اثرات بڑھتے جارہے ہیں، روس، ایران اور پاکستان کی جانب سے طالبان کی حمایت اور اسلامی تحریک خراساں کا ابھرنا یہ ساری باتیں مل کر افغانستان اور اس کے اردگرد کے سیاسی حالات کو بہت زیادہ پیچیدہ بنا رہی ہے۔
بھارت افغانستان میں پاکستان کے کردار کو اہمیت دیتا ہے، اس کے ساتھ ہی بھارت افغان طالبان سے تعلق نہیں چاہتا اور کابل حکومت کی غیر جانبدار رہتے ہوئے حمایت کرتا ہے، مزید یہ کہ نئی دہلی امریکی فوج کی موجودگی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے، آج بھارت، روس اور ایران کی پالیسی سے اختلاف رکھتا ہے۔ نوے کے عشرے میں ان تینوں ممالک کے درمیان اتفاق تھا کہ جو پاکستان، طالبان اور امریکا کے اتحاد کو سمجھتا تھا، یہ اتحاد ان ممالک کے قومی مفادات کے لیے نقصان دہ تھا، مگر اب یہ صورتحال نہیں ہے جو ان تینوں ممالک کو جوڑنے میں معاون ثابت ہو۔
بھارتی جاسوس اور سفارتکار ماسکو اور تہران کواس بات پر قائل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں کہ افغانستان میں حقیقی مسئلہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار پاکستان ہے۔ ماسکو میں بہت سے لوگ امریکی کوششوں کو ناکام بنانے کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ۱۹۸۰ء کے مجاہدین اور۱۹۹۰ء کے طالبان کی طرح اسلامی ریاست خراساں بھی امریکا کی تخلیق ہے۔ تہران اسلامی ریاست خراساں کے سعودی عرب اور قطر سے تعلقات کی وجہ سے فکرمند ہے اور طالبان سے اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ روس اور ایران کے شام میں تعاون کی وجہ سے بھی افغانستان کے معاملے پر ان دونوں ممالک کی جانب سے بھارت کا ساتھ دینے کا امکان نہیں ہے۔ جو ابھی تک اصرار کر رہا ہے کہ اسلامی ریاست خراساں آئی ایس آئی کی تخلیق ہے، ان حالات میں نئی دہلی اپنے سابقہ علاقائی اتحادیوں کو کھو چکا ہے۔
مستقبل کی حکمت عملی
روس، ایران اور امریکا جیسی بیرونی طاقتوں کی مختلف ترجیحات کی وجہ سے مناسب ہوگا کہ بھارت سفارتکاری کے ذریعے افغان طالبان سے بات چیت کو کوئی شکل دینے کی کوشش کرے، اس بات سے قطع نظر کہ یہ مذاکرات کون کروا رہا ہے۔ اس سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اسٹریٹجک توازن قائم رکھنے کی بھارتی پالیسی کا مقصد حاصل ہونا یقینی ہے۔ اس معاملے پر کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے، جنوری ۲۰۱۷ء میں بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول نے روسی صدر پوٹن کے ٹیم کے ساتھ پانچ گھٹنے تک اجلاس کیا ا ور فروری میں ہونے والے چھ ملکی اجلاس میں بھارت کی شرکت کو یقینی بنایا۔اس موقع پر روس نے بھارت کو چند باتوں کی یقین دہانی کرائی، روس نے یقین دلایا کہ تشدد چھوڑنا، افغان آئین کو تسلیم کرنا اور القاعدہ سے تعلقات کا خاتمہ، افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کی بنیادی شرائط ہوں گی۔اس سفارتکاری کے لیے ضروری ہوگا کہ طالبان کے ساتھ سرکاری طور پر بات چیت کرنے کے لیے بھارت میں موجود ہچکچاہٹ کو دور کیا جائے۔ اس بات کے کافی اشارے موجود ہیں کہ افغان طالبان کے تمام گروہ پاکستان کی ’’پراکسی‘‘ نہیں ہیں، تمام طالبان بھارت کے دشمن نہیں ہیں اور ان میں سے بہت سے کشمیر ی عسکریت پسندوں کی سرگرم حمایت نہیں کرتے۔ نوے کی دہائی میں اسامہ بن لادن کے میزبانی کرنے کی قیمت ادا کرنے کے بعد آج افغان طالبان عالمی جہادیوں کی میزبانی کرنے کے معاملے پر بہت پریشان ہیں۔ سفارتکاری کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں افغانستان سے تعاون جاری رکھنا، کم مدت میں نئی دہلی کے لیے سب سے زیادہ پرکشش پالیسی ہوسکتی۔یہ پالیسی گزشتہ پندرہ برس کی محنت کو ضائع کیے بغیر بھارت کی افغانستان میں موجودگی یقینی بناتی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ اس مصالحتی عمل کی قیادت کون کرتا ہے۔ بھارتی حکام عام طور پر پوچھتے ہیں کہ طالبان سے کس بارے میں بات کرنی چاہیے اور دلیل دیتے ہیں کہ طالبان صرف اپنی طاقت کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سچ ہے، مگر افغانستان میں طاقت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے، ایران اور روس کے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے علاوہ یہ ممالک کس طریقے سے طالبان کی ترجیحات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے کے ساتھ اپنے لیے خطرات کم کرنے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔بھارت میں اکثر دوسرا سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ نئی دہلی کی طرف سے طالبان سے بات چیت کس کو کرنی چاہیے، اس طرح کے سوال کے پیچھے مفروضہ یہ ہے کہ افغان طالبان مختلف گروہوں کے ساتھ ایک ایسی تحریک ہے کہ جس کا انحصار پاکستان کی حمایت پر ہے اور جو میدان میں طاقتور ہے، یہ مختلف گروپ اپنے لیے ایک آزاد سیاسی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، (مثال کے طور پر قطر) لیکن میدان میں یہ گروپ بے اختیار ہیں۔ اگرچہ ماضی میں طالبان سے رابطہ کرنا بھارت کی ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان کی پالیسی کے کیخلاف تصور کیا جاتا تھا،مگر اب طالبان سے رابطے کو بے مقصد حکمت عملی سمجھا جاتا ہے، افغانستان کے معاملات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو مرکزی حیثیت دینا ایک روایت ہے اور اس روایت کو توڑنا نئی دہلی کے لیے چیلنج ہوگا، افغان طالبان سے تعلق قائم کرنا کابل کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی کو گلے لگانے کی مشق نہیں اور نہ ہی طالبان سے رابطہ کرنے سے گریز کرنا کابل پر غیر مستحکم ہوتے اثرات کو قائم رکھنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی ہے۔
بھارت بھی روس اور ایران کے ساتھ مل کر ایک پراجیکٹ کی طرح افغان طالبان کے ساتھ کام کرسکتا ہے یا حالات ٹھیک ہونے اور سفارتکاری کے آگے بڑھنے کا انتظار کر سکتا ہے ۔ ان سب میں امریکا ایک وائلڈ کارڈ ہے، واشنگٹن میں موجود بیورو کریٹک الجھن کو دیکھتے ہوئے آنے والے برسوں میں امریکا کی جانب سے افغانستان میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت میں امکان ہے کہ امریکا بھارت سے افغانستان میں فوج تعینات کرنے کی درخواست کر سکتا ہے، اس طرح کی کسی درخواست کی منظوری بھارت کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ افغانستان میں بھارتی فوجیوں کو تعینات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے میں بھارت اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھ سکتا ہے،۱۹۸۹ء میں بھارتی سیکورٹی ایجنسیز نے روس کے تعاون کے ساتھ اندازہ لگایا کہ اس وقت کا افغان صدر نجیب اللہ آنے والوں سالوں میں موجود رہے گا، نئی دہلی خود سویت یونین کی کمزوری سمجھنے میں ناکام رہا تھا۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بھی کابل میں بھارتی سفاتکار نے حالات کا غلط اندازہ لگایا جب وہ نجیب اللہ کی حفاظت کرنے اور انہیں خفیہ طور پر بھارت منتقل کرنے میں ناکام رہا۔
صدر ٹرمپ کے داخلی مسائل اور بے ربط خارجہ پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے افغانستان کے معاملے میں بھارت کے لیے خطرے کے گھنٹی بج جانی چاہیے۔ ٹرمپ افغانستان کے معاملے پر روس، چین اور پاکستان کے ساتھ (اگر ایران کے ساتھ نہیں) کسی سمجھوتے پر پہنچ سکتا ہے یا وہ افغانستان کو مکمل طور پر چھوڑ سکتاہے۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے مشیروں کے مشورے کے مطابق امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر ے گا، تاکہ افغان طالبان کے عسکری زور کو کم کیا جائے، قریبی مدت میں پیش آنے والی یہ ایسی صورتحال ہے جس کے بارے میں بھارت کو سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ مزید امریکی فوجیوں سے صورتحال میں بہتری آئے گی مگر عارضی وقفے کے لیے۔افغان تنازعے کا واحد حل سیاسی ہے، علاقائی تعاون کے ساتھ بھارت کی جانب سے کھلے ذہن کا مظاہرہ گزشتہ پندرہ برسوں کی کمائی کو محفوظ کر سکتا ہے اور افغان تنازعہ کو خاتمے کی جانب لے جاسکتا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
(کالم نگار SOAS University of London میں لیکچرار ہیں۔)
“New alignments, old battlefield: Revisiting India’s role in Afghanistan”. (“carnegieindia.org”. june 15,
Leave a Reply