خلیجی ریاستوں نے اپنی آبادیوں کو کنٹرول میں رکھا ہے۔ کسی بھی بیرونی تبدیلی کے ممکنہ اثرات سے بہتر طور پر نمٹنے میں یہ بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔ لیبیا اور یمن کے حالات ان پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوئے۔ قطر کی مثال بہت واضح ہے۔ گزشتہ برس جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر کو سفارتی محاذ پر تنہا کرکے اسے مالیاتی اور معاشی مشکلات سے دوچار کرنا چاہا تو بہت حد تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ قطر معاشی اعتبار سے مضبوط ہے اور دوسرا سبب یہ ہے کہ قطری قیادت عوام کو خوش اور مطمئن رکھنے میں بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔ کسی بھی بیرونی صورتِ حال کو قطر پر اثر انداز ہونے میں وقت لگے گا اور کوئی اپنی بات بھی آسانی سے منوا نہیں سکتا۔
عوامی بیداری کی لہر نے عرب دنیا میں نئی حقیقتوں کو جنم دیا ہے، چند مضبوط ریاستیں بھی ہل کر رہ گئیں۔ حالات کا سامنا کرنے کی سکت کمزور پڑتی دکھائی دی۔ جن ممالک میں طویل مدت سے ایک ہی طبقہ اقتدار پر قابض رہا ہے ان میں بھی معاملات پلٹتے دکھائی دیے۔ مصر اور تیونس میں اس حوالے سے غیر معمولی تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین وغیرہ میں اب تک حکمراں طبقے کو اکھاڑا نہیں جاسکا ہے تاہم خوف ضرور پایا جاتا ہے۔ صورتحال کسی بھی وقت بے قابو ہوسکتی ہے۔ عوامی بیداری کی لہر نے ذہنوں میں بیج تو بو ہی دیا ہے۔
ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ لیبیا اور شام میں مضبوط خلیجی ریاستوں نے اپنے اپنے پسندیدہ عسکریت پسند اور مزاحمتی گروہوں کی امداد کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ معاملات کو وہیں ختم کیا جاسکے۔ قطر اور متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والوں کی بھرپور مدد کی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قذافی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ مگر اس کے بعد متحدہ عرب امارات اور قطر کے حمایت یافتہ گروہوں نے ہتھیار نہیں پھینکے، بلکہ آپس میں لڑنے لگے۔ یوں خانہ جنگی شروع ہوئی جس نے ملک کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ یہی معاملہ یمن کے حوالے سے سعودی عرب اور شام کے حوالے سے ترکی کا رہا ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کھڑے ہونے والوں کی بھرپور مدد کی۔ اس کے نتیجے میں خرابیاں بڑھیں۔ اور اب عالم یہ ہے کہ یمن بالکل تباہ ہوچکا ہے۔ یہی معاملہ شام کا بھی رہا ہے۔ عرب دنیا میں بیداری کی لہر کو ناکام بنانے کے لیے ڈھکی چھپی جنگ کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ اب تک جاری ہے۔
بیرونی مداخلت کو ابتدائی مرحلے میں اچھا سمجھا گیا۔ ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خوش فہمی یہ تھی کہ وہ لیبیا اور دیگر ممالک میں اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ابتدائی کامیابیوں کو حتمی کامیابی سمجھ لیا گیا۔ ایک خیال یہ تھا کہ اب امریکا اور اقوام متحدہ کو بھی بیچ میں لاکر اپنی مرضی کی تبدیلیاں یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی جائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اور اس کا نتیجہ سب نے دیکھا۔ لیبیا رفتہ رفتہ خانہ جنگی کی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور اب اسے ناکام ریاستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
شام کے معاملے میں بھی یہی غلطی سرزد ہوئی۔ جب بشار الاسد انتظامیہ کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے تو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی نے محسوس کیا کہ وہ اپنی مرضی کی تبدیلیاں یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں تھا جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ جب یہ ممالک شام کے بحران میں فریق بنے اور ایران کے اثرات کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش کی تو حقیقی مشکلات نے جنم لیا۔ شام میں بشار انتظامیہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے باغیوں کو باہر سے ملنے والی امداد نے مسائل دوچند کردیے، بحران انتہائی سنگین شکل اختیار کرگیا۔ خطے میں کشیدگی بڑھی اور سعودی عرب و ترکی زیادہ کھل کر ایران کے سامنے آگئے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بشار انتظامیہ نے بھی ظلم کے پہاڑ توڑے تھے مگر جب بیرونی قوتیں اس کھیل کا حصہ بنیں تو خرابیاں بہت بڑھ گئیں۔ یوں ایک ملک کا بحران پورے خطے کا بحران بن گیا۔ بشار انتظامیہ کے خلاف کھڑے ہونے والے باغیوں کی مدد کے لیے جب ترکی اور سعودی عرب آگے بڑھے تو بشار انتظامیہ کو مضبوط تر بنانے کے لیے ایران اور روس نے بھی پیش قدمی کی۔ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی ملیشیا حزب اللہ نے شام میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ یوں معاملات مزید خرابی کی طرف گئے۔
سعودی عرب، قطر اور ترکی نے شام میں اپنا اپنا کردار ادا کیا مگر یہ ایک دوسرے کو بھی شک کی نظر سے دیکھتے رہے۔ دوسری طرف ایران نے زیادہ منظم طریقے سے شام کے بحران میں بشار انتظامیہ کی مدد کی۔ روس نے بھی بشار انتظامیہ کے لیے اپنا کردار بہتر انداز سے ادا کیا۔ اس کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ خاصی قتل و غارت کے باوجود بشار انتظامیہ برقرار ہے۔ امریکا بھی معاملات کو قابو میں رکھنے میں ناکام رہا۔ ۲۰۱۲ء اور ۲۰۱۳ء میں بحران نے مزید شدت اختیار کی، جس کے نتیجے میں قتل و غارت کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ سلفی گروہوں نے شام میں باغیوں کو بڑے پیمانے پر مالی اور عسکری امداد دی۔ طاقت کا استعمال بڑھتا گیا اور یوں معاملات کو درست کرنے کی جو تھوڑی بہت گنجائش تھی وہ بھی ختم ہوگئی۔
جب معاملات بہت بگڑے تب امریکا نے مداخلات کی مگر یہ مداخلت بشار انتظامیہ کے خلاف نہیں بلکہ داعش کو ختم کرنے کے لیے تھی۔ داعش کو بہت حد تک ناکام اور غیر فعال بنانے میں امریکی مداخلت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ عراق اور شام میں اب داعش کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ ایران اور روس کی مدد سے بشار انتظامیہ نے بہت سے علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے مگر اب بھی وہ مضبوط نہیں۔ شام آج بھی ناکام ریاست ہے۔ داعش کے خلاف کارروائیاں بڑھیں تو ترکی نے بھی فریق کی حیثیت سے اپنا کردار بڑھانا چاہا۔
شام میں داعش نے بوریا بستر لپیٹ لیا ہے مگر خانہ جنگی اور خرابی ختم نہیں ہوئی۔ معاملہ بہت حد تک بین الاقوامی نوعیت اختیار کرگیا ہے۔ کئی ممالک کے ملوث ہونے کے باعث بحران کو ختم کرنا ممکن نہیں ہو پارہا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اس بحران کو ختم کرنے کے موڈ میں نہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے علاقائی تنازعات اور خانہ جنگیوں میں کردار ادا ضرور کیا ہے مگر اس کا مقصد کسی فریق کی فتح اور کسی کی شکست سے کہیں بڑھ کر اپنے اقتدار کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور بحرین میں اقتدار پر قابض خاندان کسی نہ کسی طور حکومت کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور جاتے رہے ہیں۔ مصر میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر صدر محمد مرسی کو گرفتار کرلیا گیا اور اب ان پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ ان کے بہت سے ساتھیوں کو غدار قرار دے کر موت کی سزا بھی سنائی گئی ہے۔ سعودی عرب نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی حمایت کی اور جنرل محمد عبدالفتح السیسی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اربوں ڈالر امداد کی مد میں بھی دیے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب ہو یا متحدہ عرب امارات یا پھر کوئی اور خلیجی ریاست، سبھی کے لیے سب سے اہم ہے ’’اقتدار کا تسلسل‘‘۔ ہر حکمراں خاندان چاہتا ہے کہ اُس کے اقتدار کو طول دیتے رہنے والے حالات پیدا ہوتے رہیں۔ اس کے لیے جس قدر بھی خرابی ممکن بنائی جاسکتی ہے بنائی جائے، قتل و غارت کا دائرہ وسیع کرتے رہنے سے بات بنتی ہے تو بنانے میں کوئی ہرج نہیں۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر نے پورے خطے کو ایک بار پھر شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے۔ ہر ریاست چاہتی ہے کہ اپنی سلامتی ہر حال میں ممکن اور یقینی بنائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے وہ تعقل کی حدود سے بہت دور ہوتا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں نے اپنی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر پورے خطے کی سلامتی داؤ پر لگادی ہے۔ اور اب اس کا خمیازہ خود انہیں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ بیشتر ریاستوں میں خرابیاں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب وہ بیرونی معاملات کے اثرات کو روکنے کے لیے اندرونی سطح پر طاقت کا بے محابا استعمال یقینی بناتی ہیں۔
جب بھی کوئی ریاست داخلی سلامتی یقینی بنانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرتی ہے تب معاملات الجھ کر خارجہ پالیسی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ مصر کے علاوہ سعودی عرب اس کی ایک واضح مثال ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اندرون ملک معاملات کو کنٹرول کرنے کے لیے خارجہ پالیسی میں بھی غیر معمولی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ہے۔ اپنے اقدامات کے لیے اندرون ملک حمایت کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے محمد بن سلمان نے یمن میں مداخلت کا فیصلہ کیا۔ محمد بن سلمان کا خیال تھا کہ یمن میں سعودی افواج کی کامیابی سے اندرون ملک حمایت بڑھے گی۔ مگر جو کچھ ہوا وہ اس خواہش اور اندازے کے برعکس تھا۔ سعودی افواج یمن کی دلدل میں پھنس گئیں۔ محمد بن سلمان کے اقدامات کو اندرون ملک اب تک وہ حمایت حاصل نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھی۔
اخوان المسلمون کو کنٹرول کرنے کے نام پر اور اس حوالے سے سعودیوں کو خوش کرنے کے لیے محمد بن سلمان نے قطر والا جوا بھی کھیلا۔ خیال یہ تھا کہ اقتصادی ناکہ بندی کی جائے گی اور قطر گھٹنے ٹیک دے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ قطر نے ثابت کیا کہ وہ اندرونی طور پر اس قدر مضبوط ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام کو بہت آسانی سے برداشت کرسکتا ہے۔ قطر کے معاملے میں سعودی عرب کی پسپائی بہت اہم ہے۔ اس سے پورے خطے میں یہ پیغام گیا ہے کہ سعودی عرب یا کسی بھی دوسری بڑی ریاست کے ہر اقدام سے ڈرنا لازم نہیں۔
ایران کے حوالے سے خلیجی اور دیگر عرب ریاستوں میں ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔ ایران کی توسیع پسندی سے خائف ہوکر عرب ریاستیں خود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے پر زور دیتی رہی ہیں۔ اس وقت بھی یہ عمل جاری ہے۔ ایران کے حوالے سے عرب ریاستوں کے خدشات اور تحفظات یکسر بے بنیاد نہیں، مگر اس حوالے سے اپنائی جانے والی سوچ غیر منطقی ہے۔ ایران جتنا طاقتور ہے اُس سے کہیں زیادہ طاقتور سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر معاملے کو تناظر سے ہٹ کر دیکھا جاتا رہا ہے۔ عرب ریاستوں کا حکمراں طبقہ ایران کو اپنے دل و دماغ پر غیر معمولی حد تک سوار کر بیٹھا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پالیسیوں میں عدم توازن نمایاں ہے۔
ایران کے ممکنہ اثرات سے خائف ہوکر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے یمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہا۔ اس حوالے سے طاقت کے استعمال کو بھی غلط نہیں سمجھا گیا اور پالیسی کے میدان میں بھی معاملات تبدیل ہوئے۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یمن کے معاملے میں ایران سے متعلق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سوچ خاصی غیر متوازن تھی۔ بہت کوشش کرنے پر بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات متوازن رویہ اپنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں خطے کا عدم توازن بڑھا ہے۔
آج پوری عرب دنیا طاقت کے خلا کے بحران سے دوچار ہے۔ کوئی بھی ریاست اس پوزیشن میں نہیں کہ پورے خطے کو تنہا کنٹرول کرسکے۔ جہاں بھی طاقت میں کمی واقع ہوتی محسوس ہوتی ہے، علاقائی کھلاڑی اپنا کھیل شروع کردیتے ہیں۔ گنجائش پیدا ہونے پر فعال ہونے میں سعودی عرب دیر لگاتا ہے نہ ایران۔ دونوں کو اپنے اپنے مفادات سے غرض ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ عرب دنیا میں اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہو۔ دوسری طرف سعودی عرب اور ترکی اس امر کے لیے کوشاں ہیں کہ انہیں مسلم دنیا کا لیڈر تسلیم کرلیا جائے۔ ترکی کی حد تک معاملہ درست ہے کہ اس کے پاس طاقت ہی نہیں ذہن بھی ہے۔ معیشت مستحکم ہے۔ افرادی قوت ہے۔ سعودی عرب صرف تیل کی دولت پر سب کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں۔ طاقت کے حوالے سے خلا پیدا ہوتے ہی متعدد ریاستیں متحرک ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی ملک یہ محسوس کرے کہ اس کے لیے زیادہ کچھ کرنے کی گنجائش نہیں تب بھی وہ دوسروں کے بارے میں خدشات کا شکار ہوکر کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یوں سب اپنے اپنے پسندیدہ عسکریت پسند گروہوں کو نوازتے رہتے ہیں۔ سب کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے پسندیدہ عسکریت پسند گروہوں کی امداد میں کمی کی تو دشمنوں کے پسندیدہ گروہ مضبوط ہوجائیں گے۔ اسی سوچ نے لیبیا، شام اور یمن کو مکمل تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔
اتنی بہت سی خرابیوں کے باوجود خطے میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ امریکا کی طرف سے بھی کوئی یقین دہانی کام نہیں کر رہی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکا نے پانچ برس کی مدت میں بہت بڑے پیمانے پر ہتھیار بیچے ہیں مگر اس کے باوجود دونوں ممالک سلامتی کے حوالے سے پریشان اور الجھے ہوئے ہیں۔ سلامتی کے حوالے سے خلا برقرار ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے معاملے میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ امریکا اور اسرائیل نے خطے میں اپنا کردار تبدیل نہیں کیا۔ غزہ میں تشدد اور اسرائیل کی جانب امریکا کا غیر معمولی جھکاؤ بہت سے معاملات کو اب بھی درست نہیں ہونے دے رہا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ اپنایا ہے اور انہیں بظاہر عرب دنیا میں مطلق العنان حکومتوں سے کچھ غرض نہیں۔ مگر اس سے بھی عرب دنیا کی تشفی نہیں ہوئی۔ امن کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی طرف سے کوئی بھی یقین دہانی عرب دنیا کے لیے زیادہ پرکشش نہیں۔
مصر، تیونس، سعودی عرب، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات اور دیگر ’’روایتی‘‘ امریکی حلیف اب چین، روس اور یورپی یونین کی طرف جھک رہے ہیں۔ یہ نئے زمینی حقائق ہیں جنہیں امریکا آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے بارے میں اب کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ اسے بھی مختلف محاذوں پر بحرانی کیفیت کا سامنا ہے۔ امریکا کی طاقت اس نوعیت کی نہیں رہی کہ وہ کسی کو یقین دہانی کرائے اور اس یقین دہانی پر عمل بھی کر دکھائے۔
امریکا کا ایک بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ وہ بدلتے زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی تبدیلیاں اپنی پالیسیوں میں نہیں کر پارہا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مختلف سطحوں پر جو پیغامات دیے اور پالیسیوں میں جو تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں، ان سے اتحادی اور دشمن سبھی حیران اور پریشان ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ امریکی قیادت کیا کرنا چاہتی ہے۔ کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔
امریکا واحد سپر پاور ضرور ہے مگر اس کی طاقت اب اتنی اور ایسی نہیں رہی کہ کسی بھی خطے کو اپنے طور پر چلا سکے، اپنی بات کھل کر منواسکے۔ مشرق وسطیٰ کے معاملے میں یہ بات ثابت ہوئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بھی اس بات کو سمجھتی ہے کہ وہ سب کچھ تن تنہا نہیں کرسکتی۔ اور پھر یورپی یونین بھی کھل کر اس کے ساتھ نہیں۔ صرف برطانیہ ساتھ دیتا ہے مگر بہت سوچ سمجھ کر۔ جرمنی اور فرانس نے راہیں الگ کرلی ہیں۔ اسکینڈے نیوین ممالک کا معاملہ تو شروع ہی سے مختلف رہا ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں انہوں نے اپنا کردار محدود رکھا ہے۔
عرب دنیا میں بیداری کی لہر کے بعد سے امریکا نے خطے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی بھی اعتبار سے مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس نے حکومتوں کی تبدیلی کی راہ میں دیواریں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔ مطلق العنان حکومتوں کی بقا یقینی بنانے میں امریکی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایسے میں یہ توقع رکھنا درست نہ ہوگا کہ امریکا قتل و غارت روکنے میں کوئی اہم کردار ادا کرنا چاہے گا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“New Arab World Order”.(“Carnegie Endowment”. August 16, 2018 )
Leave a Reply