
سات سال قبل تیونس سے قاہرہ تک عوامی بیداری کی ایک لہر اٹھی تھی، جس سے یہ امید ہوچلی تھی کہ اب عرب معاشرے اصلاح اور بالخصوص جمہوریت کی طرف جائیں گے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عوامی بیداری کی اس لہر سے وابستہ خواہشات اور امیدیں پژمردہ سی ہوگئی ہیں۔ سات سال قبل جوش و جذبہ نقطۂ عروج پر تھا۔ مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی دکھائی دے رہی تھیں۔ عشروں سے قائم سیاسی نظام منطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ عرب دنیا میں ایک نئی دنیا جنم لے گی، جو بہت سی ایسی تبدیلیاں لائے گی جن کے لیے اس خطے کے عوام عشروں سے تڑپ اور ترس رہے ہیں۔
سات سال قبل جو اکھاڑ پچھاڑ ہوئی تھی اس نے مطلوب نتائج بھلے ہی پیدا نہ کیے ہوں مگر تبدیلی ضرور واقع ہوئی ہے۔ مصر، لیبیا اور شام بڑی طاقتوں میں شمار ہوتے تھے۔ اب ان کے اندر وہ بات نہیں رہی۔ آج کی عرب دنیا میں دیگر ممالک ابھر کر سامنے آئے ہیں اور خطے کی سیاست، سفارت اور معیشت میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات نے خطے میں وسیع تر کردار ادا کرنے کی بھرپور تیاری کرلی ہے۔ کل تک جو روایتی اتحاد خطے کی سیاست اور معیشت پر اثر انداز ہوا کرتے تھے، وہ اب اپنا طلسم کھوچکے ہیں۔ کھل کر لڑنے کے بجائے اب خفیہ جنگ لڑنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سبھی اپنے اپنے پسندیدہ گروہوں کے ذریعے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔ آج کی عرب دنیا میں سب کچھ سوچے سمجھے خطرات اور معلوم مواقع کی مدد سے طے ہوتا ہے ۔ اندرونی شورشوں، ایرانی اثر و نفوذ اور امریکا کی طرف سے عین ضرورت کی گھڑی میں ترکِ تعلق کا خطرہ بھی سروں پر منڈلاتا رہتا ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ ایسا بھی ہے کہ آج کے طاقتور عرب ممالک مختلف مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ خطے کی سیاسی حرکیات تبدیل ہوگئی ہیں۔ مفادات اور خطرات بھی مختلف ہیں۔ جو طاقتور عرب ممالک کل تک بین الاقوامی تبدیلیوں کی روشنی میں اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے سے گریز کرتے تھے اور اسٹریٹجک سطح پر زیادہ فوائد بٹورنے پر توجہ نہیں دیتے تھے، وہ بھی اب ہر موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی صورت حال ہے جس میں صرف اور صرف انتشار پھیل سکتا ہے، عدم توازن عام ہوسکتا ہے۔ عرب دنیا کا نیا ورلڈ آرڈر دراصل نیو ورلڈ ڈِز آرڈر ہے۔ آج کی عرب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو خرابیاں پھیلی ہوئی ہیں ان کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی انسانی تاریخ کے بڑے المیوں میں سے ایک ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور دس لاکھ سے زائد شامیوں نے دیگر ممالک میں پناہ لی ہے۔ عراق میں فورسز نے داعش کو پچھاڑنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے، مگر عوام نے اس آزادی کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔ یمن میں خانہ جنگی کے باعث انسانی تاریخ میں ہیضے کی خطرناک اور وسیع ترین وبا پھیلی ہے۔ یمن میں اس وقت کم و بیش ۸۴ لاکھ افراد قحط کا شکار ہیں۔ لیبیا میں غیر معمولی پیمانے پر تباہی واقع ہوئی ہے اور اب یہ ایک ناکام ریاست ہے۔
جو ممالک خود کو مکمل تباہی سے بچانے میں کامیاب ہوگئے، وہ بھی اب تک اپنے پیروں پر کھڑے رہنے کے لیے غیر معمولی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مصر ۲۰۱۳ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک کوشش کے نتائج سے اب تک نبرد آزما ہے۔ فوجی حکومت غیر معمولی جبر کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد ہے۔ حکومت کے کسی بھی کام پر تنقید نہ ہو یہ بات یقینی بنانے کے لیے شدید جبر کے ذریعے انتہائی خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ کسی بھی غلط بات کے خلاف آواز اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بحرین کی حکومت نے ۲۰۱۱ء میں شدید کریک ڈاؤن کرکے مخالفین کو دبایا۔ وہاں جبر کا ماحول آج بھی ہے۔ اردن، مراکش اور تیونس نے اپنے آپ کو کسی بڑی منفی تبدیلی سے محفوظ رکھنے میں اچھی خاصی کامیابی حاصل کی مگر معاشی مسائل نے انہیں بھی جکڑ رکھا ہے۔ ان تینوں ممالک میں نئی نسل مطمئن نہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان تینوں کے ہمسائے غیر مستحکم ہیں، جس کا لازمی اثر ان کے استحکام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ خطے کے ہر ملک میں ۲۰۱۱ء کی عوامی بیداری کی لہر کا سبب بننے والے سیاسی اور معاشی مسائل اس وقت کے مقابلے میں آج زیادہ شدید اور سنگین ہیں۔
خطے میں ایسے مقامات کی کمی نہیں جہاں کوئی بھی گڑبڑ کسی بڑے مناقشے کو جنم دینے میں دیر نہیں لگائے گی۔ امریکا نے ایران سے کیے جانے والے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا یا اسرائیل کی طرف سے کوئی ایسا حملہ کیا جاسکتا ہے، جو جنگ کا سبب بن جائے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے قطر کے بائیکاٹ نے خطے کی مضبوط ترین تنظیم خلیجی مجلس تعاون میں دراڑ ڈال دی ہے۔ شام میں اسرائیلی فضائی حملوں نے ماحول مزید خراب کیا ہے۔ ترکی نے سرحد پار اقدامات بڑھا دیے ہیں اور ایران بھی شام کے معاملات میں غیر معمولی حد تک مداخلت کر رہا ہے۔ بشارالاسد انتظامیہ کے خلاف مسلح اپوزیشن کی مزاحمت اگرچہ کمزور پڑچکی ہے مگر بیرونی کھلاڑیوں کے ملوث رہنے سے معاملات اب تک خرابی سے دوچار ہیں۔ یمن میں جنگ بہت حد تک تعطل کا شکار ہے۔ ایک طرف حوثی باغی ہیں جو سعودی عرب کو میزائلوں سے نشانہ بنانے سے باز آنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف سعودی عرب کی فضائیہ یمن میں فضائی حملے نہیں روک رہی جن سے بہت بڑے پیمانے پر سویلین ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے افریقا تک فوجی اڈوں کے قیام کی راہ ہموار کی ہے تاکہ سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی اقتصادی ناکہ بندی کو موثر طور پر نافذ کیا جاسکے۔ دوسری طرف غزہ کی پٹی میں بڑھتا ہوا تشدد اور دو ریاستوں کے نظریے کی موت نے فلسطین کو ایک بار پھر بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنانے کی تیاری کرلی ہے۔
ماس صورت حال میں امریکا نے مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل جیسے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر ایک اتحاد سا قائم کرلیا ہے۔ بظاہر یہ تمام ممالک عرب دنیا میں بیداری کی لہر سے پہلے کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ عرب دنیا میں ناکام ریاستوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، گورننس کے حوالے سے معیار بلند کرنے پر عدم توجہ اور بھرپور و صحت مندانہ مسابقت سے یکسر گریز نے طاقت کے ہر طرح کے استعمال کو یکسر غیر موثر بنادیا ہے۔ مجموعی کیفیت یہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک اندرونی سلامتی کی خاطر یا دوسرے ممالک پر اثر انداز ہونے کے لیے کچھ کرتا ہے تو دراصل عدم تحفظ کے شدید احساس کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ مطلق العنان حکومتوں کی مدد میں دگنی کمی کرنے کا امریکی فیصلہ نہ تو ان ممالک میں استحکام پیدا کرکے پرانے نظام کو بحال کرنے کی راہ ہموار کرے گا اور نہ ہی امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں کوئی اہم کردار ادا کرے گا۔
بدلتا توازن
مشرق وسطیٰ میں مجموعی سیاسی ڈھانچا اب تک تبدیل نہیں ہوا، مگر ہاں سیاسی محرکات میں تبدیلی آگئی ہے اور انداز بھی کچھ بدلا ہے۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے عشروں میں عرب ممالک کے باہمی تعلقات کی نوعیت کو معروف اسکالر میلکم کر نے ’’عرب سرد جنگ‘‘ کا نام دیا تھا۔ اور ان کا یہ کہنا کچھ غلط نہ تھا۔ جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر خطے کے بیشتر ممالک بالخصوص شام، لبنان، یمن اور اردن میں خانہ جنگی یا مکمل جنگ کے حوالے سے ایک طرف مغربی طاقتوں اور دوسری طرف سعودی عرب سے شدید مسابقت کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ تب پین عرب ازم کی ہوا بھی چلی تھی۔ اسرائیل سے شدید مخاصمت کی بنیاد پر عرب اتحاد کی راہ ہموار ہوئی اور تقریباً تمام ہی عرب ممالک نے یہ طے کیا کہ خود کو ایک لڑی میں پروئے رہیں گے۔ بہت کچھ تھا جو نظریاتی سطح پر تھا اور اسے برقرار رکھنے پر توجہ بھی دی جارہی تھی۔
۱۹۷۰ء کے عشرے میں جنگوں کی راہ مسدود ہوئی اور تیل کی دولت کی آمد نے سب کچھ بدل ڈالا۔ عرب ریاستوں کی حکومتیں اب کسی نظریاتی آدرش کے حصول سے کہیں زیادہ اپنی بقا کی فکر میں مبتلا ہوئیں۔ تیل کی دولت اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے پیمانے پر آرہی تھی کہ ان کے نزدیک صرف ایک مقصد اہم تھا… اقتدار کا تسلسل۔ تیل کی دولت کے ذریعے عرب ریاستوں نے عسکری قوت میں اضافہ کیا تاکہ سلامتی یقینی بنائی جاسکے۔ سلامتی کے حوالے سے وسائل کی فراوانی نے اندرونی شورشوں کی راہ مسدود کردی۔ جب ریاستیں اندرونی طور پر مضبوط ہوگئیں تو ان میں بیرونی مداخلت کو برداشت کرنے کی سکت بھی بڑھی۔ یوں خانہ جنگیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ اس معاملے میں صرف لبنان کی دائمی بدنصیبی ہی ایک واضح مثال ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شروع ہونے والی لبنانی خانہ جنگی ۱۹۹۰ء میں بند ہوئی۔ اس دوران ملک غیر معمولی تباہی سے دوچار ہوا اور معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت اور سیاست کا ڈھانچا بھی شکست و ریخت کا شکار ہوگیا۔ غیر معمولی دولت سے ہم کنار ہونے والے عرب معاشرے ایران میں رونما ہونے والے انقلاب سے بھی کچھ خاص اثر قبول نہ کرسکے۔ ایران میں امریکی حمایت یافتہ حکمران کا تختہ الٹ دیا گیا تھا مگر عرب دنیا میں انقلاب پسند اتنے مضبوط ہونے میں ناکام رہے کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی پوزیشن میں آسکیں۔ تمام متمول عرب ریاستوں کے حکمرانوں کا مشترکہ دشمن ایک ہی تھا یعنی انقلاب پسند۔ ان اسلامی عناصر کو کچلنے پر خاصی توجہ دی گئی، جس کے نتیجے میں کسی بھی عرب ملک میں ایرانی طرز کا انقلاب رونما نہ ہوسکا۔
ٹیکنالوجی کی ترقی نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں عرب دنیا محفوظ یا سلامت کیسے رہ سکتی ہے؟ عرب دنیا میں حکومت کے پرانے طریقے اختیار کیے جاتے رہے اور عوام میں بے چینی بڑھتی گئی۔ ۱۹۹۰ء کے بعد کی دنیا میں عالمگیریت نے شدت اختیار کی تو عرب دنیا میں بھی سیاسی تبدیلیوں کے حوالے سے سوچا جانے لگا۔ یہی سب کچھ عوام کے ذہنوں میں تھا، جس نے ۲۰۱۱ء میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں غیر معمولی پیش رفت نے کاروبار کے انداز اور پیمانے بدل دیے۔ صنعتی پیداوار کئی گنا ہوگئی۔ تجارتی اموال کی بڑے پیمانے پر ترسیل اور معیشتوں کے ایک لڑی میں پروئے جانے سے بہت کچھ بدل گیا۔ یہ ساری تبدیلیاں ایسی نہیں تھیں کہ نظر انداز کردی جاتیں۔ دنیا بھر میں لازم ہوگیا کہ سماجی بہبود پر خرچ کی جانے والی رقوم میں کٹوتی کی جائے اور سرکاری ملازمتوں کا حجم گھٹایا جائے۔ عرب دنیا بہت متمول تھی۔ بیشتر عرب ریاستیں غیر معمولی حد تک خوشحال تھیں، مگر چونکہ انہوں نے خود کو آنے والے وقت کے لیے تیار نہیں کیا تھا اس لیے ۲۰۰۸ء میں رونما ہونے والے عالمگیر معاشی و مالیاتی بحران نے عرب دنیا کو بھی ہلاکر رکھ دیا۔ متعدد ممالک کو محسوس ہوا کہ ان کے لیے پرانے طور طریقوں کے ساتھ چلنا انتہائی دشوار ہے۔ نئے عالمی مالیاتی اداروں اور عالمی سطح پر کاروبار کی بدلتی ہوئی نوعیت نے انہیں نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کردیا۔ بہت سے انتہائی امیر ممالک کے لیے بھی ممکن نہ رہا کہ پرانے طور طریقوں کے مطابق کام کرتے رہیں اور عوام کو وہ کچھ نہ دیں جو انہیں چاہیے۔ آئی ٹی کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت نے سیل فون، پھر اسمارٹ فون، سوشل میڈیا اور سیٹلائٹ ٹی وی کی شکل میں عوام کو سوچنے کے قابل بنادیا۔ کسی بھی ملک کے لیے ممکن نہ رہا کہ عوام کی رائے کو کچل دے، ان کے دل کی بات کو کسی بھی طور منظر عام پر آنے ہی نہ دے۔ عرب دنیا کی حکومتیں کمزور پڑگئیں۔ ۲۰۰۱ء میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، جس کے نتیجے میں ایسی بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن پر قابو پانا کسی بھی عرب ملک کے لیے کسی طور ممکن نہ رہا۔ ایک طرف تو عراق کی تباہی کا سامان ہوا اور دوسری طرف فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ مکمل طور پر مسدود کرکے امریکا نے خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کردیا۔ ۲۰۱۰ء تک ایران کو الگ تھلگ رکھنے والے عرب اتحاد اور جمہوریت سے کنارہ کش رہنے والے سیاسی نظام کے لیے برائے نام گنجائش رہ گئی۔
۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر بلا جواز اور بے بنیاد نہ تھی۔ ایک عشرے سے بھی زائد مدت سے معیشتوں پر جمود طاری تھا۔ سیاسی آزادی برائے نام رہ گئی تھی۔ مطلق العنان حکمران عوام کو معاشی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی سطح پر کچھ بھی دینا نہیں چاہتے تھے۔ سیٹلائٹ ٹی وی اور انٹر نیٹ نے تیونس سے مصر تک احتجاج کی لہر کو پورے خطے پر محیط کردیا۔
۲۰۱۱ء میں جو کچھ ہوا اس نے تجزیہ کاروں کو سو طرح کی آراء پروان چڑھانے کی راہ دکھائی مگر ایک بنیادی نکتہ نظر انداز کردیا گیا۔ عوامی بیداری کی لہر نے بیک وقت دو کام ایسے کیے جو خطے میں خرابی کا باعث بن گئے۔ مصر اور شام جیسے مضبوط ممالک انتہائی کمزوری کی طرف چلے گئے۔ شام تباہ ہوچکا ہے اور مصر اس پوزیشن میں نہیں کہ باہر کچھ کرسکے۔ اندرونی سلامتی اور استحکام برقرار رکھنا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف خلیج کی متمول ریاستوں نے اپنے لیے خاصی گنجائش پیدا کی۔ انہوں نے سوفٹ پاور کو عمدگی سے بروئے کار لاکر معاملات کو اپنے حق میں کیا ہے، اپنے مفادات کو غیر معمولی حد تک تقویت بہم پہنچائی ہے۔ سعودی عرب کی غیر اعلانیہ قیادت میں متحدہ عرب امارات، قطر اور دیگر خلیجی ریاستوں نے خطے کی سیاسی بساط پر تبدیلیوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے بہت کچھ بہت آسانی سے کیا ہے۔ ان تمام ممالک کی فوج چھوٹی مگر مستعد اور جدید ترین سہولتوں سے مزین ہے۔ خلیجی ریاستوں کی قیادت نے سوفٹ پاور کو ڈھنگ سے بروئے لاکر ایک ایسی صورتِ حال پیدا کی ہے جس میں ان کے لیے بہتر انداز سے آگے بڑھنے کی زیادہ گنجائش ہے۔
(۔۔۔جاری ہے!)
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“New Arab World Order”. (“carnegieendowment.org”. AUGUST 16, 2018)
Leave a Reply