ایک ایسی دنیا میں جہاں شہریوں کے خلاف تشدد کے حادثاتی یا دانستہ واقعات ریاستی اداروں کی جانب سے ہوا کرتے تھے‘ گیارہ ستمبر کا حملہ بہت بڑا صدمہ تھا‘ فوری طور سے ان حملوں نے روایتی رویوں کو مخالف رخ پر ڈال دیا۔
مٹھی بھر غیرحکومتی افراد نے جو دہشت گردی کے ہنر سے آراستہ تھے‘ دنیا کی طاقتور ترین ریاست کو چیلنج کیا۔ ان ایک روزہ حملوں کے نتیجے میں ۳۰۰۰ کے قریب لوگ مارے گئے۔ غیرریاستی دہشت گردوں کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر کی گئی کارروائی کسی بھی صورتحال میں دنیا کے لیے وجۂ تشویش تھی لیکن حملہ آوروں کی شناخت اور ان کا ہدف اس طرح کے لرزہ خیز تاریخی واقعات کے اعادہ کا عندیہ دے رہے تھے۔ یہ حملے بلائے ناگہانی تھے اس لیے کہ ان کا ہدف امریکا تھا‘ واحد سپر پاور جو زمین پر باقی ہے اور حملہ آوروں کا تعلق دنیا کے اس حصہ سے تھا جسے مشرقِ وسطیٰ کہا جاتا ہے اور جہاں تیل ہے جو تاریخ کا واحد عظیم ترین اسٹراٹیجک انعام ہے۔ یہ وہ حالات تھے جس نے ۱۱/۹ کے بارے میں فوراً ہی قیاس آرائیوں پر مبنی فلسفوں کو جنم دینا شروع کر دیا یعنی یہ کہ اغوا کنندگان نے امریکا ہی کو اپنے حملوں کے لیے کیوں منتخب کیا۔ یہ سارے قیاسی فلسفے حملہ آوروں کی شناخت اور ان کے ہدف پر مرکوز تھے۔ یعنی یہ کہ وہ کون ہیں اور ہم کون ہیں؟ اس کا جواب ان کی نظر میں یہ تھا کہ ہم آزاد‘ خوشحال‘ جمہوری اور عیسائی اکثریت کے حامل معاشرہ ہیں اور وہ لوگ بدمعاش مسلمان ہیں جن کا تعلق عرب کے پسماندہ علاقوں سے ہے۔ ان قیاسی فلسفوں پر ۱۱/۹ کے حملوں کی توجیہات کا مطلب واضح تھا۔ یہ کہ انہوں نے ہم پر اس لیے حملہ کیا ہے کہ ہمارے آزاد‘ خوشحال‘ جمہوری اور عیسائی معاشرہ سے انہیں نفرت ہے۔ اس توجیہ نے ایک دوسرے سوال کو جنم دیا۔ آخر ان کے اندر کیا بات ہے جو انہیں ہمارے خلاف نفرت پر ابھارتی ہے؟ اس سوال کا جواب اسلامی و عیسائی قلمرو کے مابین تاریخی معرکہ آرائی کی اجتماعی یادداشت سے عبارت ہے۔ اس یاد کو ایک بار پھر حالیہ سالوں میں مستشرقین کے ایک نئے گروہ نے تازہ کر دیا ہے جس کے قائد برنارڈ لیوس ہیں۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا استدلال یہ ہے کہ حملہ آوروں کی نفرت کو مذہبِ اسلام نے برانگیختہ کیا ہے جو عورتوں پر ظلم کرتا ہے‘ عقل و منطق کی تحقیر کرتا ہے‘ آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹتا ہے‘ دوسرے مذاہب کے خلاف تعصب کو جنم دیتا ہے اور کفار کے خلاف دائمی جنگ کی تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان گہرے اختلافات کو جو کہ یقینی طور سے حق و باطل کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں‘ بہت سارے امریکیوں نے فوری طور سے تسلیم کر لیا۔ تاریخی اعتبار سے اسلامی دنیا ہمیشہ ہی مغرب کے تصور‘ خوف اور بالادستی کی منطق میں اس کی اہم مدمقابل گردانی گئی ہے۔
گزشتہ چند دہائیوں میں اسرائیل عرب تصادم کی بڑھتی ہوئی شدت کے پیشِ نظر اسلام کو اسلامی دنیا کی سیاست میں ازسرِ نو داخلے کا موقع مل گیا ہے اور کمیونسٹ چیلنج کی حتمی شکست کے سبب امریکی اربابِ حل و عقد نے مغرب کے اس پرانے حریف کو دوبارہ سے زندہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ابھی حال ہی میں سموئل ہٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کے عنوان سے وسیع تر تحقیقی تحریر میں اسلام سے مغرب کے خوف کے تانے بانے بُنے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا میں بڑی جنگیں زیادہ تر تہذیبی محاذ آرائی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اس کے خیال میں اس طرح کی جنگوں کے لیے آمادگی انسانی فطرت میں پائی جاتی ہے‘ اس لیے کہ ایک معاشرہ کی جبلت میں دوسرے معاشرہ سے خوف ہے۔ چنانچہ وہ دوسرے کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اگرچہ ہٹنگٹن نے کوئی آٹھ تہذیبوں کی شناخت کی ہے جن کی وجہ سے تہذیبوں کے مابین ۵۶ باہمی تصادم ہونے کا امکان ہے تاہم اس کا بنیادی زور صرف دو تصادم پر ہے‘ ایک مغرب اور اسلام کے مابین اور دوسرا مغرب اور چین کے مابین۔ گیارہ ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کو امریکا میں بہت سارے لوگوں نے اسلام اور مغرب کے مابین ایک تازہ تہذیبی تصادم کا پیامِ مسرت جانا۔ اس حقیقت سے ان کے جوش و خروش میں کمی واقع نہیں ہوئی کہ حملہ آوروں کا تعلق غیرریاستی جنگجوئوں کے ایک مٹھی بھر گروہ سے تھا جو اسلامی معاشرے کے بیرونی سرے پر کھڑے عناصر کی نمائندگی کر رہے تھے۔ جس بات کی صرف اہمیت تھی وہ یہ کہ حملہ آور مسلمان تھے اور جس ملک کو انہوں نے نشانہ بنایا تھا وہ مغربی دنیا کی اصل جان ہے۔ یہ ناقابلِ تردید شہادت تھی‘ مغرب اور اسلام کے مابین جاری تصادم کی۔ ایک بار جب امریکی اسٹیبلشمنٹ نے گیارہ ستمبر کے حملوں کو ’’تہذیبی تصادم‘‘ کے فرما میں ڈھال دیا‘ امریکا اسلامی دنیا پر فوجی جارحیت کے لیے تیار تھا۔ ایک طرف تو یہ حملے فی نفسہٖ آغازِ جنگ کا جواز فراہم کرتے تھے تو دوسری طرف اس جواز کو ایک نئے قسم کے خوف سے تقویت بخشی گئی کہ دہشت گرد عام تباہی کے اسلحوں کے ذریعہ حملہ آور ہو سکتے ہیں‘ جس سے واضح طور پر یہ مطلب نکلتا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہونی چاہیے۔ یوں امریکا کو ایک بہانہ ہاتھ آگیا‘ پیشگی اور امتناعی حملے کے لیے تاکہ اس طرح وہ مشرقِ وسطیٰ کے آئل فیلڈز پر قابض ہو سکے اور دنیا کو یہ پیغام دے سکے کہ امریکا اپنی فوجی بالادستی کے حوالے سے کسی چیلنج کو برداشت نہیں کرے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مقصد عالمی امریکی قلمرو کا قیام تھا۔ اس کے ساتھ ہی گیارہ ستمبر کے حملوں کو تہذیبی تصادم کے چوکٹھے میں نصب کر کے امریکا اسلامی دنیا میں بہت ہی گہری مداخلت پسندانہ کارروائی کے لیے اپنے آپ کو آمادہ کر رہا تھا جس کا دائرہ حکومت کی تبدیلی سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ نوقدامت پرستوں (Neocons) کا یہ منصوبہ عراق پر جارحیت کے فوراً بعد ہی بے نقاب ہو گیا۔ اس منصوبے کو اگر اسلامی دنیا میں جمہوریت قائم کرنے کے عنوان سے نہیں تو مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت قائم کرنے کے عنوان سے تو پروان چڑھایا ہی گیا۔ یہ منصوبہ ہے باغی اسلامی قلمرو کو ہمیشہ ہمیش کے لیے سبق سکھانے کا۔ فوجی اعتبار سے یہ منصوبہ تبدیلیٔ حکومت کا متقاضی ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ منصوبہ عرب ریاستوں کی مزید چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کا متقاضی ہے اور یہ تقسیم اسے مذہبی‘ فرقہ ورانہ اور نسلی بنیادوں پر مطلوب ہے۔ ثقافتی اعتبار سے پوری اسلامی دنیا کو امریکی رنگ میں رنگنا مقصود ہے۔ ایوانجلسٹ حضرات اس سے بھی زیادہ کی امید لگائے بیٹھے ہیں یعنی یہ کہ وہ مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے درپے ہیں۔ یہ بہت ہی عظیم منصوبہ ہے‘ بہت ہی بڑا خواب ہے۔ یہ اپنی وسعت اور امکانات میں فرانسیسیوں کے خواب سے بھی فزوں تر ہے جس کا مقصد افریقیوں عربوں کا قلبِ ماہیت تھا۔ گیارہ ستمبر کے خلاف امریکی ردِعمل میں افغانستان اور عراق پر فوجی جارحیت کے علاوہ پوری اسلامی دنیا میں اپنے فوجی اڈے بھی قائم کرنا شامل ہے۔ نیز ایران پر حملہ بھی ہے جو القاعدہ اور اس سے وابستہ گروہوں کی مہم جوئیوں کو تقویت فراہم کرتا ہے جو اسلامی دنیا کی تاریخی خودمختاری کی بازیافت کے ذریعہ اسے طاقتور بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں پر یہ بات کھلتی جارہی ہے کہ اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کے ناپاک عزائم میں گیارہ ستمبر کے بعد سے مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہ اسلامی دنیا پر صرف اپنے گماشتوں کے ذریعہ ہی حکومت کے خواہاں تھے‘ ان کے نئے عزائم کا سلسلہ آگے تک جاتا ہے۔ ان کا نیا مطالبہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا اور خود اسلام کو امریکی شرائط سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ یہ اس وقت لاینحل معلوم ہوتا ہے جب کوئی اس پر غور کرتا ہے‘ دنیا اس پر کس طرح پوری اترے گی۔ اگر حومتی اعداد و شمار صحیح ہیں تو اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مٹھی بھر لوگوں نے قلیل ترین وسائل کے ساتھ مگر دہشت گردی کا حربہ استعمال کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس مقام پر لے گئے کہ عالمی سیاست پر اثرانداز ہو سکیں۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ گیارہ ستمبر کا واقعہ اور امریکا کا اس کے خلاف ردِعمل کا کیا حتمی نتیجہ نکلے گا۔ اب تک تو اس نے اسلامی دنیا پر امریکا اور اسرائیل کی گرفت مضبوط ہونے میں مدد دی ہے۔ امریکا اس وقت اسلامی دنیا کے اندر اپنی فوج بھاری تعداد میں تعینات کیے ہوئے ہے اور اپنے تہذیبی مشن کو ایران‘ شام اور سعودی عرب تک وسیع کرنے کے لیے تیار ہے۔ بہرحال اس کا یہ مشن بھی مشکل میں ہے۔ عراق میں اس کی یہ مشکل تو بہت ہی واضح ہے اور افغانستان میں بھی اس کی فتح بہت ہی سطحی نوعیت کی ہے۔ عراق اور افغانستان دونوں جگہ امریکا اسلامی دنیا کے حلیف ممالک سے فوج نہ بھجوا سکے تاکہ ان نام نہاد آزاد شدہ سرزمینوں کو اپنی مرضی کی فوج سے پُر کر سکے۔ پہلی جنگِ خلیج کے بعد سے اسلامی دنیا میں شاید یہ واضح ترین موقف کی تبدیلی ہے جبکہ تقریباً ہر ایک اہم مسلم ملک نے عراق کی جنگ میں امریکیوں کی حمایت کے لیے اپنی افواج بھیجی تھیں۔ کیا اسامہ بن لادن ایک ’’ماہر منصوبہ ساز‘‘ ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا سہارا لیتا ہے جیسا کہ Justin Raimondo کا دعویٰ ہے یا پھر وہ صدام حسین کی طرح بے خبر ہے جس نے کویت پر جارحیت کی حماقت کی‘ جو بالکل ہی اس بات سے نابلد تھا کہ اہم امریکی مفادات کو اس طرح چیلنج پیش کرنے پر اس کی کوئی گرفت بھی ہو گی‘ خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ سوویت یونین اپنی موت کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کم از کم اس وقت اسامہ کی حکمتِ عملی ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ اس کا اقدام اہم اسلامی ملک میں امریکی جارحیت کا سبب بنا تاہم اس کی یہ امید بر نہیں آئی کہ اس طرح کی باغیانہ کارروائی سے وہ اسلامی دنیا کے ظالم حکومتوں کے خاتمہ میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس کے برعکس امریکا ان ظالم حکومتوں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور ان کے بدلے دوسرے ظالموں کو ان کی جگہ لانے کی کوشش میں ہے‘ جو اس کے مفادات کی بہتر طور پر تکمیل کر سکیں۔ صدر بش تبدیلیٔ حکومت کا اب تک دو تجربہ کر چکے ہیں‘ افغانستان اور عراق میں۔ اس طریقے سے اور کتنی حکومتیں تبدیل ہوں گی؟ صدر بش کے پاس اپنے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مزید چار سال ہیں۔ کیا ہم صدر بش کے لیے نیک تمنائوں کا اظہار کریں یا امریکا کے لیے بہتر خواہشات کا اظہار کریں؟
نوٹ: مضمون نگار امریکا کی نار ایسٹرن یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘۔ کراچی۔ ۱۲ فروری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply