
یورپ میں رواداری اور سیکولر اقدار کا اس قدر ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے کہ ہر کوئی اسے حقیقت جان کر دھوکہ کھا جاتا ہے۔ یورپی میڈیا، حکمران اشرافیہ اور سفید فام عیسائی اکثریت کے درمیان درحقیقت یہ ایک ربط کا نتیجہ ہے کہ دنیا پر سیکولر یورپ کا بھرم قائم ہے۔ اسی ربط کی وجہ سے جرمنی کے قصبے ڈرسڈن میں مصری مسلم خاتون ماروا الشربینی کا قتل یورپی میڈیا منظر عام پر نہ لایا جو محض اس لیے قتل ہوئیں کیونکہ انہوں نے حجاب اوڑھ رکھا تھا۔ امریکی میڈیا نے بھی دانستہ اس خبر کو اچھالنے سے گریز کیا۔ ہاں ثقافتی و مذہبی اقدار کی نمائش کرتے ہوئے کوئی یہودی خاتون قتل ہو جاتی تو پورا یورپی میڈیا نہ صرف اس قصبے میں ڈیرے ڈالتا بلکہ اس حد تک واقعہ کو اچھالتا کہ جرمن حکومت شدید مشکل میں گِھر جاتی۔
قتل کا یہ واقعہ فرانسیسی صدر سرکوزی کے حجاب کے بارے میں ان کے سیکولر بیان کے کچھ دنوں بعد پیش آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبرل یورپ میں حجاب سے سخت بیزاری کا کھلم کھلا اظہار ہو رہا ہے۔ دراصل یہ یورپ کی لبرل اقدار کی نئی تعریف ہے جس میں ثقافتی تنوع نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ اس کے وہاں پنپنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ جب یورپی رہنما اپنے بیانات میں اپنی لبرل اقدار کی تعریف کرتے ہیں تو یورپی نسل پرستی کی لہر میں ان حدود کا ذکر کرتے ہیں جن کی پابندی غیر سفید فام آبادکاروں پر لازم ہے۔
ماروا الشربینی کا قتل اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ اس نے یورپ میں حجاب اوڑھنے کا جرم کیا۔ قتل سے ایک سال قبل ایک ۲۸ سالہ روسی نژاد نے حجاب اوڑھنے پر اسے نہ صرف دہشت گرد کہا بلکہ مسلم طوائف کہہ کر اس کی تذلیل بھی کی۔ تذلیل کرنے پر عدالت نے اس روسی کو ۷۸۰ یورو جرمانے کی سزا سنائی، جس پر روسی نے اپیل کی۔ قتل کے روز دونوں فریق ڈرسڈن کی عدالت میں موجود تھے کہ وہیں ماروا کو اس کے شوہر اور تین سالہ بیٹے کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ ماروا حاملہ تھی اور کمرہ عدالت میں ہی قاتل نے اس پر چاقو کے ۱۸ وار کیے۔ اس موقع پر ماروا کے شوہر نے مداخلت کرتے ہوئے اسے بچانے کی کوشش کی مگر پولیس اہلکار نے اسے گولی مار دی۔ پولیس اہلکار نے بعد میں بیان دیا کہ وہ ماروا کے شوہر کو حملہ آور سمجھا تھا۔ پولیس اہلکار کا بیان انتہائی مضحکہ خیز ہے کیونکہ اصل حملہ آور پہچاننے میںغلطی کیسے ہو سکتی ہے؟ پولیس اہلکار کی نظروں کے سامنے کمرہ عدالت میں مسلح شخص ایک خاتون پر چاقو کے وار کر رہا ہے اس خاتون کو بچانے کے لیے بڑھنے والے شخص کو وہ حملہ آور سمجھ کر گولی مار دیتا ہے۔ ماروا کو بچانے کے لیے حملہ آور کو فوری حراست میں کیوں نہ لیا گیا؟ وہ ماروا پر ۱۸ چاقو کے وار کرنے میں کیسے کامیاب ہوا؟ ماروا کے شوہر پر گولی چلانے والے پولیس اہلکار نے قاتل کو کیونکر زندہ چھوڑ دیا؟ جب وہ چاقو کے وار کر رہا تھا، اس پر گولی کیوں نہ چلائی گئی؟
ان سوالات کی سرکاری و غیر سرکاری حلقے جو بھی وضاحت پیش کریں، نسلی تعصب کے عنصر کو رَد نہیں کیا جا سکتا۔ جرمن حکومت نے پوری کوشش کی کہ اس سانحہ کو دبا دے۔ اس واردات پر لبرل اور انسانی حقوق کے ان ٹھیکیداروں کی خاموشی سرمناک ہے جو مسلم انتہا پسندوں کے ہر اقدام کی مذمت کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ یورپ میں سینٹرل کونسل آف مسلم لیڈرشپ کے ساتھ ساتھ سانحہ کی بھرپور مذمت سینٹرل کونسل آف جیوز کے سیکریٹری جنرل اسٹیفن کریمر نے کی۔ اسٹیفن نے یورپی قیادت اور میڈیا کے منفی رویئے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یورپ کے یہودی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظلم پر اگر ایک بار خاموشی اختیار کر لی جائے تو پھر اجتماعی جرم کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا۔
کیا مستقبل میں حجاب کرنے والی دیگر مسلم خواتین بھی یورپ کے انتہا پسند، نسل پرست عناصر کا نشانہ بنیں گی؟ یورپی یونین نے مذہبی بنیاد پر ہونے والے اس قتل کی مذمت کیوں نہیں کی؟ کیا ماروا الشربینی پہلی اور آخری مسلم خاتون ہوں گی جن کو یورپ میں حجاب پہننے کی سزا ملی؟ جیسا کہ سرکوزی کے بیان کے بعد مصری میڈیا میں یہ تاثر ابھر رہا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ فرانس کی مساوات اور شخصی آزادی کی روایات مذہبی عدم رواداری اور ثقافتی تنوع کے سامنے سرنگوں ہو رہی ہے۔
ماروا کے قتل کا شرمناک پہلو پاکستان سمیت مسلم دنیا کا ردعمل ہے۔ مسلم ممالک میں خواتین یا غیر مسلم سے زیادتی کے عام واقعہ پر یورپی یونین کے رہنما مذمتی بیان جاری کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرتے، میڈیا تو ایسے واقعات بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ بعض موقع پر انہوں نے خلوص کے ساتھ ہمارے ضمیر جھنجھوڑنے کی کوشش کی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ مگر آج اسی یورپی یونین اور ان کے میڈیا نے جرمنی میں کوئی اعلیٰ سطحی وفد نہیں بھیجا جو بے گناہ مسلم خاتون کے قتل کے محرکات کا جائزہ لے۔ سوات میں طالبان انتہا پسندوں کے نوجوان لڑکی پر کوڑے برسانے پر مجسم احتجاج مغربی میڈیا آج ایک کرسچن انتہا پسند کے ہاتھوں مسلم خاتون کے قتل پر کیوں خاموش ہے؟ کیا مغربی اشرافیہ کے لیے طالبان کے کوڑوں کا نشانے بننے والی لڑکی ہی صرف مظلوم ہے؟ حجاب پہننے والی خاتون اس حد تک ناقابل معافی ہے کہ اس کے قتل کا جرم ان کی نظروں میں خاص اہمیت نہیں رکھتا؟
نائن الیون کے بعد امریکا کے اتحادی جنرل دوستم کے ہاتھوں طالبان قیدیوں کے قتل عام پر مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہمارے میڈیا نے بھی مکمل خاموشی اختیار کی۔ صدر اوباما نے بھی اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرنے سے گریز کیا۔ انسانی حقوق کے بارے میں مغرب کا یہ دوہرا معیار شاید ہم قبول کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مخصوص سوچ رکھنے والے مسلمانوں کا قتل ہمارے لیے قابل قبول ہے۔
جب تک تشدد اور خواتین کے خلاف جرائم پر واضح نقطہ نظر کے بجائے ہماری سوچ میں تضاد رہے گا، ہمارا احتجاج بے اثر رہے گا۔ بلوچ سرداروں کا خواتین کو زندہ دفن کرنا، جنوبی پنجاب کے تمن داروں کا خواتین کے ناک کاٹنا اور سندھی جاگیرداروں کا لڑکیوں پر کتے چھوڑنا جیسے جرائم اتنے ہی گھنائونے ہیں جتنے طالبان کے خواتین کے خلاف جرائم ہیں۔ ان جرائم کی کثرت اتنی زیادہ ہے کہ ہم ان کے عادی بن چکے ہیں۔ آج یورپ میں ہماری بہنوں کے خلاف ایک نئے جرم کا آغاز ہوا ہے اور یہ اس لیے ہے کہ وہ حجاب میں رہنا چاہتی ہیں۔ ہم خاموش کیوں ہیں؟
ہم توقع نہیں کرتے کہ ہمارے قائدین جرمنی کے واقعہ پر احتجاج کریں گے۔ افغانستان یا امریکا کے بارے میں ہم ان کے بیانات سنتے رہتے ہیں۔امریکا افغانستان میں جو کچھ کر رہا ہے اس سے ہمیں سروکار نہیں، مگر افغانستان کی وجہ سے جو تباہی پاکستان پر نازل کی جا رہی ہے اس کا کیا کیا جائے؟ جس میں طالبان کا اچانک منظر عام پر آنا بھی شامل ہے۔ جنرل بابر کے سوا کسی سیاسی رہنما نے کبھی ان غلطیوں کا اعتراف نہیں کیا، جن کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔ جنرل بابر کی طرح کسی امریکی رہنما کو بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کی سی آئی اے سے کتنے گھنائونے جرائم سرزد ہوئے؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی غلطیاں دہرانے کے بجائے ان سے سبق حاصل کیا جائے۔ البتہ غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو کے دوران ہمارے رہنمائوں کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ غیر ضروری اعترافات سے گریز کریں ایک مشکوک غیر ملکی اتحادی کو وفاداری کا یقین دلانے سے اجتناب میں ہی ان کی بہتری ہے۔
مجبور سیاسی قیادت کی مجبوریاں اپنی جگہ، یورپی نسل پرستی کا اگلا شکار بننے سے قبل قوم کو سوال کرنا ہو گا کہ وہ کیوں اس بے حس مسلم امہ کا حصہ ہے؟
(بشکریہ: ’’دی نیوز‘‘ ۔ ۱۵ جولائی ۲۰۰۹)
Leave a Reply