
چین ان چند ممالک میں شامل ہے جنھوں نے شیخ حسینہ واجد کو ۳۰ دسمبر ۲۰۱۸ء کو ملک میں ہونے والے گیارھویں انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے پر سب سے پہلے مبارکباد پیش کی۔ ڈھاکا میں تعینات چینی سفارت کار نے اپنے وفد کے ساتھ ۳۱ دسمبر کو وزیر اعظم ہاؤس کا سرکاری طور پر دورہ کیا اور حسینہ واجد کو چینی وزیراعظم اور صدر کی جانب سے انتخابات جیتنے پر مبارکباد کا پیغام پہنچایا۔ یہ سرکاری پیغام چین اور بنگلاد یش کے درمیان اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی تیزی سے پروان چڑھتے تزویراتی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔
گزشتہ عرصے،خاص طور پر ۹۰ کی دہائی کے بعد سے معاشی ترقی اور قومی سلامتی کے امور میں بہتری کے حوالے سے چین بنگلادیش کا بہترین معاون ثابت ہوا ہے۔۲۰۰۹ء سے قائم شیخ حسینہ واجد اور ان کی جماعت کے دور حکومت میں چین بنگلادیش تعلقات تزویراتی شراکت داری میں تبدیل ہوئے ہیں۔
تجارت کے شعبے پر نظر ڈالی جائے تودونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم دس ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔اس بڑے حجم کے ساتھ چین بنگلادیش کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی بن چکا ہے۔ بنگلا دیش کے ’’ایکسپورٹ پروموشن بیورو‘‘کے اعدادو شمار کے مطابق مالی سال ۱۶۔۲۰۱۵ء میں چین کو ۸۰ کروڑ ڈالر سے زائد کی برآمدات کی گئیں۔ جبکہ مالی سال ۱۱۔۲۰۱۰ء میں برآمدات ۳۱۹ء ۶۶ ملین ڈالر تھیں۔اسی طرح مالی سال ۱۶۔۲۰۱۵ء میں چین کی بنگلادیش کو کی گئی برآمدات ۸ء۹؍ارب ڈالر تھی، جب کہ یہی برآمدات سال ۱۱۔۲۰۱۰ء میں ۵؍اعشاریہ ۹؍ارب ڈالر تھیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اگر اسی طرح برقرار رہے تو باہمی تجارت کا حجم ۲۰۲۱ء میں ۱۸؍ارب ڈالر تک جاپہنچے گا اور یہ وہ سال ہوگا جب بنگلادیش اپنے قیام کی پچاسویں سالگرہ منا رہا ہو گا۔
گزشتہ دہائی میں بنگلادیش نے چین کے ساتھ صرف معاشی تعلقات ہی نہیں بلکہ بہترین سیاسی تعلقات بھی قائم کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۶ء میں جب چینی صدر ژی جن پنگ نے بنگلادیش کا دورہ کیا تو ان کا سرکاری طور پر ایسا فقیدالمثال استقبال کیا گیا جو کہ تاریخ میں کسی سربراہ مملکت کا نہیں کیا گیا تھا۔ یہ تیس برسوں میں کسی بھی چینی سربراہ مملکت کی جانب سے بنگلادیش کا پہلا دورہ تھا۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں ۱۳؍اعشاریہ ۶؍ارب ڈالر کے مختلف معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے۔ اس کے علاوہ صدر ژی جن پنگ نے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ۲۳؍ارب ڈالر کے قرضوں کا اعلان بھی کیا۔ اس سے قبل ۲۰۱۴ء میں China Major Bridge Engineering Company کو بنگلادیش کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی منصوبے ’’پدماپل‘‘ کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا گیا۔
۲۰۱۶ء سے بنگلادیش، چین کے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کا باقاعدہ شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایشین انفراسٹرکچر اینڈ انوسمنٹ بینک کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ جغرافیائی طور پر بنگلادیش BRI کے سمندری اور زمینی راستوں کا حصہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنگلادیش، چین، بھارت، میانمار اقتصادی راہداری (BCIM-EC) منصوبے کا بھی رکن ہے۔ اس منصوبے کے ذریعے جنوبی سلک روڈ کی ازسرنو بحالی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اس طرح چین اپنے زمین سے گھرے صوبوں کو خلیج بنگال سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف بنگلادیش کی چٹاگانگ بندرگاہ ’’میری ٹائم سلک روڈ‘‘ منصوبے کا بھی حصہ ہے۔ درحقیقت بنگلادیش پاکستان کے بعد جنوبی ایشیا کا دوسرا ملک ہے، جو BRI منصوبے کی مد میں سب سے زیادہ فنڈ وصول کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ دہائی میں چین نے جنوبی ایشیا میں اپنے آپ کو بنگلادیش کے اسٹریٹجک سیکورٹی پارٹنر کے طور پر منوایا ہے۔ مثال کے طور پر ۱۵۔۲۰۱۱ء کے دوران بنگلادیش چینی اسلحے اور فوجی سازوسامان کا دوسرا بڑا خریدار رہا ہے۔ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں بنگلادیش نے اپنی سمندری فوج کی اہلیت اور صلاحیتوں میں اضافے کے لیے چین سے دو آبدوزیں خریدیں، جو کہ ۲۰۱۶ء میں بنگلادیش پہنچ گئی تھیں۔ سال ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۵ء کے دوران بنگلادیش نے چین سے ۶ عدد بحری جہاز بھی خریدے، جن میں دو پٹرول بوٹس بھی شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی اور اسلحے کی اس خریداری کی وجہ سے بنگلادیش کی بحری فوج نے اپنے سمندری حدود کے دفاع کو مضبوط کیا ہے۔
اس عرصے کے دوران چین اور بنگلادیش نے تعلیم اور ثقافت کے شعبہ جات میں بھی اپنے تعلقات کو مستحکم کیا ہے۔ بنگلادیش کی سرکاری اور نجی جامعات میں چینی زبان سکھانے کے بہت سے مراکز کھولے جاچکے ہیں۔ چینی حکومت کی جانب سے اسکالر شپ دیے جانے کی وجہ سے چین میں بنگلادیشی طلبہ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
لہٰذا دونوں اطراف کی توقعات کے عین مطابق حسینہ واجد کے تیسرے دورِ حکومت میں دونوں ممالک کا باہمی تعاون مزید فروغ پائے گا۔ چین کو اس بات کا یقین ہے کہ حسینہ واجد کی سربراہی میں بنگلادیش اپنے ’’ویژن ۲۰۲۱ء‘‘ کے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ جس کے نتیجے میں بنگلادیش درمیانے درجے کی آمدن والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ جس سے آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تعلقات نئی بلندیوں پر پہنچ جائیں گے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“New Government in Bangladesh: Implications for China-Bangladesh relations”. (“moderndiplomacy.eu”. January 19, 2019)
Leave a Reply