
میاں نواز شریف کبھی بھی نظریاتی آدمی نہیں رہے۔ نظریہ اور فکر کی تشکیل مطالعہ سے ہوتی ہے، انہیں نہ کتاب سے دلچسپی ہے اور نہ مطالعہ کا شوق۔ البتہ وہ صرف عالمی رہنمائوں میں سے کسی کے ساتھ ملاقات کے وقت پڑھنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ اس موقع پر وہ مضحکہ خیز انداز میں چِٹوں سے دیکھ دیکھ کر باتیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پالیسیوں میں ان کے اندر مطالعہ کی روشنی سے زیادہ باہر کا عکس ہوتا ہے۔ اب تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد سیکولر لبرل لابی کا ان پر اثر غالب ہے۔ بھارت سے تعلقات ہوں یا ملکی سطح پر روشن خیالی کی باتیں، وہ اِسی لابی سے مستعار لے رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ نجم سیٹھی کس دور میں کرکٹ اسٹار رہے ہیں، لیکن میاں صاحب نے کرکٹ کا طوطا نجم سیٹھی کے پنجرے میں ڈال دیا۔ وہ عاصمہ جہانگیر کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر بھی ہیں اور امتیاز عالم جیسے لوگوں کے فکری گنج ہائے گراں مایہ سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔ وہ عشقِ رسولؐ کشید کرنے کے لیے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ کرنے سے زیادہ اپنے خاندانی نعت خوان سے نعتیں سننے پر اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان پر اور ان کی حکومت پر ’مذہبیت‘ کے کسی رنگ کا تاثر نہ ملے۔ نیو لبرل اِزم کے تصورات معیشت کی جو نئی نقشہ گری کررہے ہیں، اس سے بھی وہ متاثر ہیں۔ حکومت کے زیر انتظام بڑے اداروں کی نجکاری، ٹیکسوں کا نظام، عوامی مفاد کے کچھ دائروں میں رعایت کا بتدریج یا یکمشت خاتمہ اور عوامی ضرورت کی چیزوں کی قیمتوں کا تعین مقامی حالات کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات کے مطابق کرنا، نیو لبرل معیشت کے متعینہ اہداف کی روشنی میں سرمائے کی ملکوں ملکوں گردش میں ممکنہ سہولت فراہم کرنا اور ایسے ہی متعدد اقدام وزیراعظم کی اپنی کسی سوچ کا نہیں بلکہ اسی ’نیو لبرل‘ معیشت کے مستعار تصورات یا عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات کا نتیجہ ہیں۔ اب سرحدوں کی لکیروں سے ماورا نئی ’رشتہ داریاں‘ کارپوریٹ معیشت استوار کررہی ہے۔ پاکستان میں اس معیشت سے وابستہ سرمایہ داروں میں خواہ نواز شریف ہوں، میاں منشا ہوں، جہانگیر ترین ہوں یا ملک ریاض یا آصف علی زرداری اور بہت سے دیگر غیر معمولی طور پر متمول لوگ، ان سب کے باہر کے ملکوں میں ایسے ہی متمول لوگوں کے ساتھ کاروباری رشتے قائم ہو رہے ہیں۔ سرمائے سے وابستہ سب لوگوں کی فکری رگوں میں نیو لبرل معیشت کا خون دوڑ رہا ہے۔ یوں یہ سب ایک نئی طرح کے ’خونی‘ رشتے میں منسلک ہیں۔ ان تمام ’رشتہ داروں‘ کی سماجی اقدار اور نظریاتی بنیادیں بھی سرمایہ استوار کررہا ہے۔ ان میں ایک قدر مشترک پیدا کرنے کے لیے سب کو سیکولر نظریات، لبرل فکر اور اس سے وابستہ رویوں میں جوڑا جارہا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی ولادت فوج کی آغوش میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اس تعلق سے ایک دور میں خوب فائدہ بھی اٹھایا اور بہت طعنے بھی سنے۔ پھر انہوں نے یہ رنگ دھو کر اپنی جمہوریت پسند شناخت بنائی اور پھر اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ اپنایا۔ انہیں اس نئے رویے کی خاصی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی تھی۔ سارے خاندان سمیت اقتدار سے جبری محرومی اور جلاوطنی کے زخم کھائے۔ جلاوطنی کا عرصہ انہوں نے حرمِ کعبہ کے قریب جدہ میں گزارا۔ یہاں قیام کے دوران میں انہیں سعی و طواف اور نوافل و عبادات کے ذریعے تعلق باللہ کے بڑے قیمتی مواقع میسر آئے۔ سعودی عرب سے مراجعت کے بعد بھی رمضان کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارنے کا معمول انہوں نے برقرار رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود نہ تو کاروبار اور اس کے منافع کی چاہت ان کے دل سے نکلی اور نہ وہ اقتدار کی طلب اور وزارتِ عظمیٰ کی خواہش سے دستبردار ہوئے۔ اب جب وہ تیسری بار وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی آدھی مدت مکمل کر چکے ہیں تو دو چیزیں ان کے اندر بڑی واضح نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ ۲۰۱۸ء میں انتخابی معرکہ مار کر چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں۔ یہ خواہش خلافِ شریعت ہے۔ لیکن نظر آرہا ہے کہ اس خواہش کی تکمیل کے لیے انہیں کچھ خلافِ شریعت راستوں پر چلنا پڑا تو وہ گریز نہیں کریں گے۔ ماضی سے جو ’سبق‘ انہوں نے سیکھا، وہ یہ ہے کہ اب وہ اپنے دامن پر اسٹیبلشمنٹ مخالف کا لگا داغ دھو کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر چلنے کی نفسیات پختہ کر رہے ہیں۔ دوسری اہم چیز جو اُن کی سوچ میں نمایاں نظر آتی ہے اور وہ اس کے لیے عملی اقدامات بھی کر رہے ہیں، وہ ہے ہر حال میں نیو لبرل معیشت اور اس سے وابستہ کاروباری رویوں، اس معیشت کے سرپرست اعلیٰ امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کی لائن پر چلنا۔ ان میں جو نئے رجحانات نمو پارہے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی بنیاد میں اسلام کے رنگ کی جو نظریاتی اور تہذیبی اور ثقافتی اینٹیں لگی ہوئی ہیں، بیرونی احکامات پر اکھاڑ پھینکنے میں بھی انہیں عار نہیں ہوگا۔ اگلے مہینے وہ اپنی نئی ثقافتی پالیسی کا اعلان کریں گے۔ اس پالیسی کے کچھ اشارے ہمیں پاکستان سپر لیگ (PSL) کے نام پر دبئی میں سجائے گئے پاکستانی کرکٹ میلے کی افتتاحی تقریب سے ملے ہیں۔ اس تقریب میں نجم سیٹھی نے عملی طور پر اپنی الٹرا لبرل فکر کا اظہار کیا اور پاکستان سے نسبت رکھنے والی تقریب پر مغربی اور بھارتی ثقافت کا پورا رنگ چڑھا کر دکھایا۔
امریکا دنیا میں جمہوریت کی سوغات بانٹنے کے معاملے میں نہ پہلے کبھی سنجیدہ تھا اور نہ اسے اس نظریے کی روح سے اب کوئی خاص سروکار ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ گزشتہ تقریباً پون صدی کے عرصے میں اس نے ڈکٹیٹروں اور شخصی حکمرانوں کو جمہوریت پر ترجیح دی۔ اس کا اصل ہدف سرمایہ دارانہ معیشت کی تقویت، امریکی ثقافت اور مغربی تہذیب کو عالمِ اسلام میں پھیلانا ہے۔ یہ کام منتخب حکومتوں کے ذریعے ہو یا آمروں، شیخیوں اور بادشاہتوں کے توسط سے، یہ اس کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ خونخوار اور سفاک آمریتیں بھی اگر یہ خدمت انجام دینے پر تیار ہوں تو امریکا ان کے ہاتھوں دین پسند عناصر، جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے خون سے چشم پوشی کرسکتا ہے۔ مصر میں اِخوان المسلمون پر جو کچھ بیت رہی ہے اور بنگلادیش میں جماعت اسلامی کی اگلی صف کی ساری قیادت کو جس بے رحمی کے ساتھ پھانسیوں پر لٹکایا جارہا ہے، امریکا کو اس انسانیت کُشی اور عدل کی پامالی کی کوئی پروا نہیں۔ امریکا نے پندرہ سال پہلے دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا طبل بجایا تھا، اس کے بعد اٹھنے والے طوفان کی ستائی ہوئی اور امن کی متلاشی دنیا کے دماغ میں یہ خیال بٹھایا جارہا ہے کہ اگر لوگوں کو دہشت گردی کے عِفرِیت سے نجات مطلوب ہے تو سیکولر طرزِ فکر اور مغربی تہذیب کے سائے میں پناہ لینی ہوگی۔ دلیل کے ہتھیار سے، جمہوری اصولوں کے مطابق، پُرامن اور آئینی اور قانونی طریقے سے مسلم ممالک میں اپنا راستہ بنانے والی ان اسلامی تحریکوں کے اثر کا جادو ریاستی طاقت سے توڑنا امریکا کا بڑا ہدف ہے۔ اسلامی تحریکوں کی ایمان اور علم اور استدلال سے مُستنِیر فکر کو سب سے بڑا خطرہ باور کرایا جارہا ہے۔ لوگوں کے دماغوں میں بٹھایا جارہا ہے کہ خرمنِ امن و آشتی میں دہشت گردی کی چنگاریاں ان تحریکوں کے آنگن سے پھینکی جارہی ہیں۔ یہ انہی کے چمن کا کڑوا پھل ہے۔ اگر مسلم ریاستیں اس دہشت گردی سے نجات چاہتی ہیں تو ایک طرف تو انہیں اپنی نظریاتی اور سماجی زندگی کی عمارت نئے سرے سے الٹرا لبرل تہذیبی اور ثقافتی بنیادوں پر کھڑی کرنی ہوگی، دوسرے انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے اسلامی تحریکوں کے افکار و نظریات اور لائحہ عمل کو مسترد ہی نہیں کیا بلکہ انہیں کچلنے کے عمل میں اپنی کھلی تائید نہیں تو کم ازکم اپنی خاموشی سے بھرپور تعاون ضرور کیا ہے۔ عرب دنیا کی اکثر حکومتیں قدامت پسند اور انقلاب مخالف ہیں۔ یہ شخصی حکومتیں تہذیبی اور ثقافتی طور پر امریکی معیارات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہیں، ان کے چمن میں جمہوریت نوازوں کا بڑھنا، پلنا اور پھل پھول لانا بہت دور کی بات ہے۔ وہ انسانی حقوق کے احترام کے عالمی پیمانوں پر بھی پوری نہیں اترتی ہیں، لیکن اگر انہوں نے ایک طرف اپنی منڈیوں اور مارکیٹوں کو نیولبرل معیشت کے تابع کر دیا اور اپنے گھروں اور سماج کے دروازے الٹرا لبرل کلچر کے لیے پوری طرح کھول دیے تو ان کے جمہوریت کشی کے سارے خون معاف کر دیے جائیں گے۔ اِخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے کر کچلنے میں یہ عرب ممالک اسی لیے فوجی آمروں سے بھی بڑھ کر ظالمانہ اقدامات کر رہے ہیں۔
میاں نواز شریف کی سمجھ میں اور کوئی بات آتی ہو یا نہ آتی ہو، لیکن لبرل جمہوریت کی بات انہوں نے پلّے باندھ لی ہے۔ نہ صرف زبانی کلامی لبرل اس کی تکرار کر رہے ہیں بلکہ دہشت گردی کی آڑ میں مذہبی رجحانات کو لگام دینے اور لبرل رویوں کو فروغ دینے کے اقدامات بھی انہوں نے شروع کر دیے ہیں۔ پاکستان میں سیکولر لبرل سوچ ایک طویل عرصے سے اضمحلال کا شکار تھی، میاں نواز شریف کے حالیہ عرصۂ اقتدار میں اس کی توانائیاں لوٹ آئی ہیں۔ امریکی اور مغربی سرمائے سے پلنے اور چلنے والی این جی اوز کے کرتا دھرتا اور مغرب کی بولی بولنے اور اپنے دین اور اپنی تہذیب سے بیزار اور اپنے ملک کی ساکھ خراب کرنے والی سول سوسائٹی، الٹرا لبرل خواتین و حضرات نے باہر سے سونپے ہوئے ایجنڈے کے مطابق اپنی سرگرمیاں تیز تر کردی ہیں۔ آسکر ایوارڈ کی آڑ میں اپنے ملک کی تصویر کو انتہائی کریہہ اور گھنائونی بنا کر دنیا کو دکھانے والی شرمین عبید چنائے نے کسی وجہ ہی سے تو بڑے جذباتی انداز میں اپنے وزیراعظم پر فخر کا اظہار کیا ہے۔ شرمین چنائے کی دستاویزی فلموں کو جو غیر معمولی پذیرائی ملتی ہے اور وہ آسکر ایوارڈ کے لیے منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ اس لیے کہ اس بی بی کی بھی ملالہ یوسف زئی کی طرح مغربی دنیا میں بڑی قدر و قیمت ہے۔ یہ ہمارے ملک کی نظریاتی، اعتقادی اور اخلاقی منزل بدلنے والے قافلے میں بڑا نمایاں کردار ہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اسلام پسند عناصر کے گرد جوں جوں گھیرا تنگ ہوگا، سیکولر لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوں گی اور الٹرا لبرل طبقات کے راستوں کی ساری رکاوٹیں بھی ریاستی پالیسیوں اور اقدامات کے ذریعے صاف کی جائیں گی۔ آثار یہ بھی ہیں کہ وطنِ عزیز کی نظریاتی اور تہذیبی و ثقافتی منزل بدلنے کا کام جو مشرف بھی نہ کرسکا تھا اور سیکولر مزاج کی پیپلز پارٹی سے بھی نہ ہو سکا تھا، وہ نعتوں پر جھومنے اور حرمین شریفین میں رمضان کا آخری عشرہ گزارنے والے میاں نواز شریف سے لیا جانے والا ہے۔
(بحوالہ: “munir-khalili.blogspot.ae”۔ ۸ فروری ۲۰۱۶ء)
Shahid Hashmi deserves gratitude and appreciation for publishing the ‘feature service’ so regularly and taking pains in selecting the material which is diverse and varied and in sum conveys a message and plan to open up the minds of neutral readers as well as provides readable articles mostly. May Allah bless him and his colleagues for the efforts. Zubair bin Umer. Chicago. March 2,2016.