آج سے ساٹھ سال قبل جب امریکا کو سوویت اشتراکیت کی شکل میں ایک نئے عالمی خطرے سے سامنا ہوا تو اس کے رہنمائوں نے ایک حیران کن قسم کی تخلیقی صلاحیت کے دھماکے کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ جن اداروں کو انہوں نے تشکیل دیا، اُن میں ورلڈ بینک اور مارشل پلان تھا اور سب سے اہم نیٹو تھا جو باہمی دفاعی معاہدہ اور فوجی تعاون کا مظہر تھا۔ اب جبکہ ایک نئے عالمی خطرے کا سامنا ہے یعنی اسلامی انتہا پسندوں کی جانب سے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا تو اب ہمیں بعض تخلیقی اور جرأت مندانہ سوچ کے استعمال کو یقینی بنانا چاہیے۔ اب تک George Marshall اور Dean Acheson کیا کرتے رہے؟ مجھے شک ہے کہ ان کی ترجیحات میں نیٹو کی ایک نئی قسم کی تشکیل سرِفہرست رہی ہو۔ وہ اسے MATO کا نام دے سکتے ہیں یعنی The Mideast Antiterrorism Organization جو مشرقِ وسطیٰ کے معتدل اتحادیوں اور مغرب کے مابین فوج، سراغ رسانی، پولیس اور سکیورٹی کے شعبوں میں باہمی تعاون کی تنظیم ہو گی۔ MATO اشتراک میں وہ ممالک شامل ہوں گے جن کو امریکی وزیرِ خارجہ کونڈو لیزا رائس نے خطے کے اپنے حالیہ دورے میں مروجہ دھارے (Mainstream) اور معتدل (Moderate) عرب اقوام کا نام دیا ہے جن سے اُس کی مراد مصر، اردن، سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ہیں۔ ایران اور اسلامی بنیاد پرستی کے قوت پکڑنے سے انہیں بھی ویسے ہی خطرے کا سامنا ہے جیسا کہ ہمیں ہے۔ اتحاد تشکیل دینے کی صورت میں ہمیں چیلنج کی صورت میں موقع ہاتھ آئے گا اور اسے مزید موثر بنانے کے لیے ہمیں اسرائیل کو بھی اتحاد میں شامل کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ضرورت ہو گی کہ فلسطین کے ساتھ اسرائیلی امن کو یقینی بنایا جائے جس کے بعد اسرائیل آمادہ ہو جائے گا کہ وہ مغربی کنارہ سے غیرمعینہ مدت تک کے لیے قبضہ ہٹا لے۔ پھر موقع ہو گا کہ اسرائیل (جیسا کہ سعودی عرب نے ۲۰۰۲ء میں تجویز پیش کی تھی) معتدل عرب ریاستوں کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کر لے اور یہ نیا فوجی اتحاد کسی بھی اسرائیلی۔فلسطینی مفاہمت کو قابلِ عمل بنانے کے لیے سکیورٹی کی ضمانتیں فراہم کرے گا۔ دوسرا چیلنج اس امر کو یقینی بنانا ہے کہ نیا اتحاد اسلامی دنیا میں فرقہ وارانہ منافرت کو بھڑکانے کا موجب نہ بنے اور یہ منافرت اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر سنیوں کو شیعوں کے خلاف سیاسی سازشوں میں ملوث دیکھا گیا۔ لیکن اگر نئی عراقی حکومت (خطے میں ایران کے علاوہ واحد شیعہ قیادت والی حکومت) شریک ہوتی ہے تو نیا اتحاد یہ ظاہر کر سکے گا کہ وہ معتدل شیعہ و معتدل سنی دونوں کے تحفظ کا خواہاں ہے۔ پھر یہ اتحاد اس لائق ہو سکے گا کہ وہ عراق میں سکیورٹی کی کچھ ذمہ داریاں امریکا سے اپنے ہاتھ میں لے سکے اور بغداد میں شیعہ رہنمائوں کو ایران کے ساتھ کسی مفاہمت سے باز رکھ سکے۔ بہرحال اس سوچ کے حوالے سے ایک بڑا فلسفیانہ اعتراض پایا جاتا ہے۔ نام نہاد عرب ریاستیں خاص طور سے مصر اور سعودی عربیہ کسی بھی طرح جمہوریت کی عمدہ مثال نہیں ہیں۔ گیارہ ستمبر کے بعد سے بش انتظامیہ نے مثالی اور نوقدامت پرستانہ ایجنڈے کو بہت اہمیت دے رکھی ہے جس کا مطلب ہے کہ خطے میں جمہوریت کے فروغ کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے اگرچہ اس کی خاطر عارضی ملت کے عدم استحکام کا بھی خطرہ مول لینا پڑے۔ یہ کہنا بہتر ہو گا جیسا کہ کونڈو لیزا رائس بارہا اعلان کرتی رہی ہیں کہ جمہوریت کے لیے مزید اقدام کرنا اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے عظیم تر استحکام کے لیے جستجو کرنا دونوں باتیں باہم متضاد نہیں ہیں۔ یہ بات طویل المیعاد تناظر میں درست ہو سکتی ہے لیکن موجودہ حقیقی دنیا بہت زیادہ پیچیدہ ہے اور واقعی مصالحت کے عوامل تھوڑے ہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے متعلق نہ حل ہونے والی حقیقت یہ ہے جیسا کہ فلسطین اور ایران کے انتخابات سے بھی اس کا مظاہرہ ہوا کہ مختصرالمیعاد عرصے میں جمہوریت اعتدال کے ساتھ ہمیشہ دوش بہ دوش نہیں چلتی ہے۔ مصر اور سعودی عرب کے انتخابات سے بھی یقینایہی ظاہر ہو گا۔ رائس کے نعرے اب تبدیل ہو گئے ہیں، اس سے قبل اپنے مصر کے دورے میں وہ اس بات کی بہت یقین کے ساتھ تبلیغ کر رہی تھیں کہ یہاں تیز رفتار جمہوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ وعظ و نصیحت ان کے تازہ ترین دورے میں غائب تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے مصر کے ساتھ امریکا کے اسٹراٹیجک تعلقات کی بات کی جس میں انہوں نے ایک ایسی جدوجہد کی بات کی جو انتہا پسندی اور معتدل یا اصل دھارے کی ریاستوں کے مابین ہے۔ اپنے ایک تازہ اداریے میں واشنگٹن پوسٹ نے خبردار کیا ہے کہ بش کو اپنے جمہوری ایجنڈے کو مشرقِ وسطیٰ میں قربان نہیں کرنا چاہیے اور یہ حقیقت ہے کہ مختصرالمیعاد سکیورٹی کی خاطر اپنے حقیقی اہداف کو ترک کرنا ایک خطرناک عمل ہو گا۔ لہٰذا مارشل اور ایچی سَن کیا کریں گے؟ شاید وہ نیٹو کی طرح دہشت گردی مخالف اتحاد کے علاوہ حقیقی اور آزاد جمہوریتوں کا ایک اتحاد تخلیق کریں گے جس کا دائرہ بھارت سے لے کر ترکی اور اسرائیل تک دراز ہو گا۔ جمہوریتوں کا ہم آواز ہونا ایسے طریقوں کی دریافت میں معاون ہو گا جن کے ذریعہ ہم اپنے مشترک آئیڈیلز جس میں دہشت گردی کے خلاف نیا اتحاد شامل ہے، کی حمایت کریں گے، انہیں پروان چڑھا سکیں گے اور ہم اپنے سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں استعمال کر سکیں گے۔ واشنگٹن دونوں آلات کا استعمال کر سکتا ہے جیسا کہ یہ اس وقت نیٹو اور اقوامِ متحدہ دونوں کو استعمال کرتا ہے، یہ صورتِ حال پر منحصر ہے۔ شاید اس طرح کی سوچ مصالحتی روش کے امکان میں کمی کی ابتدا ہو سکتی ہے جو اس وقت ہمیں پریشان کرتی معلوم ہوتی ہے۔ MATO میں رکنیت خاص طور سے اگر یہ اسرائیل و فلسطین متنازعہ تلخ مواد کو دور کر سکے تو یہ مصر اور سعودی عرب جیسے مقامات کے رہنمائوں و شہریوں دونوں کو قدرے احساسِ تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ انہیں عظیم تر جمہوریت اور اصلاح کے لیے مزید ہموار کر سکتا ہے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ میگزین۔ شمارہ: ۵ فروری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply