
صومالی سیاستدان حسن الشیخ محمود اپنے ملک کی سیاست کے موجیں مارتے سمندر میں علم و ادب اور شہری سرگرمی کے باب سے داخل ہوئے، لیکن بعض لوگ (خاص طورسے اسلام پسندوں کے اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے کی وجہ سے) ان کو عرب بہار کی تجلیات میں سے ایک تجلی گردانتے ہیں۔ وہ خانہ جنگی سے تباہ و برباد ملک میں اخوان المسلمون سے قریب، اسلام پسندوں کے ایک نشان ہیں۔
۱۹۶۰ء میں آزادی کے بعد سے وہ صومالیہ کے آٹھویں صدر ہیں۔ آزادانہ انتخاب رائے کے عمل کے سائے میں وہ پہلے منتخب صدر ہیں، جنہوں نے عبوری حکومت کی جگہ لی ہے۔ ۱۹۹۱ء کے بعد لڑائی جھگڑوں سے مرکزی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد اور ۲۰۰۰ء میں تعمیرنو کا عمل شروع ہونے کے بعد وہ پہلے صدر ہیں جن کا انتخاب صومالیہ کی راجدھانی موغادیشو میں ہوا، ور نہ ان سے پہلے صدور کا انتخاب بدامنی کی وجہ سے پڑوسی ممالک کینیا اور جیبوتی وغیرہ میں ہوتا تھا۔ وہ ایک دانشور، سماجی کارکن اور یونیورسٹی استاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے، ان کا تعلق ایک بڑے صومالی قبیلے ’’الہویۃ‘‘ سے ہے، جس کا ۱۹۷۷ء میں ایتھوپیا کے ساتھ جنگِ اوگادین اور صومالی خانہ جنگی میں اہم کردار ہے۔ وہ صومالیہ کے وسط میں ہیران صوبے کے ’’جلالقسی‘‘ شہر میں ۱۹۵۵ء میں پیدا ہوئے، فَقرو فاقے کی حالت میں ایک یتیم بچے کی حیثیت سے ان کی پرورش ہوئی، لیکن انہوں نے ایران کے شہر ’’بلاوین‘‘ میں اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم مکمل کی، پھر ۱۹۸۱ء میں موغادیشو میں نیشنل یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، اس کے بعد ’’لفولی‘‘ ٹیکنیکل سیکنڈری اسکول میں وزارتِ تعلیم کے مدرس کی حیثیت سے کام کیا۔ ۱۹۸۸ء میں صومالیہ میں تعلیم کی ترقی کے یونیسکو پروگرام میں ماہر بنے جس کی بدولت ملک کے طول و عرض میں تعلیمی ضروریات کے اندازے کے لیے سفر کے دوران ملکی مشکلات و مسائل سے واقفیت ہوئی۔
۱۹۹۱ء میں صومالی ریاست کے انہدام کے بعد ملک کے جنوب اور درمیانی حصوں میں تعلیمی شعبے کی تعمیرنو کے لیے یونیسیف کے ساتھ کام کیا، لیکن ۱۹۹۵ء میں اقوام متحدہ نے صومالیہ میں اپنی سرگرمیاں موقوف کر دیں تو وہ سیاست کی طرف متوجہ ہوئے اور آپس میں لڑنے والے صومالی گروہوں کے ساتھ گفتگو شروع کرنے کے لیے لوگوں کو مجتمع کیا، جس کی وجہ سے ان کی مساعی شہری سوسائٹی کی تشکیل میں بار آور ہوئیں، جس کی شکل و صورت زمانے کے ساتھ بدلتی رہیں۔
سیاسی میدان میں حسن الشیخ محمود نے اس گرین لائن کو توڑنے میں شرکت کی، جس نے ۱۹۹۲ء کے بعد موغادیشو کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ کر دیا تھا، اور القاہرہ معاہدہ ۱۹۹۷ء کرانے میں حصہ لیا جس کی بدولت دارالحکومت کے دونوں حصے پھر ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے۔ ۱۹۹۹ء میں المعہد الصومالی للتمیۃ والتطویر الادارہ (SIMAD) قائم ہوا تو وہ بھی اس کے مؤسسین میں ایک تھے۔ صومالی اسٹیٹ کے انہدام کے بعد یہ انسٹی ٹیوٹ پہلا تعلیمی ادارہ تھا جو ملک کی تعمیر نو کے لیے منتظمین اور ٹیکنو کریٹ تیار کرتا تھا، پھر وہ اس انسٹی ٹیوٹ کے پہلے پرنسپل بنے تو انہوں نے اس کو ریسرچ ٹریننگ، کنسلٹینسی وغیرہ کی رہنما پیشرو یونیورسٹی بنا دیا۔ اس کے بعد انہوں نے ۲۰۰۱ء سے مرکز البحوث والحوار (CRD) میں کام کے دوران صومالیہ کی تعمیرنو اور کشمکش ختم کرنے کے لیے کئی ریسرچ پیپر تیار کیے اور باشندوں کی اولین ضروریات متعین کرنے کے لیے ملک میں دورے کیے۔ ۲۰۰۴ء میں مرکز لشئون المجتمع المدنی کے ڈائریکٹر ہوئے تو موغادیشو میں ماہانہ مذاکرے کاانتظام کیا جو عوام کے لیے اپنی آراء و خیالات کے اظہار کے لیے اولین کھلا منچ تھا۔ ۲۰۰۵ء کے اواخر میں صومالیہ کے شہری سوسائٹی کلب کی تشکیل و قیادت کے لیے ان کو چُنا گیا جو مختلف شعبہ جات میں فعال گروپوں، نیٹ ورکس اور اتحادات کا مجموعہ ہے۔
۲۰۰۷ء سے صومالی بحران کے لیے متعدد مقامی و بین الاقوامی تنظیموں کے مشیر بنے، جیسے صومالیہ میں اقوام متحدہ کا نمو و ترقی پروگرام، یونیسیف، المؤسسۃ الدولیۃ لتحالف بناء السلام، اوکسفرڈ یونیورسٹی، معہد الحیاۃ والسلام، وزارۃ التنمیۃ الدولیۃ البریطانیۃ اور صومالیہ میں اتحادی عبوری حکومت۔ اس سب کے باوجود وہ سیاسی عمل سے مربوط رہے، ان کے حرکۃ الاصلاح (اصلاحی تحریک) سے مستحکم تعلقات ہیں جو کہ صومالیہ میں اخوان المسلمون کی شاخ ہے۔ اسی طرح وہ وہاں کے مشہور محاکم اسلامیۃ (اسلامی عدالتوں) کے اتحاد سے بھی قریب جس سے ان کے پیش رو صدر شریف شیخ احمد کا تعلق ہے۔ ۲۰۱۰ء میں انہوں نے اپنی تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں سے استعفیٰ دے کر موغادیشو میں پہلی اپوزیشن سیاسی پارٹی کی حیثیت سے السلام والتنمیۃ پارٹی کا اعلان کیا اور اسی کے امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا، چنانچہ ۱۰؍ستمبر ۲۰۱۲ء کو صومالی پارلیمان نے ان کو دوسرے مرحلے میں ۱۹۰؍ ووٹوں سے صدر جمہوریہ منتخب کیا، جبکہ ان کے حریف سابق صدر شریف شیخ احمد کو صرف ۷۹ ووٹ ملے۔ نئے صدر نے ایک ملک کے فرزندوں کے درمیان خون بہنے کو روکنے کے لیے اپنی اولین ترجیح تمام صومالی گروہوں کے درمیان مصالحت کو قرار دیا، لیکن ان کی صدارتی کامیابی کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے خلاف ایک خودکش قاتلانہ حملہ ہوا، البتہ وہ اس میں بچ گئے۔ ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس کے باوجود نئے صدر ملک میں امن و امان کی بحالی اور استحکام کے قیام میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
(بشکریہ: ہفت روزہ ’’الامان‘‘۔ بیروت۔ ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)
Leave a Reply