مغربی اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں میں روبوٹس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ٹیکنالوجی میں پیش رفت سے روبوٹس کو زیادہ سے زیادہ کارگر بنانا ممکن ہوگیا ہے۔ امریکا، یورپ اور دیگر ترقی یافتہ خطوں میں زندگی کے بیشتر شعبے روبوٹس کے تعاون سے متصف ہیں۔
اس دنیا میں روبوٹس کا جنم ایک ایسے آلے کے طور پر ہوا جس کے بارے میں بیسویں صدی کے مصنفین اور فلم سازوں نے غیر معمولی حد تک جاکر سوچا اور لکھا۔ روبوٹس کے بارے میں طرح طرح کے منفی اور مثبت تصورات کو ادبی شاہکاروں اور فلمی فن پاروں کے ذریعے پروان چڑھایا گیا۔ لکھنے والے ایک زمانے سے لکھتے آئے ہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی آئے گا جب بیشتر کام روبوٹس کے ذریعے انجام پائیں گے اور انسانوں کے کرنے کے لیے بہت کم کام رہ جائیں گے۔ جب ایسا ہوگا تب انسانوں کے لیے حقیقی بحران پیدا ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کام مشینوں کے حوالے کردیے جائیں کیونکہ وہ کسی حیل حجت، مطالبے یا شرائط کے بغیر اپنا کام پوری ایمانداری سے کرتے ہیں اور مطلوبہ نتائج تک پہنچنے میں غیر معمولی حد تک قطعیت کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ فرٹز لینگ کے ’’میٹروپولس‘‘ اور آئزک ایسیموف کے ’’روبوٹ‘‘ سے مشہور فلموں ’’وال ای‘‘ اور ’’ٹرمینیٹر‘‘ تک سبھی کچھ انسانوں کو یہ بتانے کے لیے تھا کہ جب روبوٹس دنیا پر چھا جائیں گے تو انسانوں کے لیے حقیقی بحران نمودار ہوگا۔
آج کی دنیا میں روبوٹس کی کمی نہیں۔ روبوٹس بہت سے صنعت کاروں کی اولین ترجیح ہیں کیونکہ وہ ایسے خطرناک کام بھی کرتے ہیں جو انسانوں کے لیے خاصے مشکل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً کاریں تیار کرنے والے پلانٹس میں ویلڈنگ اور اسمبلی کا شعبہ۔ کاروں کے پُرزے جوڑ کر انہیں حتمی شکل میں لانا روبوٹس کے لیے خاصا آسان کام ہے۔ وہ طے شدہ طریق کار کے مطابق کام کرتے ہیں۔ انسانوں کو جو کام اچھے نہیں لگتے، وہ روبوٹس کے حوالے کردیے جاتے ہیں۔ دھماکا خیز مواد کی تلاش کا کام کسی بھی انسان کو پسند نہیں۔ اس میں جان جانے کا خطرہ ہے۔ آج دنیا بھر میں ہزاروں روبوٹس دھماکا خیز مواد کا سراغ لگانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ کم ہی لوگ ہیں جنہیں گھروں میں جھاڑو دینا اور جھاڑ پونچھ کرنا پسند ہے۔ دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد روبوٹس گھروں میں ویکیوم کلینرز کے استعمال اور فیکٹریز میں غیر معمولی مشقت والے کام سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال سے بہت سے لوگ پریشان ہوں گے کہ اگر روبوٹس یوں ہی کام کرتے رہے تو ان کا کیا ہوگا۔ زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ روبوٹس بہت سے مشکل کام کرتے ہیں مگر اب بھی ان میں کئی طرح کی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ بہت سے آسان اور گھریلو نوعیت کے کام کرنے کے معاملے میں وہ تاحال گھامڑ ہیں۔ روبوٹس کو انسانوں کا حقیقی نعم البدل بنانے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
ٹیکنالوجی میں غیر معمولی رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے۔ سلیکون چپس کی صلاحیتوں میں اضافہ ایسی رفتار سے ہو رہا ہے کہ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ دیگر بہت سی اشیا کی طرح روبوٹس کی کارکردگی بھی عقل کو حیران کردینے والی رفتار سے بہتر بنانا ممکن ہوتا جارہا ہے۔ آج کے روبوٹس چار دہائی پیشتر کے روبوٹس سے بہت مختلف اور بہتر ہیں۔ روبوٹس تیار کرنے والے ادارے ثابت کرتے جارہے ہیں کہ وہ انسانوں کے بہترین متبادل کے طور پر روبوٹس کو متعارف کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈجیٹل سینسرز اور ہائی بینڈ وتھ کمیونی کیشن کے ذریعے روبوٹس کی کارکردگی اتنی بہتر بنائی جاچکی ہے کہ وہ بہت سے پیچیدہ کام بہت آسانی سے کر رہے ہیں۔ روبوٹس کے بارے میں معلومات کا تبادلہ آسان ہوگیا ہے۔ روبوٹس تیار کرنے والے اداروں کے لیے تحقیق و ترقی کے شعبے کی کارکردگی کا معیار بلند کرنا بھی اب کوئی بہت مشکل کام نہیں رہا۔ دنیا بھر سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اپنی مرضی کا روبوٹس تیار کرنا بھی اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ روبوٹ تیار کرنے والے ادارے ایک دوسرے کے تجربات سے بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ دوسروں کی ناکامیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنا اب ممکن ہوگیا ہے۔ ناکام تجربات کا علم ہونے پر بہت سے ادارے ان غلطیوں کو دہرانے سے بچ جاتے ہیں۔ دو بازوؤں والے اور خاصے آسان، انٹیوٹیو پروگرام انٹر فیس والے ’’ری تھنک روبوٹک بیکسٹر‘‘ کے بارے میں دس سال پہلے تک سوچنا بھی محال تھا مگر اب یہ روبوٹ صرف ۲۵ ہزار ڈالر میں دستیاب ہے۔
کل تک روبوٹ تیار کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری بہت کم تھی۔ بڑے سرمایہ کار ان اداروں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ انہیں یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ’’پرانے‘‘ ہو جانے کی صورت میں ان کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔ اب یہ کیفیت نہیں رہی۔ سرمایہ کاروں میں روبوٹس کے حوالے سے غیر معمولی اعتماد پایا جاتا ہے۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ لوگ روبوٹس سے اچھی طرح واقف ہیں اور ان میں دلچسپی بھی لے رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بہت سے کام مشینوں کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ یہ مشینیں بھی روبوٹس ہی تو ہیں۔ ۲۰۱۳ء کی ایک بڑی خبر یہ ہے کہ گوگل نے روبوٹ کی تیاری سے وابستہ آٹھ اداروں میں سرمایہ کاری کی ہے۔ انڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم کے ماسٹر مائنڈ اینڈی ریوبن کی قیادت میں چند غیر معمولی ٹیکنالوجیز تک رسائی نے بہتر اور معیاری روبوٹس کی تیاری ممکن بنادی ہے۔ گوگل میں بھی بہت سوں کو اندازہ نہیں کہ کیا تیار ہو رہا ہے مگر اتنا سبھی جانتے ہیں کہ جو کچھ بھی تیار کیا جارہا ہے وہ غیر معمولی نوعیت کا ہوگا اور اس کے سامنے آنے سے روبوٹس کی دنیا میں کسی حد تک انقلاب ضرور برپا ہوگا۔ امیزون ڈاٹ کام نے بھی اپنے کام میں روبوٹس کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ یہ ادارہ کتابوں کی فراہمی کے حوالے سے قائدانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا ارادہ مختلف شعبوں میں روبوٹس سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی ترسیل کے لیے ڈرونز استعمال کرنے کا بھی ہے۔ ڈرونز بھی روبوٹس ہی کی ایک شکل ہیں۔ جنوبی کوریا اور دیگر بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ سے زیادہ کاروباری ادارے روبوٹس پر انحصار میں اضافہ کر رہے ہیں۔ مینوفیکچرنگ کے ساتھ ساتھ خدمات کی فراہمی میں بھی روبوٹس کا حصہ بڑھانے کے تصور پر تیزی سے عمل ہو رہا ہے۔ سرمایہ کاروں کو بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ اب روبوٹکز میں سرمایہ کاری کی صورت میں انہیں زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔
نئے تصورات نے بھی روبوٹس کے لیے امکانات بڑھادیے ہیں۔ کل تک بہت سے ادارے یہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ روبوٹس سے کیا کیا کام لیے جاسکتے ہیں۔ آج لوگ سوچنے پر مائل ہیں اور روبوٹس کے لیے امکانات پیدا کرتے جارہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں روبوٹس کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ جدید ترین روبوٹس کے لیے بہتر کام کرنے کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’گریویٹی‘‘ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ روبوٹس سے کس حد تک کام لیا جاسکتا ہے۔ روبوٹس کی مدد کے بغیر اس فلم کی شوٹنگ ممکن ہی نہ تھی۔ شوٹنگ میں روبوٹس کے استعمال نے اس فلم کو منفرد انداز بخشا ہے۔ فلم دیکھنے والوں کو حقیقت کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔ ایسی فلموں کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ روبوٹس کتنی قطعیت اور جامعیت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اس سے سرمایہ کاروں کو یہ سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ روبوٹس کی مارکیٹ تیزی سے بڑھنے والی ہے۔ زیادہ سے زیادہ مستعد روبوٹس کے مارکیٹ میں آنے سے عام آدمی کو بھی یہ سوچنے کی تحریک ملے گی کہ روبوٹس سے کس حد تک کام لیا جاسکتا ہے۔ روبوٹس سے ہر شعبے میں بہتر اور زیادہ کام لیا جاسکتا ہے۔ جن شعبوں میں انسان کام کرنے سے گریز کرتے ہیں یا زیادہ کام کرنا پسند نہیں کرتے، ان میں روبوٹس کو آسانی سے کھپایا جاسکتا ہے۔ لوگ شہروں سے دور دیہی ماحول میں کام کرنے کو ترجیح نہیں دیتے۔ جدید تصورات کے حامل ممالک میں زراعت کا شعبہ بھی روبوٹس کی مدد سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ روبوٹس صرف مینوفیکچرنگ یا سروس سیکٹر ہی میں کارآمد نہیں۔ بہت سے شعبوں کے لوگ ان کی موجودگی سے اپنے کام کو آسان اور بہتر بناسکتے ہیں۔ آنے والے دور میں صحافی اور براڈ کاسٹرز بھی روبوٹس کی خدمات سے مستفید ہوکر اپنی کارکردگی کا معیار بلند کرسکیں گے۔
روبوٹس کے بڑی تعداد میں منظر عام پر آنے سے عوام کو بھی غیر معمولی فوائد حاصل ہوں گے۔ روزمرہ کے بہت سے کام آسانی سے نمٹائے جاسکیں گے۔ بازاروں میں خریداری سے لے کر گھر میں مختلف کاموں کی انجام دہی تک، روبوٹس ہر جگہ معاونت کے لیے موجود ہوں گے۔ آج جو کام کروڑوں افراد مل کر کرتے ہیں وہ کل چند لاکھ افراد کی مدد سے کیے جاسکیں گے۔ روبوٹس کے آنے سے بیروزگاری کا خطرہ ضرور پیدا ہوگا مگر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ کام کا معیار بلند ہوگا۔ لوگوں کو خدمات تیزی سے اور ممکنہ حد تک اعلیٰ معیار کے ساتھ دستیاب ہوں گی۔ اس کے نتیجے میں انسانوں کو بھی اپنا معیار بلند کرنے کی تحریک ملے گی۔ روبوٹس کے آنے سے انسانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روبوٹس عام ہوتے جائیں گے اور لوگ انہیں اپنی زندگی میں قبول کرتے جائیں گے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ روبوٹس کے آنے سے اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی تو وہ اپنا معیار بلند کرے۔ روبوٹس سے مقابلے کی یہی ایک قابلِ عمل صورت ہے۔ بعض معاملات میں روبوٹس سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا مگر دوسرے بہت سے معاملات میں روبوٹس کا نعم البدل ثابت ہونے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، وہ خود کو بدلنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مغربی دنیا میں روبوٹس کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی کارکردگی کا گراف بھی بلند ہوتا گیا ہے اور انہوں نے خود کو اس حد تک تبدیل کیا ہے کہ آخر انہیں ترجیح دینے سے گریز نہیں کرسکتے۔ ورک فورس کا حصہ بنے رہنے کے لیے اب انسانوں کو اپنا رویہ بدلنا ہوگا۔ نئی سوچ اپنائے بغیر وہ کسی بھی اعتبار سے اچھا کام نہیں کرسکتے۔
روبوٹس کا بڑی تعداد میں منظر عام پر آنا بظاہر خطرناک ہے، مگر سوچیے تو ایسی کوئی بات نہیں۔ ان کی موجودگی سے زندگی کا معیار بلند ہی ہو رہا ہے، پست نہیں ہو رہا۔ انسانوں کو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
(“New roles for technology: Rise of the robots”.. “The Economist”. March 27, 2014)
Leave a Reply