اب جبکہ عراق میں جنگ طول پکڑ چکی ہے اور عنقریب اس کا خاتمہ دکھائی نہیں دیتا‘ پینٹاگون حکام یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی فوج کی تعداد اور صلاحیت اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن گذشتہ ہفتے امریکی فوج کے مضبوط ترین افسران جن کے حوصلے تقریباً ایک سال سے زائد سے شکستہ ہیں‘ سنی علاقوں میں کارروائی کے بعد پینٹاگون سے اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پہلی وارننگ ریزرو آرمی کے سربراہ کی جانب سے آئی کہ ’’وہ فوجی جو سنی علاقوں میں برسرِ جنگ میں تیزی سے ایک شکستہ قوت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد فوجی افسران نے نجی گفتگو میں اعتراف کیا کہ نیشنل گارڈ اور آرمی ریزرو فورس کی تعیناتی کو محدود رکھنے کی طویل المدت پالیسی اب ناکا ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کی وجہ سے نئے افراد کی فوج میں بھرتی مشکل ہو رہی ہے اور جزوقتی سپاہیوں کو کال کرنا اور بھی سخت ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان کا کہنا ہے کہ عراق میں روز افزوں عدم استحکام کے پیشِ نظر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تیس ہزار فعال افواج (Active duty force) کی جو عارضی کمک روانہ کی گئی ہے‘ اسے بالآخر مستقل طور پر روک لیا جائے۔ وزیرِ جنگ ڈونالڈ رمز فیلڈ جو عرصے سے ۵ لاکھ سپاہیوں پر مشتمل فعال ڈیوٹی انجام دینے والی مضبوط فوج میں کسی بھی قسم کے اضافے کی مخالفت کرتے رہے ہیں‘ ان پریشان کن علامات کے ظاہر ہونے کے بعد خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وزیرِ جنگ کا یہ خیال ہے کہ فوجی تربیت یافتہ باورچیوں اور اکائنٹنٹوں کو فوجی ڈیوٹی پر مامور کر دیا جائے اور اس طرح کے غیرفوجی امور ٹھیکے داروں کے حوالے کر دیے جائیں تو یہ قدم فوج کی کارکردگی کو موثر و بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو گا اور اس طرح فوج کی تعداد بڑھائے بغیر ہی ان پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پینٹاگون کے دوسرے حکام کو اس اقدام کے موثر ہونے میں شک ہے۔ ایک فوجی پرزونیل افسر کا کہنا ہے کہ ’’فوجیوں کی صحت کے حوالے سے ہماری تشویش روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان تعیناتیوں سے درحقیقت جانی اور مالی نقصان کا آغاز ہوا‘‘۔
بیرونی مبصرین بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ گذشتہ ہفتہ چار ستاروں والے ایک ریٹائرڈ آرمی جنرل Barry Mc Caffrey نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ آئندہ ۲۴ مہینوں میں فوجی پہیے جام ہوتے نظر آئیں گے اور یہ کہ اس کی تائید میں اعداد و شمار آنے شروع ہو گئے ہیں۔ Mc Caffrey نے کہا کہ فوج کو ۸۰ ہزار سپاہیوں کی اور ضرورت ہے تاکہ عراقی جنگ سے پیدا ہونے والے دبائو کو کم کیا جاسکے۔ بقول اس کے کہ ’’ہم پُرخطر حکمتِ عملی کے ایک قابلِ غور دور سے گزر رہے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ رمزفیلڈ نے حکمتِ عملی تبدیل نہ کرنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘‘۔
بیرونی ممالک‘ یورپ اور مغربی ایشیا میں کمٹمنٹ کے پیشِ نظر نیز اس لیے بھی کہ پینٹاگون عراق کے دوروں کو ایک سال تک کے لیے محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ فوج کو نیشنل گارڈ اور آرمی ریزرو فورس پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے تاکہ ڈیڑھ لاکھ افواج کی عراق میں موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے پُر کیا جائے۔ عراق میں اس وقت موجود امریکی افواج کی تعداد میں ۴۰ فیصد جز وقتی سپاہیوں کا ہے اور یہ تعداد آئندہ مہینوں میں ۵۰ فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار نیشنل گارڈ اور آرمی ریزرو گذشتہ ہفتہ فعال ڈیوٹی پر مامور تھے جن میں عراق میں تعینات ساٹھ ہزار فعال ڈیوٹی پر مامور سپاہی شامل ہیں۔ مورخہ ۲۰ دسمبر کے میمو جو گذشتہ ہفتے بالٹی مور کے معاصر “Sun” میں شائع ہوا‘ کے مطابق چیف آف دی آرمی ریزرو لیفٹیننٹ جنرل James Helmly نے خبردار کیا ہے کہ عراق اور افغانستان میں جاری جنگ سے پینٹاگون کے دوسرے مشنوں کی تکمیل اور داخلی ایمرجنسیوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ Helmly جنہیں ویتنام جنگ میں ان کی شجاعت کے اعتراف میں برونز اسٹار ملا ہے‘ نے لکھا ہے کہ ’’میں صرف انتباہ کرنے والے (alarmist) کے طور پر کچھ کہنا نہیں چاہتا ہوں بلکہ میں گہری تشویش کی واضح علامت کو بہت ہی واضح طریقے سے ارسال کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ Helmly کے میمو نے پینٹاگون کو دو کیمپوں میں منقسم کر دیا ہے۔ ایک وہ لوگ ہیں جنہوں نے Helmly کی صاف گوئی اور جرأت کو بہت سراہا ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس میمو کے پیچھے اور اخبار میں اس کی اشاعت کو Helmly کی جانب سے اپنے آپ کو پروان چڑھانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن فوجی افسران نے اس خدشے کا بھی اظہار شروع کر دیا ہے کہ وہ عراق میں برسرِ جنگ ریزرو ٹروپس سے جلد ہی نکل جائیں گے‘ جس سے فعال ڈیوٹی انجام دینی والی فورسز پر دبائو اور بڑھ جائے گا۔ پینٹاگون پالیسی کے مطابق ریزرو فورسز اور گارڈ ٹروپس کسی ایک فوجی آپریشن میں ۲۴ ماہ سے زیادہ سروس دینے کے مکلف نہیں ہیں۔ امریکی فوج پہلے ہی بعض ریزرو ٹروپس کو تعیناتی سے آزاد کر چکی ہے کیونکہ انہوں نے ۲۴ ماہ کی معینہ مدت پوری کر لی تھی اور اس مدت کے بعد جنہیں آزاد نہیں کیا تو انہیں ہر ماہ ایک ہزار ڈالر کا ٹیکس فری بونس دیا تاکہ وہ اس قانونی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے نظرانداز کر دیں۔ اس بونس نے Helmly کو پریشان کر دیا ہے۔ وہ اپنے میمو میں لکھتا ہے کہ ’’ہمیں ضرور اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ جہاں ہم کنفیوز ہو رہے ہیں۔ ہم رضاکار امریکی سپاہی بننے کے بجائے کرائے کے سپاہی بننے کی جانب حوصلہ افزائی کر رہے ہیں‘‘۔ اس فورس کی چیخ و پکار کی روشنی میں آرمی اس تبدیلی کا جائزہ لے رہی ہے جو بعض جزوقتی سپاہیوں کی ۲۴ ماہ تک کے لیے دوبارہ تعیناتی کے نتیجے میں رونما ہو گی۔ اس سے ریزرو فورس کی بھرتی میں جو چیلنج درپیش ہے‘ وہ مزید شاید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ۲۹ سالہ Paul Rieckerhoff کا کہنا ہے کہ وہ دوبارہ تعیناتی میں اپنے لیے کوئی کشش نہیں پاتا اس لیے کہ اس صورت میں اس کی حیثیت ایکٹو ڈیوٹی فورس کی ہو جاتی ہے۔ Rieckerhoff نیویارک میں رہنے والا گارڈ مین ہے‘ جس نے عراق میں ایک سال گزارا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گارڈ کے لوگ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ عراق میں فورس کا ۴۰ فیصد ہوں گے اور انہیں چھ ماہ کی ٹریننگ دی جائے گی اور ایک سال تک فوجی بوٹ میں انہیں بیرونِ ملک ڈیوٹی انجام دینی ہو گی۔ Paul کہتا ہے کہ یہ ایک ایسی کمٹمنٹ ہے جو یقینا آپ کی زندگی کے غیرفوجی حصے کو درہم برہم کر دے گی‘‘۔
ٹھوس اعداد و شمار Rieckerhoff کے مشاہدے کی تائید کرتے ہیں۔ نیشنل گارڈ نے اکتوبر اور نومبر کے لیے بھرتی کا جو ہدف طے کیا تھا اس میں ۳۰ فیصد کی کمی رہی جبکہ آرمی ریزرو فورس میں ایسے دس فیصد لوگوں کا اضافہ ہوا جو مدت متعین کیے جانے کے حوالے سے متامل ہیں۔ نتیجتاً گارڈ کو اپنے بھرتی کرنے والوں (Recruiters) کی تعداد جو کہ ۲۷۰۰۰ تھی‘ میں ۱۴۰۰ کا مزید اضافہ کرنا پڑا۔ ۱۵ برسوں میں یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ جبکہ ریزرو نے اپنے بھرتی کرنے والے ماہرین کی تعداد ۴۰۰ سے بڑھا کر ۱۴۴۰ کر دی ہے۔ ریکروٹرز کے ہاتھ میں کچھ نئی ترغیبات دی گئی ہیں جن سے وہ لوگوں کو بھرتی کے لیے لُبھا سکیں گے۔ کرسمس سے پہلے والے ہفتے میں گارڈ اور آرمی ریزرو نے یہ اعلان کیا کہ جو لوگ سال تک کے لیے اپنی خدمات پیش کریں گے تو ان کو گارڈ میں بونس ۵ ہزار ڈالر کے بجائے اب ۱۵ ہزار ڈالر دیے جائیں گے اور آرمی ریزرو میں انہیں ۷ ہزار ڈالر بطور بونس ادا کیے جائیں گے۔ اگرچہ ایکٹو ڈیوٹی فورس ریکروٹمنٹ کے اپنے اہداف کو پورا کرتی رہی ہے لیکن اس کے منصوبہ ساز افسران تعداد کو مستحکم رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر سے کام لے رہے ہیں۔ آرمی نے اپنے ۵۶۵۴ ریکروٹرز میں ۳۷۵ سپاہیوں کا اضافہ کیا ہے۔ ایکٹو ڈیوٹی جی آئی ایس اب ۵۰ ہزار ڈالر کے بجائے ۷۰ ہزار ڈالر تک کما سکتا ہے۔ عراق کے جنگی اخراجات کا ظاہر نہ کر کے فوجی ترقیاتی فنڈ کے نام سے آرمی بونس اور دیگر سہولیات کی شکل میں ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کر چکی ہے تاکہ امریکی نوجوانوں کو فوج میں داخل ہونے کے لیے آمادہ کیا جاسکے اور جو لوگ فوج میں ہیں‘ انہیں اپنی سروس کی مدت بڑھانے کے لیے راغب کیا جاسکے۔ فوج میں مختلف حیثیتوں میں کام کرنے کے لیے پریمیم کی الگ رقم مخصوص ہے مثلاً انفینٹری کے لیے الگ ہے‘ ملٹری پولیس کے طور پر کام کرنے کی الگ ہے‘ ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں کام کرنے کی الگ ہے نیز فوری طور سے تربیت پاکر باہر کے ملکوں میں جانے کی الگ ہے بالخصوص عراق جانے کے لیے بہت اچھی پریمیم کی پیشکش ہے۔
ایک ریٹائرڈ میجر جنرل اور فوجی مورخ Robert Scales کا خیال ہے کہ ریکروٹمنٹ کے مسائل سب سے پہلے ریزرو اور نیشنل گارڈ کو متاثر کر رہے ہیں اس لیے کہ یہ وقت کے تیور کو بہت تیزی سے منعکس کرتے ہیں۔ ایکٹو ڈیوٹی آرمی امریکی ریاستی نظم میں ایک علیحدہ Subculture کی حامل ہے۔ جس طرح سپارٹا کا علاقہ بے بی لون کے بیچ و بیچ ہے‘‘۔ Scales امریکی وار کالج کے سابق سربراہ بھی ہیں۔ وہ اس سے پریشان ہیں کہ ریکروٹ کی بھرتی میں کمی ریگولر سروس والے بھی جلد ہی محسوس کرلیں گے۔ اسکیلز کہتا ہے کہ ’’ہم میں سے وہ لوگ جو ۱۹۶۹ء میں ویتنام میں مامور تھے‘ کو وہ بیانات یاد ہیں جس میں سب کچھ ٹھیک ہونے کے دعوے کیے جارہے تھے۔ اسکیلز یہ بھی یاد کرتا ہے کہ پینٹاگون کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا تھا کہ ڈیوٹی پر آنے والوں کی تعداد بہت مستحکم ہے لیکن ۱۹۷۰ء میں سب کچھ ختم ہو گیا اور آرمی سادہ الفاظ میں ٹوٹ پھوٹ گئی۔ سپاہیوں کا جھنڈ فوج چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔ نام لکھانے والے افراد اپنے افسروں سے ٹوٹ رہے تھے اور غیرقانونی دوائوں کا استعمال آسمان سے باتیں کر رہا تھا۔ اس وقت اور اب میں بہت اہم فرق ہے۔ ویتنام جنگ کے دوران سمن بھیج کے بلایا جاتا تھا جبکہ آج پوری آرمی رضاکارانہ طور پر آتی ہے۔ ویتنام کے برعکس آج امریکی عراق میں اپنی افواج کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان میں سے بہت سارے لوگ جنگ کے مخالف ہیں۔ پھر بھی عراق جنگ تبدیل ہو سکتی ہے جبکہ بہت سارے نوجوان فوج میں بھرتی ہونے کے حوالے سے اپنے فیصلے کو اچھی طرح تولتے ہیں۔ ۳۱ سالہ Curtis Mills جو کہ ایک آرمی Reservist ہے اور عراق میں ملٹری پولیس سارجنٹ کی حیثیت سے ۲۰۰۳ء میں چھ ماہ تک اپنی خدمات انجام دے چکا ہے کا کہنا ہے کہ ’’لوگ سوچا کرتے تھے کہ انہیں صرف کالج کے لیے پیسے حاصل کرنے کے لیے جوائن کرنا چاہیے۔ لہٰذا بھرتی قدرے آسان ہوتی تھی۔ لیکن جیسا کہ آپ اخبارات میں دیکھتے ہیں کہ ہر آدمی اپنی تعیناتی کو بہت مشکل خیال کرتا ہے‘‘۔ Mills نے گیارہ مہینے ہسپتال میں گزارے تاکہ اس کے زخم مندمل ہو سکیں۔ وہ ستمبر ۲۰۰۳ء میں رمادی میں سڑک کے کنارے ایک بم پھٹنے سے بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ اس دھماکے میں اس کے بازو اور پیر کٹ گئے تھے اور پیٹھ زخمی ہوئی تھی۔ وہ بطور Postal Carrier اپنی ملازمت جاری رکھنے سے معذور ہو چکا تھا۔ وہ ۲۰۰۰ء ڈالر کے چیک پر جو معذوروں کے لیے مخصوص تھے‘ پر گزارا کر رہا ہے۔ یہ چیک اسے ویٹرن افیرز کے ڈپارٹمنٹ سے ملتے ہیں۔ گارڈ کے افسران واضح باتوں کا انکار نہیں کر رہے ہیں۔ گارڈ کے ایک اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ اسٹیون بلم کا کہنا ہے کہ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ جب آپ ایک مستقل زمینی جنگی کارروائی کو جاری رکھے ہوئے ہوں جس میں گارڈ شریک ہوں تو ریکروٹمنٹ اور بھی مشکل ہو جاتی ہے‘‘۔ ایک سرسری اندازہ یہ ہے کہ گارڈ کے ایک چوتھائی ارکان عراق میں مصروف ہیں۔ آرمی چیف آف اسٹاف جنرل پیٹرشومیکر‘ جسے رمز فیلڈ نے ۲۰۰۳ء میں ریٹائرڈ ہونے والوں میں سے چن لیا تھا‘ نے کانگریس کو بتایا کہ ہمیں ٹروپس کے بھاگ جانے کا خطرہ ہے ان کے ساتھ مزید چلنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کے متعلق کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ عراق میں کمانڈروں کے تازہ کمک کے مطالبے کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرے گا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ کا وعدہ نہیں کر سکتا ہوں جتنا کہ میرے پاس ہے۔ اگر آرمی نیشنل گارڈ اور آرمی ریزرو حوصلہ یکجا نہیں کرتی اور ایسی تشکیل فراہم نہیں کرتی ہے جو درکار ہے تو شاید ہمیں ریگولر آرمی کی تعداد بڑھانے کی ضرورت بڑھ جائے‘‘۔ پینٹاگون کے افسران ریکروٹمنٹ اور مدت میں توسیع کی شرح کا بہت ہی قریب سے جائزہ لے رہے ہیں۔ گذشتہ کمی تک اعداد و شمار امید افزا تھے۔ ۲۰۰۴ء کے مالی سال کے لیے جس کا اختتام ۳۰ ستمبر کو ہوا‘ بھرتی اور توسیعِ مدت کے اہداف کو ایک کے سوا تمام برانچ نے پورا کیا۔ واحد استثنیٰ آرمی نیشنل گارڈ تھا جس کی قوت ۹۸ فیصد تک پہنچ سکی یعنی کل تعداد تین لاکھ پچاس ہزار تک پہنچنا تھی لیکن تین لاکھ بیالیس ہزار کی تعداد تک پہنچ پائی۔ سب سے بڑے کمی گارڈ سے منسوب کی جاتی ہے‘ جس کے ۵۶۰۰۰ کے ہدف میں ۵ ہزار کی کمی رہ گئی۔ اس دہائی میں شاید پہلی بار تھا کہ گارڈ کو کمی کا سامنا کرنا پڑا ہو لیکن اکتوبر و نومبر میں اس سے بھی برا حال تھا۔ لیفٹیننٹ کرنل مائیکل جونز جو گارڈ کے نمبر۲ کے ریکروٹمنٹ افسر ہیں‘ کا کہنا ہے کہ بھرتی میں کمی کا ۷۰ فیصد اس وجہ سے ہے کہ سپاہیوں نے گارڈ جوائن کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ وہ ایکٹو ڈیوٹی چھوڑ چکے تھے اور وہ عراق واپس جانا نہیں چاہتے تھے۔ امن کے زمانے میں بہت سارے ایکٹو ڈیوٹی سے متعلق سپاہی گارڈ میں اضافی پیسوں اور دوستی کی خاطر چلے جاتے ہیں۔ بعض کمی اس وجہ سے تھی کہ آرمی کے پیشِ نظر نقصان روکے جانے (Stop-loss) کا حکم تھا جس نے سپاہیوں کو ایکٹو ڈیوٹی پر اپنے طے شدہ معاہدہ کی تکمیل کے لیے مامور کر رکھا اور اس طرح وہ گارڈ جوائن کرنے سے معذور رہے۔ لیکن ہائی اسکول سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کی بھرتی ہونے میں دوسرا عامل کارفرا ہے اور وہ یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو فوج سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں۔ جونز کا کہنا ہے کہ امی اور ابو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے ابتدائی تربیت کے لیے گئے ہیں اور پھر وہ دور بھیجے جانے کے قابل ہوں گے‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ اگر والدین اعتراض نہ بھی کریں تو خطرے سے بھاگنا انسانی فطرت ہے۔ ایسے عالم میں فوج جوائن وہ لوگ کرتے ہیں جو خصوصی صفت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک سپاہی کو بھرتی کرنے کا خرچ ۱۹۹۶ء میں ۷۶۰۰ ڈالر تھا جو کہ ۲۰۰۳ء میں ۱۴ ہزار ڈالر سے زیادہ ہو گیا۔ اس میں ۲ ہزار ڈالر کے قریب اشتہار کی رقم بھی شامل ہے۔ آرمی پہلے سے کہیں زیادہ اب دانشمندی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس نے ’’سب کچھ بن جائو جو کچھ بن سکتے ہو‘‘ کا نعرہ چھوڑ دیا ہے جو دو دہائیوں سے اپنی بے دریغ خودستائش میں اختیار کیے ہوئی تھی۔ “An Army of One” کا موٹو اس نے گیارہ ستمبر سے ۸ ماہ قبل اپنا لیا تھا جس نے آج کے نوجوان مردوں اور عورتوں میں انفرادیت اور آزادی کا جذبہ جگایا اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ سپاہیوں کی حیثیت محض انسان کو غیرانسانی بنانے والے فوجی مشین کے کاگ ویل سے بڑھ کر ہے۔ آج آرمی NASCAR Racing cars‘ Football games‘ Rodeo riders (غیرپالتو جانوروں کو قابو میں کرنے والے) اور پاپولر انٹرنیٹ ویڈیو گیم پر مبنی اشتہاری مہم جسے America’s Army کہا جاتا ہے کو اسپانسر کر رہی ہے۔ لیکن Teenage نوجوانوں کو لبھانے والے یہ کھیل فوجی ریکروٹمنٹ کے لیے کہاں تک مفید ہیں بہرحال ایک سوال ہے۔ ایک فیڈل جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشتہاری مہم کے اخراجات کو دوگنا یعنی ۱۹۹۸ء کے ۲۹۹ ملین ڈالر کے مقابلے میں ۲۰۰۳ء میں ۵۹۲ ڈالر کر دینے کے باوجود اس مہم سے بھرتی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس لیے کہ فوج جوائن کرنا زندگی کا ایک مشکل ترین فیصلہ ہے۔ جنگ اور سپاہیوں پر اس کے اثرات سے مجبور ہو کر پینٹاگون نے شارٹ کٹ طریقوں سے کام لینا شروع کر دیا ہے جس سے فوج کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ مثلاً گارڈ کو اب ماضی کی طرح ٹروپس میں آدھی تعداد میں نہیں رکھا جاتا ہے جو کہ فوجی اعتبار سے زیادہ تجربہ کار ہوتے تھے۔ اگر یہی رجحان باقی رہا تو جلد ہی تجربہ کار اور ماہر فوجیوں کی تعداد صرف ایک تہائی رہ جائے گی۔ ریگن دور کے پینٹاگون پرزونیل چیف لارنس کورب کا کہنا ہے کہ ’’اس طرح وہ اپنی تعداد ظاہر تو کر پائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ گارڈ کہاں تک موثر رہیں گے اگر ان کے ٹروپس بہت زیادہ فوجی تجربات کے حامل نہ ہوں؟‘‘ علاوہ ازیں اگر سینئر سارجنٹس بھاگ جاتے ہیں تو فوج کو ایسے سپاہیوں کو ترقی دینی ہو گی جس کا تجربہ ناقص ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’’انہیں تیزی سے ترقی دینے پر فوج مزید غیرموثر ہوتی جائے گی۔ چنانچہ ہمارا اختتام ایک قدرے غیرموثر فوج کے طور پر ہو گا اور میرا خیال ہے کہ دوسرے سال ہی ہم شکست و ریخت سے دوچار ہو جائیں گے‘‘۔ مسائل کی اس طویل فہرست کے باوجود جو بہت سارے آرمی افسران پرامید ہیں۔ آرمی ڈائریکٹر آف ملٹری پرزونیل پالیسی بریگیڈیئر جنرل سین بِرنے کا کہنا ہے کہ ’’اگرچہ اپنے آپ کو گامزن رکھنا بہت مشکل ہے لیکن آرمی کے پاس ایسے حربے ہیں جن کے ذریعہ وہ آنے والے مہینوں میں اپنی فوج میں مناسب نفری کو باقی رکھ سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر ایک کو اپیل کرتی ہے اور یہ چیز ان کے لیے محرک کا کام کرتی ہے کہ وہ ہماری کشتی پر سوار ہو جائیں اور ہمارے ساتھ ٹھہریں‘‘۔ رمزفیلڈ اور بِر نے اس خیال کے حامل ہیں کہ نوجوان امریکیوں میں خیرخواہی کا ابھی کافی جذبہ ہے جس کے ذریعہ فوج کی افرادی قوت کو پُر کیا جاسکتا ہے اور پھر جو کسر رہ جائے گی تو اسے پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس کافی پیسے ہیں جن کے ذریعہ انہیں ترغیب دی جائے گی۔ مِلز جو کہ آرمی کا ایک مجروح رکن ہے‘ امریکیوں کی وہ قسم ہے جو انتظار میں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’میرے دوست یہ توقع رکھتے ہیں کہ انہیں دوبارہ تعینات کیا جائے گا اور اگر میں زخمی نہ ہوتا اور وہ لوگ مجھے دوبارہ جانے کے لیے آواز دیتے تو میں ضررو بالضرور جاتا‘‘۔
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۱۷ جنوری ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply