
اسٹراٹیجک (Strategic) لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد ایک مسلمان جنرل کے ہاتھ میں اقتدار کا آنا بڑا انوکھا واقعہ ہے اور اس کے سیاسی مضمرات بڑے دور رَس ہو سکتے ہیں۔ ۹۴ فیصد سے زائد بدھ اکثریت والا یہ ملک اپنے جنوب میں چلنے والی تحریک کو دبانے کے لیے ایک عرصے سے فوجی طاقت استعمال کر رہا ہے اور معزول ہونے والے وزیراعظم پر الزام ہے کہ انھوں نے طاقت کا بے جا استعمال کر کے تنازع کو حل کرنے کے بجائے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اسی لیے ’’جنرل سونتھی بون یاراتگلن‘‘ کی قیادت میں فوجی بغاوت سے ان صوبوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
’’میں اس بغاوت سے خوش ہوں اور خاص طور پر اس بات پر کہ بغاوت کا قائد ایک مسلمان ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ تھائی لینڈ کے تینوں جنوبی صوبوں کے مسئلے کو جلد حل کرنے میں مددگار ہوں گے کیونکہ وہ ہمیں بہتر طور پر سمجھتے ہیں‘‘۔ صوبہ ’’نرتھاوات‘‘ میں مین سٹی میں ایک دکاندار کے یہ الفاظ خبر رساں ایجنسی رائٹر نے نقل کیے ہیں۔ ایک دوسرے صوبے ’’یالا‘‘ میں بھی ایسے ہی تاثرات ہیں۔ ۴۵ سالہ ایک دیہاتی کا کہنا ہے کہ ’’مجھے امید ہے کہ جنرل سونتھی جنوبی صوبوں کے مسئلے کو حل کرنے میں اہل ثابت ہوں گے کیونکہ وہ خود بھی مسلمان ہیں اور لوگوں کے پاس براہِ راست پہنچ سکتے ہیں‘‘۔
تھائی لینڈ کے پہلے مسلم فوجی سربراہ جنرل سونتھی بون یاراتگلن نے ۱۹ ستمبر کو وزیراعظم ’’تھاکسن شنواترا‘‘ کو معزول کر کے ایک فوجی کمیٹی کے ساتھ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ وزیراعظم تھاکسن بغاوت کے وقت نیویارک میں یو این او کے اجلاس میں شریک تھے گو کہ انھوں نے پہلے ردِعمل میں فوج کو اس بغاوت سے الگ رہنے کا حکم دیا اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا لیکن جب انھیں زمینی حقیقت کا احساس ہوا تو وہ ملک واپس جانے کے بجائے برطانیہ میں پناہ گزیں ہو گئے ہیں۔ تھاکسن شنواترا کے نائب سمیت ان کے کئی رفیق کاروں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ جنرل سونتھی نے اعلان کیا ہے کہ وہ دو ہفتے کے اندر کارگزار وزیراعظم کا اعلان کر دیں گے اور حکومت پر فوج کا کنٹرول باقی نہیں رہے گا، تاہم مستقبل کے بارے میں یہ باتیں بہت وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہیں کیونکہ جنرل نے قانون کا نیا مسودہ تیار کرنے کی بات کہی ہے اور سیاسی اصلاحات کا بڑا مشن ان کے سامنے ہے۔
تھائی لینڈ میں فوج کی بغاوت دراصل کسی ایک پہلو سے ہی جڑی ہوئی نہیں ہے۔ اس ملک کے مجموعی سیاسی مسائل پیچیدگی کا شکار ہیں اور بادشاہت، جمہوریت و مارشل لا کے درمیان کشمکش کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ ۱۹۳۲ء میں یہاں ایک بغاوت کے نتیجے میں مطلق العنان بادشاہت کا خاتمہ ہوا تھا جس کے بعد برطانیہ کی طرز پر بادشاہی ایک دستوری ادارہ بن گئی اور اسے اعزازی طور پر ملک کا سربراہ اعلیٰ مان لیا گیا لیکن حکومت فوج یا اس کی نامزد انتظامیہ کے ہاتھ میں منتقل ہو گئی۔ اس کے بعد سے متعدد فوجی سربراہوں نے بغاوت کر کے پہلے سربراہوں کو ہٹایا اور اپنی یا اپنی مرضی کی حکومت بناتے رہے ہیں لیکن ان بغاوتوں میں شاذ و نادر ہی کبھی خون خرابہ ہوا ہے یا کوئی پُرتشدد مزاحمت ہوئی ہے۔ جمہوری طرز پر قابلِ ذکر سویلین حکومت کا قیام پہلی بار ۱۹۸۸ء میں عمل میں آیا جب تھائی نیشن پارٹی نے ’’چاتی چائی چون ہون‘‘ کی قیادت میں پارلیمانی حکومت بنائی۔ گو کہ یہ حکومت بھی تین سال بعد ایک بغاوت کی نذر ہو گئی لیکن اس کے بعد بننے والی مختلف حکومتوں میں فوج براہِ راست ملوث نہیں رہی۔ حال ہی میں معزول ہوئے وزیراعظم تھاکسن ایسے پہلے وزیراعظم ہیں جنھیں دستور کے مطابق اپنی مدتِ کار پوری کرنے کا موقع ملا۔ وہ پہلی بار جنوری ۲۰۰۱ء کے انتخاب میں فتح حاصل کرنے والی ’’ٹی آر ٹی‘‘ پارٹی کے سربراہ کے طور پر وزیراعظم منتخب ہوئے اور پانچ سو رکنی پارلیمنٹ میں انھیں واضح اکثریت کی حمایت حاصل رہی۔ اس دوران انھوں نے سیاسی استحکام کے لیے جو کام کیے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس سال فروری کے مہینے میں عام انتخاب میں انھیں ’’لینڈ سلائٹ وکٹری‘‘ حاصل ہوئی۔ ان کی پارٹی کو ۳۷۴ سیٹوں کے ساتھ مطلق اکثریت حاصل ہوئی لیکن اس انتخاب کے فوراً بعد ان کے حوالے سے بدعنوانیوں کی شکایات عام ہوئیں اور ان پر Impeachment چلانے یا استعفیٰ دینے کا مطالبہ شروع ہو گیا اور ان کے خلاف احتجاج کی شدید لہر پورے ملک میں پھیل گئی۔ چنانچہ مجبور ہو کر انھوں نے ہفتے میں ہی پارلیمنٹ تحلیل کر دی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ اس انتخاب کا اپوزیشن جماعتوں نے مکمل بائیکاٹ کیا، تاہم تھاکسن انتخاب کرانے پر ڈٹے رہے مگر اس کا نتیجہ ان کے حق میں نہیں نکلا۔ بائیکاٹ کی وجہ سے پولنگ بہت کم ہوئی اور ۳۸ سیٹوں پر تھاکسن کی پارٹی کے امیدوار بلامقابلہ جیتنے کے باوجود بیس فیصد ووٹ بھی حاصل نہیں کر سکے جس کی وجہ سے ان کا انتخاب دستور کی رو سے رَد ہو گیا۔ اس بحران کو ٹالنے کے لیے تھاکسن نے اعلان کیا کہ اگر پارلیمنٹ کسی اور کو وزیراعظم کے طور پر منتخب کر لے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے لیکن اس دوران یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا اور سپریم کورٹ نے پورے انتخاب کو ہی کالعدم کر دیا۔ چنانچہ ۱۵؍اکتوبر ۲۰۰۶ء کو نئے انتخاب کی تاریخ مقرر کی گئی تھی اور تب تک کے لیے تھاکسن کو کارگزار وزیراعظم کے طور پر کام کرنا تھا لیکن اب فوجی بغاوت سے معاملہ بالکل بدل گیا ہے۔ گو کہ جنرل سوندھی نے کہا ہے کہ وہ سیاسی عمل کو سبوتاژ نہیں کریں گے۔!
جنرل سونتھی نے دیگر فوجی سربراہوں کے ساتھ مل کر ’’کونسل برائے جمہوری اصلاحات‘‘ بنائی ہے اور اس کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے ہی انھوں نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ کونسل کو شاہ ’’بھومی بول ادولیاوی‘‘ کی حمایت حاصل ہے جو ملک کے آئینی سربراہ ہیں۔ فوجی انقلاب ان کے تئیں وفاداری اور ان سے وابستگی کے اظہار کے ساتھ رونما ہوا ہے لیکن جنرل سونتھی نے اس بات کا انکار کیا ہے کہ انقلاب کے پیچھے شاہ کا ہاتھ ہے۔ جنرل سونتھی نے جن ’’جمہوری اصلاحات‘‘ کی بات کی ہے، اس کے تجزیے میں کئی مسائل شامل ہیں۔ مختلف امور میں ان کے اور وزیراعظم کے درمیان واضح اختلافات تھے، انھوں نے فوج میں وزیراعظم کے اپنے پرانے دوستوں کو بھرنے کے خلاف احتجاج کیا تھا، حالیہ سیاسی ریشہ دوانیوں پر وزیراعظم کے خلاف تنقید کی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنوبی صوبوں میں مسلمانوں کی بے چینی کو طاقت کے ذریعے دبانے پر انھیں حکومت سے سخت اختلاف تھا اور یہ تیسرا اختلافی معاملہ ہی ایک مسلم فوجی سربراہ کے ناتے ان کی بغاوت کے مضمرات میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
تھائی لینڈ کی اصل مسلم آبادی اس کے جنوب میں چاروں صوبوں میں آباد ہے جن میں پتانی، یالا اور ’نراتھاواٹ‘ صوبے سابق آزاد سلطنت ’’پتانی‘‘ کا حصہ ہیں جو ۱۸۳۲ء میں اس وقت کے تھائی لینڈ ‘‘سیام‘‘ میں ضم ہو گئی تھی، تاہم ۱۹۰۲ء تک یہاں مسلم سلطان فرماں روا رہے، سیاسی آویزش کے نتیجے میں آخری سلطان عبدالقادر قمرالدین کو برطرف کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کی خودمختاری ختم کر دی گئی۔ ۱۹۰۹ء میں سیام حکومت اور علاقے میں موجود برٹش ایمپائر کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں پتانی کو سیام (تھائی لینڈ) کا حصہ بنا دیا گیا، ایک دوسری مسلم ریاست کیدہ کو برطانیہ نے اپنے کنٹرول میں رکھا اور پتانی وکیدہ میں موجود ملائے نسل کے مسلمانوں کو ان کے ہم نسل ملائشیائی باشندوں سے کاٹ کر ملائشیا کی حد بندی کر دی گئی۔ بادشاہت کے خاتمے کے بعد جب تھائی لینڈ میں دستور، جمہوریت اور عوامی حکومت کا غلغلہ بلند ہوا تو پتانی کے ملائے مسلم باشندوں کی دبی ہوئی امنگیں بھی ابھر آئیں اور تھائی لینڈ سے علیحدگی کی تحریک یہاں شروع ہوئی۔ یہ تحریک مختلف مرحلوں میں مختلف کیفیتوں سے دوچار رہی ہے۔ ۱۹۴۷۔۱۹۴۸ء میں یہاں مسلح بغاوت کی کوششیں ہوئیں جن سے کچھ حاصل نہیں ہوا، چنانچہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں یہاں آزادی کی سیاسی تحریک منظم انداز میں شروع ہوئی۔ سیاسی تحریک کے پہلو بہ پہلو کچھ گروپوں نے گوریلا جنگ بھی چھیڑی۔ تاہم بنکاک حکومت ان سیاسی اور مسلح تحریکوں کو ان کے بقول ’’بے رحمی سے‘‘ کچلتی رہی ہے۔ دو سال پہلے یہ دبی ہوئی چنگاریاں اس وقت پوری شدت سے بھڑک اٹھیں جب فوج کے ہاتھوں ۸۴ مسلم نوجوان دردناک موت مار دیے گئے۔ یہ ہلاکتیں پولیس کے ذریعہ چھ مقامی نوجوانوں کو اسلحہ فراہمی کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ہوئیں جن کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے لوگ پولیس اسٹیشن پر جمع ہو گئے تھے۔ پولیس نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں چھ افراد موقع پر ہی ڈھیر ہو گئے۔ اس سے بھی زیادہ اشتعال انگیز ہلاکتیں ان ۷۸ نوجوانوں کی ہوئیں جنھیں پولیس نے ایک بند گاڑی میں ’’لگیج‘‘ کی طرح ایک دوسرے پر لاد دیا تھا جس سے ان کا دم گھٹ گیا۔ اس کے بعد سے تشدد اور جوابی تشدد کا سلسلہ جاری ہے، فوج اور پولیس مسجدوں اور دینی مراکز پر بھی چھاپے مارتی رہی ہے اور ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا سہارا لیتی رہی ہے۔ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے پورا خطہ بارود کا ڈھیر بن گیا ہے اور عام آدمی بنکاک حکومت سے نفرت محسوس کر رہا ہے۔ اس شورش سے نمٹنے میں معزول شدہ وزیراعظم تھاکسن کی پالیسیوں سے بنکاک میں بھی بہت سے لوگ اختلاف کرتے ہیں۔
جنرل سونتھی جو ۱۹۶۹ء میں رائل ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کرنے کے بعدفوج میں داخل ہوئے تھے، دو سال پہلے ڈپٹی آرمی کمانڈر بنائے گئے تھے۔ پچھلے سال اکتوبر میں وہ ضابطے کے مطابق چیف آرمی کمانڈر بنے۔ ان کے فوجی سربراہ بننے کے بعد یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ جنوب کی شورش سے نمٹنے میں فوج کے کردار کی اصلاح ہو گی لیکن جنرل سونتھی کے بقول وہ ’’سیاسی مداخلت‘‘ کی وجہ سے خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔ چنانچہ اس مسئلے پر ان کے وزیراعظم سے شدید اختلافات منظرِ عام پر آئے اور انھوں نے تھاکسن کی پالیسی کی کھل کر مخالفت کی۔ تھاکسن کسی قسم کے ڈائیلاگ کے حق میں نہیں تھے جبکہ سوندھی کا کہنا ہے کہ مسئلہ کو طاقت کے استعمال سے دبانے کے بجائے گفت و شنید سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جنرل سونتھی نے ’’نئے اور موثر‘‘ اقدامات کے عنوان سے ’’باغیوں‘‘ کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انھوں نے ان ’’باغیوں‘‘ کے طور پر کمیونسٹوں کی نشاندہی کی جس پر کئی طرف سے اُن پر نکتہ چینی ہوئی۔ تاہم وہ ابھی تک اس موقف پر قائم ہیں کہ باغی اصل میں کون لوگ ہیں، یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے۔ وزیراعظم تھاکسن کی طرف سے جب ان پر نکتہ چینی کی گئی تو انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں ان سے کہہ دیا تھا کہ ’’فوج کو اپنا کام کرنے دیجیے‘‘۔ اب فوجی سربراہ کی حیثیت سے اپنی پالیسی کو نافذ کرنے کی پوزیشن میں ہیں چنانچہ اب یہ دیکھنا ہے کہ اس تاریخی مسئلہ کو حل کرنے میں وہ کتنے کامیاب ہوں گے۔
تھائی لینڈ کے جنوبی حصوں میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر ’’اسلام کے گلوبل ایجنڈے‘‘ سے جوڑ کر بھی دیکھا جانے لگا ہے اور ’’خطرات‘‘ کی بو سونگھنے والے لوگ اس کے لمبے چوڑے تجزیے پیش کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایک تجزیہ نگار نے اسے ’’افغان جنگ سے پہلے کی ایک الگ تھلگ علیحدگی پسند مقامی تحریک کی بہ نسبت اب زیادہ بڑا خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ تجزیہ پیش کیا ہے کہ تحریک مذہبی مقاصد کے لیے ہے اور پورے خطے میں ’’وہابی اسلام‘‘ کے اثرات سے متاثر ہے۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کی جدوجہد سے ترغیب پا کر یہاں کے اسلام پسند قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک بڑی اور متحدہ اسلامی مملکت قائم کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس میں انڈونیشیا اور برونائی کے ساتھ تھائی لینڈ و فلپائن کے جنوبی علاقے اور سنگاپور شامل ہیں۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: ۱۳؍نومبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply