مذہب کی نئی جنگیں

مذہبی انتہا پسند اپنے آپ کو ستم رسیدہ خیال کرتے ہیں۔ وہ ملک سے باہر جا کر اﷲ کی خاطر جنگ کرتے ہیں اور پھر وطن واپس آکر دہشت گردی کی خونی کارروائی انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ آئندہ ہفتہ جیسا کہ برطانوی، پارلیمانی ایوانوں کے زیرِ اہتمام Guy Fawkes کی ۱۶۰۵ میں گرفتاری کا جشن منائیں گے جو کہ ایک کیتھولک جہادی تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید بارودی منصوبے اور پوپ کی مذہبی جنگیں کس قدر اب مایوس کن دکھائی دیتی ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں ہم واپس چلتے ہیں۔ زیادہ تر مغربی سیاستداں اور دانشور حتیٰ کہ (بعض مذہبی رہنما) یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ مذہب عوامی زندگی میں مفقود ہوتا جارہا ہے، عقیدہ و ایمان کی خارجہ پالیسی میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ علامتی طور پر وزارتِ خارجہ کے روزنامچوں میں نوے کی دہائی تک مسلمانوں کی چھٹیوں کو فراموش کر دیا گیا تھا۔ ۲۱ویں صدی میں خلافِ معمول مذہب کردار ادا کرنے لگا۔ نائیجیریا سے سری لنکا تک، چیچنیا سے بغداد تک لوگ خدا کے نام پر قتل کیے جانے لگے۔ روپیوں اور رضاکاروں کا ہجوم ان خطوں میں اُمڈ آیا۔ ایک بار پھر دنیا کا ایک عظیم مذہب خونی اختلاف کا شکار ہو گیا (اس بار یہ اختلاف شیعہ اور سنی کے درمیان تھا نہ کہ کیتھولک و پروٹسٹنٹ کے مابین)۔ ایک بار پھر مذہبی جوشیلے خارجہ پالیسی کی عکاسی کرنے لگے۔ امریکا یقینا عراق اور افغانستان پر حملے نہ کرتا (یا ایران پر حملہ کے لیے اس قدر سنجیدگی سے نہ سوچتا) اگر ۱۹ مسلم نوجوان نیویارک اور واشنگٹن پر حملہ نہ کرتے۔ معاملہ یہاں نہیں رُکتا ہے۔ مغربی یورپ کے باہر مذہب ڈرامائی طور پر پبلک اسکوائر میں زبردستی داخل ہو گیا۔ ۱۹۶۰ء میں جان کینیڈی نے امریکیوں سے کہا تھا کہ وہ ان کی کیتھولیکیت کو ایک بے محل سی چیز خیال کریں۔ اب دوبارہ پیدا ہونے والا عیسائی وائٹ ہائوس میں بیٹھتا ہے اور اس کی ممکنہ ڈیمو کریٹ جانشین ووٹروں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ عبادت کرتی ہے۔ ایک اسلامی پارٹی ترکی میں حکمراں ہے جو کہ کبھی سیکولر ملک تھا۔ ہندو قوم پرست بھارت میں آئندہ انتخاب میں دوبارہ برسرِ اقتدار آسکتے ہیں۔ فلسطین اور اسرائیل میں پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں بچے مذہبی اسکولوں کا رخ کر رہے جو اُن سے یہ کہتے ہیں کہ خدا نے یہ پوری سرزمین مقدس انہیں مرحمت فرمائی ہے۔ موجودہ رجحان کے پیشِ نظر چین عظیم ترین عیسائی ملک ہو جائے گا اور شاید یہ عظیم ترین مسلمان ملک بھی ہو گا اور ایران کے صدر محمود احمدی نژاد جو معمول کے مطابق حالاتِ حاضرہ پر ایک قابلِ اعتماد سند نہیں ہیں، جارج بش کے نام اپنے کھلے خط میں یہ لکھنا اپنا حق سمجھا: ’’آیا ہم چاہیں یا نہ چاہیں دنیا قادرِ متعال خدا کی جانب تیزی سے کھچ رہی ہے‘‘۔

بارود، بغاوت اور سازش:

یہ امکان کتنا خوفناک (یا حوصلہ افزا) ہے جیسا کہ ہماری خصوصی رپورٹ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ خیال کہ مذہب دوبارہ عام لوگوں کی زندگی میں ابھر آیا ہے، کسی حد تک ایک فریب ہے۔ یہ کبھی بھی درحقیقت اتنا دور نہیں ہوا تھا اور اس حد تک تو یقینی طور سے نہیں جتنا کہ فرانسیسی سیاستدان اور امریکی کالج کے پروفیسروں نے تصور کر لیا۔ ان کی نئی قوت زیادہ تر دو تبدیلیوں کے نتائج ہیں۔ پہلا سیکولر عقائد کی ناکامی ہے۔ مذہب کی سیاست میں واپسی کا آغاز ۷۰ کی دہائی میں ہوتا ہے جبکہ ہر جگہ حکومت پر اعتماد ختم ہو رہا تھا۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ اسلامی دنیا میں بعض مذہبی حکومتیں باقی تھیں۔ تاہم مذہب اس حیثیت سے اسٹیج پر واپس آیا تھا کہ یہ پہلے سے کہیں زیادہ جمہوری اور لوگوں کے ذاتی معاملات تک محدود تھا۔ حیران کن طور پر یہ گلوبلائزیشن سے ہم آہنگ مذہب کی کامیاب مارکیٹنگ تھی جو کہ لائقِ مبارکباد ہے۔ سیکولرازم اتنا جدید بھی نہیں ہے جتنا کہ بہت سارے دانشور خیال کرتے ہیں لیکن تکثیریت (Pluralism) جدید ضرور ہے۔ آپ مذہب کو آزاد چھوڑ دیجیے تو سخت مذہبی لوگ اور سخت دہریے دونوں ہی اچھا کردار ادا کریں گے۔ خالص لبرل نقطۂ نظر سے مختلف الخیال حلقوں کا کثرت سے ہونا ایک اچھی چیز ہے۔ ضمیر کی آزادی لبرل فکر کا مفروضہ ہے۔ اگر انسان ایک شدت پسند مذہبی بھیڑیا ہے اور زندگی بعد موت پر یقین رکھنے کا اس میں رجحان پایا جاتا ہے تو یقینا اس نے ایک بہتر عقیدے کا انتخاب کیا ہے، بجائے اس کے کہ یہ حکومت کے کسی فرمان کی تعمیل کرتا لیکن یہ رجحان مذہب کو ایک پیچیدہ قوت بنا دیتا ہے جس سے معاملہ کرنا بہت مشکل ہے۔ داخلی پالیسی میں وہ بالغ حضرات جو لوگ یوم الخمس مناتے ہیں یا کٹر یہودی ہیں یا شدت پسند مسلمان ہیں، اس بات کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے کہ جب ان کا بیلٹ باکس سے سامنا ہو تو وہ ایسے عقیدے کو فراموش کر دیں۔ ثقافتی جنگیں جنہیں امریکا نے بڑھاوا دیا ہے ایک عالمی مظہر کا روپ دھار سکتی ہیں، خاص طور سے سائنس سے متعلق شدید جنگیں متوقع ہیں۔ بیرونی دنیا میں اس کا امکان ہے کہ ممالک کے درمیان بھرپور جنگ کا آغاز ہو۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ کو افسوس ہے کہ کروڑہا لوگ مبنی برمذہب جنگ کے طور پر دیکھیں گے۔ یہی صورتِ حال ہندوستان اور پاکستان کے مابین ہو گی لیکن Guy Fawkes کے وقت کے مقابلے میں جبکہ جنگوں کا آغاز بادشاہوں کی جانب سے ہوا جنہوں نے اپنی عسکری قوت کی دھاک مختلف مذہب کے ماننے والے دوسرے لوگوں پر بٹھائی آج کی جنگ اتنی ہی عوامی خواہشات کا نتیجہ ہو گی جتنی کہ حکومتی کوششوں کا۔ اس میں شدت رضاکاروں کی دین ہے نہ کہ تنخواہ دار سپاہیوں کی۔ جنگجوئوں کی سرگرمیاں بدمعاش مبلغین کے سبب ہے نہ کہ پادریوں کے سبب۔ ان کے غیظ و غضب کا ہدف مرتد لوگ ہیں نہ کہ بالمقابل تہذیب۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ امریکا جو آزادیٔ انتخاب پر مبنی مذہب کے لیے ماڈل ہے سیکولر دور سے زیادہ مربوط دیکھائی دیتا ہے اس طرح کہ وہ ریاستی دہست گردی پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے حالانکہ دہشت گرد اسلام کا اصل ہتھیار اکثر بیلٹ باکس رہا ہے۔

وقتِ دعا ہے: چونکہ سیاستدانوں کی ناکامی مذہب سے معاملات کے حوالے سے ہے لہٰذا دو سبق سامنے آتے ہیں، ایک اصولی اور دوسرا عملی۔ اصولی سبق یہ ہے کہ کلیسا اور ریاست کو الگ ہی رکھا جائے۔ امداد یافتہ مذہب نہ تو ریاست کے کام کا ہوتا ہے نہ ہی کلیسا کے کام کا۔ یورپی کلیسا کی خالی کرسیاں اس پر شاہد ہیں۔ بعض مواقع پر ان دونوں کو الگ کرنا آسان ہے۔ نجی زندگی میں لوگ یہ عقیدہ رکھ سکتے ہیں کہ دنیا ٹھیک ۶۰۰۳ سال قبل تخلیق ہوئی ہے لیکن اساتذہ کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ بچوں کو تخلیقیات کا موضوع سائنس کی حیثیت سے پڑھائیں۔ ریاست کو یہ نہیں بتانا چاہیے کہ آیا خواتین اسکارف پہن سکتی ہیں یا نہیں۔ غیرقانونی تجسیمِ نو پر پابندی ہونی چاہیے (جیسا کہ چین نے اس پر تبت میں حال ہی میں پابندی عائد کر دی ہے) لیکن خط کھینچنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا ہے۔ یہ مضمون مذہبی اسکولوں کو جو حکومتی اخراجات سے چلتے ہیں، مسترد کرتا ہے۔ خاص طور سے ایسے اسکولوں کو جو لامذہب لوگوں کے خلاف امتیاز برتتے ہیں لیکن یہ مضمون غریب والدین کو مزید آپشن دینے کا حامی ہے اور امریکی شہروں میں پبلک اسکولوں کے اصل متبادل کیتھولک اسکول ہیں۔ وہ مذہب جس نے حکومتی دائروں میں سب سے زیادہ کھلی جارحیت کی ہے وہ ہے اسلام۔ یہ سیکولر قوتوں کے لیے بہت کم احترام رکھتا ہے۔ یہ لوگوں کو تعلیم دیتا ہے کہ معاشرے کی بنیادی اکائی امت ہے جو اہلِ ایمان کی بین الاقوامی اخوت کی مظہر ہے۔ جب یہ اسلامی اقتدار کے عروج پر ہوتا ہے تو یہ لوگوں کو شریعت کے قوانین کی پابندی پر مجبور کرتا ہے۔ بعض اوقات وحشیانہ سزائوں کے ذریعہ۔ اس کے باوجود اسلام جدید لبرل ریاست کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کر سکتا ہے۔ دنیائے عرب میں اس کی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ملیشیا اور انڈونیشیا میں جمہوریت کی جڑیں گہری اور مضبوط ہیں۔ امریکا کے مسلمان آزادی کے ساتھ عبادت کرتے ہیں اور اس کے سیکولر آئین کا احترام کرتے ہیں۔ یہ وہ کامیابی ہے جسے امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کے لیے مزید استعمال کرنا چاہیے لیکن آزمائشی ملک ترکی ہو گا۔ ایک سیکولر ملک جس پر فی الحال اسلام پسند حکمراں ہیں اور جس کی پیش رفت کا مشاہدہ قدرے تشویش ناک توجہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ عملی سبق کی پریشانی مذہبی جنگوں سے متعلق ہے جس کی کچھ وجہ تو کلیسا اور ریاست کو الگ رکھنے کے حوالے سے اُن کی دھن ہے۔ مغربی قوتیں اور مذہبی رہنما مذہبی تصادم کا مذہبی حل نکالنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی کوششیں خاص طور سے مشرقِ وسطیٰ میں اس طرح جاری رہی ہیں گویا کہ یہ ایک سیکولر قبائلی تنازعہ ہو۔ اب جبکہ اس تنازعہ میں مذہب کا عنصر بہت زیادہ دخیل ہے تو ان کا حل ہونا بہت مشکل ہے۔ اگر آپ کو خدا نے مغربی کنارہ عنایت کیا ہے تو آپ اس کا سودا کرنا نہیں چاہیں گے۔

مذاہب کے مابین گفتگو ایک کمزور تصور ہے لیکن یہ اس لحاظ سے قدرے حقیقت پسندانہ ہے کہ مذاہب کے مقابلے میں امن کا سیکولر ماڈل پیش کیا جائے جسے مذہبی رہنمائوں کی حمایت حاصل نہ ہو۔ شمالی آئرلینڈ میں دونوں ہی طرف کے مذہبی رہنما تشدد کی مذمت کرتے ہیں سرزمینِ مقدس میں درحقیقت جس کا فقدان ہے۔ دہریے اور لامذہب لوگ مذہب سے نفرت کرتے ہیں لیکن مذہب ان دنوں سیاست کا جزوِ لاینفک ہے۔ اگرچہ یہ ریاست کا کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے قلوب میں داخل ہو لیکن یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ ان شکایات کو دور کرے جو خونریزی میں تبدیل ہو سکتے ہیں اور انتہا پسندوں کو پالیسی ساز بننے سے روکے لیکن یہ کام آسان نہیں ہے۔ Gunpowder Plot (بارودی سازش) کے بعد کیتھولک ۲۲۴ برسوں تک پارلیمنٹ میں واپس نہیں آئے۔ جب تک سیاستداں مذہبی احساسات کو پڑھنا نہیں سیکھتے ہیں اور کلیسا اور ریاست کے مابین ایک مضبوط خط کشید نہیں کرتے ہیں، مذہب کی نئی جنگوں پر قابو پانا مشکل ہے۔

(بشکریہ: ’’اکانومسٹ‘‘ لندن۔ شمارہ: ۳ نومبر ۲۰۰۷ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*