
۳ جون ۲۰۱۵ء کو جدہ کے السلام شاہی محل میں بدعنوانی سے متعلق حکام کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود نے کہا کہ کسی بھی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سعودی بادشاہ، ولی عہد یا شاہی خاندان کے کسی بھی فرد کے خلاف مقدمہ دائر کر سکتا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے ۱۹۲۸ء کے ایک مقدمے کا حوالہ دیا، جب ایک مقروض شہری نے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کے والد کے خلاف ریاض کے قاضی شیخ سعد بن عتیق کے پاس مقدمہ درج کروایا۔
اس بات سے قطع نظر کہ دوبارہ ایسا ہوسکتا ہے، بادشاہ کی جانب سے اس واقعے کی طرف اشارہ غماضی کرتا ہے کہ وہ سعودی سلطنت کی قدامت پسندی پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے سَلَفیوں کے ساتھ بھی اچھے روابط استوار رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسرے حکمرانوں کے بر عکس سعودی حکمران سلفیوں کی امداد کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس واقعے کے بیان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ سلمان بن عبدالعزیز کی یاداشت اچھی ہے۔
ایک سعودی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’’ال مونیٹر‘‘ کو بتایا کہ بادشاہ نے اپنی تقریر میں سعودی عرب کے تین سیاسی مراحل کا ذکر کیا۔ سب سے پہلے محمد بن سعود کا دور (جب ۱۷۴۴ء میں پہلی سعودی ریاست کی بنیاد ڈالی گئی)۔ پھر اس کے بعد ترکی ابن عبداللہ (جنہوں نے ۱۸۲۴ء میں مصری فوج سے ریاض کی حکومت چھین کر دوسری سعودی ریاست کی بنیاد رکھی) سے لے کر سلمان بن عبدالعزیز کی موجودہ سلطنت تک کا ذکر کیا۔ اس اہلکار کے مطابق بادشاہ کی جانب سے ان ادوار کا ذکر اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہیئت حاکمہ میں حالیہ اکھاڑ پچھاڑ کے بعد اب سعودی عرب چوتھے سیاسی دور میں داخل ہو چکا ہے اور اقتدار اب اس بانی خاندان کے اہل و عیال کے ہاتھ میں ہے۔
اگرچہ بادشاہ عبداللہ کے فوت ہونے کے بعد انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بڑے سکون اور روایتی انداز سے طے پاگیا، جیسا کہ متوقع تھا، سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے مسند نشینی کے فوری بعد کی گئی اہم تبدیلیوں سے یہ خواہش عیاں ہے کہ جو کچھ شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری نے کیا، اُسے اب درست کرنا چاہیے۔ (خالد التویجری شاہ عبداللہ کے انتقال تک اس منصب پر رہے اور بعد میں شاہ سلمان نے انہیں برطرف کر دیا تھا۔۔۔۔ مترجم)
اندرونِ خانہ تویجری نے عدالتِ شاہی، قدامت پسندوں اور شہزادوں کے درمیان تنائو کو ہوا دی اور شہزادوں کی ملاقاتوں میں رکاوٹ بنا۔ کچھ شہزادے تو انہیں ’’سپریم لیڈر‘‘ بھی کہتے تھے، کیونکہ تویجری کو بادشاہ کی ملاقاتوں اور فیصلوں پر اختیار حاصل تھا۔ بیرونی طور پر تویجری نے سنی سیاسی اسلامی تحریکوں کے خلاف معاندانہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی تھی، جس سے شیعہ تنظیموں کو ایک بڑا جغرافیائی اور سیاسی میدان میسر آیا اور انہیں پھلنے پھولنے اور ایرانی اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے کا موقع بھی ملا۔ مثلاً خلیجی ممالک کی اخوان المسلمون کے خلاف جنگ میں مشغولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حوثیوں نے یمن میں قدم جما لیے۔ چنانچہ اکثر سعودیوں کا خیال ہے کہ حوثی ملیشیا کے خلاف ’’آپریشن فیصلہ کن طوفان‘‘ کا فیصلہ شاہ سلمان کا اہم ترین اقدام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کو بہت پذیرائی ملی جو یمن میں فضائی کارروائی کے وقت اپنے عروج پر تھی مگر پھر جیسے جیسے نقصان اور جانوں کا ضیاع بڑھتا گیا، ویسے ویسے یہ پذیرائی بھی کم ہوتی گئی۔
جنگ کرنا سعودی حکمت عملی میں ایک استثنائی معاملہ سمجھا جاتا ہے، اپنی ابتدا ہی سے سعودی عرب نے اس بات سے پہلو تہی اختیار کی ہے کہ کسی بیرنی گروہ سے اس کا براہ راست تصادم ہو۔ لیکن یمن جنگ کے اس فیصلے کے برعکس خاص لوگوں کو خاص مناصب پر فائز کرنے کے فیصلے معمول کا حصہ ہیں، اس لیے سعودی شہریوں کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ وہ تبدیلیاں جنہیں سعودی عرب میں اہم سمجھا جاتا ہے، ان کا تعلق عام طور پر بادشاہ کی موجودگی سے ہوتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو یہ تبدیلیاں غیر اہم ہیں۔
’’سیاسی قدامت پسند‘‘ شاہ سلمان کی اہم ترین تبدیلیوں میں سے ایک سیاسی و سلامتی امور کی کونسل کا قیام ہے، جس کے سربراہ ولی عہد محمد بن نائف ہیں۔ اس اعلیٰ عہدے پر ان کی موجودگی سے سلطنت کے ایوانوں اور بیرونی دنیا میں ایک اعتماد کا پیغام جاتا ہے، خصوصاً مغربی ممالک میں۔ محمد بن نائف کے ۲۰۱۲ء میں وزیر داخلہ بننے کے بعد سے مغرب اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون کو فروغ ملا ہے۔ اپریل کے مہینے میں محمد بن نائف اپنے چچا مقرن بن عبدالعزیز کے متبادل کے طور پر سامنے آئے اور ان کی جگہ نئے ولی عہد بن گئے۔ ہوسکتا ہے کہ محمد بن نائف سعودی عرب کے چوتھے سیاسی مرحلے کے پہلے بادشاہ بن جائیں، اور یہی وہ واحد فرد ہیں جو محمد بن سلمان کو مستقبل کا ولی عہد بنا سکتے ہیں۔
۲۹ جنوری ۲۰۱۵ء کو معاشی اور ترقیاتی امور کی کونسل بھی بنائی گئی جس کے سربراہ سب سے کم عمر شہزادے اور وزیر دفاع محمد بن سلمان ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اور شاید دنیا بھر میں بڑے بڑے معاشی امور کی نگرانی بھی محمد بن سلمان کے ذمہ ہے۔ وزارت دفاع کے معاملات ہوں یا اس کا بجٹ، تیل کی آمدنی کا حساب کتاب ہو یا سعودی عرب میں تعمیر و ترقی کے منصوبے، ان جیسے بہت سارے اہم امور کی نگرانی یہ سب سے کم عمر شہزادہ ہی کے ذمہ ہیں۔ ان دونوں کونسلوں کو سعودی حکومت کے تمام شعبوں میں کیے گئے فیصلوں پر اختیار حاصل ہے۔ جس چیز کی شاہ عبداللہ کے دور میں منصوبہ بندی کی گئی یا بنیاد ڈالی گئی، اسے تبدیل کرنا بھی ان کونسلوں کے اختیار میں ہے۔
وہ سعودی باشندے جو اخوان المسلمون کے ہمدرد و ہم خیال ہیں، اس بات سے باخبر ہیں کہ ریاض انتظامیہ میں کچھ سنجیدہ نوعیت کی تبدیلیاں کی جاچکی ہیں، جن کا تعلق سنی سیاسی و مذہبی تحاریک سے ہے، جیسے مصر میں اخوان المسلمون، یمن میں الاصلاح، غزہ میں حماس اور تیونس میں النہضہ۔ مزید تبدیلیاں ان تنظیموں کے حامی ممالک میں کی گئی ہیں، جیسا کہ ترکی اور قطر، جن سے سعودی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ ان تبدیلیوں میں سے ایک محمد بن نائف کی جانب سے اپنے غیرملکی دورے کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ (Doha) کا انتخاب کرنا ہے، سعودی ولی عہد بننے کے بعد یہ ان کی پہلی منزل تھی۔ ترکی، جہاں اسلام پسندوں کی اکثریت ہے، ان کی دوسری منزل تھی۔ حال ہی میں محمد بن سلمان ۱۲؍جون کو قطر کے دورے پر گئے، یہ دورہ بھی اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔
شاہ عبداللہ کے دور میں قطر اور سعودی عرب کے تعلقات اُس وقت کشیدہ ہوگئے، جب مارچ ۲۰۱۲ء میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب عمارات نے ایک ساتھ اپنے سفیروں کو دوحہ سے واپس بلا لیا، جس کی وجہ قطر کی جانب سے اخوان المسلمون کی قیادت کی میزبانی کرنا تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ مئی ۲۰۱۴ء میں بنائی گئی ’’سیاسی اسلام کی سپریم کمیٹی‘‘ کے ذریعے ابو ظہبی کے ساتھ تعاون قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علاقائی تحریک میں ریاض اپنے قائدانہ کردار کی بازیابی چاہتا ہے اور وہ بھی ابوظہبی سے ہٹ کر۔ تاکہ (کشیدگی کے) ماحول کو ٹھنڈا کیا جائے اور عرب اور اسلام پسند متحد ہوں۔ اسی کا حوالہ شاہ سلمان نے سیاسی منصوبے سے متعلق اپنی حالیہ تقریر میں دیا تھا۔ شاہ سلمان کے مطابق نہ تو اخوان المسلمون کو اور نہ ہی اس کی حامی ریاستوں کو اس مفاہمتی عمل سے مستثنیٰ رکھا جائے گا، جس کا آغاز قطر، ترکی اور سوڈان سے ہوچکا ہے۔
باوجود اس کے کہ شاہ سلمان کی فرمانروائی میں اندرونی استحکام ہے اور کوئی اندرونِ خانہ مخالفت نہیں، سعودی ریاست کا چوتھا سیاسی مرحلہ آلِ سعود کے لیے اچھا نظر نہیں آرہا۔ شمالی اور جنوبی سرحدوں پر سلامتی اور عسکری بحران، بجٹ خسارہ، جو تیل کی قیمتوں میں کمی، عوامی اخراجات اور سیاسی اصلاحات کے اطلاق میں تاخیر کے باعث بڑھتا نظر آرہا ہے، وہ دشواریاں ہیں جن کا سعودی عرب کی اس چوتھی قیادت کو سامنا ہے۔ تاہم جو سب سے بڑا چیلنج اس چوتھی ریاست کے بادشاہ کو درپیش ہوگا، وہ اُن درجنوں، یا شاید سیکڑوں، شہزادوں کو مطمئن یا قابو میں رکھنا، جن کے اپنے معاشی اور سیاسی عزائم ہیں۔
چوتھے مرحلے کے پہلے بادشاہ کو ایک اور چیلنج سے بھی سابقہ پیش آسکتا ہے، اور وہ یہ کہ کسی ایسے طریقہ کار کی عدم موجودگی، جس سے انتقالِ اقتدار کے مرحلے کو منظم کیا جائے اور ولی عہد کا انتخاب کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ اس طریقہ کار پر شاہی خاندان کے تمام افراد متفق ہوں۔ خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ ’’وفاداری کونسل‘‘ (جس میں السعود گھرانے کی ہر شاخ کے نمائندے ولی عہد کے انتخاب کی توثیق کرتے ہیں) کا شاہی استحقاق (خصوصی اختیارات) اور جانشینی کے لیے شہزادوں کے عمر کی ترتیب کے معاملات پہلے کے لگے بندھے اصولوں سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ان مسائل کو ’’وفاداری کونسل‘‘ کے کچھ اراکین جیسا کہ شاہ سلمان کے بھائی شہزادہ طلال بن عبدالعزیز اور شاہ سعود کے پوتے شہزادہ سعود بن سیف النصر سوشل میڈیا میں زیربحث لاچکے ہیں۔
(مترجم: ضمیر لغاری)
“Next Saudi royal generation takes lead”. (“al-monitor.com”. June 24, 2015)
Leave a Reply