ماہرین کا خیال ہے کہ طے شدہ پروگرام کے مطابق نائیجریا میں آئندہ سال ہونے والے قومی عام انتخابات امن و امان کی موجودہ صورتحال کو بگاڑ دیں گے اور ملک کے اندر عارضی طور پر جو سیکوریٹی کی بہتری پیدا ہوئی اور سیاسی ٹھہرائو آیا ہے اس میں انتخابات کے بعد بڑی منفی تبدیلی آئے گی عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں نسلی، مذہبی اور علاقائی کشیدگی پیدا ہوئی اور دس سال سے اقتدار میں حصہ داری کے جس معاہدے پر عمل ہو رہا ہے اس معاہدے کے مختلف فریق اس سے دستبرداری اختیار کر لیں گے اور اس معاہدے کی منسوخی و خلاف ورزی کے ساتھ نسلی و مذہبی تشدد پھوٹ پڑے گا اور وسطی پٹی و ڈیلٹا علاقہ میں جہاں پہلے سے کشیدگی جاری ہے وہاں صورتحال اور بھی بگڑ جائے گی۔
اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ ۲۰۱۱ء میں عام انتخابات کے قریب آجانے کے بعد نائیجریا ایک بڑے بحران کے سامنے کھڑا ہے اور ۱۹۹۹ء سے جس معاہدے پر عمل ہو رہا ہے اور مختلف سیاسی، نسلی، مذہبی اور علاقائی جماعتیں اس معاہدے کے تحت حکومت و اقتدار میں شریک ہیں ان کے درمیان پھوٹ پڑنا یقینی ہو چکا ہے۔ مذکورہ معاہدے کے تحت شمال کی مسلم جماعتیں اور قائدین اور جنوب کی عیسائی جماعتیں اقتدار میں شریک ہیں اور اسی شراکت داری کی وجہ سے ملک اب تک مذہبی و علاقائی کشمکش اور لڑائی سے محفوظ ہے۔ مگر اب یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں یہ جماعتیں اقتدار میں حصہ داری کے فارمولے سے دستبردار ہو جائیں گی اس وقت جنوب سے تعلق رکھنے والے موجودہ عیسائی صدر مملکت گڈلک جونتھن کو ایک مضبوط حریف اور نہایت طاقتور مسلم امیدوار کے مقابلہ کا سامنا ہے، جن کا تعلق شمال سے ہے۔ موجودہ سربراہ کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات پر عدم اعتماد و اطمینان کے اظہار کی وجہ سے طاقت کا توازن موجودہ صدر کے حق میں ہو سکتا ہے مگر اس صورت میں زبردست احتجاجوں اور مظاہروں کا دور شروع ہو گا جس کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پرامن نہیں بلکہ انتہائی پرتشدد ہو گا۔ جس میں قیمتی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں اور بے دریغ خون بہہ سکتا ہے۔ کامیابی خواہ جس کے بھی حصہ میں آئے فریقِ مخالف اور ناکامی سے دوچار ہونے والا تشدد کی راہ ضرور اپنائے گا۔ ان تلخ حقائق کی بنیاد مذہبی بنیادوں پر نہ ہو، مگر واضح سی بات ہے کہ انتخابات کے اندر یہی عنصر غالب رہے گا کیونکہ اس طرح کی فرقہ واریت اور مذہبی منافرت ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر چکی ہے، بلکہ ہر رہنما اسی کا سہارا لے کر اقتدار پر آنے کی کوشش کرے گا۔ انتخابات میں کامیابی کے ذریعہ اقتدار پر تسلط و غلبہ حاصل کرنے اور زمام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے کو یہ ایک ایوارڈ تصور کرتے ہیں کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد پیٹرولیم ذخائر پر قبضہ جمانا اور اسے اپنے تصرف میں لے لینا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے اگر پورے طور پر قابلِ استعمال بنا دیا جائے اور ترقی دے دی جائے تو امریکی منڈی کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے پیٹرول کا متبادل ثابت ہو گا، ظاہر سی بات ہے کہ پیٹرول سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تصرف کرنے کا اختیار اسی کو حاصل ہو گا جس کے ہاتھ میں حکومت ہو گی، اس نفع بخش وسیلے نے ہی مختلف دھڑوں اور گروپوں کو آپس میں اتحاد قائم کرنے پر آمادہ کیا اور دوسری جانب اسی کی وجہ سے ان گروپوں کے درمیان باہمی رقابت اور مقابلہ آرائی بھی شروع ہوئی ہے جو اکثر و بیشتر پرتشدد اور خونریز لڑائی میں تبدیل ہوتی رہی، اور اسی وجہ سے علاقائی، مذہبی اور نسلی منافرت میں اضافہ ہوتا رہا ہے ان کے آپسی اختلافات، معاندانہ روش اور ایک دوسرے کی رقابت نے سیاسی نظام کے اندر تعطل پیدا کیا اور یہ نظام اس قابل نہیں رہا کہ نائیجریا کے مسائل حل کر سکے، ترقیاتی پروگرام وضع کر سکے اور ترقیاتی منصوبوں کی حوصلہ افزائی کر سکے، یہاں اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ چنیدہ افراد و خاندان کے علاوہ عام نائیجریائی باشندوں کو آہستہ آہستہ سیاسی نظام سے بالکل الگ تھلگ کر دیا جائے اور اقتدار اور اس سے استفادہ کے امکانات کو مخصوص طبقوں تک محدود کر دیا جائے۔
اس وقت دو باتیں نائیجریا کی سلامتی کی صورتحال کو چیلنج کرنے والی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ پیٹرولیم ذخائر سے مالامال ڈیلٹا علاقہ میں یہ احساس عام اور گہرا ہے کہ ان پر اقتدار و تسلط جمانے والی حکومت اور بااثر مخصوص طبقہ نے ان پر مظالم ڈھائے اور ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ خطہ میں موجود پیٹرولیم ذخائر اور اس کی پیداوار سے حاصل ہونے والی آمدنی کا عشر عشیر بھی مقامی لوگوں کو نہیں مل رہا ہے اور یہ کلّی طور پر اس آمدنی سے محروم ہیں۔ جبکہ حکمراں طبقہ اور ملک کا ایک مخصوص خاندان اسے اپنی ذاتی جائیداد تصور کر رہے ہیں اور جس طرح چاہے اس میں تصرف کر رہے ہیں۔ اس خطہ کے اندر ماحولیات کی صورتحال بھی نہایت ابتر بلکہ سنگین بنی ہوئی ہے، غیر سرکاری تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس خطہ میں نقط کا رسائو ہے اور اس کے رسنے کی مقدار اکسن ویلڈیز کے سالانہ رسنے کے برابر ہے۔ ڈیلٹا خطہ کے باشندوں کو سب سے زیادہ مایوسی اس سے ہے کہ وفاقی حکومت مقامی اقتدار کے رسم و رواج اور عرف و عادت پر توجہ دینے اور ملک کے اندر پائی جانے والی اتنی کثیر جماعتوں کے اختلافات کو ختم کرنے اور باہمی نزاع و رسہ کشی پر غلبہ پانے سے قاصر رہی ہے۔ حکومت کی اسی بے بسی اور مقامی مسائل سے بے توجہی کی وجہ سے بغاوت کی لہر شروع ہوئی، یہ ابھی اگرچہ معمولی سطح کی ہے مگر اس میں اگر شدت پیدا ہوئی جس کا قوی امکان ہے تو پیٹرول کی پیداوار اور اس کی ترسیل ٹھپ ہو سکتی ہے، جس کا براہِ راست اثر حکومت اور ملک کی ابتر اقتصادیات پر پڑے گا جس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
ڈیلٹا کے باشندوں کے اندر پائے جانے والے ظلم وناانصافی کے احساس سے استفادہ کرنے اور اس کا ہوشیاری کے ساتھ استحصال کرنے کی تاک میں مختلف سیاسی جماعتیں لگی ہیں۔ دوسری چیلنج بننے والی بات یہ ہے کہ شمال میں آبادی کے دبائو میں اضافہ ہونے، صنعت و حرفت کے ماند پڑ جانے اور زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کے نہ ہونے کی وجہ سے فقر و افلاس بڑھا ہوا ہے، شمال کا خطرہ مرکزی حکومت سے دوری رکھتا ہے، عوام کی جانب سے روایتی مذہبی و اسلامی اداروں کے احترام میں اضافہ ہو رہا ہے، بہت سے مسلمان انتہا پسندانہ نظریات سے متاثر ہو چکے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ بنیاد پرستی کو قبول کر رہے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کی غالب اکثریت یہاں کے اصلی باشندے ہیں۔ سماجی بکھرائو، آپسی پھوٹ، بحرانوں کی ستم ظریفی اور مختلف چیلنجز کی وجہ سے یہاں کا ہر دو مذہبی فریق چند سالوں سے غیر تحریر شدہ معاہدے پر عمل پیرا ہے، یعنی اقتدار میں شراکت داری، برسراقتدار جمہوری عوامی پارٹی اور شمالی افراد نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ وہ ہر آٹھ سال پر صدارتی امیدوار تبدیل کرتے رہیں گے، یعنی اگر پہلے صدر عیسائی تھا تو آئندہ آٹھ سال کے لیے صدارتی امیدوار مسلمان کو بنایا جائے گا اور جب صدارتی امیدوار مسلمان ہو گا تو نائب صدر کے لیے عیسائی امیدوار اور جب صدارتی امیدوار عیسائی ہو گا تو نیابت کے لیے مسلم امیدوار ہو گا، اس اتفاق رائے پر ۱۹۹۹ء میں سویلین حکومت کی واپسی سے عمل ہو رہا ہے اور اقتدار کی اسی تقسیم کی وجہ سے ملک کی وحدت و سالمیت برقرار ہے، قانونی طور پر بھی کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذہبی خیالات کی حامل اور مذہبی ایجنڈہ رکھنے والی نہ ہو، اس نوعیت کی حکومت و اقتدار نے ملکی سطح پر بڑی حد تک سیاسی ٹھہرائو کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے، ملک کے آخری ڈکٹیٹر سانی اپاچا کے ۱۹۹۸ء میں انتقال کے بعد سیاسی بازی گروں کے درمیان یہ اتفاق ہوا کہ فوجی حکومت کے زمانے میں یکے بعد دیگرے جتنے بھی صدور برسراقتدار آئے وہ سب کے سب شمال سے تعلق رکھنے والے مسلمان تھے، اس لیے اب حکمرانی کے لیے جنوب کے عیسائیوں کو موقع دیا جائے، چنانچہ سویلین دورِ حکومت کے زیر سایہ ۱۹۹۹ء میں کرائے گئے پہلے عام انتخابات میں صدارتی امیدوار بنیادی طور پر دو تھے، اویسیگون اوبا سانجو اور اولووالاتی، اور یہ دونوں یوروبا عیسائی تھے،اس کے چار سال بعد ۲۰۰۳ء میں جب انتخابات منعقد کرائے گئے تو اس وقت بھی سب سے اہم اور بنیادی صدارتی امیدوار دو ہی تھے، ایک تو موجودہ صدر اوباسانجوہی تھے جو دوسری میعاد کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے اور دوسرے امیدوار شمال سے تعلق رکھنے والے مسلم محمد بخاری تھے، مگر طویل سودے بازی کے بعد بیشتر سیاسی رہنما اور اتحادی جماعتیں عیسائی امیدوار اوباسانجو کے گرد جمع ہو گئے مگر انتخابات میں بڑے پیمانہ پر بدعنوانی اور ووٹروں کی خرید و فروخت کی وجہ سے آزاد قومی الیکشن کمیشن نے اس انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا اعلان کیا، اور اس میں اوباسانجو کو کامیاب قرار دے دیا گیا، اوباسانجو کے آٹھ سال اقتدار پر برقرار رہنے کے بعد ۲۰۰۷ء میں پھر صدارتی انتخاب ہوا اور اس وقت سیاسی رہنمائوں کے درمیان طے پایا کہ اب اقتدار شمال کے مسلم امیدوار کی طرف منتقل کر دینا چاہیے اس وقت سب سے اہم و بنیادی امیدوار تین تھے، عمر یار اودوا، محمد بخاری اور عتیق ابوبکر اور ان تینوں مسلم رہنمائوں کا تعلق شمال سے تھا، چنیدہ ارکان کی میٹنگ میں جس میں اوباسانجو بھی شامل تھے اور اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے تھے عمریارادوا کو کامیاب بنانے کے لیے ان میں اتفاق ہو گیا اور زبردست اکثریت کے ساتھ ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا، ان تینوں انتخابات میں ووٹ دینے والے چنیدہ رہنمائوں کے ارکان جن میں مسلم بھی تھے اور عیسائی بھی سب اس بات پر متفق تھے کہ تمام جماعتیں ایک ہی امیدوار کے حق میں ووٹ دیں گی، جن کا تعلق جمہوری عوامی پارٹی سے ہو گا۔ اس طرح انہیں اقتدار کی تقسیم کے اصول کو روبہ عمل لانے کا موقع ملا، مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس اصول پر قائم نہیں رہ سکیں گے اور یہ خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ مذہبی، علاقائی اور نسلی بنیادوں پر انتخابات لڑے جائیں گے۔ ۲۰۰۹ء میں صدر عمر یار ادواسخت بیمار ہو گئے اور انہیں جدہ کے اسپتال میں کافی عرصہ تک رہنا پڑا۔ وہ اسپتال سے فارغ ہو کر ۲۰۱۰ء میں نائیجریا واپس آئے اور تھوڑے ہی دنوں بعد انتقال کر گئے۔ ضابطے کے مطابق مدت صدارت کی باقی میعاد کے لیے ان کے نائب گڈلک جونتھن ان کے قائم مقام اور صدر مملکت بن گئے جو ۲۰۱۱ء تک اس عہدہ پر برقرار رہیں گے، جونتھن کی صدارت یا ان کا اقتدار شمال سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں اور اثر و رسوخ رکھنے والے حلقہ میں مقبول رہا اور ہر کسی کو یقین تھا کہ ان کی اس عارضی صدارت کے بعد ۲۰۱۱ء میں پھر اقتدار شمال کے مسلمانوں میں منتقل ہو جائے گا کہ تقسیم اقتدار کا یہی فارمولا طے ہوا تھا اور اس پرمسلسل عمل ہوتا چلا آرہا ہے اور خود عمر یاردوا کے آخری زمانہ میں بھی یہ بات زبان زد عام و خاص تھی اور سمجھا جا رہا تھا کہ ان کے بعد دوسری میعاد کے لیے بھی صدر شمال کے مسلمانوں میں سے ہوگا۔ اور جونتھن کو ان کا نائب منتخب کیا جائے گا جو اگلے انتخابات میں پھر صدر کے لیے منتخب کیے جائیں گے یا خود شمال کے صدر اگر صدر نہ بننا چاہیں تو جونتھن کو منتخب کر لیا جائے گا۔ یاردوا کے انتقال کے بعد جب جونتھن عہدۂ صدارت پر فائز ہوئے تو نائب صدر کی جگہ خالی ہو گئی اور قاعدے کے مطابق عیسائی صدر کے نائب کے لیے ضروری تھا کہ وہ شمال کا مسلمان ہو، مگر اس عہدہ کے لیے شمال میں کسی امیدوار پر جب اتفاق نہیں ہو سکا تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جونتھن نے اپنا نائب جنوب کے ایک غیر معروف عیسائی کو مقرر کر لیا، جن کا نام غادی ساہو ہے اور وہ پہلے کاڈونا کے گورنر تھے، اس انتخاب کی تائید شمال کے کسی بھی رہنما اور بااثر شخص نے نہیں کی اور شمال سے تعلق رکھنے والے چنیدہ رہنمائوں کی جماعت کے ارکان اس تعلق سے بنے ہوئے ہیں اور صدارتی امیدوار کا دروازہ انہوں نے بھی کھلا چھوڑ رکھا ہے، شمال سے تعلق رکھنے والے سابق فوجی حکمراں ابراہیم بابنگیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود کو صدارتی امیدوار نامزد کریں گے، دوسری طرف نائیجریائی اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے شائع کیا ہے کہ موجودہ قومی سلامتی کے سربراہ اور سیکوریٹی ایجنسی کے سربراہ اعلیٰ الیومحمد گوسائی جلد ہی اپنے عہدہ سے مستعفی ہونے والے ہیں تاکہ وہ صدارتی امیدوار کی حیثیت سے خود کو پیش کر سکیں اور عہدہ صدارت کی دوڑ میں حصہ لے سکیں۔ ان دونوں کے علاوہ شمال سے تعلق رکھنے والے اور بھی کئی رہنما ہیں جو موقع کی تلاش میں ہیں اور صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا ارادہ کیے ہوئے ہیں مگر اب تک انہوں نے اس کا اعلان نہیں کیا ہے۔
اقتدار کی تقسیم اور باری باری ہر آٹھ سال میں اقتدار کی منتقلی کے اصول پر اب تک عمل ہوتا رہا ہے مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی پر جونتھن کمربستہ ہو گئے ہیں اور ۲۰۱۱ء کے انتخابات میں خود کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور وہ امیدوار بنتے ہیں تو وہ ایک مضبوط امیدوار ہوں گے اور عہدہ پر ہونے کی وجہ سے اپنے اثر و رسوخ سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کریں گے اور فطری طور پرآزاد قومی الیکشن کمیشن ان کے ماتحت ہو گا اور صدر کے اثر و رسوخ کے دبائو میں رہے گا اور اس کمیشن کا کردار انتخابی گھپلوں، بدعنوانیوں اور جعل سازیوں میں فیصلہ کن ہو گا اسی لیے ایوان بالا اور ایوانِ زیریں میں قانون سازی کے لیے ویل بل پیش کیا گیا ہے تاکہ اس الیکشن کمیشن کو صدر کی ماتحتی سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور وہ کسی کے زیر اثر ہونے کے بجائے واقعی آزاد ادارہ بن جائے، مگر اس بل کی پیشکشی میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے دوسری طرف جونتھن نے الیکشن کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کرکے ایک اکیڈمک شخص کو اس کا سربراہ بنایا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ خود کو صدارتی امیدوار بناتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار ہے اور صدارتی اثر و رسوخ سے بالاتر ہے؟ اس کے علاوہ جنوب کے ووٹروں کا بھی ان پر سخت دبائو ہے کہ ۲۰۱۱ء کے الیکشن میں عیسائی صدر کی حیثیت سے عہدہـ صدارت کو جنوب کے لیے محفوظ رکھیں، خواہ اس کے لیے کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ پیٹرول کی دولت سے مالا مال ڈلٹا کے اندر پھیلی ہوئی ایگو جماعت سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے شخص ہیں جو نائیجریا جیسے ملک کے عہدۂ صدارت پر فائز ہوئے ہیں، ایگو قبیلہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں اس لیے ان کا خیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کی روایت کو بدلا جائے اور اقتدار کو اپنے ہاتھ میں برقرار رکھا جائے، اس وقت صدارت کا حق شمالیوں کا ہے تاہم جونتھن کے قریبی لوگوں نے ذرائع ابلاغ کے سامنے وضاحت کی ہے کہ جونتھن انتخابی عمل میں حصہ لینے کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سابق صدر اویسیگون اوباسانجو جو اب بھی کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں جونتھن کی تائید و حمایت کریں گے۔ بنیادی طور پر جمہوری عوامی پارٹی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلاح کے انتخاب کے لیے صدر و نائب صدر کے عہدہ کے لیے اپنا امیدوار منتخب کرے، مگر بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پارٹی کے کسی ایک امیدوار پر اتفاق نہیں ہو سکے گا اور شمال کے مسلم امیدوار اور جنوب کے عیسائی امیدوار یعنی موجودہ صدر جونتھن کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا اور یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پارٹی دو خانوں میں تقسیم ہو جائے گی اور برسراقتدار چنیدہ ارکان کے درمیان زبردست اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔
سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ آئندہ انتخابات علاقائی محاذ آرائی کا میدانِ کارزار بن جائے گا جس کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ غیر جانبدار منصفانہ انتخابات کا انعقاد ناممکن ہو جائے گا اور لازمی طور پر یہ الیکشن جعلسازیوں اور بدعنوانیوں سے لبریز ہو گا، جس کی صداقت کی گارنٹی نہیں دی جاسکے گی، ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے بعد ملک میں علاقائی، نسلی اور مذہبی مشکلات و مسائل پیدا ہوں گے اور اسی طرح کی خونریزی شروع ہو گی جس طرح ۲۰۰۷ء میں کینیا میں ہوئی تھی اور اگر وسطی پٹی ویلٹا علاقہ میں ان پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوتا اور صورتحال خراب ہوتی ہے تو نائیجریا کا امن وامان تباہ ہو جائے گا اور اس کی وحدت و سالمیت خطرے پڑ جائے گی اور سال ۱۲۔۲۰۱۱ء افریقا کے لیے مشکل ترین سال ثابت ہو گا، کیونکہ توقع ہے کہ ۲۰۱۱ء میں زمبابوے میں اور ۲۰۱۲ء میں کینیا میں بھی انتخابات کرائے جائیں گے اور ۲۰۱۱ء ہی میں جنوبی سوڈان میں بھی استصواب رائے کرانا طے ہو سکتا ہے اور تقسیم اقتدار کی خلاف ورزی کی صورت میں امکان ہے کہ نائیجریا بھی ان ہی ملکوں کی صف میں آکر اپنے امن و امان کو کھو دے اور ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جائے۔
(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘)
Leave a Reply