
نائیجیریا ایک ایسی ریاست ہے جو سانس لے رہی ہے، اگرچہ کہ ماسک کی وجہ سے اسے سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہے۔۷؍اکتوبر کو رشوت کے خلاف بنائی جانے والی بدنام زمانہ خصوصی فورس کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیل گئی، ڈیلٹا ریاست کے شہر اوغلی میں بنائی گئی اس ویڈیو میں خصوصی فورس کا ایک اہلکار ایک شہری کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے شہری کو گولی مارنے کے بعد وہ شخص اپنے گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلاجاتا ہے۔ اس واقع نے سیکڑوں نائیجیرین کو اپنے ساتھ پیش آنے والے برے واقعات بیان کرنے کی ہمت دلادی، جو ماضی میں بدنام خصوصی فورس کی وجہ سے ان کے ساتھ پیش آئے، ان واقعات میں ان کے قریبی عزیز اور ساتھیوں کا قتل، غیرقانونی گرفتاری سمیت بھتہ خوری جیسے جرائم شامل تھے اس واقعے سے شروع ہونے والا احتجاج پورے نا ئیجیریا میں پھیل گیا۔
نائیجیریا میں پولیس کی بربریت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ۲۰۰۴ء سے اب تک ماورائے عدالت قتل نے ایک ریکارڈ قائم کرلیا ہے، اس عرصے میں۳۰،۰۰۰ نائیجیرین اس خصوصی فورس کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے یہ وہ تعداد ہے جو کہ رپورٹ ہوگئی۔ایک بڑی تعداد جو کہ نامعلوم ہے وہ ان شہریوں کی ہے جو پولیس کے ہاتھوں غیرقانونی طور پر مار کر غائب کر دیے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی۲۰۰۹ء کی رپورٹ اور ہیومن رائٹس کی رپورٹ اس بات کی شاہد ہیں کہ نائیجیریا کے نوجوان پچھلے برسوں میں ’’سار س فورس‘‘ کے ہاتھوں بھتہ خوری اور تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پہلا ہیش ٹیگ ’’اینڈسارس‘‘ کے نام سے ۲۰۱۷ء میں ٹرینڈ پر تھا اس ہیش ٹیگ نے ملک بھر میں مقبولیت حاصل کی۔
نائیجیریا عوام کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پولیس کی بربریت اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اور اسی وجہ سے یہ سب متحد ہوکر احتجاج میں شریک ہیں۔مظاہرین نے مطالبات کی پہلی فہرست جاری کی ہے اس میں گرفتار لوگوں کی رہائی،پولیس کی تنخواہوں میں رشوت اور بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے اضافہ اورپولیس تشدد کی باضابطہ تحقیقات شامل ہیں۔نائیجیریا میں یہ پہلا موقع ہے جب حکومت اور عوام کے درمیان بات چیت کا ماحول بناہے، ایسی صورتحال میں مظاہروں کے ساتھ ساتھ مظاہرین اوران کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن اہم مطالبات وہی ہیں جو پہلی فہرست میں جاری کیے گئے ہیں۔
یہ تمام مظاہرے طاقتور نوجوان مظاہرین کی قیادت میں کیے جارہے ہیں، مظاہروں کا ایک سبب یونیورسٹی اسٹاف کی طرف سے کی گئی ہڑتال بھی ہے جس کا آغاز مارچ میں ہوا تھا۔ ریاست کے نوجوان شہری گھرو ں میں پھنس کے رہ گئے ان میں اکثریت اپنے اساتذہ اور لیکچرار سے متاثر تھے۔کووڈ ۱۹ کی وجہ سے نا ئیجیریا کے نوجوان ملک سے کہیں باہر سفر نہیں کرسکتے تھے اس لیے وہ ملک کے اندر موجود مظاہروں میں بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور مختلف طبقوں کے نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ آتے چلے گئے،ان نوجوانوں نے چھوٹے چھوٹے احتجاجی مظاہرے شروع کیے جن میں جنسی ہراسگی کے خلاف مارکیٹ مارچ، ابوجا ماحولیاتی تحفظ بورڈ کے ذریعے خواتین کو سڑکوں پر ہراساں کرنے کے خلاف مارچ اور اس سے پہلے ’’اینڈسارس‘‘ کے خلاف احتجاج شامل ہیں، اس کے بعد حکومت نے سارس کے خلاف ایکشن کی یقین دہانی کرائی تھی جو کہ حسب معمول پوری نہیں کی جاسکی۔ ۲۰۱۷ء سے ۲۰۱۹ء کی احتجاجی سرگرمیوں نے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح نائیجیرین نوجوان سوشل میڈیا کے جدیدطریقوں سے تیزی سے ہم آہنگ ہورہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دو بڑے حصے طاقتور مسلم شمالی علاقہ اور متنوع مذاہب پر مشتمل جنوب کے علاقوں کے مابین نسلی، مذہبی سیاسی شکوک و شبہات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
مظاہرین کے اعتدال پسند مطالبات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی کی تمام حکومتیں ملک میں اصلاحات کے لیے قومی سطح پر مذاکرات کرنے میں ناکام ہوگئیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام سے غربت اور کرپشن کو دور کرنے کے کیے گئے وعدے حکومتیں پورانہیں کرسکیں۔ ماضی کی کوششیں جیسے سروس اصلاحات اور عدلیہ کی اصلاحات سیاسی فائدے کے لیے کی گئیں، بڑے قومی مسائل کے حل کے لیے جو اصلاحات کی گئیں وہ بھی سیاسی فائدے اور طاقت کے لیے ہی کی گئیں، پولیس کی اصلاحات کی کہانی جو کئی برسوں سے سنائی جارہی ہے وہ بھی فقط ایک حسین خواب بن کر ر ہ گئی ہے، ان تمام بڑے قومی مسائل پر حکومتی نا اہلی نے عوام کے اعتمادکو مجروح کیاہے۔
ماضی میں حکومت کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے مظاہرین نے اپنے پیغامات بہت سادہ رکھے ہیں۔ ’’ہماری لڑکیاں واپس لاؤ‘‘ پیغام کو عام کرنے کی مہم ان ۲۷۶؍ اسکول کی لڑکیوں کے لیے ہے جنہیں بوکو حرام نے اغوا کیا، اسی طرح ’’اینڈ سارس‘‘ دوحرفی اورسادہ پیغام ہے سادہ اور دوٹوک پیغامات دراصل ایک اہم قدم ہیں جس کے ذریعے ساری توجہ نائیجیریا کے عوام کو قومی مسائل کے حل کے لیے اکٹھے کرنے پر دی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ’’ہماری لڑکیاں واپس کرو‘‘ پیغام میں احتجاج کے راہنما اوبے ازیکوسلی کی ساری توجہ اس آرمی پر ہے کہ کسی بھی طریقے سے اغوا کی گئی نائیجیرین لڑکیاں جلد از جلد گھروں کو واپس لائی جائیں۔ دونوں پیغامات کو اسی طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اگر کسی کو سیاسی معاملات کا علم نہ بھی ہو تو وہ بھی پیغامات کو واضح طور پر سمجھ سکے اس کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے نائیجیرین تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں تاکہ بین الاقوامی برادری کے معروف لوگ اور بڑے ممالک نائیجیریا کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
’’اینڈ سارس‘‘ پیغام بھی واضح پیغام تھاجو کہ ٹھیک وقت کے مطابق مسائل کی ترجمانی کررہا تھاجبکہ ’’ہماری لڑکیاں واپس لاؤ‘‘ پیغام مناسب وقت پر سامنے نہیں آیا اس لیے وہ اثر انداز نہیں ہوا، یہ پیغام ۲۰۱۴ء میں سامنے آیا جس وقت عام انتخابات قریب تھے اس پیغام میں اس وقت تفرقہ انگیزی کی گئی جو کہ ریاست کے شمال مشرقی حصے کے مسلم باغیوں کو شکست دینے کے لیے تھی لیکن ’’اینڈ سارس‘‘ پیغام کو نائیجیریا کی حکومت پھیلنے سے نہیں روک سکی، نہ ہی وہ اس کو سیاسی رنگ دے سکی۔جب حکومت نے اسے سیاسی رنگ دے کر ملک کو غیرمستحکم کرنے کا الزام لگایا تو وہ اس الزام کو ثابت کرنے میں بُری طرح ناکام رہی، حکومت پولیس کی بربریت کو کوئی جواز نہ دے سکی نہ ہی وہ عوام کے غضب سے پولیس کو بچا سکی اور اس لیے وہ اسے سیاسی رنگ نہ دے سکی۔
سادہ پیغامات اور مطالبات کا یہ سال نوجوانوں کے لیے امید کا سال ہے، نوجوانو ں کے مطابق ان کے مطالبات بنیادی ہیں جو حکومت کے لیے آسان ہے اور حکومت انہیں سنے گی۔ یہ امید اس بات کی علامت ہے کہ نوجوانوں نے ماضی کی تخریب کار نسل سے کچھ نہیں سیکھا۔ ۲۰؍اکتوبر سے حکومت نے احتجاج کو دبانا اور مظاہرین کو منتشرکرناشروع کردیا ہے، صدر بخاری کاکہنا ہے کہ حکومت تخریب کاروں کو کھلی چھوٹ نہیں دے گی، قومی کونسل نے اب مزید احتجاج کی اجازت دینے سے بھی منع کر دیاہے۔نائیجیریا کے عوام برطانیہ کی طرف سے لگائی جانے والی ممکنہ پابندیوں پر بات کررہی ہے جو کہ نہتے عوام پر تشدد کے خلاف لگائی جارہی ہیں ساتھ میں یہ مطالبہ بھی کیا جارہا ہے کہ بین الاقوامی برادری نائیجیریا کی فوج پر رپورٹ بنائے اور عدلیہ کا پینل ملک میں ہونے والے خوفناک واقعات کے صحیح اعداد و شمار جمع کرے اور احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد کی چھان بین کرے۔یہ ابھی واضح نہیں کہ مزیداحتجاج اگلے مہینے جاری رہ سکیں گے یا نہیں لیکن یہ واضح ہے کہ نائیجیریا کی حکومت ان سادہ پیغامات اور مطالبات کے خلاف بھی مزاحمت کرتی رہے گی۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Nigeria police protests: How the youth mobilised across a divided country”.(“ecfr.eu”. December 9, 2020)
Leave a Reply