کورونا وائرس نے جو صورتِ حال پیدا کی ہے، اُس کے باعث دنیا بھر میں لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ رہے ہیں۔ بین الریاستی سفر کا دائرہ سکڑتا جارہا ہے۔ ایسے میں لوگ عالمگیریت کے بارے میں بہت کچھ سوچ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اب عالمگیریت کے لیے نئی آزمائش شروع ہوئی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سو سال پہلے تک کا زمانہ لَوٹ آئے، جب لوگ اپنی اپنی ریاست تک محدود رہا کرتے تھے۔ ایک زمانے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ جس قدر بھی اقتصادیات ہے وہ عالمی ہے اور جتنی بھی سیاست ہے، وہ خالص مقامی نوعیت کی ہے۔ حکومتیں منتخب ہوں یا آمریت پر مبنی، کسی بھی عالمی نوعیت کے چیلنج سے اُسی وقت نمٹ سکتی ہیں، جب وہ مقامی سطح پر رہتے ہوئے سوچیں اور سرحدوں سے باہر نکل کر کسی کو للکارنے پر متوجہ نہ ہوں۔ جو حکومتیں بالعموم آزاد منڈی کی معیشت کے اصولوں کو کھل کر گلے لگاتی ہیں اور اِن کا پرچار بھی کرتی ہیں وہ بھی مقامی سیاست کے دباؤ کو کسی نہ کسی حد تک قبول کرتی ہیں اور اُس کے مطابق اقدامات بھی کرتی ہیں۔
۰۹۔۲۰۰۸ء میں رونما ہونے والی مالیاتی خرابیوں نے حکومتوں کو متوجہ کرتے ہوئے موزوں اقدامات پر مجبور کیا تھا۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے۔ کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ نے دنیا بھر میں حکومتوں کو شدید تفکرات سے دوچار کیا ہے۔ ہر ملک اپنے معاملات کا جائزہ لے رہا ہے۔ کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال نے نقل و حمل اور نقل و حرکت دونوں پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ۰۹۔۲۰۰۸ء کے مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے G-20 نے غیر معمولی اجلاس طلب کرکے معاملات کا جائزہ لیا تھا تاکہ عالمی معیشت کو کسی بڑی گراوٹ سے محفوظ رکھنے میں مدد ملے۔ اس بار بھی کچھ ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے G-20 کا خصوصی اجلاس ویڈیو لنک پر طلب کرنے کی استدعا کی ہے تاکہ عالمی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا گراف نیچے لانے میں مدد مل سکے۔ یہ اجلاس اس لیے لازم ہے کہ اس وقت کوئی بھی ملک کورونا وائرس کے ہاتھوں رونما ہونے والی صورتِ حال کے شدید منفی اثرات سے محفوظ نہیں۔ بھارت میں بہت سوں کی یہ سوچ ہے کہ عالمگیریت نے دم توڑ دیا ہے اور اب ہمیں صرف اپنی ذات کی حد تک محدود رہنا ہے یعنی یہ وقت شدید نوعیت کی قوم پرستی کے دائرے میں گھومنے کا ہے۔
اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کوئی کسی کو ہاتھ نہ لگائے۔ الگ الگ رہنے کا چلن عارضی طور پر عام ہے۔ تاریخی اعتبار سے جائزہ لیجیے تو ہر دور میں انتہائی دائیں بازو کی حکومتوں نے چاہا ہے کہ ہر ملک کے لوگ اپنے ملک کی حدود میں رہیں۔ یہ حکومتیں عوامی سطح پر رابطوں کی مخالف رہی ہیں۔ یہ مخالفت اس خوف کے بطن سے پیدا ہوئی کہ اگر لوگوں نے آپس میں ملنا جلنا شروع کردیا اور ایک دوسرے کو قبول بھی کرتے گئے تو پھر ایک نئی دنیا معرضِ وجود میں آئے گی، جس میں حکومتی نظام کی تبدیلی بھی ناگزیر سمجھی جائے گی۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سی حکومتوں نے پہلی فرصت میں سرحدیں بند کردیں تاکہ کوئی آئے نہ کوئی جائے۔ اس سے کچھ لوگ یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اب عالمگیریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی یعنی پچاس ساٹھ سال پہلے کی طرح لوگ اپنے اپنے ممالک تک محدود رہیں گے۔ یہ سوچ غلط ہے۔ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بعض اقدامات ناگزیر ہیں۔ اِن میں سرحدوں کو بند کرنا بھی شامل ہے۔ مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا میں پہلے بھی وبائیں آتی رہی ہیں، سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں، مگر جب وبائی دور ختم ہو جاتا ہے تب سب کچھ پھر معمول پر آنے لگتا ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو لاکھوں لوگ لقمۂ اجل ہوگئے۔ تب لوگ یورپ کا رخ کرتے ہوئے ڈرتے تھے، مگر پھر جب حالات معمول پر آئے تو دنیا بھر سے لوگوں نے ایک بار پھر یورپ کا رخ کرنا قبول کیا۔ دنیا بھر میں لوگ نئے علاقوں کو دیکھنے کے تمنائی رہے ہیں۔ انسان کی سرشت میں ہے کہ نئے علاقوں میں جائے، نئے لوگوں سے ملے اور اُنہیں اپنے بارے میں بتائے۔ یہی زندگی کی سب سے بڑی خوب صورتی ہے۔ سرحدوں کو بند کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا بیسویں صدی کا خاصہ ہے۔
بھارتی ریاست کیرالا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کیرالا میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض سامنے آئے ہیں اور اس حوالے سے سب سے اچھا ریسپانس بھی کیرالا ہی نے دیا ہے۔ کیرالا کا شمار بھارت کی اُن ریاستوں میں ہوتا ہے، جو بہت بڑے پیمانے پر افرادی قوت برآمد کرتی ہیں اور سیاحت کے حوالے سے بھی خوب فعال ہیں۔ کیرالا ہریالی والا صوبہ ہے جہاں پہنچ کر لوگ خاصی راحت محسوس کرتے ہیں۔ کیا کیرالا کی حکومت اپنے دروازے دوسروں پر بند کرسکتی ہے؟ کیا کیرالا کی سیاحت کی صنعت کو داؤ پر لگایا جاسکتا ہے؟ کیرالا میں سیاسی شعور غیر معمولی ہے۔ وہاں بالعموم خاصی باشعور حکومت رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جیسے ہی کورونا وائرس کی وبا ظاہر ہوئی، کیرالا کی حکومت نے غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو کنٹرول کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ کیرالا کی حکومت کو اندازہ تھا کہ بیرونی دنیا سے اس کا معاشی تعلق کس قدر اہم ہے۔ یہی سبب ہے کہ اُس نے کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات میں دیر نہیں لگائی۔ کیرالا کے لاکھوں ہنر مند و غیر ہنرمند افراد خلیجی ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال اربوں ڈالر کی ترسیلاتِ زر وطن بھیجتے ہیں۔ کیرالا ہر سال ہزاروں تربیت یافتہ نرسوں کی شکل میں اندرون و بیرون ملک طبی شعبے کو ہنر مند افرادی قوت بھی فراہم کرتا ہے۔
سوال صرف کیرالا کا نہیں۔ بھارت میں کورنا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں کیرالا کے علاوہ مہا راشٹر، تلنگانا اور ہریانہ بھی شامل ہیں۔ ان تینوں ریاستوں سے بھی لاکھوں افراد بیرونِ ملک کام کر رہے ہیں۔ بھارت میں جو لوگ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کی بنیاد پر گھر میں بند رہنے یعنی باقی دنیا سے زیادہ تعلق نہ رکھنے کو ترجیح دینے کی وکالت کر رہے ہیں، اُنہوں نے یہ بنیادی حقیقت نظر انداز کردی ہے کہ بھارت کے لاکھوں ہنر مند بیرون ملک مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فنی تربیت یافتہ افراد خلیجی ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔ اٹلی اور کینیڈا کے زرعی شعبے سے بھی لاکھوں بھارتی جُڑے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں مغربی دنیا میں لاکھوں ہنر مند معیشت کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔ ان میں امریکا میں کام کرنے والے نمایاں ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سرکردہ حامی نے حال ہی میں ٹوئیٹ کے ذریعے ریجنل کمپری ہینسو اکنامک پارٹنر شپ سے الگ رہنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے فیصلے کو سراہا ہے، کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں چین سے اشتراکِ عمل بڑھتا جو کورونا وائرس کے حوالے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ اس بیان میں سادگی کی انتہا دکھائی دیتی ہے۔ موصوف کو شاید یہ بات معلوم نہیں اس فورم سے بھارت کے الگ رہنے کی بنیاد یہ حقیقت تھی کہ بھارت کی افرادی قوت کی برآمد پر بہت سے ممالک کو اعتراض تھا۔ چین سمیت کئی ممالک نہیں چاہتے تھے کہ بھارت افرادی قوت مزید برآمد کرے۔ وہ اپنے ہاں مزید بھارتیوں کو دیکھنے کے خواہش مند نہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ بھارت کو اس فورم سے الگ ہونا پڑا۔ تین عشروں کے دوران بھارت نے افرادی قوت کی برآمد پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ مالِ تجارت اور سرمائے کی طرح اب غیر مقیم بھارتیوں کو بھی اثاثوں کا درجہ حاصل ہے۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں بھارت ایسا ماحول نہیں چاہے گا جس میں اُس کی افرادی قوت کو پھیلنے کا موقع نہ ملے اور وہ مزید سکڑ جائے۔ ایسی حالت میں بھارت عالمی معیشت سے کماحقہ مستفید نہیں ہوسکے گا۔
باقی دنیا کی طرح بھارت کو بھی کورونا وائرس کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصان سے نمٹنے میں وقت لگے گا۔ اس وقت غیر مقیم بھارتیوں کی بھی ترجیح یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور وطن واپس آکر اہل خانہ کے ساتھ کچھ وقت گزاریں۔ جب مالیاتی بحران واقع ہوتا ہے تب سرمائے کو تحفظ فراہم کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس وقت بھی یہی کیفیت ہے۔ بیرون ملک مقیم بھارتی رضا کارانہ طور پر واپس آئے ہیں۔ وہ چونکہ قدرے خوشحال ہیں اس لیے اُسی وقت ملک سے پھر باہر جائیں گے جب سب کچھ درست ہوچکا ہوگا۔ دوسری طرف لاکھوں بھارتی باشندے ایسے بھی ہیں جو اندرونی ملک اپنے اپنے علاقوں میں واپس جانے پر مجبور ہیں۔ اُن کی اپنے گھروں سے کام کے مقامات پر واپسی اُس وقت ہوگی جب اُن کی جیب خالی ہو جائے گی۔ اور تب جاب مارکیٹ مزید سکڑے گی اور اجرتوں کی سطح بھی گرے گی۔
اب تک تو یہ ہوتا آیا ہے کہ بھارت کے مالدار خاندان یورپ میں شاندار مکانات اور فارم ہاؤس وغیرہ خریدنے میں دلچسپی لیتے رہے ہیں مگر اب، کورونا وائرس کے ہاتھوں پیدا ہونے والی صورتِ حال کے باعث، اِن میں سے بہت سوں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ وطن میں آباد ہونے کا سوچنا شروع کردیا ہے۔ عام حالات میں بھارت کے انتہائی مالدار لوگ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں مگر جب انہیں وہاں اپنی مرضی کے مطابق حالات نہیں ملتے اور قطار بند ہونا پڑتا ہے تب وہ وطن واپس آکر علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
معاملات جیسے ہی بحال ہوں گے یعنی معمول پر آئیں گے، ’’گلوبلائزڈ‘‘ بھارتی پھر بیرون ملک جانے کے لیے پر تولیں گے۔ عالمگیریت کے خاتمے کے آثار دور دور دکھائی نہیں دیتے۔
(ترجمہ محمد ابراہیم خان)
“No, Coronavirus crisis is no turning point for globalisation”. (“indianexpress.com”. March 25, 2020)
Leave a Reply