
امام شعبہ بن حجاجؒ اپنے گھوڑے پر سوار جارہے تھے کہ ایک گستاخ‘ آوارہ اور اوباش نوجوان‘ عبداللہ نے انہیں رکنے کااشارہ کیا… امام صاحب جان گئے کہ ناگہانی سر آگئی ہے!
امام شعبہ بن حجاج ؒ (متوفی ۱۶۰ ہجری) فنِ حدیث اور اُس کے ناقدین میں ایک بلند مقام رکھنے والی شخصیت‘ امیر المومنین فی الحدیث کے نامِ نامی سے جانے جاتے تھے۔ انہیں کون نہیں جانتا تھا! عبداللہ کو اُن کے مرتبے کا اچھی طرح احساس تھا مگر اُسے آج ذرا تفریح کی سوجھی تھی!
شعبہ مجھے ایک حدیث تو سنائو: امام شعبہؒ نے پوری متانت سے جواب دیا‘ سماعتِ حدیث کا یہ طریقہ ہرگز نہیں! یہ سُن کر آپے سے باہر ہوتے ہوئے عبداللہ نے کہا ’تم مجھے حدیث سناتے ہو یا پھر …‘
امام شعبہؒ نے جب یہ محسوس کیا کہ یہ جوان اس انداز سے اسی جگہ حدیث سنے بغیر جان نہیں چھوڑتا تو آپ نے اصلاح کے لیے ایک حکیمانہ انداز اختیار کیا اور فرمایا‘ اچھا چلو ٹھیک ہے‘ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔ پھر آپ نے ان تمام افراد (راویوں) کے اُسی تربیت سے نام لیے جس تربیت سے ہوتے ہوئے اِن حضراتِ گرامی کے واسطے سے یہ حدیث آپ تک پہنچی تھی اور پھر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اگر حیا کو کھو دو تو جو چاہو سو کرو‘ یہ سننا تھا کہ عبداللہ کے اندر چھپی اعلیٰ وارفع شخصیت (جو اپنے مرتبے سے گرچکی تھی) انگڑائی لے کر بیدار ہوئی اور سلامتی طبع کی فطری جانب لوٹ آئی! عبداللہ ٹھٹک کر رہ گیا اُس نے گویا کہ محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو امام شعبہؒ سے تفریح لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے اور اُس سے فرمارہے ہیں ’’عبداللہ! اگر تجھ سے شرم و حیا جاتی رہے تو پھر جا‘ جو چاہے کرتا رہ…!‘‘
’’یقینا میری نیت شرارت کی تھی‘ میں شرم سار ہوں !‘‘ عبداللہ نے ندامت سے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا‘ امام شعبہؒ آپ ہاتھ بڑھائیں کہ میں آپ کے ہاتھ پر عہدِ توبہ استوار کروں!‘‘
اس حدیث نے عبداللہ کی زندگی کا رُخ موڑ دیا۔ عبداللہ جو کبھی گلیوں میں پھرنے والے آوارہ اور اوباش نوجوان شمار ہوتے تھے‘ امام شعبہؒ کے شاگرد بن گئے او رپھر تحصیلِ علم کی منازل طے کرتے ہوئے امت محمدؐ کے مایہ ناز علمائے حدیث میں سے ایک شمار ہوئے۔ صدیوں کی گرد اُن کی تابانی کو نہیں چھپا سکی اور آج بھی اہلِ علم کے درمیان وہ عبداللہ بن مسلمہ القعنبیؒ (متوفی ۲۲۱ ہجری) کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ احادیث کی چھ مشہور معتبر ترین کتب (صحاحِ ستّہ) خصوصاً ابودائود کے راویانِ حدیث کے سلسلوں (اسناد) میں آپ کا نام جابجا نظر آتا ہے‘ امام ابو دائودؒ نے تو عبداللہ بن مسلم القعنبیؒ سے روایتِ حدیث کی ہے۔
حیا کیا ہے؟ عام طو رپر (امریکی و یورپی معاشرے میں) اس کا مفہوم “Modesty” (آہستہ یا میانہ روی/ بڑھکیں نہ ہانکنا) سے ادا کیا جاتا ہے یا پھر ا س کا ترجمہ ’’شرم‘‘ کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی تراجم ’’حیا‘‘ کے اسلامی مفہوم کو اد اکرنے سے قاصر ہیں۔ بلاشبہ “Modesty” ناشائستہ رویے سے رک جانے کا عندیہ دیتی ہے مگر اس میں (غیر ضروری) جھجک کا تاثر بھی ملتا ہے جو بزدلی اور کم ہمتی بھی کہی جاسکتی ہے۔ چنانچہ “Modesty” کے بالضد جو اسمِ صفت ہے وہ “Immodest” ہے جو بس اوقات عالی ہمتی کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ جھجھک “Inhibition” کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ ذہنِ انسانی میں واقع ہونے والا یہ وہ شعوری یا لاشعوری عمل ہے جس کے ذریعے خواہشات دبی رہتی ہیں۔ یہ بہت ہی شفاف “Neutral” تعریف ہے جس میں صحیح اور غلط کا کوئی حوالہ نہیں ہے‘ چنانچہ آپ دیکھیں کہ ماہرین نفسیات اپنے مریضوں کو اس جھجک(حیا؟) پر قابو پانے کی تدابیر سکھاتے ہیں۔ مختلف معاشروں میں مختلف اقدار کے حوالے سے شرم و جھجک کے معانی کے برخلاف اسلام میں ’’حیا‘‘ کی اصطلاح ایک انتہائی پسندیدہ خصلت کی جانب رہنمائی کرتی ہے جو ہمیں گناہوں سے روکتی ہے۔ یہ تکلیف و درد کا وہ فطری احساس ہے جو ذہن میں ارادہِ گناہ کی اولین لہر کے آتے ہی جاگ اٹھتا ہے!
ایک مسلمان کے ذہن میں اس منفرد اصطلاح کے ساتھ اس سے ملحقہ اسلام کے عطا کردہ پاکیزہ تصورات بھی جاگ اٹھتے ہیں۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ ہر دین (یا مذہب) کا ایک مخصوص شعار “Symbol” ہوتا ہے اور اسلام کا شعار ’’حیا‘‘ ہے۔ (ابن ماجہ)
دوسری مشہور حدیث میں ہے کے ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں‘ جن میں سب سے پہلی اعلانِ توحید ہے‘ یعنی اس کا اقرار‘ اعلان کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں‘ اور کم ترین یہ کہ انسان راستے میں سے کوئی ضرر رِساں چیز (کانٹا‘ پتھر‘ رکاوٹ وغیرہ) ہٹادے… اور حیات بھی ایمان کی شاخ ہے (متفق علیہ) جیسا کہ محدِثین نے وضاحت فرمائی کہ ستّر کا لفظ (ایمان کی بابرکت شاخوں کی) کثرتِ تعداد کی جانب محاورتی انداز میں اشارہ ہے۔ دراصل حدیث یہ بیان کرتی ہے کہ بلاشبہ ایمان میں اقرار توحید سب سے پہلے اہم اور بنیادی بات ہے مگر یہ کُل ایمان نہیں‘ ایمان کے تو متعدد مظاہر ہیں جنہیں ساری زندگی کے چھوٹے ترین کاموں میں نظر آنا چاہیے اور ’’حیا‘‘ تو کونے کا وہ پتھر ہے جس پر اعمال کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔اسلامی اقدار کا یہ وہ بنیادی ستون ہے کہ اس کے ڈھے جانے سے عمارتِ اسلام منہدم ہوجاتی ہے۔
اللہ کے نبیؐ کے سکھلائے (تعلیمِ حکمتہ) ہوئے یہ وہ پاکیزہ تصورات تھے جن کی برکت سے اسلام کا وہ بے مثال ہمہ جہتی تہذیبی انقلاب ممکن اور برپا ہوا جس نے تہذیبِ جاہلیہ کی بنیادیں ہلادیں۔ اسلام سے قبل جاہلی معاشرے میں یہ لفظ (حیا) بہت عام تھا مگر اس کے وہ معانی نہ جانے جاتے تھے جو اسلام نے اس کو عطا کیے۔ برہنگی‘ حیا کے بالکل برخلاف ایک طرزِ عمل‘ نہ صرف عرب معاشرے میں بہت عام تھا بلکہ طواف جیسی خالص مذہبی عبادت کا ایک مطلوبہ وصف بن گیا تھا! جاہلی نظام کا شعار برائیوں کا ایک طوفان (زنا اور اس کے متعلقات‘ تہذیب کا فساد) تھا جو اس تخمِ خبیث (برہنگی) سے پھوٹتا تھا…اسلام نے سب کا قلع قمع کردیا اور ایک نئے معاشرے کی اس طرح تعمیر کی کہ ’’حیا‘‘ اس کی سب سے زیادہ دل لبھانے والی ادا بن گئی۔ اسلام کا دورِ عظمت جو خلافتِ راشدہ کی شکل میں مینارہ نور کی حیثیت سے تاریخ کے پردے پر جلوہ گر ہوا… وہ دن ہے او رآج کا دن کہ ساری روئے زمین پر مسلمان جمعے کے ہر خطبہ میں جب پلکیں جھکا کر لرزتی زبانوں سے اپنی محبوب قابلِ تقلید شخصیات (رول ماڈلز‘ آئیڈلز) کا تذکرہ کرتے ہیں تو خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’کامل الحیاء والا ایمان…‘‘ ایک برگزیدہ ہستی‘ جس نے حیا میں کاملیت اختیار کی… جو ایمان میں کامل تھی!
کیا دنیا میں کوئی مذہب‘ کوئی دین‘ کوئی نظامِ زندگی ہے جس نے حیا کو یہ درجہ عطا کیا ہو؟ خواتین کے لیے پردے کے احکامات‘ مرد و زن کی مخلوط محافل پر پابندی‘ جنسی تعلقات کے آداب یہ وہ تمام امور ہیں جو اسلام کے ’’حیا‘‘ کے بارے میں انتہائی احساس کو اجاگرکرتے ہیں۔
اُن مردوں اور عورتوں کی جن سے تہذیب جاہلیہ (جدید ہو یا قدیم) نے حیا نہ چھینی ہو نیکیوں کی طرف رغبت ایک فطری بات ہے۔ پاکیزہ نفوس (کہ جدید جاہلی تہذیب کے مارے حیا باختہ نفوس نصیحت اٹھانے کی صلاحیت کھودیتے ہیں) کے دلوں کو رقیق کرنے والا ایک واقعہ سنیے۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں ایک خاتون اپنے بیٹے کی میدان جنگ میں کھو جانے (یا مارے جانے) کی اطلاع پاکر بدحواسی کے عالم میں اُسے تلاش کرنے یا صحیح خبر جاننے کے لیے اٹھی‘ مگر باہر نکلنے سے پہلے اسلامی آداب کے مطابق اس نے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانپا۔ بعد میں جب اس سے پوچھا گیا کہ اس جان کو لاگو صدمے کی اطلاع پاکر اُسے یہ سب کچھ کرنا کیوں کر یاد رہا؟ اس نے جواب دیا ’’میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے… حیا تو نہیں گنوائی!‘‘
اور پھر صدہا صد سال بیت گئے‘ ساری دنیا میں اسلامی معاشروں نے ہر جگہ اس ’’حیا‘‘ کو اپنے دانتوں سے پکڑے رکھا اور سب کچھ گنوا کر بھی اس کو نہ گنوایا۔ ہاں مگر‘ آج سے تین سو سال قبل یورپ کے پاس اچھی تہذیب تو نہ تھی مگر اچھی بندوقیں اور شاطرانہ چالیں ضرور تھیں اور اُس کا طرزِ زندگی قبل از اسلام جاہلیہ سے بہت زیادہ مختلف نہ تھا۔ اسلامی دنیا یورپ کے سیاسی اور تہذیبی غلبے (Colonialism) کے آگے گری‘ تو ’’حیا‘‘ کے ادارے پر مسلمانوں کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور اُس کو سخت نقصان پہنچا۔ حیا کے خلاف ابلیس کے کارندوں کی اس جنگ میں جدید ذرائع ابلاغ و نشر و اشاعت نے بہت اہم کردار انجام دیا۔ لھو الحدیث (بدکاری پر مائل کرنے والے گندے افسانے‘ مضامین‘ تصاویر) کی ویڈیو اور فلموں کے ذریعے بڑے پیمانے پر اشاعت نے بے حیائی کو مسلم معاشروں میں مرغوب بنانے کی وہ آتش بھڑکائی کہ الامان و الحفیظ ! رہی سہی کسر ٹی وی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گندے خیالات اور تصاویر کو زندہ تہذیب کی شکل میں عام کرنے میں پوری کردی۔
بے حیائی ہوا او رپانی کی طرح عام ہوجانے سے شاید یہ بات عجیب لگتی ہو‘ مگر جب آخرکار مسلمان پلٹ آئیں گے اور وہ ضرور پلٹ آئیں گے! بدکاری اپنی انتہا کو پہنچ کر جب انسانی معاشرت سے مرد و زن کے درمیان اللہ رب العالمین کا عطا کردہ سارا لطف و کرم چھین لے گی اور انسان جب بدی سے اکتا جائے گا‘ تو وہ اسلام کی شکل میں راہِ گم گشتہ کو بازیافت کرہی لے گا اور پھر جب مورّخِ اسلامی معاشروں میں اخلاقی گراوٹ کا تذکرہ کرے گا تو ٹی وی کے ادارے کو بے حیائی کے پھیلانے میں سرفہرست گنے گا۔
اللہ کی مار ہو بے حیائی کے اس ادارے پر اس کے توسط سے جو اخلاقی انحطاط آیا‘ اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ آج سے دس سال قبل جن باتوں کے کھلے بندوں یا گھروں کے اندر تذکرے کا تصور بھی ہم نہیں کرسکتے تھے وہ آج روز کا معمول بن گئی ہیں! ایسا لگتا ہے کہ ڈو رکا سرا اب ہاتھ سے سے نکلا جاتا ہے۔ کیا یہ بات دل دہلادینے والی نہیں کہ فیملی پلاننگ کے وہ اشتہارات جو شرافت و اخلاقی اقدار کے تحفظ کی خاطر انگلینڈ اور امریکا میں ٹی وی پر نہ دکھائے جاسکتے ہوں آج پاکستانی ٹی وی پر آزادانہ دکھائے جارہے ہیں!
(بشکریہ: ماہنامہ ’’عِفّت‘‘ راولپنڈی۔ شمارہ: نومبر۲۰۰۶ء)
Leave a Reply