
بنگلہ دیش کے قیام کو ۴۳ سال ہونے کو آئے ہیں مگر اب تک بنگلہ دیشی سرزمین پر بہاری در بدری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کسی کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ حال ہی میں میر پور کے کیمپ میں ۹ بہاریوں کو جلا دیا گیا اور ایک کو گولی مار دی گئی۔ ان ہلاکتوں نے بہاریوں کے مسئلے کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔
ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بہاریوں کے مسئلے کو پاکستان سے دو طرفہ بنیاد پر اٹھانے کے بجائے بین الاقوامی اداروں مثلاً اسلامی کانفرنس کی تنظیم (او آئی سی) میں اٹھائے۔ جب تک پاکستان بہاریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تب تک اس مسئلے کو عمدگی سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امینہ اختر محسن کہتی ہیں: ’’پاکستانی حکومت بہاریوں کو قبول نہیں کرے گی کیونکہ وہ طالبان سمیت کئی مسائل میں الجھی ہوئی ہے‘‘۔ ان کی رائے یہ ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت اگر بہاریوں کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو اِسے اسلامی کانفرنس کی تنظیم یا کسی اور عالمی فورم پر اٹھائے۔
بنگلہ دیش ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹیو علینا خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان بہاریوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو تو بنگلہ دیشی حکومت ہر اس بہاری کو باضابطہ شہریت دے جو بنگلہ دیش کو ایک آزاد و خود مختار ریاست کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار ہو۔ ساتھ ہی ساتھ بنگلہ دیشی حکومت کو یہ بات بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اگر بہاری شہریت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اُنہیں پناہ گزین کی حیثیت سے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت دیے جانے والے تمام حقوق میسر ہوں۔
بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا اور دیگر شہروں میں بہاری اب بھی انتہائی غیر انسانی ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے حالات محض اس لیے خراب ہیں کہ حکومت ان پر توجہ دیتی ہے نہ غیر سرکاری (امدادی) تنظیمیں۔
بنگلہ دیش میں بہاری ۱۹۴۷ء میں آئے۔ ان میں بہت سے اتر پردیش سے آئے مگر انہیں بہاری ہی کہا جاتا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں جب عوامی لیگ کے جھنڈے تلے بنگالیوں نے بغاوت کی اور بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک شروع کی تو بہاری اور دیگر غیر بنگالیوں نے باغیوں کے خلاف پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے وقت کم و بیش ساڑھے سات لاکھ بہاری بنگلہ دیشی سرزمین پر آباد تھے۔ ان میں سے دو لاکھ ۷۸ ہزار صرف ڈھاکا میں تھے۔ سعید پور اور دیگر شہروں اور قصبوں میں قائم کیمپوں میں بھی بہاری آباد تھے۔ مفاہمت اور مصالحت کے عمل کے تحت بہاریوں کو بنگالی زبان سکھانے کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ وہ عام بنگالیوں کے لیے قابل قبول ہوسکیں۔ مگر اس کوشش میں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ بہاریوں کو خدشہ تھا کہ اُن پر مزید مظالم ڈھائے جائیں گے۔ چند ایک نفسیاتی مسائل تھے جنہیں حل کرنا اور بہاریوں میں بنگالیوں کے لیے بھرپور اعتماد پیدا کرنا ممکن نہ ہوسکا۔ بنگلہ دیش میں موجود بہاریوں کی اکثریت نے اس خواہش کا بارہا اظہار کیا ہے کہ انہیں پاکستان منتقل کردیا جائے۔ پاکستان نے ابتدا میں ۸۳ ہزار بہاریوں کو لینا قبول کیا۔ بعد میں یہ تعداد بڑھادی گئی۔ ۱۹۷۴ء تک ایک لاکھ آٹھ ہزار بہاریوں کو پاکستان منتقل کیا گیا۔ ۱۹۸۱ء تک مزید ایک لاکھ ۶۳ ہزار بہاری پاکستان منتقل کیے گئے۔
۲۰۰۳ء میں ایک بنگلہ دیشی ہائی کورٹ نے ۱۰ بہاریوں کو شہریت اور ووٹ دینے کے حق کا اہل قرار دیا۔ ۲۰۰۸ء میں ڈھاکا ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اُن ڈیڑھ لاکھ بہاریوں کو بنگلہ دیش کی شہریت دی جانی چاہیے جو بنگلہ دیش کے قیام کے وقت بچے تھے۔ اسی طور بہاریوں کے ہاں جو بچے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پیدا ہوئے انہیں بھی بنگلہ دیش کی شہریت دی جانی چاہیے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے والے بہاریوں کی تعداد تین لاکھ تک ہے۔
میر پور میں کالشی کیمپ کا دورہ کرکے اِس نمائندے نے حالات کا جائزہ لیا۔ ناظمہ بیگم درمیانی عمر کی مطلقہ ہیں۔ انہوں نے اپنے چار بچوں کے ساتھ مدرسہ دارالسلام، سیکٹر ون، کرمیٹولا بہاری کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ اپنے والد کے گھر میں رہتی تھیں مگر جب ہنگامے ہوئے تو ان کے والد کے گھر کو لوٹ کر جلا دیا گیا جس کے بعد ان کے لیے اس مدرسے میں پناہ لینے کے سوا چارہ نہ رہا۔
منی بیگم بیوہ ہیں۔ حالیہ ہنگاموں میں وہ زخمی بھی ہوئیں اور ان کے گھر کو آگ لگادی گئی۔ انہوں نے بتایا ’’شوہر کے انتقال کے بعد میں ایک چھوٹے سے مکان میں گھر کے دیگر افراد کے ساتھ آباد تھی مگر ظالموں نے میرے سر سے یہ ذرا سی چھت بھی چھین لی‘‘۔
محمد سلیم عرف بابو ہینڈ لوم ورکر ہے۔ اس کے والدین ۱۹۷۱ء کے لرزہ خیز فسادات میں مارے گئے تھے۔ سلیم اپنے بیٹوں محمد کلیم اور محمد حلیم کے ساتھ دو کمروں کے چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ دونوں بیٹے قریبی گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ کیمپ میں اپنی انتہائی قابل رحم زندگی انہوں نے ان الفاظ میں بیان کی ’’میں اپنی بیوی، بیٹی لولی اور چھوٹے بیٹے محمد نعیم کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا ہوں۔ دوسرے کمرے میں میرا بیٹا کلیم اپنی بیوی رخسانہ اور بیٹی سمیہ کے ساتھ رہتا ہے۔ جب میری بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ کبھی کچھ دن رہنے آتی ہے تو بہت مشکل پیش آتی ہے۔ ہم سب کو ایک ہی کمرے میں سونا پڑتا ہے‘‘۔
جب اس نمائندے نے کرمی ٹولہ بہاری کیمپ کے سیکٹر ٹو کے بلاک ایل ون کا دورہ کیا تو اس کی ملاقات نذر الاسلام سے ہوئی جو رات کو کیمپ کے چوکیدار کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ اُس کے تینوں بیٹے ندیم، خورشید اور الماس باپ کے ساتھ بستر پر کھانا کھا رہے تھے کیونکہ بیٹھنے کی اور کوئی جگہ ہی نہ تھی۔ کمرے میں بالکل جگہ نہ ہونے کے باعث نذر الاسلام کی دونوں بیٹیوں شبانہ اور رانی کو باہر بیٹھنا پڑا تھا۔ نذر الاسلام نے بتایا کہ گھر میں جگہ نہ ہونے کے باعث وہ اپنی بیٹیوں کی شادی جلد از جلد کرنا چاہتا ہے۔
ڈھاکا کے علاقے میر پور میں واقع دیگر بہاری کیمپوں کی بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے۔ بیشتر افراد انتہائی بُرے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سیکٹر ون کے مکینوں کے لیے ۱۵، سیکٹر ٹو کے لیے ۸؍ اور سیکٹر تھری کے لیے صرف ۱۰ ٹوائلیٹ ہیں۔
حالیہ فسادات میں محمد شوکت اپنی بیوی اور بیٹے کو کھو بیٹھے۔ وہ کہتے ہیں: ’’میں بنگلہ دیش میں پیدا ہوا تھا۔ پاکستان میں میرے کئی رشتہ دار ہیں مگر میں وہاں نہیں جانا چاہتا۔ حکومت نے ہمیں صرف شہریت دی ہے۔ ہمیں کم از کم قابل قبول معیار زندگی فراہم کرنے میں وہ یکسر ناکام رہی ہے۔ میرے سُسر محمد یاسین نے مختلف ذرائع سے پانچ لاکھ ٹاکا حاصل کیے اور اُس میں سے ۸۴ ہزار ٹاکا مجھے دیے‘‘۔
اسٹرینٹڈ پاکستانیز جنرل ریپیٹریئیشن کمیٹی (میر پور یونٹ) کے جوائنٹ سیکرٹری محمد منا حسین کہتے ہیں: ’’۱۹۹۱ء کے بعد سے ہمیں سرکاری ذرائع سے کسی بھی طرح کی کوئی امداد نہیں ملی۔ ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۶ء بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی حکومت تھی جس نے تمام بہاریوں کی آباد کاری کا یقین دلایا تھا مگر اس یقین دہانی پر بھی عمل نہیں کیا گیا۔‘‘ محمد منا حسین نے بتایا کہ میر پور میں چھ بہاری کیمپ ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: کرمی ٹولہ بہاری کیمپ، ایسٹ کرمی ٹولہ بہاری کیمپ، نیو کرمی ٹولہ بہاری کیمپ، کالا پانی اسکول بہاری کیمپ، ڈی بلاک میڈیکل بہاری کیمپ اور کھورا پاڑہ بہاری کیمپ۔ ان کیمپوں میں ۴۹۴۷ سے زائد خاندان سکونت پذیر ہیں۔
محمد منا حسین کہتے ہیں: ’’ہم بیماریوں کے گڑھ میں بسے ہوئے ہیں۔ بہاری کمیونٹی کے لیے اسپتال تو کیا، میڈیکل سینٹر بھی نہیں۔ حکومت نے تعلیمی اداروں کے قیام پر بھی توجہ نہیں دی۔ ہم نے اپنی مدد آپ کے اصول کی بنیاد پر مدرسہ قائم کیا ہے، جس میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ بچوں کو بنگالی اور انگریزی پڑھنا اور لکھنا بھی سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ ماحول سے مطابقت پیدا کرکے بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں‘‘۔
“No headway in 43 years”.
(“The Independent” Bangladesh. June 26, 2014)
Leave a Reply