ظلمت سے نور کی جانب

جرمین لجوانے جیکسن (Jermaine Lajuane Jackson) گیارہ دسمبر ۱۹۵۴ء کو امریکا کی ریاست انڈیانا کے شہر گرے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق افریقی امریکی گھرانے سے ہے۔ ان کی ماں کا نام کیتھرائن جیکسن اور باپ کا نام جوزف تھا۔

جرمین جیکسن معروف پاپ سنگرز مائیکل جیکسن اور جینٹ جیکسن کے بھائی ہیں۔ موسیقی کی دنیا میں ان کا نام بھی اپنے بھائی اور بہن کی طرح عالم گیر شہرت رکھتا ہے۔ مائیکل جیکسن اور جینٹ جیکسن اب بھی ناچ گانے کے شیطانی دھندے سے وابستہ ہیں جبکہ جرمین جیکسن ‘ یوسف اسلام (کیٹ اسٹون) کی طرح اپنے عروج کے زمانے میں ہی پاپ کی دنیا چھوڑ چکے ہیں۔

جرمین جیکسن کا قبول اسلام ہادی عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پاک کی بہترین تفسیر ہے جس میں آپؐ نے فرمایا:

من یرد اللّہ بہٖ خیرایفقہ فی الدین

’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے‘‘۔

جرمین جیکسن نے کافی عرصہ پہلے اسلام قبول کیا۔ اب وہ دین اسلام کے سپاہی اور خاموش مبلغ کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور عمومی طو رپر اخبارات اور ذرائع اِبلاغ سے دور رہتے ہیں۔ ایک معروف انگریزی ہفت روزہ کے مسلمان صحافی سے ان کی گفتگو ہوئی‘ اسلام کے بارے میں تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

’’مذہب اسلام رنگ و نسل‘ قبیلہ و علاقائیت سے ماورا مذہب ہے جو ایک منفرد فضلیت کا حامل ہے۔ اس لیے جب کوئی فرد اسلام قبول کرتا ہے اور مذہب اسلام کو قریب سے دیکھتا ہے تو وہ روحانی طور پر ایک گونہ سکون و اطمینان اور فخر و انبساط کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اگرچہ اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو چھوڑنا ایک بڑا کٹھن مرحلہ اور مشکل فیصلہ ہوتا ہے لیکن اسلام کی آفاقی تعلیمات اور اس کی وسعت نظری انسان کو اس انتخاب میں مدد کرتی ہیں۔ اس زمانے میں اسلام دنیا کے سب سے بڑے مذہب کے طور پر سامنے آیا ہے‘‘۔

رسوائے زمانہ پاپ سنگر مائیکل جیکسن کے بھائی جرمین جیکسن اُن ہدایت یافتہ افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے مذہب اسلام کی حقانیت و صداقت سے متاثر ہوکر اپنے آبا ؤ اجداد کا مذہب چھوڑا اور اس دین فطرت کو اپنایا۔

جرمین جیکسن نے اپنا اسلامی نام محمد عبدالعزیز رکھا ہے۔ وہ لاس اینجلز کے مضافاتی علاقے میں ایک بہت آرام دہ اور خوبصورت مکان میں رہتے ہیں۔ محمد عبدالعزیز کے اس مکان کو چاروں طرف سے خوبصورت پھول دار پودوں اور سرسبز و شاداب درختوں نے گھیر رکھا ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں جرمین جیکسن اپنی بہن جینٹ جیکسن کے ساتھ بیٹھ کر موسیقی اور گانوں کی دھنیں ترتیب دیا کرتے تھے مگر اب وہاں سے اذان اور دنیا کے معروف قرأ کی تلاوت قرآن مجید کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں۔ پندرہ سے زائد سیکورٹی کی گاڑیاں محافظوں کے ہمراہ چوبیس گھنٹے اس گھر کی نگرانی کرتی ہیں۔ یہ علاقہ دنیا کے مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔

اب محمد عبدالعزیز کی مسلمان صحافی سے گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جس میں انہوں نے اپنے قبول اسلام اور دین اسلام کے ساتھ اپنے والہانہ لگاؤ اور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

سوال: آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کب اور کیسے کیا؟

جواب: یہ ۱۹۸۹ء کی بات ہے جب میں اور میری بہن نے شرق اوسط کے بعض ممالک کا دورہ کیا۔ بحرین کے دورانِ قیام میں ہمارا شاندار استقبال ہوا اور ہمیں پرجوش طریقے سے خوش آمدید کہا گیا۔ وہاں بچوں کے ایک گروپ سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔ بچوں نے نہایت معصومیت اور بھولے پن سے باتیں کیں اور ہم لوگوں سے مختلف سوالات بھی پوچھتے رہے۔ اسی دوران میں ایک چھوٹے سے معصوم بچے نے مجھ سے میرے مذہب کے بارے میں سوال کیا۔ میں نے بتایا کہ میں عیسائی ہوں۔ پھر میں نے ان بچوں سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا کہ تم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہو؟ تمام بچوں نے بیک آواز جواب دیا: ’’اسلام‘‘

سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے پرجوش اور بیک آواز جواب نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ پھر ان معصوم بچوں نے مجھے اسلام کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ گفتگو کے دوران ان کی آواز کا جوش اور رِدھم یہ بتارہا تھا کہ مذہب اسلام کے ساتھ وابستگی ان کے لیے وجہ افتخار ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے میرا اسلام کی جانب سفر کا آغاز ہوا۔

میرا ان مسلمان بچوں کے ساتھ ملنا‘ پھر ان کے ساتھ گفتگو کرنا اور ان کا معصومانہ انداز میں دین اسلام کے بارے میں بتانا اور اسلام کے ساتھ وابستگی کا فخر کے ساتھ اظہار کرنا یہ سب وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے میں بعض مسلم اسکالرز اور علماء سے ملنے اور دین اسلام کے بارے میں جاننے پر مجبور ہوا اور میں نے نہایت اشتیاق اور متجسسانہ انداز میں دین اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

وقت گزرتا گیا پھر یوں ہوا کہ میں اپنے اندرونی جذبات و احساسات کو لاکھ چھپانے کے باوجود نہ چھپا سکا۔ اور پھر یہ کہ جو بات میں نے دل کی گہرائیوں میں قبول کرلی تھی اسے میں کیسے چھپا سکتا تھا۔ سو میں کلمہ شہادت اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد عبدہ و رسولہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ ابتداً میں نے اپنے اسلام قبول کر لینے کو چھپایا پھر میں نے اپنے خاندانی دوست قنبر علی سے اس کا تذکرہ کیا۔ یہی برادر قنبر علی مجھے سب سے پہلے سعودی عرب لے کر گئے۔ اس وقت تک میں اسلام کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتا تھا اور اس ضمن میں میری معلومات بہت محدود تھیں۔ لیکن یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم تھی کہ سچائی اور ہدایت کا راستہ یہی ہے کوئی اور نہیں۔ وہاں جاکر میں نے ایک سعودی خاندان کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ انہی لوگوں کے ساتھ میں مکہ مکرمہ گیا جہاں میں نے عمرہ ادا کیا اور مدینہ منورہ بھی گیا۔ مکہ مکرمہ میں مَیں نے پہلی مرتبہ اپنے قبول اسلام کا باقاعدہ اعلان کیا۔

سوال: جب آپ نے قبولِ اسلام کا اعلان کیا تو اس وقت آپ کے کیا احساسات تھے؟

جواب: اسلام قبول کرتے وقت اور کلمہ شہادت پڑھتے وقت مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ گویا یہ میری دوسری پیدائش ہے۔ اسلام میں مَیں نے ان تمام سوالات کے جوابات پالیے تھے‘ عیسائیت جن کا جواب دینے سے یکسر قاصر تھی۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے مجھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے متعلق اطمینان بخش جواب دیا۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں دیگر مذاہب کے جوابات سے بھی میں کبھی مطمئن نہیں ہوا تھا۔ قران مجید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا ہی خوبصورت نظریہ پیش کرتا ہے۔ مذہب کے بارے میں میرے اندر کے سارے شکوک و شبہات اسلام ہی نے دور کیے۔ میں خدائے بزرگ و برتر سے دعا کرتا ہوں کہ میرے خاندان کے دیگر افراد بھی اس سچائی اور حقیقت کو پہچانیں اور اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرلیں۔ میرے خاندان کے افراد عیسائیت کی پرستشانہ رسومات (Cult of Christianity) کے پیروکار ہیں جو کہ دنیا بھر میں Jehova`s Witnessess کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کے عقائد کے مطابق صرف ایک لاکھ چوالیس ہزار افراد ہی جنت میں جانے کے اہل ہوں گے۔

سوال: ایسا کیوں؟

جواب: یہ عقیدہ ہمیشہ مجھے الجھن میں ڈالتا رہاہے۔

مجھے اس بات پر بھی بڑی حیرت ہوئی تھی کہ بائبل کو کئی افراد نے مدون کیا۔ حتی کہ کنگ جیمز کی بائبل (King James Bible) ایسے افراد کے ذریعہ لکھوائی گئی اور مدون اور ترجمہ کروائی گئی جن کو کنگ جیمز نے اسپانسر کیا تھا۔ مجھے ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا تھا جنہوں نے بائبل کو تصنیف و تدوین کیا اور خدا کی طرف منسوب کر دیا اور یوں خداے بزرگ و برتر کی طرف سے دیے گئے احکامات کو یکسر نظرانداز کر دیا۔

ان ہی دنوں سعودی عرب میں مجھے اسلامی تعلیمات پر مبنی یوسف اسلام (سابق Cat Stevens) کے کیسٹ سننے کا بھی موقع ملا۔ ان سے بھی میری معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔

سوال: جب آپ مسلمان کی حیثیت سے امریکا واپس لوٹے تو وہاں کیا ردعمل ہوا؟

جواب: میں نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ امریکی ذرائع اِبلاغ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی اور غلط پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکی میڈیا نے میرے خلاف بھی مذموم پروپیگنڈا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مجھے ذہنی طور پر بڑی اذیت اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ ہالی وڈ ایک ایسی جگہ ہے جو مسلمانوں پر تہمت طرازی کرنے اور ان کو بدنام کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جبکہ عیسائی دنیا کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں قرآن کے پیش کردہ خوبصورت تصور کو دیکھنا چاہیے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ امریکا مسلمانوں کے خلاف الزامات کی بارش کیوں کرتا ہے۔ یہ باتیں مجھے افسردہ کردیتی ہیں۔ میں ذہنی طور پر اب اس بات کے لیے تیار ہوگیا ہوں کہ میں امریکی میڈیا کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف الزام تراشی اور بہتان بازی سے روکنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کروں۔ مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ امریکی ذرائع اِبلاغ میرے قبول اسلام کی خبر کو آسانی سے ہضم نہیں کرپائیں گے اور اتنا شوروغل اور واویلا مچائیں گے۔ آزادی اظہار (Freedom of Speech) کا نعرہ لگا کر میرے خلاف میڈیا میں طوفان بدتمیزی مچایا گیا۔ لیکن آزادیٔ مذہب (Freedom of Religion) کے حق کو جرم بنادیا گیا۔ اس طرح امریکی سوسائٹی کی منافقت کھل کر سامنے آگئی۔ اسلام نے میرے بہت سے پیچیدہ مسائل کی گتھیاں سلجھا دی ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی میں نے خو دکو حقیقی معنی میں انسان سمجھا اور وہ تمام باتیں اور چیزیں یکسر چھوڑ دیں جن کی مذہب اسلام میں ممانعت ہے۔

میرے اس عمل نے میرے خاندان کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دیں وہ ابھی میرے اس فیصلے کو قبول نہیں کر پائے تھے کہ مجھے ملنے والی دھمکیوں اور خطوط نے ان کو اور پریشان کر دیا۔

سوال: کس قسم کی دھمکیاں؟

جواب: مجھے کہا گیا کہ میں امریکی معاشرے اور امریکی ثقافت میں بغض و عداوت کو پروان چڑھا رہا ہوں۔ یہ بھی کہا گیا کہ میں نے اسلام میں داخل ہوکر خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے۔ مجھے یہ دھمکی دی گئی کہ وہ امریکا میں میری زندگی کو ناقابل برداشت بنادیں گے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میرے خاندان کے افراد وسیع النظری کا ثبوت دیں گے۔ میرے والد کی تعلیم یہی تھی کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے۔ اس بنا پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جیکسن فیملی کے افراد میرے قبول اسلام کو تسلیم کرلیں گے۔

سوال: آپ کے اسلام قبول کرنے پر آپ کے بھائی مائیکل جیکسن کا کیا ردعمل تھا؟

جواب: امریکا واپس لوٹتے وقت میں سعودی عرب سے بڑی تعداد میں اسلامی کتابیں لایا تھا۔ یہ کتابیں اسلامی تعلیمات‘ تاریخ اسلام‘ اسلامی تہذیب و تمدن‘ اسلامی عقائد جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ میں نے یہ کتابیں اپنے بھائی مائیکل جیکسن کو بھی دکھائیں۔ اس نے اپنے مطالعہ کے لیے خود کافی کتابیں منتخب کیں۔ اس کا مطالعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کو ان مستند کتب سے براہ راست استفادہ کا موقع ملا ورنہ اس سے پہلے وہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں امریکی ذرائع اِبلاغ کے گھناؤنے پروپیگنڈے کا شکار تھا۔ اگرچہ مائیکل جیکسن مسلمانوں سے کوئی مخاصمت نہیں رکھتا تھا‘ تاہم وہ ان کے بارے میں کوئی مثبت سوچ کا حامل بھی نہیں تھا۔ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی کتب کے مطالعہ کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اس کے ذہن میں مکمل مثبت تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایک مسلمان بزنس مین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر آمادہ ہوا۔ اب اس کے مسلم دنیا اور مسلمان شخصیات کے ساتھ اچھے‘ گہرے اور ذاتی روابط ہیں۔ وہ سعودی ارب پتی شہزادے ولید بن طلال کی ملٹی نیشنل کمپنی میں مساوی شیئر ہولڈر پارٹنر ہے۔

سوال: جیسا کہ آپ نے پہلے بتایا کہ مائیکل جیکسن مسلمانوں کے بارے میں مثبت سوچ نہیں رکھتا تھا لیکن پھر یہ افواہ بھی پھیلی کہ مائیکل جیکسن نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اصل حقیقت کیا ہے؟

جواب: پہلی بات تو یہ کہ میرے علم میں کوئی ایسی بات یا بیان نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ مائیکل جیکسن اسلام یا مسلم مخالف جذبات رکھتا تھا۔ دراصل یہ بھی مائیکل جیکسن مخالف کیمپ کا پروپیگنڈا ہے۔ جب امریکی ذرائع اِبلاغ نے میرے اسلام قبول کرنے پر اتنا واویلا مچایا اور میرے خلاف اتنا پروپیگنڈا کیا تو یہ مائیکل جیکسن کو کیسے بخش سکتے ہیں۔ مائیکل جیکسن کی اسلام سے قربت اور اسلام کا مطالعہ سب پر ظاہر ہوچکا ہے اور اس کو بھی اسی وجہ سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ لیکن کون جانتا ہے کہ کل کیا ہو جائے۔ ہدایت تو اس خداے بزرگ و برتر کے ہاتھ میں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مائیکل جیکسن اسلام قبول کرلے ۔ آپ بھی دعا کریں۔

سوال: آپ کے قبول اسلام پر خاندان کے دیگر افراد کا کیا ردعمل تھا؟

جواب: جب میں امریکا واپس لوٹا تو میری ماں میرے آنے سے پہلے ہی میرے تبدیلیٔ مذہب کی خبر ٹیلی وژن پر سن چکی تھی اور اخبارات نے بھی شہ سرخیاں لگائی تھیں۔ میری ماں ایک مذہبی خاتون ہیں جب میں گھر پہنچا تو انہوں نے مجھ سے صرف ایک ہی سوال کیا۔ ’’کیا تم نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اچانک ہی کر لیا یا بہت سوچ و بچار اور غور و فکر کے بعد یہ فیصلہ کیا؟‘‘ میرا جواب تھا ’’ماں! میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا‘‘۔ یہاں مجھے یہ بات کہنے دیجیے کہ ہمارا گھرانہ ایک مذہبی گھرانہ ہے۔ ہمیں جو کچھ عطا ہوا یہ خداے بزرگ و برتر کی خاص عنایات ہیں پھر ہم اس کے شکر گزار بندے کیوں نہ بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہوں۔ میں نے غریب افریقی ممالک میں بڑی تعداد میں دوائیں بھیجیں۔ بوسنیا میں لڑائی کے دوران میں ہمارے جہاز ان کو امدادی اشیاء پہنچاتے رہے۔ میں اور میرے خاندان کے افراد سماجی خدمات اور انسانیت کے حوالے سے بہت سنجیدہ اور حساس ہیں کیونکہ ہم غربت کا زمانہ دیکھ چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم سب افراد ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔

سوال: کیا آپ نے اپنی بہن پاپ سنگر جینیٹ جیکسن (Jenet Jackson) کے ساتھ کبھی اسلام کے بارے میں تبادلہ خیال کیا؟

جواب: میرا یکایک اسلام قبول کرلینا میری بہن جینٹ کے لیے بھی تعجب خیز بات تھی۔ شروع میں تو وہ پریشان تھی۔ ’’تعدد ازواج‘‘ کا مسئلہ اس کے ذہن میں اٹک گیا تھا۔ جب میں نے اس کو بٹھا کر تفصیل سے اس مسئلہ کو بیان کیا اور موجودہ امریکن سوسائٹی سے اس کا تقابل کیا تو وہ مطمئن ہوگئی اور اس ضمن میں اس کے سارے اشکلات رفع ہوگئے۔ دراصل مغرب میں آزاد انہ اختلاطِ مرد و زن اور اخلاقی ذمہ داریوں سے انحراف اور زندیقیت عام ہے۔ شادی شدہ مرد اپنی بیوی کے علاوہ کئی کئی جو خواتین سے ازدواجی و جنسی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ یہاں کی سوسائٹی میں عام بات ہے اور یہی اس معاشرے کی تباہی اور اخلاقی انحطاط کی اہم وجہ ہے۔ اسلام معاشرے کی حفاظت کے لیے اور اس کو ایسی برائیوں سے بچانے کے لیے مضبوط باڑھ لگاتا ہے۔

اسلامی نقطہ نظر سے اگر ایک مسلمان کسی خاتون سے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو وہ اس کے لیے باوقار طریقہ اختیار کرتا ہے ورنہ وہ پہلی بیوی کے ساتھ ہی وفادارانہ طریقہ سے زندگی گزارنے پر اکتفا کرتا ہے۔ پھر اگر کوئی مسلمان دوسری شادی کرتا ہے تو اسلام عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے اس پر مختلف شرائط بھی عائد کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ساری مسلم دنیا میں دوسری شادی کرنے والوں کا تناسب غالباً ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہوگا۔

میری ہر غیرمسلم سے گذارش ہے کہ وہ تعصب اور مخالفت کی عینک اتار کر مذہب اسلام کا مطالعہ کرے تو اس کو دنیا میں اسلام سے زیادہ عملیت پسند اور خوبصورت کوئی اور مذہب نظر نہیں آئے گا۔ شکریہ ۔ جزاک اللہ خیراً۔

ترجمہ و تلخیص: ڈاکٹر حافظ حقانی میاں

(بشکریہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘۔ اسلام آباد۔ شمارہ۔ دسمبر ۲۰۰۵ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*