یہ قسطنطنیہ (ترکی) کی قدیم اور معروف ’’نیلی مسجد‘‘ ہے، جس کے وسیع و عریض گنبد کے سائے تلے پوپ بینڈکٹ۔ ۱۶، استنبول کے مفتی کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ان دونوں افراد کی ہتھیلیاں، روایتی اسلامی انداز میں دعاکے لیے بلند ہیں اور یہ لوگ امن اور ہم آہنگی کی دعا کر رہے ہیں۔ بظاہر تو پوپ بینڈ کٹ دعا مانگنے میں مشغول ہیں جو ان کے خالق تک یقیناً پہنچ رہی ہوگی۔ تاہم یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ ہمسایوں اور مسلمانوں کے مابین پر امن تعلقات، یکجہتی اور ہم آہنگی کی دعاکرتے ہوئے ان مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان نفرت، دشمنی اور مخالفت کے خاتمے کی غرض سے بھی خالقِ کا ئنات سے دعا کر رہے ہوں گے۔ بہر کیف جب عبادات اور دعائوں کو بھی جیو پولیٹیکل اسٹیریٹجی کی حیثیت حاصل ہونے لگے تو یقیناً اس سے مسائل تو جنم لیں گے۔ ان مسائل میں سر فہرست مسئلے کا تعلق ترکی اور یورپی یونین کے مابین باہمی تعلقات کے خاتمے سے ہے۔
اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عام طور پر یہ محسوس کیا جاتا تھا کہ یورپ اپنے تمام تر تعصبات پر قابو پاتے ہوئے اپنے تئیں ایک جغرفیائی حقیقت کے برعکس ایک آئیڈیا لوجی کی صورت میں ظاہر کرے گا، جو اس دنیا میں زندہ رہنے کا معقول طریقہ ہے لیکن بدقسمتی سے یورپ نے دوسرے راستے کا انتخاب کرنا مناسب سمجھا اور اپنے آپ کو محض قومی ریاستوں کے ایک مجموعے کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس کے نتیجے میں ترکی کے لیے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کا موقع گنوایا جا چکا ہے۔ ترکی اب کبھی یورپی یونین کا مکمل رکن نہیں بن پائے گا۔ اس حقیقت کا ادراک اور احساس اب تمام فریقین کو ہوتا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ بہر صورت ایک بہت بڑا المیہ ہے بلکہ اسے ایک قیامت خیز واقعے سے تعبیر کرنا زیادہ صحیح ہو گا، جس میں بے شمار طوفان مضمر اور پوشیدہ ہیں۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات کی صورت میں یورپی یونین کو یہ موقع ملا تھاکہ وہ دنیا کو بتا سکے کہ مشرق اور مغرب ایک دوسرے کے لیے اجنبی،نامانوس اور غیر نہیں ہیں۔ایک جمہوری مسلمان ملک بھی اتنا ہی جدید اور ترقی پسند ہو سکتا ہے جتنا یورپ کا کوئی عیسائی ملک!… ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان نے حال ہی میںایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح پوری دنیا کے امن کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ متاثر ہو سکتی ہے بلکہ تہذیبوں کے تصادم کو روکنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ ایک یورپین ترکی بقیہ تمام مسلمان ممالک کے لیے ایک ماڈل بھی بن سکتا ہے اور اس کردار کو نہایت تعمیری انداز میں ادا کر سکتاہے جسے کبھی سلطنتِ عثمانیہ نے تخریبی انداز میں ادا کیا تھا یعنی دوسرے لفظوں میں ترکی مشرق اور مغرب کے مابین ایک پل کا کام کر سکتا ہے۔ اگر ترکی کو یورپین یونین کے ایک رکن کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے تو ایسی صورت میں یورپی ممالک کو درپیش مسلم یکجہتی اور مسلم تشخص جیسے مسائل سے نمٹنے میں بھی خاطر خواہ مدد مل سکے گی جس کے نتیجے میں ان یورپی ممالک میں آباد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اطمینان نصیب ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خود ترکی کا سوال ہے تو یورپی یونین کی شرکت اور رکنیت کے تصور میں اتنی کشش موجودہے جو ترکی میںہمہ جہت معاشرتی تبدیلیوں کے لیے قوت محرکہ کا کام کر سکتی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران ترکی نے زبردست ترقی کے مراحل طے کیے ہیں تاہم ابھی اسے ماضی کی مطلق العنانیت کی روایات اور آمرانہ ورثے کے چنگل سے آزاد ہو کر ایک ایسی جمہوریت کی تشکیل اور قیام میں کافی وقت درکار ہے جو وسعت اور گہرائی کی حامل ہو اور ترکی کے نسلی ثقافتی اختلافات کے مابین ہم آہنگی کو قائم اور برقرار رکھ سکے۔
گزشتہ دنوں بروسلز بیلجیئم میں یورپی یونین میں شامل ممالک کے اہم ترین نمائندوں نے ایک سمپوزیم میں شرکت کی تھی جس کا موضوع تھا ’’ترکی کو کس نے گنوایا؟‘‘ یورپی یونین کے توسیع کمشنر نے اس موقع پر تباہ شدہ ٹرین کے ملبے کی اصطلاح استعمال کرنے سے ہر ممکن گریز کیا جسے بقول ان کے روکنا بے حد مشکل تھا۔ تاہم یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے حوالے سے متعدد اعتراضات اور اختلافات سامنے آئے جو بظاہر سطحی تھے۔ ان میں سرِفہرست آرمینیا کے باشندوں کا قتل عام تھا جو ۱۹۱۵ء میں ترکوں کے ہاتھوں کیا گیا تھا اور فرانس کی پارلیمنٹ نے اس قتلِ عام سے ترکی کے انکار کو باقاعدہ ایک جرم کی حیثیت دے رکھی ہے۔ یہ تنازع اب بھی موجود ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین قبرص کے مسئلے پر مذاکرات کا سلسلہ معطل کر دے گی کیونکہ قبرص کے مسئلے پر گزشتہ دنوں ہونے والی گفت وشنید میں تعطل کے نتیجے میں اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا تھا۔ حال ہی میں قبرص نے دھمکی دی ہے کہ وہ ترکی کی یورپین یونین میں شمولیت کے معاملے کو ویٹو کر دے گا ادھر فرانس کے صدارتی امیدوار نکولیس سرکوزی نے اپنی انتخابی مہم کو چھوڑ کر یہ مطالبہ کیا ہے کہ قبرص کے مسئلے پر ترکی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا سلسلہ معطل کر دیا جائے۔ انہوں نے واشگاف لب و لہجے میں کہا ’’ترکی کے لیے یورپی یونین میں کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘
ادھر انقرہ کے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ وہ بد ستور یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے لیے اپنی کوششوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے چنانچہ ترکی کے وزیر خارجہ عبداللہ گل کا کہنا ہے کہ ہمارا کوئی اور منصوبہ نہیں ہے ہمارا بنیادی مقصد اسی راستے پر چلنا ہے جو یورپی یونین کی رکنیت پر ختم ہوتا ہے۔ بہر طور حقیقت تویہ ہے کہ یورپی یونین کی راہ سجھانے والی روشنی سمجھ کر ترکی نے اپنے مستقبل کے لیے ایک بالکل مختلف جیو پولیٹیکل سمت کا انتخاب کر لیا ہے جس کے نتائج کے بارے میں فی الحال صرف قیاس آرائی ہی کی جاسکتی ہے ترکی کے عوام کا رویہ بھی رفتہ رفتہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی اخبار میں شائع ہونے والے ایک عوامی جائزے کے مطابق یورپی یونین میں شمولیت کی حمایت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو چکی ہے اور صرف ترکی کی ایک تہائی آبادی یورپی یونین کی رکنیت کے حق میںہے۔ واضح رہے کہ ۲۰۰۴ء کے دوران ترکی کے ۶۷ فی صد باشندے اس رکنیت کے حق میں تھے۔ ترکی کے عوام کا کہنا ہے کہ اگر یورپی یونین ہمیں رکنیت دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو ہمیں بھی ان کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے توسیعی کمشنر کا کہنا ہے کہ ترکی کی اسٹرٹیجک اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟ ترکی کے وزیر خارجہ یورپی یونین کی رکنیت اور اس میں شمولیت کے معاملے کو تجارت اور کاروبارسے منسلک کرتے ہیں، تاہم ترکی پر یورپ کا د بائو اسی بے شمار اصطلاحات کا محرک ہے جسے ترکی کی کوئی بھی سیاسی تنظیم اور قوت نافذ کرنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ ان اصلاحات کا تعلق سیاست میں فوج کے کردار کی تحفیف سے لے کر ترکی میں آباد چودہ ملین کرد باشندوں کو ان کے تہذیبی اورثقافتی حقوق دینے سے ہے۔ اس کے علاوہ ترکی میں بے شمار نسلی، لسانی، مذہبی اور ثقافتی اختلافات بھی صدیوں سے موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یورپی یونین میں شمولیت کے بعد بھی یہ اصلاحا ت نافذ ہو جائیں گی اور یہ متنوع اختلافات ختم ہو جائیں گے؟
پوپ بینڈکٹ دنیائے اسلام کی ایک متنازع شخصیت ہیں۔ ان کے دورہ ترکی نے ان تمام کشیدہ جذبات اور احساسات کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے جو سیکولر ترک باشندوں اور اسلام کے مابین موجود ہیں۔ جنرل مصطفیٰ کمال اتاترک نے سلطنت عثمانیہ کے کھنڈرات پر موجودہ جمہوریہ ترکی بنیاد رکھی تھی جس کے بعد سے ترکی کے حکمرانوں کا مطمع نظر اور ان کی نگاہیں مذہب پسند مشرق کے بجائے ہمیشہ سیکولر مغرب پر مرکوز رہی ہیں تاہم ۲۰۰۲ء میں طیب اردگان کی اعتدال پسند اسلامی حکومت کے قیام کے جسد سے سیکولرازم کا تصور خاصی حد تک دھندلا پڑ چکا ہے چنانچہ یونیورسٹی کی سطح پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اب بیشتر ترک باشندے قومیت کے بجائے مذہب کے ذریعے اپنے انفرادی تشخص کا اظہار کر رہے ہیں۔ ترک باشندوں کی ۴۵ فی صد تعداد کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان پہلے ہیں (واضح رہے کہ ۱۹۹۹ء کے دوران یہ تعداد ۳۶ فی صد تھی) جبکہ انیس فی صد ترکوں کا کہنا ہے کہ وہ ترک پہلے ہیں (پہلے یہ تعداد۲۱ فی صد) تھی بہر کیف ترکی کے وزیراعظم طیب اردگان نے اسلامی پالیسیوں کو ترک عوام پرزبردستی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ مثال کے طور پر انہوں نے ترکی کے اس قانون کومنسوخ قرار نہیں دیاجس کے تحت سرکاری دفاتر میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں سروں پر اسکارف باندھنے کی سخت ممانعت تھی تاہم انہوں نے اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے امریکا ضرور بھیج دیا ہے کیونکہ ترکی کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان بچیوں کو اپنے سروں سے اسکارف اتارنیپڑتے۔
۲۰۰۴ء کے دوران انہوں نے ترکی میںزناکاری کے خلاف ایک متنازع قانون متعارف کرانے کی کوشش بھی کی جو ناکامی سے دوچار ہوگئی ۔ طیب اردگان کی مشرق وسطیٰ کے ممالک سے دلچسپی بھی ترکی کے سیکولر عمائدین اور عناصر کے لیے کم باعث تشویش نہیں بالخصوص فوجی جنرلوں کے لیے جو خود کو مصطفیٰ کمال اتاترک کی جدید یت نواز کوششوں کا حقیقی وارث تصور کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ افراد درحقیت سیکولر ذہن کے حامل اور مذہب کے مخالف ہیں۔ طیب اردگان غالبا ًوہ واحد ترک رہنما ہیں جو دید ہ و دانستہ اور ارادی طورپر مشرق اور مغرب دنوںکو اپنے ہمراہ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور وہ وسیع تر اسلامی دنیا میں اصلاحات کے نفاذ سے بھی اتنی ہی دلچسپی رکھتے ہیں جتنی دلچسپی انہی ترکی کو یورپی یونین میں شامل کرنے کے منصوبے سے ہے۔ وہ ایک کٹر مسلمان رہنما ہیںاورماہِ رمضان کے دوران روزے سے ہونے کے سبب ان کا شوگر لیول کافی نیچے آچکا تھا جو ان کی موت کا باعث بن سکتا تھا ۔ وہ گلوبل اسلام اور اس کی تجدید اور احیائے نو کے لیے بھی کافی سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان ترک خواتین کے حقوق کے نمایاں علمبر داروں میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ استنبول میں منعقد کیے گئے اسلامی کانفرنس تنظیم کے ایک اجلاس سے خطاب کے دوران انہوںنے خواتین کو ترک سماج اور معاشرے کا نہایت اہم پیداواری قصہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی معاشروں میں خواتین کے خلاف بے جا امتیازبرتا جاتا ہے کیونکہ ان معاشروں میں محض روایات کو بھی مذہبی اصولوں کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ روایتی اعتبار سے ایک قدامت پرست اسلامی دنیا کے حوالے سے ان کے یہ اقدامات اور سوچنے کا انداز بلاشبہ انقلابی نوعیت کا حامل ہے تاہم طیب اردگان کے اس قسم کے بلندوبانگ اصلاحی اور انقلابی نعروں نے ان کے خفیہ اور ممکنہ دشمنوں کو یہ باور کرانے پر مجبور کر دیاہے کہ وہ ایک روایتی قسم کے بنیاد پرست ہیں۔
ان کے یہ مخالفین یورپی یونین کی جانب سے ترکی کو رکنیت نہ دینے کے معاملے کو بھی طیب اردگان کے انہی انقلابی نوعیت کے اقدامات کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انہیںاوران کے اصلاحات کے پروگرام کو روکنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں، دوسری جانب ترکی کی انتہا پسند قومی سیاسی جماعتیں جن میں انتہا پسند تنظیم ’’نیشنلسٹ ایکشن پارٹی ‘‘ بھی شامل ہے یورپی یونین میں شمولیت کی سخت مخالف ہے۔ اس کے لیڈر کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں شرکت اور شمولیت کے اس تباہ کن منصوبے کا درپردہ مقصد یہ ہے کہ ترکی کو کمزور منقسم اور منتشر کر دیاجائے ۔ انہوں نے انسانی حقوق کے بارے میں قانون سازی (مثال کے طور پر آزادیٔ تقریر ) کو بھی منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ قوانین ترکی کے فوجی جنرل یعنی ’’پاشا ہیں‘‘ جنھوں نے کئی برس تک خاموش رہنے کے بعد اب زبان کھولی ہے ۔ انہوں نے بروسلز کی جانب سے ترکی کے کردوں کو آزادی دینے کے مطالبے کی سختی کے ساتھ مخالفت کرنے ہوئے درحقیقت یوپی یونین کی جانب سے کئے جانے والے اس مطالبے کی مخالفت کی ہے جس کی رو سے ترکی کی سیاست میں فوج کے کردار کو کم کرنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ ان فوجی جنرلوں کا کہنا ہے کہ ترکی کی مسلح افواج جمہوریہ ترکی کی بنیادی اقدار و روایات کی جانب سے کبھی اپنی آنکھیں بند نہیں کریں گی جنہیں قربان کر کے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کی جائے اس کے علاوہ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ انتہا پسند قوم پرست سیاسی جماعتوں اور فوج کے یورپی یونین مخالف عناصر کے مابین ایک سمجھوتہ طے پا چکا ہے جس کے بعض اراکین کردوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث رہ چکے ہیں۔ بہر نوع حالات اور واقعات اتنے مبہم اور دھندلے نہیں جتنے کہ نظر آتے ہیں یورپی یونین میں ترکی کی عدم شمولت اور عدم شرکت کے نتیجے میں ترکی کے داخلی اور اندرونی نسلی، مذہب اور سیاسی اختلافات کی خلیج وسیع تر ہو جائے گی اور وہ سیاسی طور پر تقسیم ہو جائے گا۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اختلافات اتنی شدت اختیار کر جائیں گے کہ فوجی مداخلت ناگزیر ہو جائے ۔ تاہم اس پوری صوتحال کے جو بھی نتائج برآمد ہوں ایک بات طے شدہ ہے کہ ترکی کی یہ جدوجہد یعنی یورپی یونین میں شمولیت کی شدید خواہش ایک دن رنگ لا کر رہے گی اور اس کے نتائج ممکن ہے کافی سنگین ہوں۔ یورپ کی الگ تھلگ، اجنبی اور مشتعل مسلم اقلیتی آبادیاں مغربی کلچر ، رہن سہن اور ثقافت سے کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گی، اگر یورپ یہ واضح پیغام دے دے کہ ترک باشندے کبھی مکمل طور پر یورپین بن سکتے ہیں اور نہ یورپ کی تہذب اور ثقافت میں خود کو ڈھال سکتے ہیں۔ دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کاروز افزوں کردار بھی ایک ماڈل کی حیثیت سے خطرے میں پڑ جائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں عرب نیشنلزم کی ناکامی اور بنیاد پرستی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کے پیش نظر یورپین یونین ترکی کے موجودہ کردار کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے، جو وہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ادا کرنے کا خواہشمندہے۔
سیاست کے ماہرین اور بین الاقوامی تعلقات پر نظر رکھنے والوں کا یہی کہناہے کہ اسلام اور جدید یت کے مابین ایک خوشگوار امتزاج ہی ترکی کی کامیابی کا اصل راز ہے ۔ واشنگٹن میں بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر ترکی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے تو ایسی صورت میں مسلم دنیایہ تاثر قبول کرنے میں حق ہوگی کہ مغربی اقدار کے لیے یہ ایک بہت بڑی ’’جیوپولیٹیکل شکست‘‘ کے مترادف ہے ۔ چنانچہ ترکی کی آج مغرب کے لیے وہی اہمیت اور حیثیت ہے جو کسی زمانے میں مغرب کے لیے جرمنی کی رہ چکی ہے ۔ یعنی سرد جنگ کے زمانے میں جرمنی کو یورپین فرنٹ لائن اسٹیٹ کی حیثیت حاصل تھی۔ بہر کیف یورپین یونین میں ترکی کی شمولیت کا مسئلہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جس کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا ممکن نہیں ہے ۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ ترکی یورپین یونین سے پیٹھ موڑ سکتا ہے، نہ یورپی یونین ترکی کو نظر انداز کر سکتی ہے یورپی یونین ترکی کو ایک خصوصی شراکت دار کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اشارہ دے چکی ہے تاہم ترکی کی حکوت خصوصی شراکت سے زیادہ کی طلب گار ہے۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ شمارہ: یکم جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply