
نوبل امن انعام، سویڈن کے ایک شخص الفریڈ نوبل کی اختراع ہے جو اس نے ۱۸۹۵ء میں قائم کیا۔ امن کے علاوہ فزکس، کیمسٹری، فزیالوجی، لٹریچر کے نوبل انعامات سب سے پہلے ۱۹۰۱ء میں عطا کیے گئے۔ بعدازاں اکنامک سائنس سے متعلق نوبل انعامات ۱۹۶۸ء میں قائم کیے گئے۔ نوبل کا امن انعام اوسلو، ناروے میں دیا جاتا ہے جبکہ دیگر انعامات اسٹاک ہوم، سویڈن میں عطا کیے جاتے ہیں۔ نوبل انعام کو اکثر دنیا کا انتہائی مؤقر و معزز انعام سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ افراد نے اس کی سیاسی نوعیت کے باعث اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ انعام اس لحاظ سے بلاشبہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے کہ اس کا تعلق اہم سیاسی اقدار اور اہم سیاسی شخصیات، تنظیموں اور اداروں سے ہے۔ ظاہر کے لیے امن کا سیاست کے ساتھ گہرا ہے۔
لیکن اگر وسیع تر اصطلاح کے لحاظ سے نہ دیکھا جائے تو اس انعام کی نوعیت سیاسی نہیں۔ اگرچہ کافی عرصے تک اس کی توجہ یورپ اور شمالی افریقا کی شخصیات کی طرف رہی، لیکن ۱۹۶۰ء کی دہائی سے آسٹریلیا کے سوا دنیا کے دیگر ممالک کی شخصیتوں کو بھی نوبل انعام کے لیے منتخب کیا جانے لگا۔ نوبل کمیٹی اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرتی کہ دنیا کی ۶۰ فیصد آبادی ایشیا میں رہائش پذیر ہے۔ حالیہ دہائیوں میں کیلاش ستیارتھی اور ملالہ یوسف زئی سمیت کئی ایشیائیوں کو نوبل انعام کا مستحق ٹھہرایا گیا۔
نوبل انعام پانے والے کچھ افراد، اپنی قومی سیاست سے بہت دور تھے اور کچھ قومی سیاست کے دھارے کے مرکزی کردار تھے۔ ان کے مقاصد بہت بلند تھے اور اپنے ان مقاصد کے حصول کی خاطر انہوں نے عظیم ذاتی حوصلے و ہمت کا مظاہرہ کیا۔ یہ صورتحال قطعی طور پر اس برس کے نوبل انعام یافتہ افراد پر منطبق ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنی محنت اور جدوجہد کو چائلڈ لیبر کی روک تھام اور لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی طرف مرتکز کر دیا حالانکہ ان کی زندگیوں کو بہت ہی زیادہ خطرہ لاحق تھا۔
نوبل انعام پر اکثر اس وجہ سے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں حقیقت اور بصیرت کا فقدان ہے۔ درست ہے کہ نوبل انعام طلسمی چھڑی نہیں ہے کہ آپ اسے ہلائیں اور ہر قسم کے مسائل حل ہو جائیں۔ اس قسم کے نتائج کوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا اور یہ بھی کہ ناروے کے پانچ نامعلوم افراد پر مشتمل کمیٹی بھی اس قسم کے نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ بنیادی طور پر نوبل انعام، اعلیٰ اعزاز کا حامل ہے۔۔۔ ایک ایسا اعلیٰ اعزاز جو کسی بھی شخص یا تنظیم کو دیا جاسکتا ہے۔ جو انعام یافتہ شخصیات دنیا کے لیے زیادہ جانی پہچانی نہیں، ان کے لیے نوبل انعام لائوڈ اسپیکر ہے جس کے باعث دنیا کے تمام دروازے ان پر کھل جاتے ہیں۔ کچھ انعام یافتہ شخصیات اس انعام کے باعث تحفظ کے مستحق بھی ٹھہریں۔ بعض اوقات نوبل انعام کے ذریعے کچھ سیاسی نتائج بھی پیدا کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نوبل انعام کمیٹی نے چار جنوبی افریقیوں، البرٹ لوتولی ۱۹۶۰ء، ڈسمنڈ ٹو ٹو ۱۹۸۴ء، نیلسن منڈیلا ۱۹۹۳ء اور ایف ڈبلیو دی کلارک ۱۹۹۳ء کو نوبل امن انعام سے نوازا۔ خاص طور پر البرٹ لوتولی کو انعام دیتے وقت نسل پرستی کے خلاف جدوجہد مرکزِ توجہ تھی۔
لیچ ولیسا نے کئی بار اعلان کیا کہ نوبل انعام (جو اس نے ۱۹۸۳ء میں وصول کیا) کے بغیر وہ ۱۹۸۹ء میں پولینڈ میں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا اور اس نے میخائل گورباچوف، ایک اور نوبل انعام یافتہ شخصیت، کے علاوہ کسی بھی شخص کی نسبت وسطی اور مشرقی یورپ کو سوویت کمیونزم سے نجات دلانے کے لیے کہیں زیادہ کام کیا۔ کارلوس بیلو اور جوزی راموس ہورتا ۱۹۹۶ء کو انعام دینے کے باعث، مشرقی تیمور کے عوام نے نوبل انعام کمیٹی کو اس حقیقت کے لیے شاندار خراج تحسین پیش کیا کہ ان کا ملک آزاد ہوگیا اور یہ کام ناروے کے پانچ نامعلوم افراد پر مشتمل نوبل انعام کمیٹی کے لیے کچھ بُرا نہیں تھا۔
(بشکریہ: ’’عرب نیوز‘‘، ترجمہ: ریاض محمود انجم۔ روزنامہ ’’نئی بات‘‘)
Leave a Reply