
افریقا میں غیرسرکاری تنظیمیں (NGOs) کے ساتھ کام کرنے والی جینی ولیمز نے اپنے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’کیا ہمیں استعمال کیا جارہا ہے؟ کیاامداد و ترقی کے تصورات مغرب کے محض اوزار ہیں جو بھلائی کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں؟‘‘
جینی ولیمز سے میری واقفیت میری کتاب ’’اعترافات‘‘ کی تدوین کے دنوں میں ہوئی تھی۔ اس نے میرے ہارڈ کور پبلشر ’’بریٹ کوہلر‘‘ کے ہاں ملازمت شروع کی تھی۔ وہ بے حد تیز فہم تھی، کچھ عرصے بعد افریقا کے سفر پر نکلی تاکہ ایک غیر نفع بخش تنظیم کے ساتھ منسلک ہو کر کام کرے۔ یہ تنظیم یوگنڈا اور سوڈان میں ’’ایمرجنسی ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ‘‘ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی تھی۔ اس نے کہا:
’’میں مغرب کی منافقت سے بیزار ہو چکی تھی اور تساہل پسند ناقد کے کردار سے بھی متنفر تھی۔ میں چاہتی تھی کہ دنیا گھوموں اور بچشم خود دیکھوں کہ امدادی رقوم کو کیسے کیسے کاموں پر صَرف کیا جارہا ہے‘‘۔
مجھے اس کا نکتہ نظر خاص طور پر دلچسپ لگا کیونکہ وہ سان ڈائیگو (جنوبی کیلی فورنیا) میں پلی بڑھی تھی۔ ۲۰۰۴ء میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے سے گریجویشن کی اور پوری زندگی اس میڈیا کے دھوکے کا شکار رہی جو لوگوں میں مسرفانہ عادات کو فروغ دیتا اور اس بات کا بھی ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ غیر ملکی امداد ناداروں کی بھلائی پر خرچ کی جاتی ہے۔ جینی ولیمز میری بیٹی جیسیکا کی طرح اُس نسل کی نمائندگی کرتی ہے جس کو آئندہ ہماری قیادت کرنی ہے۔
اس نے اپنے متذکرہ بالا احساسات کا اظہار ستمبر ۲۰۰۶ء میں یوگنڈا سے میرے نا م ایک ای میل میں کیا جس میں اس نے مزید کہا: ’’افریقا میں مغربیت کی علامات ایک واضح تسلسل کے ساتھ وارد ہو رہی ہیں۔ قحط سالی کے شکار شمالی کینیا کی ’’کیاسکس‘‘ میں جگہ جگہ کوکا کولا کے بڑے بڑے اشتہار چسپاں ہیں۔ اچھل کود پر مبنی پرشور و بے ہنگم امریکی موسیقی فاقہ زدہ افریقی نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔ لوگ مقامی طور پر پیدا ہونے والی کافی پر ’’انسٹینٹ کافی‘‘ کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے بقول اس کا ذائقہ بہتر ہے۔ جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ مقامی کافی کارپوریٹو کریسی کے عائد کردہ ٹیرف اور ٹیکسوں کی وجہ سے بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ ان کارپوریشنوں نے یہاں قدم رکھنے سے پہلے افریقا کو یقینا نوالۂ تر پایا ہوگا کہ اسے جس راہ پر چلانا چاہیں گی وہ چلے گا، وہ جو بھی کھلائیں گی وہ رغبت سے کھائے گا۔ افریقوں کو مغرب کے رنگ میں رنگنے کی مشینری میں ہم غیر سرکاری تنظیموں کا اپنا کردار بھی رہا ہے۔ قیادت کے طرزِعمل سے لے کر یہاں اس کے کارندوں کے خطیر مشاہروں تک انہیں مرعوب کن انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔ این جی اوز مغربی ثقافت، سماجی رویوں اور اقتصادی معیارات کو فروغ دے رہی ہیں۔ ایک سوچی ہوئی اسکیم کے تحت امدادی کارکنوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کی وہ ’’خدمت‘‘ کر رہی ہیں، معیاروں کے تفاوت کو بڑھایا جارہا ہے۔ اہل افریقا اس تفاوت یا خلیج کو کم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور وہ یوں کہ وہ غیر ملکوں کی تقلید کر رہے ہیں۔ مغربی اقدار نے مقامی ثقافتی عقائد کا تیاپانچہ کر کے یہاں کے مروجہ اقتصادی نظاموں کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
ایک اور مخمصہ:
شمالی یوگنڈا میں، جو کہ بیس سال سے باغیوں کی شورش اور جنگ و جدل کا میدان بنا ہوا ہے، جہاں ہزاروں افراد قتل اور تقریباً بیس لاکھ بے گھر ہو چکے ہیں، این جی اوز پرالزام عائد کیا گیا کہ وہاں اپنی محض موجودگی کی بناء پر ہی اس کشمکش کو طول دے رہی ہیں۔ جب تک وہاں ’’ایمرجنسی‘‘ کی صورتحال رہے گی عطیہ دہندگان ان کی سرگرمیوں کے لیے رقوم دیتے رہیں گے۔ این جی اوز غلیظ کیمپوں کے رونگٹے کھڑے کر دینے والے حالات میں زندگی گزارنے والوں کی مدد کو بدستور پہنچی رہیں گی۔ (یوگنڈا کے ایک ریڈیو اسٹیشن سے یہ لطیفہ نشر ہوا کہ ’’وہاں این جی اوز کی تعداد مقامی باشندوں کی بہ نسبت زیادہ ہے‘‘۔ ہر شہر کی گلیاں انہیں لانے والی موٹر سائیکل ٹیکسیوں سے اَٹی ہوئی ہیں) یہ سوال تو پیدا نہیں ہوتا کہ ان کیمپوں میں دس دس سال یا اس سے زیادہ عرصے سے پڑے ہوئے لوگ اب تک بھوک اور پیاس سے مرنے والوں سے زیادہ تعداد میں مر جائیں گے، کیونکہ این جی اوز انہیں بورنگ کرا کے نلکے کا پانی مہیا کر رہی ہیں۔ ان کے ہاں پانی کے نکاس اور بچوں کی تعلیم کا بندوبست بھی کر دیا۔ لیکن این جی اوز کی موجودگی کی وجہ سے یوگنڈا کی حکومت اور ’’مغرب‘‘ نے ان کی باہمی لڑائیوں کو ختم کرانے کی ذمہ داریوں سے اپنی جان چھڑوا لی ہے۔ پورے خطے میں پھیلی ہوئی یہ لڑائیاں ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔ ۲۰۰۶ء کے موسم گرما میں جو امن مذاکرات شروع ہوئے وہ بہت پہلے ہو جانے چاہئیں تھے۔
میرے ایک رفیق کار نے مجھے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’ہم انجیر کے درخت کے اُس پتے کی طرح ہیں جس کے پیچھے مغربی حکومتیں اُس وقت چھپنے کی کوشش کرتی ہیں جب وہ کسی مسئلے کا سیاسی یا سفارتی حل نہیں چاہتیں یا نہیں کرنا چاہتیں۔ جب کوئی تصادم ہو یا کوئی بحران، وہاں سب سے پہلے کون جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ امدادی تنظیمیں ہی جاتی ہیں، تو مغرب کہہ سکتا ہے کہ دیکھو ناں ہم کچھ نہ کچھ کر ہی رہے ہیں اور اگر آخر میں درحقیقت بالکل ہی کچھ نہ کرنا ہو تب بھی یہی کہتی ہیں‘‘۔
بات صرف یہی نہیں ہے کہ مغرب لاتعلق ہے یا وہ بحرانوں کو حل کرنے کا کوئی جذبہ نہیں رکھتا، اصل بات یہ ہے کہ مغرب کا مفاد اسی بات میں ہے کہ افریقا غریب رہے۔ مغربی ممالک کے عوام خیرات بانٹنے کا مخلصانہ جذبہ رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ خیرات بانٹنا بہت بڑی نیکی ہے، لیکن مغربی حکومتیں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں اپنا فائدہ افریقی ملکوں کے مسلسل عدم استحکام اور ان کے افلاس و غربت میں مضمر پاتی ہیں۔ انہیں نیکیوں سے کوئی غرض نہیں، صرف مادّی نفع سے سروکار ہے خواہ وہ کسی کی جان لے کر ہی ملتا ہو۔
لیبر اور زرعی پیداوار کے سستا ہونے، وسائل کی اسمگلنگ بڑھنے اور اسلحہ کی تجارت بڑھانے کے لیے کرپٹ سیاستداں ان کے بہت کام آتے ہیں۔ طول کھینچتی ہوئی جنگیں اور خانہ جنگیاں، غیر ترقی یافتہ سول سوسائٹی جو اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو، ان کا پسندیدہ ترین انتخاب ہوتی ہیں۔ اگر کانگو میں امن اور شفافیت ہوتی تو وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال اگر ناممکن نہ ہوتا تو کم ازکم مشکل ضرور ہوتا۔ اگر وہاں باغی گروپ یا قبائلی چپقلشیں نہ ہوتیں تو ان کارپوریشنوں کے تیار کردہ چھوٹے اسلحے کی کوئی مارکیٹ نہ ہوتی۔
غربت یا تشدد کے تمام اسباب کا مغربی محرکات کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے، افریقی راہنمائوں میں پائے جانے والے کرپشن اور قبائل کی درپردہ چپقلشیں عوام میں انتشار اور نظم و نسق کے بگاڑ میں بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مگر میرا ایمان ہے کہ اگر مغرب افریقا کو واقعی مستحکم اور ترقی یافتہ بنانا چاہتا تو یہ براعظم اپنی منزل پر درست طریقے سے گامزن ہو سکتا تھا۔ لیکن وہ ایسا نہیں چاہتا تھا۔ مغرب سالہا سال سے یہاں کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور اپنی اربوں ڈالر کی امداد ایک خاص طریقے سے خرچ کر رہا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ امدادی کارکنوں کی غالب تعداد دیانت دار اور محنتی ہے جو ترقی پذیر ممالک میں خلوص کے ساتھ ناداروں اور بے کسوں کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ یعنی ہم اس نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جسے سمجھ سکنا بہت مشکل ہے اور اس سے لڑنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ تاہم یہ اصل نقطہ نہیں ہے ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا‘‘۔
جینی اس صورتحال کو سمجھنے کا عہد کرنے اور اسے تبدیل کرنے کے لیے کام کرنے میں تنہا نہیں ہے۔ یونیورسٹی طلبہ اور امریکا بھر کے تازہ دم گریجویٹس اپنی نسل کو درپیش مسائل کو سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ کاوشیں کر رہے ہیں جتنی کہ ان کے والدین نے اپنے دور میں کی تھیں۔ جب یہ بیرونی ممالک کا سفر کرتے ہیں تو پرانی منزلوں پیرس، روم اور ایتھنز کو عموماً چھوڑ کر آگے افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ میوزک، ڈانس اور شراب نوشی سے دل بہلاتے ہیں، ’’محبت کے مشغلے‘‘ بھی کرتے ہیں، لیکن وہ عالمی سیاست پر بحث بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کے نظریات کا موازنہ کرنے اور منصوبوں کو سمجھنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
مگر ایک بات جس کا اس نسل کے ماحولیات یا سماجیات سے انتہائی باخبر ارکان بھی شاید شعور نہیںرکھتے، یہ ہے کہ اس نسل میں سیلولر اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر انحصار ضرورت سے زیادہ بڑھ چکا ہے اور یہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہا ہے۔
لیپ ٹاپس ، سیل فون اور کاریں
ڈیمو کریٹک ری پبلک آف کانگو (سابق زائرے) میں ۱۹۹۸ء سے اب تک تقریباً ۴۰ لاکھ افراد قتل ہو چکے ہیں اور وہ اس لیے مرے ہیں تاکہ دولت مند لوگ کمپیوٹر اور سیل فون ارزاں قیمت پر خرید سکیں۔ اس ملک نے بلجیم سے اگرچہ ۱۹۶۰ء میں آزادی حاصل کر لی تھی مگر جلد ہی واشنگٹن کے دائرۂ اثر میں آگیا، ٹائم میگزین نے ۲۰۰۶ء میں اپنی کور اسٹوری میں، جس کا عنوان ’’دنیا کی ہولناک ترین جنگ‘‘ تھا، واشگاف الفاظ میں لکھا کہ ’’کانگو کے پہلے منتخب وزیراعظم (لوممبا) کو ایسے مخالفین نے ہلاک کیا ہے جنہیں حکومت بلجیم اور امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی اور وجہ قتل یہ تھی کہ سوویت یونین سے اس کے روابط تیزی سے بڑھ رہے تھے۔
لوممبا کے قتل کے بعد اقتدار آخرکار آرمی جنرل ’’موبوتو سیسے سیکو‘‘ نے سنبھال لیا۔ ’’ٹائم‘‘ کے الفاظ میں ’’سرد جنگ کے زمانے میں امریکا کے پسندیدہ موبوتو نے افریقی تاریخ کی بدنام ترین انتظامیہ کی صدارت سنبھال لی‘‘۔
موبوتو کے اقتدار کا طویل دورانیہ کرپٹ بھی تھا اور انتہائی ظالمانہ بھی۔ ہمسایہ ممالک اس شخص کے اقتدار میں آنے پر بے حد برہم ہوئے۔ ۱۹۹۶ء اور ۱۹۹۷ء میں روانڈا اور یوگنڈا نے اپنی فوجیں کانگو میں داخل کر کے موبوتو کا تختہ الٹ دیا اور باغی لیڈر لارنٹ کبیلا کو اس کا نیا صدر مقرر کر دیا۔ تاہم اس کے دَور میں سماجی اور اقتصادی حالات تیزی سے بگڑنے لگے، یوگنڈا اور روانڈا نے ۱۹۹۸ء میں ایک بار پھر حملہ کر دیا۔ بعدازاں چھ دیگر ملکوں نے موقع کو غنیمت جانا اور ایکا کر کے کانگو کے بے پناہ وسائل سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس طرح افریقا کی پہلی سرد جنگ شروع ہوگئی۔
اس جنگ میں نسلی، ثقافتی اور قبائلی چپقلش نے اپنا کردار ادا کیا، تاہم یہ کشمکش زیادہ تر وسائل بانٹنے کے لیے تھی۔ ٹائم کے مطابق ’’کانگو کی مٹی ہیرے، سونے، تانبے، ٹنٹالم (جسے مقامی طور پر کولٹان کہتے ہیں اور یہ الیکٹرونکس، سیل فونز اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز میں کام آتی ہے) اور یورینیم سے بھری ہوئی ہے‘‘۔ یہ ایک وسیع ملک ہے جو امریکا کی ریاست الاسکا سے ڈیڑھ گنا رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کی بعض جگہیں انتہائی سرسبز و شاداب ہیں۔ اس کے منطقہ حارہ کے گھنے جنگلات اور زرعی زمینیں دولت کے بے پناہ ذخیرے ہیں۔ جب میں نے اس خطے کی تحقیق مکمل کی تو دریائے کانگو کے پانی کو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پیدا کرنے کے لیے بے حد موزوں پایا، یہ بجلی براعظم کے بیشتر حصے کی ضروریات پوری کر سکتی ہے۔
ٹنٹالم ایک نہایت بیش قیمت دھات ہے۔ اسے ایٹمی ری ایکٹر، طیاروں اور میزائلوں کے پارٹس، ریڈیو ٹیوبس میں گرڈز اور پلیٹس بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کانگو کی ٹنٹالم کے بغیر ہم بہت سی کمپیوٹر پر مبنی مصنوعات اتنے بڑے پیمانے پر نہیں بناسکتے تھے۔ مثال کے طور پر اس کی قلت کی وجہ سے ۲۰۰۰ء کے کرسمس سیزن کے دوران سونی پلے اسٹیشن۔۲ کے لیے بڑے مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ روانڈا اور یوگنڈا کی ملیشیائوں نے اپنے عوام کو باغیوں کے حملوں سے بچانے کے نام پر اربوں ڈالروں کی ٹنٹالم پر قبضہ کیا اور حملوں کے دوران ہی اسے اپنی سرحدوں کے باہر اسمگل کرتے رہے۔
امریکا، برطانیہ اور جنوبی افریقا کے معاشی غارت گر (EHMs)، گیدڑ اور سرکاری ایجنٹ کشمکش کی آگ پر مسلسل تیل ڈالتے رہتے ہیں اور متحاربین کو ہتھیار فراہم کر کے اربوں ڈالر کما رہے ہیں۔ جنگ کارپوریشنوں کو انسانی حقوق اور تحفظ ماحولیات کے علمبرداروں کی آنکھوں میں مٹی جھونکنے میں مدد دیتی رہی ہے اور ٹیکسوں اور ٹیرف کی ادائیگی سے بھی بچاتی ہے۔
کانگو اُن بہت سے مقامات میں سے ایک مقام ہے جہاں یکساں نوعیت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ امریکی کانگریس کی رکن سنتھیا میکنے نے ۶ ؍اپریل ۲۰۰۶ء کو ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ’’انگریزی خوانوں کی ایک سازش‘‘ (Anglophone Conspiracy) کے بہت سے پہلوئوں کو بے نقاب کیا، اس کے افتتاحی خطاب میں یہ فرد جرم شامل تھی: ’’آج آپ جو چیز سنیں گے، اسے پبلک میڈیا نے وسیع پیمانے پر رپورٹ یا شائع نہیں کیا۔ مقتدر قوتوں نے ان واقعات کو عوام کے نوٹس میں آنے سے روکنے کے لیے بہت سے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں‘‘۔
بعداز نوآبادیاتی دَور کے افریقا میں مغربی حکومتوں اور مربی بزنس مینوں کی سرگرمیوں کی تعیش سے یہ شواہد واضح ہو کر سامنے آچکے ہیں کہ وہاں اہل مغرب کی لالچ و ہوس اور ظلم و ستم کی بے شمار داستانیں بکھری پڑی ہیں، جنہیں سن کر انسانیت کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ افریقا میں مغربی اقوام کی بداعمالیاں وقتی کوتاہیوں، انفرادی عیوب یا عام انسانی کمزوریوں کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ ایک طویل المیعاد پالیسی کا حصہ ہیں جس کا مقصد وہاں کے عوام کے حقوق پامال کرکے افریقا کی دولت تک رسائی حاصل کرنا ہے۔
افریقا کے آلام و مصائب کی تہہ میں مغرب اور بالخصوص امریکا کی کارفرمائیاں پائی جاتی ہیں۔ ان کی حریص نگاہیں افریقا کے ہیروں، تیل، قدرتی گیس اور دیگر قیمتی وسائل ہتھیانے پر مرکوز ہیں۔ مغرب اور سب سے بڑھ کر امریکا جبر و تشدد اور ظلم و زیادتی پر مبنی پالیسی کے ذریعے وہاں عدم استحکام پیدا کرتا ہے۔ ان کا اخلاقی اصولوں سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کی غرض صرف اور صرف افریقا کی بے پناہ دولت لوٹنا ہے خواہ وہ جیسے بھی ہاتھ آئے۔ مغربی ملکوں نے افریقا کی مستحکم حکومتوں کے خلاف بغاوتیں اُبھاریں، صحیح جمہوری اصولوں اور جائز طور پر منتخب ہونے والے سربراہان مملکت کے قتل کے منصوبوں میں بھی سرگرمی سے حصہ لیا اور مسندِ اقتدار پر کرپٹ اور ڈھل جانے والے حکام کو لابٹھایا‘‘۔
اقوام متحدہ نے اگرچہ کانگو میں خونریزی بند کرانے کا ارادہ ظاہر کر دیا (۲۰۰۶ء کے موسم گرما میں اقوام متحدہ کی افواج کی سب سے بڑی تعداد وہاں تعینات کر دی گئی) لیکن امریکا اور G-8 کے ممالک نے کوئی تعاون نہ کیا۔ ٹائم کے الفاظ میں ’’دنیا نے کانگو کے خون کو بہتے ہوئے دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ ۲۰۰۰ء سے اقوام متحدہ نے کانگو میں اپنی امن فوج کی تعیناتی پراربوں ڈالر خرچ کردیے۔ ماہ فروری میں اقوام متحدہ اور کانگو میں کام کرنے والے امدادی گروپوں نے ۶۸ کروڑ ۲۰ لاکھ ڈالر مانگے تھے لیکن اب تک انہیں صرف ۹ کروڑ ۴۰ لاکھ ڈالر ملے، یعنی ہر ضرورت مند آدمی کے لیے ۹ ڈالر ۴۰ سینٹ موصول ہوئے‘‘۔
خونریزی کے واقعات کانگو کی سرحدوں کے اندر محدود نہیں رہے، اس کے پڑوس میں سوڈان کاخطہ ’’دارفور‘‘ بھی ایسے ہی ہیبت ناک واقعات کی لپیٹ میں ہے، ۲۰ سال سے جاری جنگ و جدل میں بیس لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس خونریزی میں کچھ حصہ وسائل میں سے پسندیدہ ترین وسیلہ ’’تیل‘‘ کا ہے۔ تاہم اس میں مذہبی اور نسلی عناد کا بھی دخل رہا ہے جس کی جڑیں ماضی کی تاریخ میں ہیں، تاہم ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں یہ واقعات نئی بلندیوں کو چھونے لگے۔ معاشی غارت گروں اور گیدڑوں نے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ ان سرگرمیوں کا مقصد آئل فیلڈز کا کنٹرول چھیننا تھا۔ باہمی لڑائیاں اور سماجی بحران انسانوں کے اغواء اور انہیں غلام بنانا بھی آسان بنا دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں تقریباً ڈھائی لاکھ سوڈانیوں کو اغوا کر کے غلام بنا لیا گیا۔ ان میں سے کئی جواں سال عورتوں کو (جیسا کہ میرے سکندریہ کے دوست سمی اور سمنتھا کی والدہ کے ساتھ ہوا) جنسی تجارت کے لیے فروخت کر دیا گیا۔ ’’مہذب‘‘ دنیا کے بہت سے لوگ یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ انسانوں کی فروخت ۱۹ ویں صدی میں ختم ہو گئی تھی، حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔
اس کا جواز یہ گھڑا گیا ہے کہ سوڈان کو دہشت گردوں سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے اس کام میں سوڈان کی اس ’’شہرت‘‘ سے فائدہ اٹھایا گیا ہے کہ وہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ اسامہ بن لادن نے ۱۹۹۲ء میں سعودی عرب سے نکالے جانے کے بعد سوڈان ہی میں پناہ لی تھی اور اس ملک کو القاعدہ کی جنم بھومی (برتھ پلیس) قرار دیا گیاہے۔ میڈیا کے لیے اسے ’’برائی کے محور‘‘ (Axis of evil) کا حلیف ظاہر کر کے نظرانداز کر دینا بہت آسان کام ہے۔کانگو اور سوڈان وسائل کی لوٹ مار کا نشانہ بننے والے ممالک میں سرفہرست ہیں۔ جنگ و بدامنی کے شعلے اور غربت و افلاس قدرتی وسائل لوٹنے پر مبنی نظاموں کو دوام بخشنے میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ لیبر بے حد سستی ہے اور مقامی سیاستدان لوٹ مار میں سے اپنا حصہ پانے کے سوا کسی چیز سے غرض نہیں رکھتے جینی ولیمز نے اپنے دورۂ کینیا اور یوگنڈا میں ایمپائر بلڈنگ میں ممد و معاون بننے کے جن واقعات کا مشاہدہ کیا، ان میں این جی اوز کا خاص طور پر ذکر آیا ہے۔ دو نوجوان امریکیوں کی کہانی کے بعض پہلو جینی کے بیان کردہ واقعات کی بہ نسبت زیادہ سنسنی خیز ہیں۔ وہ اس لیے امن دستوں (Peace Corps) میں شامل ہوئے تھے کہ وہ افریقیوں سے ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے۔ یہ کہانی امریکی پالیسی سازوں، غیر ملکی حکومتوں، این جی اوز اور زراعت پر مبنی صنعت کے حصہ داروں کی تیار کردہ سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔
(ماخوذ از “The Secret History of the American Empire”)
Leave a Reply