جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر عجیب انداز میں حملہ ہوا‘ اس وقت مختلف لوگوں نے تہذیبوں کے تصادم پر مضامین لکھے۔ ایک مضمون میں نے بھی لکھا تھا جس میں یہ بھی لکھا تھا کہ سامراج واد یا مغرب سے لڑنے کا القاعدہ کا طریقہ انوکھا تو ہے تاریخی بھی ہے لیکن نہ کارگر ہے نہ صحیح۔ اگر اسلام کی طرف سے مغرب یا سامراج سے لڑنا اور مقابلہ کرنا ہے تو اسلام کے پاس تو اس سے زیادہ کارگر ہتھیار ہے۔ ۱۱ ستمبر کا ہتھیار اسلام کا ہتھیار نہیں تھا یہ تو مغرب کا ہتھیار تھا۔ اسلام کا اسلحہ تو اس سے کہیں زیادہ برتر ہے۔ اگر اس کا استعمال کر کے کوئی بڑا مسلمان معاشرہ یا معاشرہ کا ایک حصہ ہی اپنے آپ کو متحد کر لے تو سچ مچ دنیا میں ایک بڑا انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ اپنے مذکورہ مضمون میں‘ مَیں نے اسلام کے اسی اسلحہ کا تذکرہ کیا کہ سود حرام ہے جو ناجائز اور گناہ ہے۔ قرآن نے اس بات کا ذکر متعدد بار کیا ہے۔ اس کا سامراج واد سے کیا رشتہ ہے اس پر میں نے زیادہ بحث نہیں کی تھی۔ اس موضوع پر پچھلے کئی دنوں سے مسلسل سوچ رہا ہوں ویسے میں معاشیات کا طالب علم تو نہیں ہوں لیکن اگر کوئی معاشیات کا آدمی مل گیا تو اس سے کہوں گا کہ قرض کے اوپر دو حصوں میں ایک کتاب لکھے۔ آج پوری دنیا قرض پر چل رہی ہے اس لیے قرض اور سرمایہ کے بارے میں کارل مارکس نے اپنی مشہور کتاب لکھی تھی۔ مجوزہ کتاب کے پہلے حصہ میں اس کی تفصیل بیان کی جائے کہ آج قرض کے لین دین کی کیا کیا صورتیں رائج ہیں۔ دوسرے حصہ میں یہ بتایا جائے کہ اس بارے میں کیا کیا نظریات کام کر رہے ہیں اور مستقبل میں اس پر مضبوط اور بہتر ڈھنگ میں کیسے سوچا جاسکتا ہے۔
قرض کس قدر اہم ہے۔ بھارت میں ۲۰۰۴ء میں انتخابات ہوئے۔ ان میں دو باتوں کا بڑا چرچا ہوا۔ شروع میں لوگوں نے کہا کہ یہ سیکولرزم کی جیت ہے۔ فرقہ واریت کی دہشت کے خلاف لوگوں نے ووٹ دیا ہے لیکن جیسے جیسے بجٹ نزدیک آنے لگا تو چرچا کا فوکس بدل گیا کہ کسان کو کیسے خوش کرنا ہے۔ ان کی حالت سدھارنی ہے۔ بجٹ اجلاس کی تقریروں میں کسان ہی بحث کا مرکز تھا۔ کیوں؟ اس لیے کہ کسان قرض میں ڈوبا ہوا ہے قرض کے باعث ہی وہ جان گنوا رہا ہے۔ اس کی مدد کی کوشش کی جارہی ہے یا اس کا استحصال کیا جا رہا ہے‘ اس پر غور کرنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ قرض آدمی کو کیوں ڈبو دیتا ہے کسان اس سے کیوں مر رہا ہے۔ ۲۰۰۴ء کا جو بجٹ بنا تھا اس کو غور سے دیکھیں اس میں دو گراف ہیں۔ ایک گراف سے معلوم ہوتا ہے کہ مثلاً بجٹ کی آمد سو پیسہ‘ ایک روپے ہے تو یہ روپیہ کہاں سے آیا۔ دوسرا گراف بتاتا ہے کہ بجٹ کے اخراجات (رواں بجٹ میں ۷۱۵ لاکھ کروڑ روپے ہے) میں کتنا پیسہ کس مد میں خرچ ہوتا ہے۔ بجٹ کے ان گرافوں کو سامنے رکھیے اور دیکھیے کہ سب سے اوپر کیا ہے؟ سب سے زیادہ آمدنی اور سب سے زیادہ خرچ کے بطور ایک تو ہے ایکسائز ڈیوٹی‘ دوسرا ہے قرض۔ ایکسائز ڈیوٹی جسے کارپوریٹ ٹیکس بھی کہتے ہیں‘ یہ آدمی کا سب سے بڑا مآخذ نہیں ہے‘ آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قرض‘ موجودہ بجٹ میں قرض کا حصہ کل آمد میں ۲۴ فیصد ہے اور ایکسائز ڈیوٹی کا ۱۹ فیصد‘ کارپوریٹ ٹیکس کا سولہ فیصد یعنی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ قرض ہے۔
بھارت کے اعداد و شمار دیکھیے‘ اخراجات کی تفصیلات دیکھیے‘ اخراجات سب سے زیادہ کس چیز میں ہوتے ہیں‘ آپ کو لگتا ہو گا کہ دفاع پر ہوتے ہوں گے‘ یوجنائوں اور منصوبوں پر ہوتا ہو گا لیکن ایسا نہیں۔ بجٹ میں دفاع پر صرف ۱۴ فیصد خرچ ہوتا ہے۔ مرکزی پلاننگ پر صرف سولہ فیصد لیکن سود پر ۲۳ فیصد ہے۔ دفاع سے بھی زیادہ۔ قرض اور سود ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ جب پہلے سال آپ حساب کریں گے کہ کتنا قرض دیا اور اس پر اتنا سود ہوا‘ لیکن ۵۴ سال بعد معلوم ہو گا کہ وہ دونوں مل کر قرض ہو گئے اور اب اس پر مسلسل سود بڑھ رہا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ آج گلوبلائزیشن (Globalisation) کا نظریہ چل رہا ہے۔ ہمارے ملک اور دوسرے ملکوں پر‘ افریقہ کے کئی ملکوں میں بھی ۱۹۸۰ء سے گلوبلائزیشن شروع ہوا تو وہ غربت کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ ۱۹۹۶ء میں ایک جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ ان ممالک نے جتنا قرض لیا تھا اس کا تین گنا وہ ادا کر چکے ہیں اور اب بھی تین گنا سے زیادہ انہیں واپس کرنا ہے۔ بہت سے ملکوں کی حالت تو یہ ہے کہ ان پر چڑھا ہوا سود کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ ایک عجیب بات اور بھی ہے کہ یہ سود اور قرض ایسی کرشماتی چیز ہے کہ سب سے زیادہ ثروت مند اور طاقتور ملک بھی قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں برازیل ہے‘ ہندوستان ہے‘ ارجنٹائنا ہے‘ کیا یہ قرض میں ڈوبے ہوئے نہیں ہیں؟ غریب ممالک تو قرض کے باعث بالکل محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ لیکن دنیا میں سب سے زیادہ جس ملک نے قرض لیا ہوا ہے وہ امریکا ہے۔
ترقی پذیر ملکوں کے اوپر جو قرض ہے وہ ہے ڈھائی لاکھ کروڑ ڈالر‘ اور تنہا امریکا کے اوپر قرض ہے ۲ء۲ لاکھ کروڑ ڈالر۔ اس کا راز کیا ہے؟ ایک ہاتھی کو ایک کسان کے گھر میں چھوڑ دیں اور رکھنے کے لیے کہیں تو کسان برباد ہو جائے گا تو قرض کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ قرض ترقی پذیر ملکوں کو تو برباد کر رہا ہے۔ لیکن امریکا سب سے زیادہ قرضہ لے کر بھی دنیا کا دادا بنا ہوا ہے۔ کیا اس معاملہ پر لوگوں کو سنجیدگی اور گہرائی سے سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرض کیا ہے؟ کہاں سے آیا‘ آج کی دنیا میں قرض وہی مانا جاتا ہے‘ جس پر سود ملے‘ بنا سود کے قرض نہیں ہوتا۔ آج کی معیشت ہے جسے آپ سرمایہ داری کہیں یا مارکیٹ اکنامی کہیں یا معاشی سامراج‘ جو بھی نام دیں‘ یہ معاشی نظام قرض پر اور سود پر ٹکا ہوا ہے اور اس نظام کی اصل بنیاد زر ہے۔ یہ پونجی لے گا‘ اُس سے کاروبار کرے گا‘ تجارت کرے گا۔ اُسے صرف پونجی واپس کرنے کے لیے محنت کرنی ہو گی بلکہ کچھ بچت کی‘ فائدہ کی بھی کوشش ہو گی۔ یہ کوشش ہو گی کہ فائدہ زیادہ سے زیادہ ہو‘ زیادہ سے زیادہ سرمایہ اور پونجی بچے اور زیادہ سے زیادہ پونجی کیسے بنے گی؟
دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں‘ وہ زمین کی ہی کسی چیز سے بنی ہیں‘ ان کو ہم فطری وسائل و ذرائع کہتے ہیں۔ جب ان فطری ذرائع کو نیا روپ‘ نئی شکل اور نئی رفتار دیتے ہیں تو معیشت کی تخلیق ہوتی ہے۔ یعنی بنیادی طور پر معیشت زمینی چیزوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک وقت آئے گا کہ فطری ذرائع ختم ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ہم ان کو مسلسل استعمال کرتے ہی جائیں گے تو ایک دن وہ ختم ہی ہوں گے۔ فطری ذرائع کے ختم ہو جانے کا مطلب ہو گا کہ دنیا ہی ختم ہو جائے۔ سرمایہ داری میں اس کو روکنے کا کوئی تصور نہیں۔ پاکستان بھارت جیسے ملک بھی سرمایہ داری کے حامل ہیں اور ان سے بھی آگے امریکا و یورپ ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ ہم اتنا زر پیدا کریں گے‘ اس سے زیادہ نہیں کریں گے۔ امریکا بھی چاہتا ہے کہ امریکی شہری کا معیارِ زندگی بڑھتا ہی چلا جائے‘ رکنا نہیں چاہیے۔ یہی سوچ غریب ممالک کی بھی ہے‘ ہندوستان کے تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے۔ ہندوستان کے معاشی ماہرین کی ہے کہ کتنا پروڈکشن ہو‘ کتنی ترقی ہو‘ اس کی کوئی حد نہیں ہے‘ اسے Endless Growth کہتے ہیں۔ حالانکہ یہ غیرمعقول رویہ اور نرا پاگل پن ہے۔ پوری دنیا میں اسی طرح کا نظامِ معیشت چل رہا ہے۔ اسی کو گلوبلائزیشن کہتے ہیں۔ آج ہم اس سے لڑنے کا طریقہ سوچتے ہیں۔ ایک طریقہ جو بہت معروف ہے‘ وہ سماج وادیوں اور سوشلسٹوں کا ہے۔ حالانکہ ان کی فکر اور طاقت اب کمزور پڑ گئی ہے۔ کمیونسٹ‘ سماج وادی (جن میں بعض گاندھی واد سے الگ سوچ رکھتے ہیں) یہ لوگ سرمایہ داروں کو توڑنا چاہتے ہیں لیکن یہ Endless Growth کا جو معاملہ ہے‘ اس سے یہ دستبردار نہیں ہو سکتے۔ تو نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ان کو کانگریس کے ساتھ مل کر متحدہ پروگریسو الائنس بنانا پڑا۔ حالانکہ وزیراعظم نے شروع ہی میں کہہ دیا تھا اور لوگ بھی جانتے تھے کہ وہ گلوبلائزیشن و نجی کرن کے پابند ہیں۔ لیکن ایسے ہی آدمی کے ساتھ ان کو گٹھ بندھن کرنا پڑا۔
کچھ ہی بڑے اور طاقتور ملک‘ امریکا‘ برطانیہ یا جرمنی و جاپان وغیرہ جو جی ایٹ (G-8) میں شامل ہیں یا ان کے علاوہ کچھ اور ملک بھی ہو سکتے ہیں جو یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ پروڈکشن میں بے تحاشا اضافہ فائدہ مند ہے۔ باقی دنیا کے عوام کو یہ اعتماد حاصل نہیں بلکہ انہیں یہ احساس ہے کہ حکمرانوں کے ترقی کے تمام تر وعدوں کے باوجود ملک میں کوئی ترقی نہیں ہو پارہی ہے۔
آج کا جو موضوع ہے اس کی بنیاد یہ ہے کہ کیا معاشیات کا تصور بلاسود کے کیا جاسکتا ہے؟ کیا بلاسودی معیشت سے گلوبلائزیشن یا سرمایہ داری کو چیلنج دیا جاسکے گا؟ چیلنج بھی ہو تو کیا لوگ اسے مان لیں گے‘ اسے پسند کریں گے‘ اس کی طاقت بنے گی‘ کیا اس کا امکان ہے؟ میں اس بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے میں نے اس سلسلے میں زیادہ نہیں پڑھا تھا۔ اتنا معلوم تھا کہ قرآن سود کو حرام قرار دیتا ہے‘ اسے ربا کہا جاتا ہے لیکن اس تصور پر مبنی لٹریچر بھی موجود ہے‘ یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔ نجات اﷲ صدیقی کی کتابیں اور پروفیسر خورشید احمد صاحب کا ایک لمبا مضمون نظر سے گزرا۔ مجھے خوشی ہوئی اور تعجب بھی کہ مسلم سماج میں اس موضوع پر غور و فکر چل رہا ہے اور کچھ کام چل رہا ہے کہ بلاسودی تصورِ معیشت کو دنیا میں عام کیا جائے‘ سود کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اب اگر سود کو ایک بار ختم کر دیا جائے تو سرمایہ داری کی بنیاد ہی ہل جائے گی۔ قرض کا جو کھیل ہے اب وہ پچاس سال اور سو سال پہلے کے کھیل سے کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ جو بڑے بڑے گھرانے ہیں‘ معاشی کارپوریشن ہیں‘ ان کے بارے میں جلدی سے پتا نہیں چلے گا کہ ان کے پاس جو دولت و ثروت ہے‘ جو خزانے ہیں‘ کیا ان کو پیدوار پروڈکشن میں لگایا جارہا ہے یا پونجی سے ہی پونجی پیدا کی جارہی ہے۔ پیسہ سے پیسہ بن رہا ہے جسے سٹہ بازی کہتے ہیں‘ جوا کہتے ہیں (Speculation Gambling) دنیا کے بڑے بڑے بازار‘ معاشی مراکز جیسے لندن و نیویارک ہیں‘ یہاں پیسہ پیداوار میں کم‘ پیسہ سے پیسہ بنانے میں زیادہ لگایا جاتا ہے۔ اس بارے میں لکھا جانے لگا ہے کہ پیسہ کا سیدھا استعمال نہیں ہو رہا ہے بلکہ اسے قرض پر دے کر اس سے پیسہ بنایا جارہا ہے۔ آج عام سود کی شرح تین فیصد سے لے کر دو فیصد ہے لیکن جب غریب ممالک امریکا‘ ورلڈ بینک‘ کمرشل بینک آف یورپ سے قرض لیتے ہیں تو اس کی شرح سود ہوتی ہے۔ دس فیصد‘ ۱۳ فیصد یہاں تک کہ ۱۸ فیصد بھی۔
غور فرمائیے کہ کتنا بڑا دائرہ اور جال سود کا ہے۔ فرض کیجیے کہ امریکا یا برطانیہ نے ہم سے تین فیصد پر قرض لیا اور اسے افریقہ کے کسی ملک سے دس فیصد سود پر دے دیا تو بہت بڑی کمائی ہو گئی کہ نہیں؟ اسی طرح بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھارت کو عطیہ دے رہے ہیں وہ بھی یہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ایک تنظیم ہے ڈی ایف آئی ڈی‘ اس کے بارے میں ایک کیس سنا تھا۔ اڑیسہ ایک غریب ریاست ہے‘ اس تنظیم نے فرض کیجیے کہ ایک ہزار کروڑ ڈالر امدادی قرض کے بطور دے دیے تو وہ لوگ یہ ایک ہزار کروڑ یک مشت نہیں دیتے بلکہ پانچ کروڑ یا ۳۰۰ کروڑ دے دیے۔ باقی جو پیسہ ہے وہ رہے گا تو ڈی ایف آئی ڈی کے خزانے میں ہی لیکن لکھا جائے گا کہ اڑیسہ کو دے دیا گیا۔ اس کے پاس وہ رقم رہے گی تو اس پر سود بڑھتا رہے گا جو پہلے پانچ سو کروڑ ڈالر ہو گا پھر سو کروڑ ڈالر ہو جائے گا۔ اسی پیسہ کو وہ اڑیسہ کو دے دیں گے یعنی اڑیسہ ہی کا پیسہ سود لگا کر اسی کو بطور قرض دیں گے۔ مجھے تو اس کی معلومات کم ہیں لیکن اگر کوئی اس کی تحقیق کرے گا‘ ڈیٹا اکٹھا کر کے جائزہ لے گا تو وہ حیران رہ جائے گا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسے اس معاشی ڈاکہ زنی اور لوٹ پاٹ کو تعبیر کرنے کے لیے الفاظ نہ ملیں گے۔ یہ کھلی چوری ہے‘ اسی غیراخلاقی کام اور چوری کے بل پر امریکا و یورپ کے لوگ ترقی کر رہے ہیں‘ معیارِ زندگی بڑھا رہے ہیں‘ اخراجات بڑھا رہے ہیں۔
ہندوستان کے ایک سیاستدان آزادی سے پہلے تھے دادا بھائی نوروجی۔ انہوں نے معیشت میں ایک Drain Theory دی تھی۔ آج ہندوستان میں معاشیات پڑھائی جاتی ہے‘ اس میں نہ تھیوری کا ذکر ملتا ہے‘ نہ دادا بھائی نوروجی کی کتاب آج کے ماہرینِ اقتصادیات نے پڑھی ہے۔ اس تھیوری کا مطلب ہے کہ ایک جگہ سے سرمایہ نکال کر دوسری جگہ اکٹھا کر لیا۔ ترقی یافتہ ممالک ہندوستان‘ افریقہ یا لاطینی امریکا کا سرمایہ لے کر اپنے یہاں ڈرین کر دیتے ہیں۔ نتیجہ؟ یہاں سوکھا پڑ جائے گا‘ ریزرو خزانہ تک ختم ہو جاتا ہے‘ گڑھا ہو جاتا ہے جبکہ ان کے یہاں سرمایہ اور زر کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ وہ فوجی حملہ کرتے اور سیدھی لوٹ پاٹ کر کے لے جاتے تھے جیسا کہ قرونِ وسطیٰ کی تاریخ میں ہوا۔ آج سود کے ذریعہ یہ لوٹ چل رہی ہے۔ سود کے بارے میں سبھی مذاہب میں خبردار کیا گیا ہے لیکن جتنے منظم طریقہ سے فرد اور اجتماعی سطح پر جس شدت سے اسلام نے اس کا راستہ روکا ہے اتنا کسی دوسرے مذہب نے نہیں۔
عیسائیت میں بھی سود خوری کی مذمت کی گئی ہے لیکن اسلام نے باضابطہ اصول دیے ہیں۔ سود خوری کیا ہے؟ سود کیا ہے؟ اس کو انگریزی میں Unequal Exchange بھی کہتے ہیں۔ میں آپ کو اتنی چاندی دوں گا اور بدلہ میں اتنا ہی سونا لے لوں گا۔ یہ منصفانہ معاملہ نہیں ہوا بلکہ ناانصافی ہوئی۔ ایک آدمی مجھے کوئی گھٹیا چیز دے دے‘ مجھ سے بہترین چیز لے لے تو یہ صحیح نہیں‘ یہ تو لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ہی کیا جاسکتا ہے یا ان کو بے وقوف بنا کر کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے مذاہب نے اس کی مخالفت کی۔ اسلام نے سب سے زیادہ اور باضابطہ کی ہے۔ اس کی الگ الگ تقسیمیں کی ہیں۔ اب اگر ہم اس کی کوئی مہم چلاتے ہیں‘ اس کے خلاف لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے آندولن چلانا چاہیں تو جلدی سے سب لوگوں کے ذہن میں نہیں آئے گا‘ ہم اس بارے میں ہندو‘ عیسائی‘ مسلمان سب سے بات کریں‘ کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ ناانصافی ہو اور ظلم پر مبنی کاروبار چلے۔ لیکن ایسی کسی بھی مہم کو مسلمان ہی لے کر کھڑے ہو سکتے ہیں‘ اس لیے کہ ہر مسلمان کی نفسیات میں یہ بات پڑی ہوئی ہے کہ یہ پیغمبر کا فرمایا ہوا ہے۔ چودہ سو سال سے مسلمان قوم کی ذہنیت اسی سے بن رہی ہے۔ یہ ان کے مذہب کا اصول ہے‘ اس لیے جتنی جلد اسی کی سمجھ میں یہ آجائے گا جتنا جوش اسے محسوس ہو گا اتنی جلدی ہندو یا عیسائی کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس لیے ایسے کسی آندولن میں مسلمانوں کو ہی آگے آنا ہو گا۔
کہتے ہیں کہ دنیا ایک ہو گئی ہے۔ امریکا کے سامان ہمارے یہاں‘ پاکستان‘ افریقہ‘ لاطینی امریکا وغیرہ کے سامان وہاں بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں کون سا سامان آتا ہے۔ اس کو سمجھنے سے ہی سرمایہ داری کی بنیاد سمجھ میں آجاتی ہے۔ ایشیا‘ افریقہ‘ لاطینی امریکا جو مال یورپ و امریکا کو بھیجتے ہیں‘ وہ کاشت کے ذریعہ پیدا خام مال ہوتا ہے۔ زمین کے اندر سے نکلی معدنیات ہوتی ہیں۔ خام مال کو غریب دنیا ترقی یافتہ ملکوں کو بھیجتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا انہیں کیا دیتی ہے؟ جدید ٹیکنالوجی اور اس سے بنی ہوئی چیزیں‘ ہوائی جہاز‘ کمپیوٹر‘ موبائل ٹیلی فون‘ ان کے دام کیسے لگائے جاتے ہیں۔ موٹر گاڑی میں جو المونیم لگایا جاتا ہے‘ وہ باکسائٹ اور المونیم کے داموں میں فرق ہے۔ اسے آپ دیکھیں گے تو زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ میں اڑیسہ سے آتا ہوں۔ اڑیسہ میں کچھ معدنیاتی اشیا ہیں‘ جن کی بہت مانگ ہے‘ آج کی دنیا میں بہت قیمت ہے۔ آج دو چیزوں کی سب سے زیادہ اہمیت ہے: ایک ہے پیٹرول دوسری المونیم‘ جو آج ایک نمبر کی دھات مانی جاتی ہے۔ یہاں ضمناً یہ بتا دوں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاں معدنیاتی ذرائع ہیں‘ بہار میں‘ جھاڑکھنڈ میں‘ وہاں زیادہ ترقی اور زیادہ دولت ہوتی ہے‘ یہ محض بیوقوفی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی بتا دیجیے کہ جہاں معدنیاتی کانیں ہیں وہ ترقی اور خوش حال ہیں بلکہ جہاں یہ چیزیں ہوتی ہیں وہ ملک تو برباد کر دیے جاتے ہیں جو ان سے محروم ہیں وہ آباد ہیں۔ جاپان کے پاس یہ کچھ نہیں ہے لیکن وہ ترقی یافتہ ہے۔ آج کی سرمایہ داری اور جدید تہذیب نے یہی حال دنیا کا بنایا ہے۔ آج تو المونیم نمبر ایک کی دھات ہے‘ کچھ پہلے اسٹیل تھا۔ اس وقت اڑیسہ اور مدھیہ پردیش سے لوہے کا پتھر جاپان کو جاتا تھا۔ پتھر پتھر کے دام پر جاتا تھا اور جاپان اس سے جو چیز بنا کر بیچتا تھا اس کے نرخ ہوائی جہاز کے ہوتے تھے۔ آج کی دنیا جو ثروت مند اور غریب ملکوں میں بٹی ہے اس کا راز یہی غیرمساوی تبادلہ ہے۔ آج کوئی مہا پرش یا پیغمبر آجائے تو وہ اسی غیرمساوی تبادلہ کے خلاف جہاد کرے گا۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ امریکا غریب اور افریقہ امیر ہو جائے گا اور دنیا سے یہ غیرمساوی تبادلہ ختم ہو جائے گا۔
اسلام نے سود لینے کو منع کر دیا ہے‘ غیرمنصفانہ تبادلہ سے روکا ہے‘ یہ سرمایہ کی جڑ پر ضرب کاری ہے۔ معاشیات اور کاروبار میں اخلاقیات کا لحاظ رکھنا یہ اسلام کی بہت بڑی دین ہے۔ قرآن نے پیسہ اور مال کے کاروبار میں بھی اخلاقیات پر بہت زور دیا ہے۔ یہ اس کی بڑی عظیم دین ہے۔ نجات اﷲ صدیقی صاحب کا میں نے ابھی ذکر کیا تھا۔ انہوں نے اس پر ہی زور دیا ہے کہ اسلام کے معاشی نقطۂ نظر کو اپنائیں‘ دنیا اسے اختیار کرے‘ اس کے نقطۂ نظر کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔ ایک یہ کہ ربا و سود حرام ہے دوسرے میسرر‘ جوا (Gambling) بھی حرام ہے۔ جو پیسہ سے پیسہ بنانے کا نام ہے اور پیسہ سے پیسہ بنانا مہا باپ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہو گا؟ جواب یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے بتائے گئے اصولوں میں وہ راستہ موجود ہے۔ اس کی رہنمائی کو قبول کر لیں تو نئی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہندوئوں اور یہودیوں کا جو اخلاق ہے اس کی رو سے دھن (مال) بالکل تیاگ دینا چاہیے‘ مال ترک کرو‘ یہ معمولی چیز نہیں لیکن ساتھ ہی یہ عام آدمی کے لیے ممکن بھی نہیں۔ قرآن کے تصور کی یہی ایک خصوصیت ہے اور امتیاز ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ مال کمانا برا نہیں‘ مال کمائو‘ سماجی بقا کے لیے زندگی گزارنے کے لیے مال کمانا ہو گا۔ لیکن مال کی کمائی میں اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑو کیونکہ یہ مال جو آپ کے پاس ہے یہ آپ کے پاس امانت ہے‘ آپ اس کے ٹرسٹی ہیں۔ مہاتما گاندھی نے بھی ٹرسٹی شپ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے اس نظریے کو اسلام سے لیا ہے‘ انہوں نے کہیں پڑھا ہو گا یا قرآن کا مطالعہ کیا ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کے پاس اصول کو نافذ کرنے میں پیسہ کے ادھار لین دین کا کیا ہو گا؟ اس کا طریقہ ہے جب ہم ادھار کو الگ کر دیں (موجودہ) قرض کو الگ۔ ہم کمزور حالت میں ہیں‘ پیسہ کی ضرورت ہے تو ادھار کیسے ملے گا‘ اسلام نے اس کے دو طریقے بتائے ہیں۔ سامان‘ کھانے کی اشیا وغیرہ پہلے لیں‘ پیسہ بعد میں دیں تو اس کریڈٹ میں تھوڑا سا زیادہ پیسہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کو مرابحہ کہتے ہیں۔ اب اس سے آگے بڑھ کر کاروبار کرنا ہے‘ تجارت کرنا ہے تو وہ آگے آئے گا ’’مضاربت‘‘ کے دائرہ میں۔ مثلاً آپ کے پاس پیسہ ہے‘ میرے پاس نہیں اور میں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں تو آپ پیسے دے کر اس کام میں حصہ دار ہو جائیے‘ نفع میں بھی حصہ داری ہو گی نقصان میں بھی۔ ہمیشہ نفع ہی ملے ایسا کوئی مذہب یا اخلاقی اصول دنیا میں نہیں۔
کسی کام میں ہمیشہ آپ کو فائدہ ہی ہو نہ ایسا ہندو دھرم کہتا ہے‘ نہ اسلام نہ عیسائیت نہ یہودیت۔ یہ تو خالص سرمایہ داری کا نظریہ ہے۔ کبھی نقصان کبھی فائدہ۔ یہ غیرسرمایہ دارانہ نظریہ ہے۔ کیوں نہ ہم اس اصول کو اقتصادیات میں لاگو کرنے کی مہم چلائیں۔ صدیقی صاحب لکھتے ہیں ’’گزشتہ پچاس سال میں مختلف اسلامی ملکوں حتیٰ کہ بعض یورپی ملکوں میں بھی غیرسودی کاروبار کرنے والے ادارے بنے ہیں اور یہ معاشی نظریہ پھیل رہا ہے لیکن ابھی کسی بڑے پیمانے پر اس کا چرچا نہیں ہوا ہے‘ جہاں کہیں تنظیمیں بنی ہیں۔ نجات صاحب کہتے ہیں کہ بعض مسلم حکمراں جوش میں آ کے شریعت کو لاگو کرنے (شریعت لاگو ہو گی تو اسی کے مطابق اقتصادیات بھی چلے گی) کا اعلان کر دیتے ہیں لیکن چونکہ اس کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور وہ موجودہ سامراج واد سے دبے ہوئے ہیں اس کے پھندے میں جکڑے ہیں اس لیے کچھ کر نہیں پاتے کیونکہ صحیح طریقہ کا احساسو شعور ہی نہیں۔ جیسے پاکستان یا ایران وغیرہ جو جوش حکومت یا جوشِ عقیدت میں ایسے اعلانات کر دیتے ہیں۔ ایران میں جو برطانوی مالیاتی ادارے ہیں‘ ان میں اتنا تو ہے کہ غریبوں کو تعمیر کرنے کے لیے کچھ بینکوں سے پیسہ مل جاتا ہے‘ اس سے زیادہ نہیں۔ سرمایہ داری اور پونجی واد سے لڑنا تو بلاسودی نظامِ معیشت اپنانی ہو گی اسی سے معیشت میں بنیادی تبدیلی آئے گی۔ معیشت میں تبدیلی آگئی تو نہ بل گیٹس جیسے رئیس ہوں گے اور نہ غریب ملک غریب رہیں گے۔
۱۷۶۰ء سے پہلے یعنی جب سے یورپی سامراج واد ہمارے ملکوں میں در آیا تب یورپ‘ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں اتنا زیادہ فرق نہیں تھا۔ یورپ سے تو بھارت ہی کی معاشی حالت اچھی تھی‘ چین کی اچھی تھی۔ گزشتہ تین صدیوں میں جو زبردست فرق آگیا ہے وہ تین سو سال پہلے نہیں تھا۔ سامراج کے غلبہ کے بعد سے لگاتار یہ معاشی نابرابری بڑھ رہی ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے؟ یہی دو سبب ہیں ایک تو ہمارے یہاں سے جو سامان لے جایا جارہا ہے اور ان کا جو سامان ہمارے یہاں آرہا ہے‘ دونوں میں غیرمساوی تبادلہ ہے۔ نمبر دو انہوں نے ہمیں اپنا محتاج بنا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے ہم سے قرضہ لو‘ قرضہ دے کر پھر وہ ہمیں لوٹتے ہیں۔ ان کی ترقی ہوتی ہے۔ اس بارے میں ہم لوگوں میں جاکر انہیں بیدار کریں‘ مہم چلائیں تو وہ ایک انقلابی کام ہو گا۔ ثروت اور مال کے بارے میں لوگوں میں جو خیالات پھیلے ہوئے ہیں ان کو دور کرنا ہو گا۔ یہ واضح کرنا ہو گا کہ مال تو ناگزیر ہے لیکن یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کے پاس پیسہ ہے تو وہ پیسہ سے پیسہ بنائے۔ اس کا مال بڑھتا ہی چلا جائے کیونکہ یہ انسانیت اور اخلاق کے خلاف ہے۔ ہماری اس کوشش سے لوگوں میں بیداری آئے گی‘ انسان کی شعوری بیداری ظلم و ناانصافی ختم کرنے میں کسی بھی بم یا کسی بھی میزائل سے زیادہ کارگر ہو گی۔
(بشکریہ: سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ ۴ مارچ ۲۰۰۵ء۔۔۔ ترجمہ: عطریف شہباز ندوی)
Leave a Reply