
بابو بِرج بِہَاری لال
آنحضرتﷺ کی شان میں ناواقفیت یا شرارت سے یہ کہنا کہ ’’آپ کی تعلیم، قتل و خونریزی کی تعلیم تھی‘‘ بالکل غلط اور خلاف واقعہ ہے جس شخص کا دل ننھے منے بچوں کے رونے سے بے قرار و بے چین ہو جائے جو ہزاروں گالیاں سن کر بھی اپنی نگاہ نیچی رکھے۔ اور کعبہ کی فتح کے دن صبر و تحمل اور رحم و رواداری کا وہ بے مثل مظاہرہ کرے کہ جس کی نظیر فاتحین عالم کی پوری تاریخ میں نہ مل سکے۔ یعنی اپنے بد ترین دشمنوں کو بھی قابو میں لانے کے بعد معاف کر دے جو ظلم و تعدی کو صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرے۔ سب کچھ غریبوں اور مفلسوں پر نچھاور کر دے ۔ جو خود اپنے ہاتھوں سے غیر مسلموں کی خدمت گزاری کرے اور ان کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئے ۔ غیر مسلموں کے وفود اور سفارتوں کا استقبال کرے اور اپنی مسجد میں ایک غیر مسلم کی پھیلائی ہوئی گندگی اور نجاست کو اپنے بر گزیدہ ہاتھوں سے صاف کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔ کیا اس کی شان میں ایسا کہا جا سکتا ہے ؟
آنحضرتﷺ کی تعلیم ہمیشہ یہ رہی کہ جو فعل کیا جائے وہ خلوص اور سچائی سے کیا جائے۔ آپؐ کی تعلیم کا مقصد بنی نوع انسان کی خدمت گزاری کے سوا ہر گز ہرگز کچھ نہیں۔
جارج برناڈشا
بین الاقوامی شہر ت یافتہ مولف اور دانشور جناب جارج برناڈشایوں اظہار حقیقت کرتے ہیں۔
’’از منہ وسطی میں عیسائی راہبوں نے جہالت اور تعصب کی وجہ سے مذہب اسلام کی بڑی بھیانک تصور پیش کی ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ انہوں نے تو حضرت محمدﷺ کے مذہب کے خلاف با ضابطہ تحریک چلائی۔ انہوں نے حضرت محمدﷺ کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا۔ میں نے ان باتوں کا بغور مطالعہ اور مشاہدہ کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محمدﷺ ایک عظیم ہستی اور صحیح معنوں میں انسانیت کے نجات دہندہ ہیں‘‘
بر ناڈ شا جیسے عالمی شہرت یافتہ خود پرست و خود نگر اہل قلم نے جس کے مقام و مرتبہ سے کون واقف نہیں، برطانیہ جیسی جمہوریت پسند سر زمین سے یہ نعرہ بلند کیا کہ اگر پیغمبر اسلام کو آج بھی اس دنیا کا ڈکٹیٹر بنا دیا جائے تو ساری دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔
’’ میں رسول اکرم حضرت محمدﷺ کے دین کو ہمیشہ ہی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یہ الزام قطعی بے بنیاد ہے کہ آپؐ عیسائیوں کے دشمن تھے میں نے اس حیرت انگیز شخصیت کی سوانح مبارک کا گہرا مطالعہ کیا ہے میری رائے میں آپ پورے بنی نوع انسان کے محافظ تھے۔
آنے والے سو سال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہو گا مگر یہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہو گا بلکہ وہ اسلام ہو گا جو محمد رسول اللہ کے زمانے میں دلوں، دماغوں اور روحوں میں جا گزیں تھا۔‘‘
سر وِلیم میور
مشہور مستشرق سرولیم میور (Sir Willion Meuor) اپنی کتاب ’’دی لائف آف محمد‘‘ (The Life of Muhmamd)میں ر قم طراز ہے ۔
’’ہمیں بلا تکلف اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ تعلیم نبویﷺ نے ان تاریک توہمات کو ہمیشہ کے لیے جزیرہ نمائے عرب سے باہر نکال دیا جو صدیوں سے اس ملک پر چھا رہے تھے ۔ بت پرستی جلا وطن ہو گئی۔ توحید خداوندی اور رحمت الہیہ کا موجودہ تصور حضرت محمدﷺ کے متبعین کے دلوں کی گہرائیوں اور زندگی کی پنہائیوں میں جاگزیں ہو گیا۔ دیگر معاشرتی اصلاحات کی بھی کوئی کمی نہ رہی۔ ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت یتیموں کی پرورش، غلاموں سے احسان ، حرمت خمر وغیرہ سب کے سب جوہر نمودار ہو گئے۔ ترک ِمے کشی کرانے جیسا کامیاب مذہب اسلام ہوا ہے ، ویسی کامیابی کسی دوسرے مذہب کو نصیب نہیں ہوئی۔
سرولیم میور اسی کتاب میں دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں۔
’’محمدﷺ کے ایام جوانی میں ہی آپؐ کے اخلاق کی پاکیزگی و راستی اور عادت کریمہ کی طہارت پر سب مصنفین متفق ہیں، حالانکہ یہ دولت اہل مکہ میں نہایت کمیاب تھی۔ آپؐ کی شرم و حیا اعجازی طور پر محفوظ بیان کی جاتی ہے۔
قرآن پاک کے متعلق سر ولیم میور (The Life of Muhmmad) میں رقم طراز ہے ۔
’’قرآن پاک کا کوئی جزو، کوئی فقرہ ، کوئی لفظ ایسا نہیں کہ جسے جمع کرنے والوں نے چھوڑ دیا ہو اور کوئی ایسا اضافی لفظ نہیں سنا گیا جو کہ اس مسلم مجموعہ میں داخل کر دیا گیا ہو۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں۔ دنیا بھر میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں جو قرآن مجید کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک ہو۔‘‘
قرآن نے فطری اور کائناتی دلائل کے بل بوتے پر خدا کو سب سے اعلیٰ ہستی ثابت کر دکھایا اور انسانوں کو خدا کے حضور اطاعت و شکر گزاری پر جھکا دیا‘‘
سرولیم میور مزید لکھتے ہیں۔
’’ہمیں بغیر کسی پس و پیش کے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کی تعلیمات نے تو ہمات کا ہمیشہ کے لیے قلع قمع کر دیا ہے ۔ جو زمانہ دراز سے جزیرہ نمائے عرب پر محیط تھا۔ اسلام میں تمام اجتماعی خصوصیات موجود ہیں۔ برادرانہ محبت اس مذہب کا خاص جزو ہے یتیموں کے حقوق کی بھی حفاظت کی گئی ہے ۔ غلاموں کے ساتھ اچھے برتائو کا حکم ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ منشیات سے منع کیا گیا ہے جس کے لیے صرف یہی مذہب فخر کر سکتا ہے ۔
آگے چل کر اس کتاب میں سرولیم میور کہتے ہیں:
’’ یہ امر حضرت محمدﷺ کی صداقت کا بڑے زور سے موید ہے کہ جن لوگوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا وہ راست باز لوگ تھے ۔ وہ آپ کے محرم راز دوست اور آپ کے خاندان کے لوگ تھے جو آپ کی پرائیویٹ زندگی سے کامل آگاہی رکھتے تھے۔ اور اس اختلاف سے بے خبر نہ تھے جو ایک مفتری کی اندرونی و بیرونی زندگی میں لازمی طور سے ہوتا ہے ۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کے مذہب اسلام میں پرہیز گاری ، خدا ترسی ایسی کامل درجہ پر ہے جو دوسرے مذاہب میں ہرگز نہیں پائی جاتی۔ اور میں یہ بھی مانتا ہوں کہ اخلاق انسانی کی ترقی کا باعث صرف اسلام ہی ہوا ہے ۔‘‘
مہاتما گاندھی
سیرت النبیﷺ کے مطالعہ سے میرے اس عقیدے میں مزید پختگی اور استحکام آگیا کہ اسلام نے تلوار کے بل پر رسوخ حاصل نہیں کیا۔ بلکہ پیغمبرِ اسلام کی انتہائی بے نفسی ، عود و مواثیق کا انتہائی احترام اور اپنے رفقاء ومتبعین کے ساتھ گہری وابستگی، جرات، بے خوفی ، اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور اپنے مقصد و نصب العین کی حقانیت پر کامل اعتماد، اسلام کی کامیابی کے حقیقی اسباب تھے۔ یہ خصائص ہر رکاوٹ اور ہر مشکل کو اپنی ہمہ گیر رو میں بہا کر لے گئے۔
گاندھی مزید لکھتے ہیں۔
جس وقت تمام مغرب (یورپ) پر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ اس وقت ایک روشن و چمکدار ستارہ مشرق کے آسمان پر چمکا۔ اس نے نہ صرف ساری دنیا کو روشن کر دیا بلکہ تمام مصیبت زدہ مخلوق کو آرام و راحت پہنچائی۔ اسلام ان مذاہب میں نہیں جو جھوٹے کہے جاتے ہیں۔ اگر ہند و احترام کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کریں تو یقینا وہ بھی میری طرح اس کا احترام کرنے لگیں گے ۔
ڈاکٹر گبن
محمد رسول اللہﷺ کی نرم دلی نہ تو صرف قبیلہ قریش تک محدود تھی اور نہ مکہ کی چار دیواری تک ۔ مقدس رسومات کے موقع پر آپؐ اکثر خانہ کعبہ میں جایا کرتے تھے۔ جہاں ہر قبیلہ کے لوگوں سے آپ ملاقات کرتے تھے اور ان سے انفرادی طور پر بھی گفتگو فرماتے تھے اور انہیں ایک خدا کی پرستش کی تلقین کرتے تھے۔ آپ ہر شخص کو اس کے ضمیر کی آزادی دیتے تھے۔ کسی سے درشتی یا زیادتی کا برتائو نہ کرتے تھے۔ البتہ قومِ عاد و ثمود کے واقعات سے انہیں عبرت کا سبق دیتے تھے۔
مذہبی اور رسمی مواقع پر آپ اپنے اصحاب (صحابہ کرام ) کو نہایت فیاضی اور کشادہ دلی سے ضیا فتین دیا کرتے تھے اور گھر میں بہتر سے بہتر جو کچھ کھانے کو ہوتا تھا اسے پیش کرنے میں کبھی دریغ نہ فرماتے تھے۔ لیکن اس کے مقابلے میں آپ کی خانگی زندگی کے کتنے ہفتے ایسے گزرے ہوں گے کہ چولہے میں آگ جلنے کی نوبت نہیں آئی۔
ڈاکٹر گبن اپنی تالیف’’انحطاط و زوال سلطنتِ روما‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
’’قرآن کی نسبت بحراٹلانٹک سے لے کر دریائے گنگاتک نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ واضح راستہ ہے اور ایسے دانش مندانہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب شدہ ہے کہ اس کی نظیر پوری کائنات میں کہیں نہیں مل سکتی۔
ڈاکٹر گبن مزید تحریر کرتے ہیں:
’’قرآن و حدانیت کا سب سے بڑا گواہ ہے ۔ ایک توحید پرست فلسفی اگر کوئی مذہب قبول کر سکتا ہے ، تو وہ مذہب اسلام ہی ہے۔ غرض پوری کائنات میں قرآن پاک کی نظیر نہیں مل سکتی‘‘
گبن آگے مزید لکھتے ہیں:
’’محمد کا مذہب شک و ابہام سے بالکل مبریٰ ہے اور قرآن، خدا کی توحید کی درخشندہ شہادت، نبی عربی نے بتوں، انسانوں اور احرام سماویٰ کی پرستش کو اس بصیرت افروز دلیل کی بناء پر رد کر دیا کہ جو طلوع ہوتا ہے وہ غروب بھی ہوتا ہے جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا بھی ہے ۔ جس کی بنیاد میں فساد ہے اس کا مال ہلاکت اور تباہی ہے ۔ آپ کے دینی جوش اور ولولہ نے جو یکسر مبنی علی البصیرت تھا، خالق کائنات کی صورت میں ، اس لا انتہا ذاتِ سر مدی کا اقرار کر کے اسے مرکزِ حمد و ستائش قرا ر دے دیا۔ جو صورت اور مکان کی جہت سے بلند اور اولاد اور مثیل کی نسبتوں سے بالا تھی۔ وہ ذات جو ہمارے پوشیدہ خیالات تک میں موجود اور خود اپنی ذات سے قائم ہے اور جس کے سر چشمہ سے عقل و اخلاق کے جوہروں کی تکمیل ہوتی ہے ۔ یہ مسلک توحید اس قدر بلند ہے کہ ہماری موجودہ استعداد کی وہاں تک رسائی نہیں ہو سکتی۔
جو چیز ہمارے لیے سب سے زیادہ وجہ حیرت ہے وہ اسلام کی اس قدر جلد اشاعت نہیں بلکہ یہ کہ اس کی تعلیم کس قدر ابدی حقائق پر مبنی ہے وہی سادہ لیکن مکمل نقش جو محمد عربیؐ نے مکہ اور مدینہ میں انسانی قلوب پر مسکوک کیا اور جو ان بارہ صدیوں کے انقلاب کے باوجود ہندوستان سے افریقہ تک قرآن کے متبعین کے ہاں محفوظ چلا آتا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنے مذہب اور عقیدہ کے مقصود کو عام انسانی حواس و تخیل کی سطح پر اترنے نہیں دیا۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اسلام کا نہایت سادہ اور غیر متبدل عقیدہ ہے ۔ ان کا خدائی تصور بھی کبھی مرئی ہستیوں کا شرمندہ نہیں ہو سکا۔ رسول اللہ کا درجہ کبھی بشریت کی حد سے تجاوز نہیں کر سکا۔ اس کی زندہ تعلیمات نے اس کے متبعین کے جذباتِ عقیدت کو دین و دانش کے حدود سے باہر نہیں جانے دیا۔ یہ ہے اسلام کی سادہ اور ابدی تعلیم۔‘‘
’’ایک مکمل تہذیب‘‘ کے عنوان کے تحت گبن لکھتے ہیں۔ اسلام ایک ضابطہ الہیات سے کہیں زیادہ ہے ۔ وہ ایک مکمل تہذیب ہے ۔
سوامی لکشمن جی مہاراج
یہ ایک معروف صاحب قلم ہیں۔ حضور باعث تخلیق کائناتﷺ سے متعلق انہوں نے ایک کتاب بنام ’’عرب کا چاند‘‘ تصنیف کی اس میں حضورﷺ کی تعلیمات کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔
’’ نیک اور بلند خیالات کبھی فنا نہیں ہو سکتے ۔ ان کی اہمیت سے اگر دنیا آج غافل ہے تو کل غافل نہیں رہے گی ۔ جلد یا بدیر وہ اپنا اثر ضرور دکھائیں گے ۔ یہی بات تبلیغ اسلام کے معاملہ میں بھی ہوئی۔ جن لوگوں نے ابتداء میں اسلام کا مضحکہ اڑایا تھا، وہ بھی آخر کار اس کے جھنڈے تلے آگئے اور جوں جوں دن، مہینے اور سال گزرتے گئے اسلامی تعلیمات اپنی بلند پروازی ، اہمیت اور ہمہ گیری کی بدولت عام ہوتی گئیں اور اب بھی ان کے ماننے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ مردم شماری کے اعداد و شمار اس کے دعویٰ کی صداقت پر شاہد عدل ہیں۔‘‘
منٹگمری واٹ
مسٹر منٹگمری واٹ تحریر کرتا ہے:
’’ آپؐ کو تین عدیم المثال صفات سے نوازا گیا تھا۔ اول آپؐ نے عرب دنیا کے لیے ایک نظریاتی ڈھانچا تشکیل دیا اور معاشرے کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر دیا۔ دوم یہ کہ آپ ؐایک سیاست دان تھے۔ قرآن میں صرف بنیادی اصول بیان ہوئے ہیں۔ آپؐ نے اپنی ذہانت اور دور اندیشی سے کام لے کر ان اصولوں کی بنا پر ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کر دی اور مدینہ کی ایک چھوٹی سی ریاست کو ایک عالمگیر سلطنت میں تبدیل کر دیا۔ سوم یہ کہ بطور منتظم آپؐ کی مہارت اور اپنے عمال اور نمائندوں کے انتخاب میں آپؐ کی ذہانت، کیونکہ عمدہ پالیسی بھی عدم مہارت کی صورت میں نا کام ہو جاتی ہے ۔
نپولین بونا پارٹ
یورپ کا عظیم ترین جنرل اور فرانس کا مطلق العنان حکمران نپولین بھی یہ اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکا کہ :
’’محمدﷺ ہی در اصل دنیا کے سردار ہیںجن کے بارے میں جناب مسیح نے جن کا نپولین خود پیرو کار ہے دنیا کو یہ خوشخبری سنائی تھی کہ میرے بعد وہ دونوں جہاں کا سردار آتا ہے ۔‘‘
نپولین مزید کہتا ہے :
’’موسیٰ نے وجود خدا کا اعلان بنی اسرائیل کے سامنے کیا تھا۔ مسیح نے رومی دنیا کے سامنے اور محمدﷺ نے دنیا کے قدیم ترین بر اعظم یعنی ایشیا کے سامنے ۔ محمدﷺ نے اس دنیا کو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ کے خدا کی پرستش کی طرف بلایا جسے آریائوں اور چند دیگر مذہبی اقوام نے بت پرست بنا دیا تھا۔ وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام تعلیم یافتہ ، دانا اور مہذب انسانوں کو قرآن کی صداقتوں پر دوبارہ جمع کروں گا۔ قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کی تعلیمات میں صداقت ہے اور جو دنیا کو مسرت سے ہم کنار کر سکتی ہے ۔‘‘
مائیکل ایچ۔ ہارٹ
اب ہم آخر میں امریکہ کے معروف اور ممتاز مصنف مائیکل ایچ ۔ ہارٹ کی مشہور زمانہ کتاب The Humdred, A Ranking of Most Influential Persons’s History ( سو بلند ترین ہستیاں جنہوں نے تاریخ میں موثر کردار ادا کیا) جو دور حاضر کی تازہ ترین تصنیف ہے ، کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں۔ جس میں اس قابل قدر کتاب کے لائق اور فاضل مصنف نے دنیا کی ان تمام منتخب روز گار شخصیتوں میں پیغمبر اسلامﷺ کو دنیا کا عظیم ترین انسان قرار دیتے ہوئے ان سب میں آپؐ کو سر فہرت رکھا ہے اور جناب مسیح کو جن کا وہ خود پیرو ہے ، تیسرے نمبر رکھتے ہوئے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے۔
’’محمدﷺ دنیا کے عظیم انسانوں میں ہیں‘‘
{}{}{}
Leave a Reply