جمہوریت کے غیر مغربی تصورات کا جائزہ

عام طور پریہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مغربی آزاد خیال جمہوریت اپنی ساکھ کھو رہی ہے اور یہ کہ بین الاقوامی برادری کو ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی طاقتوں میں غیر مغربی سیاسی ماڈلوں کے لیے زیادہ متحمل اور حوصلہ افزا رویہ رکھنا چاہیے۔ جمہوریت کی غیر مغربی اشکال کے بارے میں ارد گرد سے آوازیں توکئی سالوں سے لگائی جا رہی ہیں لیکن اب ان کا شور ہرجگہ سنائی دینے لگا ہے۔ ابھرتے ہوئے پوسٹ ویسٹرن ورلڈ آرڈر کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے اس رجحان کے اور مضبوط ہونے کا امکان ہے۔

مغرب سے باہر لوگوں کی یہ خواہش کہ جمہوری تجدید کے لیے نئے خیالات تصرّف میں لائے جائیں اور اس کے ساتھ ہی ان کاجمہوریت پر مقامی ملکیت کا مضبوط احساس خوش آئند ہے۔ جمہوری عمل اور آداب کی وسیع تراقسام کی آبیاری کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ طویل مدت تک جمہوریت کی ساکھ کو بہتربنانے میں ان مختلف اقسام کی ضرورت ہوگی۔ جمہوریت کی وہ اشکال جو مروجہ مغربی اقدار سے مختلف ہوں،ان کو محض آزاد خیالی کی ضد یااستبدادی گردان کر رَد کرنے کے بجائے ان کی حو صلہ افزائی کرنی چاہیے۔(یہ جاننے کے باوجود کہ بعض اوقات وہ در حقیقت ایسی ہی ہوتی ہیں۔)

لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جمہوریت کی غیر مغربی اقسام بالکل وضاحت کے ساتھ موجود نہیں، نہ ہی ایسا ہے کہ وہ نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار کھڑی ہوں۔ درحقیقت غیر مغربی جمہوریت کے بہت سے پہلو ابھی دلائل کے اعتبار سے مضبوط نہیں۔ غیر مغربی ناقدین کو سمجھنا چاہیے کہ سماجی انصاف، کمیونٹی کی شناخت اور اتفاق رائے جیسے موضوعات جنہیں وہ اکثر مغربی جمہوری ماڈل پر تنقید کے لیے استعمال کرتے ہیں، خود مغربی بحثوں میں بھی جمہوری تجدید کے ضمن میں موجود ہیں۔ مغربی اور غیر مغربی جمہوریت (یا ایک مخصوص علاقے عرب، افریقا یا ایشیا کی جمہوریت) کے درمیان ایک ثنائی (binary) مقابلہ کرنے کے بجائے، مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کومشترکہ تجربات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جمہوری احتساب اور نمائندگی کے بہتر طریقے تلاش کیے جاسکیں۔

غیر مغربی تصورِجمہوریت کے مثبت و منفی دونوں پہلو موجود ہیں۔ تو غیر مغربی حلقوں میں اس تصور کا زیرِ بحث آنا مجموعی طور پر جمہوریت کے لیے مفیدہے یا نقصان دہ؟ کارنیگی رائیزِنگ ڈیموکریسیز نیٹ ورک کے چار ماہرین کی اس بارے میں کچھ یہ رائے ہے۔

جمہوریت میں لاطینی امریکی جِدّتیں

(برازیل سے گیٹولا وارگاس فاؤنڈیشن کے تجزیہ کار اولیوَر سٹوانکل)

لاطینی امریکا میں بائیں بازو کی عوامی حکومتیں مغربی لبرل جمہوریت کے لیے براہ راست چیلنج ہیں اور تجزیہ کاروں کی توجہ انہی پر مرکوز ہے۔ لیکن ان well-worn بحثوں سے آگے دیکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ لاطینی امریکا میں جمہوریت میں آنے والی دلچسپ جدتوں کو پرکھا جا سکے۔

حالیہ برسوں میں پورے لاطینی امریکا میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں، جن میں برازیل، وینزویلا، میکسیکو اور بعض دیگر علاقے بھی شامل ہیں۔ نوجوان افراد کی طرف سے نئی تحریکیں قائم کی گئی ہیں، جو چاہتے ہیں کہ سیاسی احتساب آگے بڑھے اور انتخابات میں ووٹنگ سے ماورا جمہوری عمل میں ان کی شرکت آسان ہوسکے۔ بد عنوانی پر غصہ اکثر احتجاجی مظاہروں کا محرک ہے، لیکن عام طور پرغم و غصہ کی اصل وجہ عوامی سہولتوں کا پست معیار ہے، کیونکہ آگے چل کر اس کے باعث سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو فروغ ملتاہے۔

خاص طور پر برازیل میں نوجوان روایتی سیاسی ڈھانچوں کو مسترد کر تے ہیں اور اپنی آوازوں کی شنوائی کے لیے متبادل طریقوں کو فوقیت دیتے ہیں۔ اسی طرح سول سوسائٹی نے بھی بڑی تعداد میں بالکل نئی سرگرمیاںشروع کر دی ہیں۔ اس کی ایک مثال نوساس کاداداس (ہمارے شہر) ہے، جوڈیجیٹل پلیٹ فارم بنانے والی ایک غیرسرکاری تنظیم ہے تاکہ شہریوں کو مختلف امور پر مامور حکام سے رابطہ کرنے میں مدد فراہم کی جاسکے اور اس طرح بہتر سیاسی مشغولیت پیدا ہو۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے ان افراد کو بھی سامنے لایا جاتا ہے جو معاشرے کی بہتری کے مقاصد کے لیے کام کرنا چاہتے ہوں۔ اس کے علاوہ ایسے سیاست دانوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جنہوں نے صرف ذاتی اغراض کے تحفظ کے لیے کام کیا ہوتا ہے۔

کچھ این جی او ایسے وکلا کو جمع کر نے کی کوشش کر رہی ہیں، جو احتجاج کے دوران پولیس کی طرف سے پکڑے جانے والے لوگوں کو مفت قانونی مشورہ فراہم کرتے ہیں۔ بعض دوسری تنظیمیں ماحولیاتی آلودگی کی مذمت کے لیے گرافیٹی آرٹ کا سہارا لے رہی ہیں۔جدت کی ایک اور مثال ایک ایسی ایپلی کیشن کا متعارف ہونا ہے، جو ہر رکنِ پارلیمان کے ووٹنگ ریکارڈ، ٹیکس گوشواروں اور سیاسی مہمات کے عطیہ دہندگان پر نظر رکھتا ہے۔ اور اونی بس ہیکر کے منتظمین، جو عوامی شفافیت اور کھلے کوائف کی وکالت کرنے والی تنظیم ہے، اسکول کے بچوں کو قانون ساز ی کے مختلف منصوبے لکھنے اور انہیں قانون سازوں کو بھیجنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔

ایسے اقدامات کے ذریعے سماجی کارکنان جمہوری حکومت کی نوعیت میں یکسر تبدیلی کے بجائے حکومت کے ساتھ زیادہ موثر مکالمے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس امید پر کہ اس طرح کی شہری فعالیت معاشرے میں عدم مساوات کو کم کرنے کے بہتر طریقے پیش کرسکے گی۔

لیکن ایک مسئلہ ابھی باقی ہے اور وہ یہ کہ برازیل میں حال میں ہونے والے زیادہ ترصدارتی انتخابات میں ملک کی قدیم جماعتیں ہی فتح یاب ہوئی ہیں۔ جبکہ متبادل تنظیمیں جیسے مرینا سلوا کی’تیسری راہ‘ ناکام ہو گئیں۔ چنانچہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی در اصل نئی قسم کی سماجی تنظیموں کے ذریعے آرہی ہے۔ یہ نئی اقسام جمہوریت کے کسی بالکل نئے ماڈل کو پیش نہیں کرتیں لیکن یہ دنیا بھر میں مغربی اور غیر مغربی جمہوریتوں کے لیے سبق آموز ہیں۔

روایتی جمہوریت افریقا سے دور

(جنوبی افریقا سے وٹواٹرسران یونیورسٹی کے گلبرٹ کھا ڈیا گالا)

غیر مغربی اقسامِ جمہوریت سے وابستہ تصورات و آداب افریقا کے سیاسی تجزیے میں بہت عرصے سے موجود ہیں۔یہ تصورات سیاسی کلچر کے بارے میں بعض جوہری مفروضات سے بندھے ہوئے ہیں، جیسے روایتی ڈھانچوں کی حقانیت اور باہمی اتفاق پر مبنی شراکتِ اقتدار۔تجزیہ کار افریقا کو سیاسی طور پر ممتاز ثابت کرنے کے لیے ہمیشہ سے ان تصورات کا حوالہ دیتے رہے ہیں۔

لبرل جمہوریت کوللکارنے والے ثقافتی دلائل افریقا میں ۱۹۶۰ء کی دہائی سے نمایاں ہیں، جب نو آبادیات کے بعد کی حکومتوں نے ایک جماعتی ریاستیں بنانی شروع کیں۔افریقا میں اشرافیہ نے باہمی اتفاق، احتساب اور شراکت کی روایتی اقدار کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے افریقی جمہوریت کی منفرد اشکال کو پیش کیا۔اگرچہ یہ تصورات اب بھی طاقتور ہیں، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ افریقی اقسامِ جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے ثقافتی وضاحتوں کی جگہ آہستہ آہستہ ریاست اور قوم کی شکیل کے زیادہ عملیت پسند اہداف نے لے لی ہے۔

۱۹۹۰ء کے اوئل میں، جب اس وقت اور آج کے یوگنڈا کے صدر یوویری موسووینی پر مساوی نمائندگی کا نظام متعارف کرنے پر مختلف اطراف سے دباؤ تھا، انہوں نے افریقی جمہوریت کی ایک نئی قسم کو متعارف کروایا۔وہ نظام غیر جماعتی جمہوریت پر مشتمل تھا، جس میں سیاسی مقابلہ موسووینی کی سخت نگرانی میں ایک تحریک کے ذریعے تھا۔ غیر جماعتی جمہوریت افریقا میں قبولیتِ عام تو حاصل نہیں کر سکی لیکن اس کے کچھ اصول اب بھی ایتھوپیا سے لے کر روانڈا تک نیم آمرانہ ریاستوں میں مستعمل ہیں۔ان نظاموں میں اختلاف رکھنے والے سیاسی مخالفین کو اکثر یہی دلیل دے کر خاموش کرایا جاتا ہے کہ افریقا کی اپنی علیحدہ یکساں اقدار ہیں۔

روایتی ڈھانچے افریقا کی جمہوری جدت میں جگہ بنانے میں کسی حد تک اس لیے ناکام رہے ہیں کیونکہ یہ ڈھانچے متنوع، یہاں تک کہ ممالک کے اپنے اندر بھی متنازع ہیں۔ ان میں سے بعض کو استبدادیت، جنسیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ان ممالک میں جہاں روایتی طریقے غیر مرکزی ڈھانچوں میں شامل ہو گئے ہیں، انہوں نے زیادہ تر محرومیت کو جنم دیا ہے اور احتساب اور شفافیت کو فروغ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سے افریقی راہنما اپنی ریاستوں اور معاشروں کی تباہی کے عرصوں کے دوران روایت کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ہی اقتدار کو تھامے رکھنے میں کامیاب ہوئے۔

نتیجتاً افریقا میں بہت سے لوگ اگرچہ مقامی سیاست کی زیادہ بہتر شکلوں کی تلاش میں رہتے ہیں، روایات جمہوریت کی تعمیر میں ایک حساس اور متنازع معاملہ بن چکی ہیں۔ افریقی جمہوریت پر ہونے والی بحث کا غالب موضوع یہ ہے کہ جمہوری اقدار کو افریقا کے متنوع معاشی و سماجی ڈھانچوں کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کیا جائے۔خاص طور پر علاقائی اور نسلی تفریق کی حقیقتوں کو۔ان مسائل سے نپٹنے پر افریقی ممالک کے آپس میں یقیناً اختلافات موجود رہیں گے، لیکن شہریوں کا جمہوریت کے بنیادی عالم گیر اصولوں اور اقدار پر آپس میں ایک اتفاق بھی طے پا رہا ہے۔یہ نو آموز اجماع اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ یکسر مختلف ادارہ جاتی ماڈلوں کے بجائے لوگوں کو جمہوریت میں ہی مختلف تجربات کی ضرورت ہے۔

ایشیائی ماڈل اور حد سے بڑھی خوش گمانی

(بھارت سے آبزروَر ریسرچ فاونڈیشن کے نارنجان ساہو)

ایشیا میں سیاست دان او ر با اثر رائے ساز افراد مسلسل اصرار کرتے ہیں کہ حکومت کے احترام، مضبوط خاندانی نظام اور سماجی فلاح وبہبود کے لیے انفرادی حقوق کی قربانی کے کنفیوشسی تصورات مشترکہ ایشیائی اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدار ایک ممتازقسم کی جمہوریت کی بنیاد ہیں، جو زیادہ مستحکم اور مغرب کے خود غرض اور معاندانہ جمہوری ماڈل سے زیادہ موثر ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ اقدارمضبوط ریاستوں اور مضبوط رہنماؤں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، جنہوں نے ایشیا کو دنیا کی اقتصادی ترقی کا انجن بنادیا ہے۔

اگرچہ خطے کے بہت سے ممالک کا یہ دعویٰ بر حق ہے کہ انہوں نے جمہوری اداروں اور عمل کو مقامی ثقافتی و سماجی حالات کے مطابق ڈھالا ہے اور اس کے ذریعے حکمرانی کا موثر ماڈل ترتیب دیا ہے۔لیکن یہ کہنا کہ نام نہاد ایشیائی اقدار نے جمہوریت کو مقامی رنگ دیا ہے، مبالغہ آمیز تعبیرہوگی۔

یہ اقدار صرف ایشیا کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔یہ بہت سے کامیاب معاشروں میں پائی جاتی ہیں، چاہے وہ عالمی جنوب ہو یا مغرب اور ان اقدارکا جمہوریت سے بھی کچھ خاص لینا دینا نہیں۔ درحقیقت یہ اقدار مطلق العنان ریاستوں جیسے چین میں بہت زیادہ سختی کے ساتھ موجود ہیں۔ ان ثقافتی اور معاشرتی اقدار کوجمہوریت کی شکلوں کے ساتھ جوڑنا غلط ہوگا۔

اتفاق رائے اور مشابہت کے بجائے ایشیا میں ادارہ جاتی شکلوں میں گہراتنوّع اور گونا گونی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت اور انڈونیشیا میں جس طرح سے معاشرے کے تنوّع کومنظم کیا گیا ہے، مشہور سنگاپورین ماڈل میں ایسا کچھ نہیں۔ بھارت میں ایک انتہائی معاندانہ سیاسی نظام کارفرما ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید مقابلہ بازی ہے اور کلیدی پالیسیوں پر اتفاقِ رائے کا اکثر فقدان ہے۔ جمہوریت کے ایسے ایشیائی ماڈل کے بارے میں بات کرنا، جو ایشیا میں پائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت پر صادق نہیں آتا، اس ماڈل کے حوالے سے کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایشیا میں دلچسپ ادارہ جاتی اقسام موجود ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ خطے نے مغرب میں پائے جانے والے جمہوری ماڈل سے مختلف ماڈل اپنایا ہے، یا اسے اپنانا چا ہیے، زیادہ باوزن بات نہیں۔یہ حقیقت سے دور کی بات ہے کیونکہ نام نہاد ایشین ماڈل کے بارے میں زیادہ تر خیالات ایشیا کے نیم جمہوری یا نیم استبدادی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور سفارت کاروں کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان ممالک کی جو بھی کامیابیاں یا فضائل ہوں، ان کی آوازیں خطّے کے دیگر حصّوں میں سیاسی ترجیحات کی نمائندہ نہیں ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ میں جمہوری پیش رفتیں اور ناکامیاں

(ترکی کی استنبول بلجی یونیورسٹی سیصنم ایدین ڈزگٹس)

غیر مغربی جمہوریت پر بحثوں کے حوالے سے مشرق وسطیٰ مرکزی موضوع بنا ہوا ہے۔اس کی وجہ۲۰۰۲ ء میں ترکی میں اسلام پسند انصاف و ترقی پارٹی (اے کے پی) کا ابھرنا اور ۲۰۱۱ء میں عرب بیداری کے بعدخطے کا منظر نامہ ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان جمہوریت کو اپنانے کے حوالے سے بڑا فرق موجود ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ خطے کی کوئی بھی ریاست ابھی تک مغربی ماڈل کی لبرل جمہوریت کو وسعت دے کر انفرادی حقوق، معاشی انصاف، طبقاتی اقدار، نمائندگی یا قانونی ہمہ گیری کی متبادل شکلوں میں جدت لانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔یہ تمام محاذ فی الحال مقامی مباحث بنے ہوئے ہیں۔

یہاں تک کہ ترکی بھی جسے شاید خطے کا سب سے زیادہ جمہوری مسلمان ملک قرار دیا جا سکتا ہے، ایک جال میں پھنسا ہوا ہے، جسے متوسط جمہوریت کاجال کہہ سکتے ہیں۔یعنی وہ متوسط جمہوریت کے جال میں اٹک کر رہ گیا ہے اور آگے نہیں بڑھ پا رہا۔ چنانچہ متوسط آمدنی کے جال کے ساتھ ساتھ اب ایک غیر لبرل جمہوریت کے جال نے بھی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔اختیارات کے استعمال کی جانچ پڑتال کا کلچر دم توڑتا جا رہا ہے، جمہوری ادارے کمزور پڑ رہے ہیں اور بنیادی آزادیوں پر قدغن لگی ہوئی ہے۔۲۰۰۲ء سے ۲۰۱۱ء کے درمیان اس ملک نے بہت سے عرب اصلاح پسندوں کو ایک امید فراہم کی تھی کہ مغربی جمہوریت سے ماورا ماڈل بھی ممکن ہو سکتا ہے۔انفرادی حقوق بڑھے تھے اور عوامی زندگی میں اسلام کے اظہار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا تھا۔لیکن غیر مغربی جمہوری ماڈل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت ضائع کر دی گئی اور ملک محدود جمہوریت کی طرف لوٹ گیا، جہاں انفرادی حقوق محدود تھے۔

جو چیز ترکی کو مصر اور تیونس سے ممتاز کرتی ہے وہ لا دینی قانون کی حکمرانی ہے، جس نے ایک مسلمان ماحول میں عورتوں کے حقوق کو بہتربنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ حقیقت اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ مختلف اقسام کے قانونی نظام یا شرعیت پر مبنی قانون کے مطالبوں کو غیر مغربی جمہوریتوں کے بطور ایک جزو اختیار کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر صنفی مساوات کے معاملات میں اور قانونی تعدد کو بھی لا دینیت کے کسی کم سے کم معیار کا پابند ہونا چاہیے۔

ترکی کے علاوہ ایک اور مثبت مثال حال ہی میں تیونس کی ہے، جہاں اسلام پسندوں اور لا دینیوں کے درمیان شراکت اقتدار یہ ظاہر کرتی ہے کہ مسائل سے قطع نظر ایک متفقہ جمہوری ماڈل کس طرح کامیابی سے چل سکتاہے۔ تاہم ان ممالک میں جو اپنی جمہوریتوں کو خطے میں مستحکم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں یہ مثالیں نئے غیر مغربی جمہوری ماڈلوں کی تشکیل کے بجائے نام نہاد مغربی ماڈل کے بنیادی عناصر کی پائیدار اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کو فی الحال ایسا ہی خطہ سمجھنا چاہیے، جو مغربی جمہوریت کے کم سے کم اجزا کو اپنانے کے لیے کوشاں ہے اور غیر مغربی جمہوری آداب کو فروغ دینے کی جدو جہد، جو لبرل جمہوریت کے تصور و آداب میں جدید اضافے کر سکے، ابھی بعد کی بات ہے۔

(ترجمہ: طاہرہ فردوس)

“Non-Western ideas for democratic renewal”. (“carnegieeurope.eu”. April 21, 2016)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*


This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.