
جب غیر ملکی شمالی کوریا کا سفر کرتے ہیں تو دارالحکومت پیانگ یانگ تک محدود رہتے ہیں اور کم ہی دیگر شہروں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، ہم آپ کے سامنے روسی اسکالرلیونڈ کوزلوف کی ایک رپورٹ پیش کررہے ہیں،انہوں نے حال ہی میں شمالی کوریا کے ساحلی شہر راجن کا دورہ کیا ہے، راجن شہر چینی اور روسی سرحدوں کے قریب واقع بندر گاہ ہے،کوز لوف مشرقی وفاقی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے محقق ہیں، انہوں نے روس او ر شمالی کوریاکے درمیان نئی شروع ہونے والی فیری سروس کا فائدہ اٹھا کرراجن شہر کا سفر کرنے کا منصوبہ بنایا،یہ بندر گاہ راسون اقتصادی زون کے حوالے سے اہم ترین ہے،زون کا افتتاح ۱۹۹۱ء میں کیاگیا تھا، کوزلوف کا شمالی کوریا کا سفر ایک ریسرچ پراجیکٹ کا حصہ ہے، اس پراجیکٹ میں فارن پالیسی انسٹیٹیوٹ،مشرقی وفاقی یونیورسٹی، ماسکو انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات، روسی اکیڈمی آف سائنسز شامل ہیں، اس پراجیکٹ میں روس اور شمالی کوریا کے درمیان معاشی ، سیاسی اور سلامتی کے امور پر روابط کا جائزہ لیاگیا۔اس دورے کا مقصد جزیرہ نما کوریا میں جاری ایٹمی اور میزائل بحران پر روس کے موقف کا اندازہ لگانا بھی تھا، اس حوالے سے ایف پی آر آئی ۲۰۱۷ء کے دوران مزید رپورٹس بھی شائع کرے گی۔
شمالی کوریا کے روس کے ساتھ تعلقات مغرب اکثر نظر انداز کردیتا ہے مگر چین اور شمالی کوریا کے تعلقات پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے،روس طویل عرصے سے شمالی کوریا میں موجود ہے، راجن اس کی اہم مثال ہے،حالیہ برسوں میں ایک روسی کمپنی راسنکوٹرانس نے راجن شہر کو ملانے والے ۵۴ کلومیٹر طویل ریل لنک کو اپ گریڈ کرنے اورایک جدید کارگو ٹرمینل تعمیر کرنے کے لیے ۳۰۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، مئی ۲۰۱۷ء میں روس اور شمالی کوریا نے مشترکہ منصوبے کے طور پر راجن اورروسی شہر ولادیوستوک کو ملانے کے لیے فیری لائن سروس کا آغاز کیا،شمالی کوریا کا جھنڈا لگائے مانگ یونگ بونگ فیری بوٹ ہر ہفتے مسافروں اور کارگو سامان لے کر سفر کرتی ہے، یہ باقاعدگی سے شمالی کوریاجانے والی واحد بین الاقوامی فیر ی سروس ہے،فیری سروس کے حالیہ افتتاح کو محقق ایک دلچسپ پیش رفت کے طور پر بیان کرتے ہیں، سب سے اہم تویہ ہے کہ اب محققین پہلے سے کم خرچے پرپیانگ یانگ کا دو سے تین دفعہ دورہ کر سکتے ہیں، شمالی کوریا کی تمام تر ترقی درالحکومت تک محدود رہی ہے،راجن کے اکنامک زون ہونے کے باوجود اس سفر سے شمالی کوریا کے دیگر علاقوں میں ترقیاتی عمل کو سمجھنے میں مدد ملی، ۴ رات اور ۵ دن راجن میں قیام کا خرچ ۴۵۰ ڈالر ہے، اس میں فیری سروس کا ٹکٹ، رہائش، ایک دن میں تین وقت کا کھانااورسفر کا خرچ شامل ہے، اکنامک زون بننے کے بعد سے راجن میں داخلے کے لیے شمالی کوریا کا ویزا حاصل کرنا ضروری نہیں ،روسی ٹریول ایجنسی کو سفر سے قبل فیری سروس کے ذریعے سفر کرنے والوں کی فہرست کی منظوری شمالی کوریا کے قونصل خانے سے لینی پڑتی ہے،قونصل خانہ فہرست میں موجود کسی بھی مسافر کو سفر سے روکنے کاحق محفوظ رکھتا ہے، میں نے فیری سروس کے تھرڈ کلاس ٹکٹ پر سفر کیا جس کی مالیت ۱۸۵؍ڈالر تھی، جو ولادیوستوک سے پیانگ یانگ تک کے فضائی سفر کے خرچ سے انتہائی کم ہے، فضائی سفرکا خرچ تقریباً ۴۰۰ یورو ہے، ٹرین کے مقابلے میں فیری سروس کا سفرانتہائی آرام دہ ہے،خاص طور روس میں کام کرنے والے شمالی کوریا کے شہریوں کے لیے بہت سہولت ہے، ان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ’’دوران سفر میں نے کوئی ہجرت کرنے والا مزدور نہیں دیکھا، اگر کپتان جہاز میں موجودروسی مہمانوں پر زیادہ مہربان نہ ہوتو مسافر آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکتا ہے، صرف سروس کوارٹر میں جانے پر پابندی ہوتی ہے‘‘جہاز کے عملے کے زیادہ ترافراد کا تعلق شمالی کوریا سے تھا اور وہ سیاحوں پر مہربان تھے،دیگر مسافروں نے ہمارے ساتھ گرم جوشی سے گفتگوکی، انہوں نے ہمارے گھر،خاندان اور روز مرہ کے امور سے متعلق سوالات کیے، جہاں تک کوریائی زبان پر عبور تھا ہم نے بھی جوابات دیے،جہاز کافی پرانا تھااور اس کے کناروں پر نشانات بھی موجود تھے،

کیبن کی تازہ مرمت کی تھی،بکس دو میٹر لمبا اور کافی آرام دہ تھا،سب پہلے ہی بتاچکے تھے کہ ولادیوستوک سے راجن تک ۹۰ میل کا فاصلہ ۱۲ سے ۱۳گھنٹے میں طے ہوگا،
شہر میں ہم نے پہلی رات ’’راجن‘‘ نام کے ہوٹل میں گزاری،رہائش کافی بہتر تھی،صبح اکیلے گھومنے پھرنے کی اجازت نہ ملی،روسی سیاح ہونے کی وجہ سے ہمارے گروپ کی سخت نگرانی جاری تھی،ہمیں بغیر گائڈکے راجن میں سفر کرنے سے منع کردیا گیا تھا، چینی سیاحوں کے لیے بھی گائڈساتھ رکھناضروری ہے مگر عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا، یہاں پر چینی سیاح بڑی تعداد میں موجودتھے اور گائڈز کے پاس ہرایک پر نظر رکھنے کا وقت موجود نہیں ہوتا،فوجی تنصیبات اور سڑکوں پر عام افراد کے چہرے کی تصویر کھینچنے پر پابندی تھی، اس رپورٹ کا زیادہ تر حصہ بس کی کھڑکی سے کیے گئے مشاہدے کے ذریعے مرتب کیا گیا ہے۔

ہمارے ٹور پروگرام میں مندرجہ ذیل سفر اور سرگرمیاں شامل تھیں۔ ہم نے سمندری حیات کے لیے افزائش نسل کی جگہ، ہوٹل اور کیسینو، راجن کا سیاحتی مرکز جو ساحل سمندر ہے، کم سنگ دوم اور کم جونگ کی یادگار، سخان پہاڑ، ماہی گیری کا گھر جس کاکم سنگ دوم دورہ کرچکے تھے، ۱۹۴۵ء میں راجن کی جنگ آزادی کے دوران مرنے والے روسی فوجیوں کی یادگار، یتیموں کا ایک بورڈنگ اسکول، ۱۱ سے ۱۵ برس کی عمر کے بچوں کے لیے غیر ملکی زبانوں کا اسکول، سمندر کنارے پارک اور یورپی طرز کا ایک بار، شہر کی مارکیٹ، بچوں کا ایک کنسرٹ،روایتی پھولوں کا مرکز، ایک کیفے ٹیریا اور ایک مساج سینٹر کا دورہ کیا۔

بچو ں کے کنسرٹ میں شریک چینی تماشائیوں کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہوا کہ تقریباً ۵۰۰ چینی سیاح روز راجن کا دورہ کرتے ہیں، ہمارے گائڈ کے مطابق مئی سے ستمبر کے درمیان سب سے زیادہ سیاح راجن آتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ ۷۰ سے ۸۰ ہزار سیاح ہر سال راجن کا دورہ کرتے ہیں، جن میں روس او ر چین کے علاوہ دیگر ممالک کے لو گ بھی شامل ہیں، مثال کے طور ہماری ملاقات غیر متوقع طور پرکچھ جرمن سیاحوں سے بھی ہوئی۔ ایمپیریر ہوٹل کے کسینوں میں دوپہر کے دوبجے بھی پتوں کا کھیل بھر پور انداز میں جاری تھا،جب ہم کیسینو پہنچے توہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور کم ازکم ۵۰ کھلاڑی جوا کھیل رہے تھے، میں نے راجن کے سفر کے دوران کم سے کم آٹھ ہوٹلوں کا دورہ کیا، ایک لاکھ آبادی والے

شہر میں گھومنے کے دوران میں نے بیس ایسی جگہوں کو گنا جہاں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری تھی، کچھ جگہوں پرکام جاری تھااور کچھ پر رکا ہواتھا،تعمیراتی طریقہ پورے شہر میں معیاری تھا، سب سے پہلے عمارت کا ڈھانچہ تیار کیا جاتا پھر کنکریٹ بلاکس سے بنیاد مضبوط کی جاتی جبکہ کنکریٹ بلاکس سستے اور کم معیار کے ہوتے ہیں،سردیوں میں راجن کا درجہ حرارت منفی پانچ تک گر جاتا ہے، میں نے معلوم کیا کہ سردیوں میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے شہری کیا کرتے ہیں،ہمارے ترجمان نے بتایا کہ نئی عمارتوں میں ہیٹنگ اور فراہمی و نکاسی آب کامرکزی نظام موجودہے جبکہ پرانی عمارتوں اور اسکولوں کو آتش دان کے ذریعے گرم رکھاجاتا ہے، اس کے لیے ان کو حکومت کی جانب سے مفت کوئلہ فراہم کیا جاتا ہے،

راجن شہر کے پرانے علاقے چین کے شمالی شہروں سے کافی ملتے ہیں،یہاں کوئی نکاسی آب کا نظام موجود نہیں ، شہری اپنے کپڑے گٹر کے پاس جاکر دھوتے ہیں،اگر کوئی نا خوشگوار بوپھیل جائے تو مشکل سے اس کا خاتمہ ہوتا ہے، گلیوں میں کچرا کنڈی موجو د نہیں اور کچر ا اٹھانے والے ٹرک بھی نہ ہونے کے برابر ہیں، میرے اندازے کے مطابق راجن کی نصف آبادی پرانے شہر میں آبادہے،یہ علاقے آہستہ آہستہ تباہ ہورہے ہیں مگر نئی تعمیرات نہیں کی جارہیں ، آبادی کا ایک بڑا حصہ جس کو شہری سہولتوں کی فراہمی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، دیہی زندگی گزار رہا ہے۔ ہم نے سڑکوں پر ویگنیں بیل باندھ کرچلاتے ہوئے دیکھا،ایک بار تو ہم نے دو پہیوں کی گاڑی کو گھوڑے باندھ کر چلاتے ہوئے دیکھا،گاؤں کی سڑکوں پر بہت زیادہ سائیکلیں چل رہی تھی جبکہ چند موٹرسائیکلیں بھی موجودتھیں، گلیوں میں پیدل چلنے والوں کاہجو م تھا،پبلک ٹرانسپورٹ صرف شہر کے مرکزی علاقے میں موجودتھی، سیاحتی مرکز سے شہر کے مضافات میں پہنچنے کے لیے ۳۰ منٹ لگتے ہیں اور ٹیکسی کا خرچ ۱۰۰ یوان آتا ہے، راجن شہر کے اندر سفر کرنے پر ٹیکسی کا خرچ ۱۰ یوان تک آتا ہے، سڑکوں کی حالت کافی خراب ہے، ۹۰ فیصد سڑکیں کچی اور دھول مٹی سے بھری ہوئی ہیں، ان پر ڈامر بھی موجود نہیں، پختہ سڑکوں کوکنکریٹ سلیب سے بنایاگیا جس کی وجہ سے گاڑیاں ہموار انداز میں نہیں چل پاتیں،اس کے باوجود شہر کی مرکز ی سڑکوں پر دن کے اوقات میں ٹریفک کافی زیادہ ہوتا ہے،ہر پانچ سیکنڈ بعد ایک گاڑی ہمارے سامنے سے گزر جاتی تھی،مسافروں سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ حالیہ برسوں میں راجن شہر کو بجلی کی فراہمی میں بہتری آئی ہے،سیاحتی مرکز اور ہوٹل میں بجلی مستقل آتی رہی تھی،ہمارے قیام کے دوران صرف ایک دفعہ بجلی گئی وہ بھی چند منٹوں کے لیے، ہر اپارٹمنٹ میں ایک شمسی توانائی کا پینل لگا ہوا تھا،جس کا حجم اپارٹمنٹ کی آدھی کھڑکی کے برابر تھا، اتنا بڑا پینل اپارٹمنٹ کی لائٹ، فونز اور ٹیبلٹس کی توانائی ضروریات پورا کرنے کے لیے کافی ہونا چاہیے، رات میں شہر کی زیادہ تر لائٹس بند کردی جاتی ہیں۔ہمیں صر ف غیر ملکیوں کے لیے مخصوص اسٹور سے خریداری کی اجازت تھی،یہاں روس کے مقابلے میں اشیا کی اوسط قیمتیں زیادہ تھیں، اس لیے ہم نے صرف چند تحائف ہی خریدے،ہمارے گروپ میں موجود کسی سیاح کو اگر پانی یا پھل کی ضرورت ہوتی تو گائڈ مذکورہ شخص سے پیسے لے کر مقامی اسٹور سے یہ چیزیں خودخریدلاتا،عام سامان کی قیمتیں مندرجہ ذیل تھیں، آدھے لیٹرپانی کی بوتل ۳ یوان، اشاریہ ۶۵ لیٹر بیئرکی بوتل کی قیمت ۱۵ یوان، ۲۵ء۱؍لیٹر راجن بیئر کی بوتل ۱۵ یوان، تربوز ۷ یوان کا ایک کلو، ساحل سمندر پر موجود پارک کا داخلہ ٹکٹ ۵ یوان، اسکول نوٹ بک کی قیمت ۲ یوان، ۶۰ گرام کی کینڈی کی قیمت ایک یوان، زبردست اور ایک گھنٹے طویل مساج کی قیمت ۱۰۰یوان (مقامی لوگوں کے لیے ۵۰ یوان)، اگر آپ شہر کی مارکیٹوں سے خریداری کررہے ہیں تو آ پ کو لازمی قیمت کم کرانی چاہیے،گھٹن زدہ ماحول ہونے کے باوجود مارکیٹو ں میں عوام کا بے انتہا رش تھا، یوں محسو س ہوتا تھا جیسے شہر کے مرکز سے زیادہ لوگ مارکیٹ میں موجود ہیں۔
راجن میں غیرملکی کرنسیوں میں چینی یوان کو ترجیح دی جاتی ہے اور چینی کرنسی پورے علاقے میں قابل قبول ہوتی ہے، امریکی ڈالر یا روسی روبیل کو بینکوں سے تبدیل کرایا جاسکتا ہے لیکن ڈالر اور روبیل کو عام بازاروں میں استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے،شمالی کوریا کے شہریوں پر غیر ملکیوں کو مقامی کرنسی(وون) دینے پر قانونی پابندی ہے،مقامی شہری یہ کرنسی صرف ان اسٹوروںمیں استعمال کرسکتے ہیں جہاں غیر ملکیوں کے جانے پر پابندی ہوتی ہے،ان اسٹوروں پر غیرملکیوں کے خریداری والے اسٹوروں کے مقابلے میں قیمتیں کافی کم ہوتی ہیں،جن غیر ملکیوں کے پاس راجن کا ورکنگ ویزا ہے، وہ آزادی کے ساتھ شہر میں گھوم پھر سکتے ہیں اور مقامی لوگوں کے لیے مخصوص اسٹوروں سے خریداری بھی کر سکتے ہیں،وہاں سے وہ مقامی کرنسی(وون) بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

راجن کی بندر گاہ نے مجھ پر بہت زیادہ فعال ہونے کا تاثر نہیں چھوڑا،بندر گاہ کی سڑک کے کنارے ایک شپنگ کنٹینر اور ایک چھوٹا ڈرائی کارگو کنٹینر موجود تھا،بندرگاہ میں سات سے آٹھ چھوٹے بحری جہاز اور ساتھ میں بہت سی کشتیاں تھیں،ان میں روسی برتھ سب سے زیادہ جدید نظر آتا تھا،جب ہم بندر گاہ پہنچے تو ہم نے کسی بحری جہاز میں سامان اتارتے یا چڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا جبکہ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی کافی پرانی تھیں،مجموعی طور پرراجن میں شہریوں کا معیار زندگی بہت اعلیٰ نہیں تھا لیکن یہ خط غربت سے بلند ضرور تھا،ہم اپنے سفر کے دوران مسلسل مہنگی گاڑیوں میں گھومتے رہے،ہمارے ترجمان کے پاس ۴۳۰ ڈالر کا ایک موبائل فون تھا،ہم نے شہر کی سڑک پر کبھی کسی بھکاری یاشرابی کو نہیں دیکھا،ہمارے کھانے ہمیشہ مزیدار، شاندار اور مختلف ہوتے تھے،نوجوان خواتین میک اپ کرتی تھیں اور ایک جیسی نظر آتی تھیں جبکہ نوجوان مرد کھیل میں مصروف رہتے تھے ، فٹبال سب سے مقبول کھیل ہے،اسکولوں اور فیکٹریوں میں موجود میدان غیر محفوظ او ر چار دیواری سے محروم تھے، یتیموں کے اسکول میں موجود کھیل کے میدان میں چار دیواری موجود تھی،

سٹی اسٹیڈیم کی تعمیر نو کی جارہی ہے اور اس میں ۲۰ سے ۳۰ ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے، والی بال، باسکٹ بال اور تیراکی کے لیے نئے تعمیر شدہ سینٹرزکو حال ہی میں کھولا گیا ہے، تمباکونوشی کو فیشن نہیں سمجھا جاتا مگر تمباکو نوشی کی لت پھیلتی جارہی ہے، کپڑے سادہ اور چین کے بنائے ہوئے پہنے جاتے ہیں،یہاں لوگوں کو اپنی مرضی کے کپڑے پہننے ، مرد اور عورت کے درمیان تعلقات کی آزادی ہے۔فارغ اوقات میں لوگ پارک میں چہل قدمی کرتے ہیں، کھیل کھیلتے ہیں، کیفے جاتے ہیں، گانے گاتے ہیں، تھیٹر اور تھری ڈی سینما دیکھتے ہیں، واٹر پارک یا سمندر میں تیراکی کرتے ہیں، سمندر کے کنارے مٹی کا گھر بناتے ہیں،بچوں کی تخلیقی اور تکنیکی سرگرمیوں کے لیے حال ہی میں ایک بڑا مرکز بھی تعمیر کیاگیا ہے۔ مقامی لوگوں یورپی شہریوں سے دور رہتے ہیں لیکن وہ یورپی سیاحوں کو خوشدلی سے جواب دیتے ہیں، روسی شہریوں کا استقبا ل چینی شہریوں سے زیادہ گرمجوشی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، ہمارے گائڈ کے مطابق چینی شہری مالکوں کی طرح کا رویہ رکھتے ہیں، کوئی غیرملکی اگر کوریا کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں معلومات ظاہر کرے تو اسے عزت دی جاتی ہے، مثال کے طور پر میں نے ۱۶ ویں صدی میں جاپان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے ہیرو (ایڈمرل) کی آرٹ گیلری میں لگی تصویر کو پہچان لیا، اس پر میرا گائڈ کافی خوش ہوا،راجن کے لوگوں کو غیرملکی زبانوں کے بارے میں بہت کم معلوم ہے، لہٰذا اگر آپ کواس شہر میں کاروبار کرنا ہے تو کوریائی زبان سیکھنی ہوگی،اس سفر نے مجموعی طور پر شمالی کوریا کی معاشی صورتحال کے بارے میں شمالی کوریا کے ماہرین کی رائے کی تصدیق کی ہے،شمالی کوریا میں اس وقت کم جونگ کی حکومت ہے، شمالی کوریا کی معیشت سکڑ گئی ہے مگر مسلسل ترقی کررہی ہے، وسائل کے استعمال اور معیار زندگی میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے جبکہ پیداوار اور ٹیکنالوجی کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
“North Korea: A trip report”.(“fpri.org”. August 31, 2017)
Leave a Reply