ادھر چند ہفتوں سے شمالی کوریا اور امریکا کی ایک دوسرے کے خلاف شعلہ بیانیاں جاری ہیں۔ یہ صورتحال جزیرہ نما کوریا میں جنگ اور تصادم کے امکان میں افزائش کا سبب بنی ہے۔ خدانخواستہ یہ امکان اگر حقیقت میں تبدیل ہوا تو عالمی برادری کے لیے اس کے مضمرات سنگین ہوں گے۔ گزشتہ دو سالوں سے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا میں جاری سیاسی تبدیلیوں کی بنا پر امریکا کی جو مایوسی ہے، اس نے واشنگٹن کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایشیا اور پیسفک کو اپنی توجہات کا نقطۂ ارتکاز قرار دے۔ حکمتِ عملی کی یہ تبدیلی امریکا کی اس خواہش کی آئینہ دار ہے جس کے تحت وہ بیک وقت چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو لگام دینے نیز ایک نئی علاقائی اورعالمی قوت کی حیثیت سے اس کے ساتھ اپنے مفادات میں تعاون کرنے کی فکر میں ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے امریکا شمالی کوریا کو اپنی جانب سے نوازشات کا لالچ دے رہا ہے بشرطیکہ پیانگ یانگ اپنے جوہری اسلحہ سازی کے پروگرام سے باز آجائے۔ بہرحال واشنگٹن اپنے وعدے کی تکمیل میں اب تک ناکام رہا ہے۔ چنانچہ شمالی کوریا کی تازہ دھمکیاں امریکی پالیسیوں کے خلاف اس کے واضح غم و غصے کی دلیل ہیں۔ باالفاظِ دیگر کیم جونگ ین کی حکومت اس سوچ پر کاربند ہے کہ خطے پر امریکی تسلط کے نتیجے میں امریکا کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی چاہیے اور امریکا کو سبق سکھانے میں یہ حکومت بھی اپنا کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ امریکا کی شمالی کوریا کے ساتھ محاذ آرائی کے نتیجے میں روس اور چین کو خطے میںطاقت کے توازن کی تشکیلِ نو میں بہت ہی اہم اور مضبوط مقام حاصل ہوجائے گاجو واضح طور سے مشرقی ایشیا اور پیسفک میں چین کو لگام دینے کی امریکی پالیسی کے سراسر منافی ہے۔
پیانگ یانگ کے پاس دو راستے رہ جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ امریکا کے ساتھ جنگ کرے، جس کے نتائج نہ صرف اس ملک کے لیے بلکہ چین کے لیے بھی مشکلات کا موجب ہوں گے یا پھر یہ کہ یہ اپنے موقف سے پسپائی اختیار کرے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ امریکا کے مطالبے کے سامنے سرنگوں ہوجائے، یعنی جو ہری اسلحہ سازی کے اپنے پروگرام کو ترک کردے۔ بہرحال ۳؍ اپریل کو چینی حکام کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں جزیرہ نما کوریا میںامن کی برقراری پر تاکید کی گئی ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ مشرقی ایشیا، جزیرۂ گوام، آسٹریلیا اورامریکی سرزمین کے مغربی ساحل پر واشنگٹن نے مزید میزائیلوں کے نصب کرنے اور مزید افواج کے روانہ کیے جانے کا اعلان کیا ہے۔چند روز قبل ہی چینی نائب وزیرِ خارجہ زھنگ یسوئی نے امریکی اور جنوبی کوریا کے سفیروں کے ساتھ ملاقات میں کوریا کے بحران پر اپنی سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔زھنگ یسوئی نے دونوں فریقین سے تحمل سے کام لینے اور اشتعال انگیزی سے گریز کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ یہ کشیدہ صورتحال کسی نامطلوب تصادم پر منتج نہ ہو۔
امریکا جوہری مواد لے جانے والے بمبار طیارے، جنگی بحری جہاز اور دوسرے فوجی سازو سامان مشرقی ایشیا کے خطے میں تعینات کررہا ہے۔ پینٹاگون نے دو رڈارگریز F-22 جنگی طیارے اوسان ائیر بیس کے لیے روانہ کیے ہیںاور ایک B-2 رڈار گریز بمبار طیارہ ٹریننگ مشن پر جنوبی کوریا کی فضا میں مستقل پرواز کے لیے رکھ چھوڑ اہے۔ اس کے علاوہ اس نے دو جنگی بحری جہاز جو ناؤ شکن گائیڈڈ میزائلوں سے لیس ہیں، جزیرہ نما کوریا سے متصل آبی حدود میں تعینات کررکھا ہے۔ ’’یوایس اے ٹوڈے‘‘کے مطابق امریکی B-1بمبار طیارے کے ہواباز ٹیکساس کے ڈائییس ائیر بیس میں اب اس طرح محوپرواز ہیں کہ انہوں نے اپنے ٹریننگ پروگراموں میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنی پروازوں کا رخ مشرقِ وسطیٰ و افغانستان کے بجائے مشرقی ایشیا کی جانب مرکوز کردیا ہے۔ امریکی وزیرِ جنگ چک ہیگل نے اعلان کیا ہے کہ الاسکا اور کیلیفورنیا میں نصب شدہ میزائل شکن میزائلوں کی تعداد ۳۰ سے بڑھاکر ۴۴ کردی گئی ہے۔ اگرچہ ہیگل کا دعویٰ ہے کہ امریکا کا یہ اقدام پیانگ یانگ کی غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیزی کا ردِ عمل ہے لیکن اس فوجی آمادگی کو مستحکم کیے جانے کا عمل کافی پہلے سے جاری ہے۔ شمالی کوریا کے خلاف واشنگٹن کی دھمکیاں روزبروز شدید تر ہوتی جارہی ہیں۔امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ امریکا شمالی کوریا کو ایک ایٹمی ریاست کے طور پرقبول کرنے کے لیے ہرگز راضی نہیں ہوگا۔ امریکی وزیرِ خزانہ جیکب لِیو نے اپنے حالیہ دورۂ بیجنگ کے دوران چینی رہنماؤں سے کہا ہے کہ چین شمالی کوریا پر اپنے اقتصادی اور سیاسی اثرو رسوخ کی بنا پر شمالی کوریا کی حکومت کو اپنے جوہری اور میزائل پروگراموں کو ترک کرنے پر آمادہ کرے۔
اس بات کے پیشِ نظر کہ شمالی کوریا اپنے جوہری پروگراموں کو ترک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، دونوں امریکی رہنماؤں کے بیانات کو دھمکیوں سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ امریکا اپنے فوجی سازوسامان جنوبی کوریا اور جاپان کو بھی فروخت کررہا ہے اور یہ دونوں ہی ممالک خطے میں چین کے بہت ہی نمایاں حریف ہیں اور جہاں دائیں بازو اور قوم پرست حکومتیں بالترتیب وزیرِ اعظم شِنزو اور صدر پارک جیٔن ہائی کے زیرِ قیادت کارفرما ہیں۔ امریکا کی وزارتِ دفاع نے ۳؍اپریل کو ۶۰ جنگی طیارے F-15 یا F-35 جنوبی کوریا کو فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ امریکی انتظامیہ کوریا کے بحران کو یہ ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے کہ جنوبی کوریا اور جاپان امریکا کی جوہری چھتری (ضمانت )پر مکمل طور سے اعتماد کرسکتے ہیں۔
سیٔو ل اور ٹوکیو میں بعض ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقے اپنی حکومتوں سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ جوہری اسلحے تیار کریں لیکن امریکا اس خیال کو اس بہانے مسترد کرتا رہا کہ یہ اقدام جوہری اسلحوں کے وسیع تر پھیلاؤ کا سبب بنے گا۔ بہرحال امریکی مخالفت کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ واشنگٹن یہ چاہتا ہے کہ یہ ممالک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی دفاعی و فوجی ضروریات کے لیے امریکا پر انحصار کریں۔ واشنگٹن کی اس علاقے میں فوجی نقل و حرکت محض جزیرہ نما کوریا میں کشیدگی کے سبب نہیں ہے بلکہ امریکا کا یہ اقدام مشرقی ایشیا میں اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی کا بھی ایک حصہ ہے۔ چین دنیا کا طاقتور ترین ملک ہوتا جارہا ہے اور روس کے ساتھ مل کریہ امریکا کی تسلط پسندانہ عالمی منصوبہ بندیوں کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے۔ چین نے امریکا کو بھاری قرض دے رکھے ہیں اور یہ شام اور ایران کے خلاف امریکا کے جارحانہ عزائم کے لیے بھی سدِراہ ثابت ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ شنگھائی تعاون تنظیم اور بی آر آئی سی ایس گروپ کے بانیوں میں سے ایک ہے۔
یہ دونوں تنظیمیں مغربی تسلط کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیںاور ایک کثیرالقطبی دنیا کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں۔ واشنگٹن فوجی معاہدوں اور علاقے میں اپنے اتحادیوں کی تلاش کے ذریعے چین کی پیشرفت کو روکنے اور اس کا محاصرہ کرنے کی فکر میں ہے۔اس پہلو سے امریکی فوجی نقل و حرکت کا ہدف محض شمالی کوریا نہیں ہے بلکہ اصلاً چین ہے۔ درحقیقت ’’یو ایس اے ٹو ڈے‘‘نے ایشیا پیسفک علاقے کے ڈائییس ائیربیس ٹریننگ پروگرام کی تبدیلی کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں پہلے ہی انکشاف کردیاتھاجو کہ اگست ۲۰۱۲ء میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ نئی حکمتِ عملی، جس کا اعلان صدر بارک اوباما نے جنوری ۲۰۱۲ء میں کیا تھا، دراصل چین کی ابھرتی ہوئی قوت کو روکنے کی غرض سے ہے۔علاوہ ازیں صدر اوباما کا سنگاپور کے وزیرِ اعظم لی ہسین لونگ سے واشنگٹن میں حالیہ ملاقات کے دوران یہ اعلان کہ امریکا آبنائے ملکّا میں، جو کہ بحرِ ہند اور بحرالکاہل کا سنگم ہے اور چین کی تجارتی سرگرمیوں کے لیے یہ آبنا بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، اپنے جنگی جہازوں کو روانہ کررہا ہے۔ ایریزونا سے تعلق رکھنے والے جنگ پسند سینیٹر جان میکن بھی کوریا بحران کو چین پر حملے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا بیان ہے کہ :’’چین کا رویہ انتہائی مایوس کن رہا ہے، خواہ یہ رویہ سائبرسیکورٹی کے حوالے سے ہو یا جنوبی چین کے سمندر میں تصادم کے حوالے سے ہو یا پھر شمالی کوریا کو لگام دینے میں اس کی ناکامی کے حوالے سے ہو۔‘‘ایشیا پیسفک کے ماہر تجزیہ نگار جیمزہارڈی کا بھی یہ خیال ہے کہ واشنگٹن شمالی کوریا کے بحران کے بہانے ایشیا میں اپنے میزائل ڈیفنس کی تنصیبات میں اضافہ چاہتا ہے۔ ان کے خیال میں امریکا کا یہ اقدام ایشیا پیسفک علاقے میں اپنے تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے ہے۔
چین کو منطقی طور سے اپنی سرحدوں کے نزدیک ان فوجی تنصیبات پر تشویش ہے۔ چینی رہنما میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب کو اپنے ملک کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے الاسکا میں اینٹی میزائل سسٹم کی اضافی تنصیبات پر کھل کر تنقید کی ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہانگ لی نے خبردار کیا ہے کہ میزائل سسٹم کی تنصیبات میں اضافہ کشیدگی اور تناؤ میں اضافے کا سبب ہوگا۔ چین اور روس دونوں نے ہی ایشیا اور یورپ میں میزائل سسٹم کی تنصیبات کی مخالفت کی ہے جس کا ہدف صرف ایران اور شمالی کوریا نہیں ہے، جیسا کہ امریکا کا دعویٰ ہے، بلکہ اس کا مقصد چین اور روس کی جوہری صلاحیت کو نقصان پہنچانا ہے۔ میزائلوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت امریکا کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ چین اور روس کے خلاف جوہری حملے میں پہل کرے جب کہ امریکا اس طرح اپنی سرزمین پر جوابی کارروائی کے امکانات کا پہلے سے قلع قمع کرلے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ بھی پہلے ہی سے اپنی فوجی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں ہمہ دم مصروف ہوگئے ہیں۔ یعنی ایسے جوہری میزائلوں کی تیاری میں دونوں ممالک مصروف ہیں جو اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم کا اچھی طرح توڑ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ مغربی میڈیامیں بعض لوگ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ چین شمالی کوریا کے امداد کے حوالے سے اپنے موقف پر نظرثانی کرسکتا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ شمالی کوریا چین کا اسٹراٹیجک اتحادی ہے۔بیشتر چینیوں کا یہ خیال ہے کہ تمام تر دشواریوں اور مشکلات کے باوجود شمالی کوریا سے چین کا تعلق چین کے مفاد میں ہے۔ چینی قیادت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ واشنگٹن علاقے میں اپنی حکمتِ عملی کے اطلاق کے لیے علاقے کے ان دونوں روایتی حلیفوں کے مابین شگاف ڈالنے کی پوری کوشش کرے گا۔ چینی معاصر ’’گلوبل ٹائمز‘‘کے مطابق چین اور شمالی کوریا کے اقتصادی اشتراک و اتحاد میں حالیہ سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کی مجموعی اقتصادی سرگرمیوں کے تناظرمیں اگرچہ دونوں کا تجارتی حجم چھوٹا دکھائی دیتا ہے تاہم شمال مشرقی چین کے تجارتی حجم کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے۔ دوسری طرف گلوبل ٹائمز کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اسٹراٹیجک فوائد جس نے چین کو جزیزہ نما کوریا میں سیکڑوں سال سے مشغول کررکھا ہے، وہ چین کو اچانک منظر سے غائب ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔ لہٰذا اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی ایشیا میں شمالی کوریا چین کا واحد اتحادی ہے اور ساتھ ہی یہ چین کی دشمن قوتوں اور مثلاً امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کے مقابلے میں بفر ریاست کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔یہ بات لوگوں کو یاد ہوگی کہ ۱۹۵۰ء میں چینی فوج کوریا جنگ میں کود پڑی تھی تاکہ امریکا اور جنوبی کوریا کے ذریعہ شمالی کوریا کو قبضے میں لینے کی کوشش کو ناکام بنایا جاسکے۔چنانچہ چین نے اپنے اس اقدام سے اپنی سرحد پر ایک امریکا نواز ریاست کی تشکیل کے منصوبے کو ناکام بنادیا جس کی کامیابی کی صورت میں خود چین پر بھی امریکی جارحیت کا بھرپور امکان تھا۔
دوسرے مغربی ملکوں کی طرح کوریا کے موجودہ بحران میں چین صرف شمالی کوریا کو موردِ الزام نہیں ٹھہرارہا بلکہ چین کی نظر میںاس بحران کا اصل سبب امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا کا سخت موقف اور ان کی جنگ پسندانہ پالیسی ہے۔چینی میڈیا امریکا کے اس مطالبے کو مکمل طور سے مسترد کرتا ہے کہ شمالی کوریا کو اپنے جوہری اسلحوں کو تلف کردینا چاہیے اور جوہری اسلحہ سازی کے پروگرام کو ختم کردینا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ جوہری پروگرام سے مکمل دستبرداری کی مثالیں موجود ہیں مثلاً لیبیا نے امریکی مطالبوں کے مطابق اپنے جوہری پروگرام کو مکمل طور سے ختم کردیا تھا لیکن اس کے باوجود کرنل قذافی امریکا کی ’’تبدیلیٔ حکومت‘‘ پالیسی کا شکار ہوئے۔ لہٰذا شمالی کوریا اپنے جوہری پروگرام کو ہرگز ترک نہیں کرے گا کیونکہ یہ اس کی بقا کے لیے بہترین ضمانت ہے۔ اس کے علاوہ ۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ ء کی دہائی میں شمالی کوریا کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کا بہت ہی تلخ تجربہ ہے جب کہ پیانگ یانگ نے واقعتا کوشش کی تھی کہ وہ واشنگٹن سے اپنے تعلقات کی بحالی کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو فراموش کردے۔ اس کے باوجود ۱۸؍اپریل ۲۰۱۳ء کو خارجہ تعلقات سے متعلق سینیٹ کمیٹی میں جون کیری کا یہ بیان کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ’’گفتگو سے متعلق یہ پہلا لفظ یا پہلا آئیڈیا ہے جو شمالی کوریا کی طرف سے ہم نے سنا ہے۔‘‘واضح رہے کہ کیری کا یہ بیان شمالی کوریا کے اس بیان کے ردعمل میں ہے جس میں اس نے امریکا اور جنوبی کوریا سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر وہ اپنی فوجی مشقوں کا سلسلہ روک دیں اور اقوام متحدہ اس کے خلاف پابندیاں اٹھالے تو وہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے گفتگو کرنے کے لیے تیار ہے۔شمالی کوریا کی اس تجویز پر جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے ترجمان چوتائی ینگ کا بیان تو اور بھی زیادہ رعونت آمیز ہے:’’ہم پھر شمالی کوریا کو سختی سے تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کے اصرار سے باز آجائے جو ہمارے لیے قطعاً ناقابلِ فہم ہے اور عاقلانہ راہ و روش اختیار کرے‘‘۔ بہرحال ۲۰۰۷ء میں شمالی کوریا نے اپنا یانگ بییون جوہری ریکٹر بند کردیا تھا، یہ وہ واحد ریکٹر تھا جس سے شمالی کوریا پلوٹونیم پیدا کرتا تھااور اس نے اس ریکٹر کو امریکا کے ساتھ جوہری اسلحے سے غیر مسلح ہونے کے معاہدے کے تحت بند کیا تھالیکن یہ معاہدہ جلد ہی ختم ہوگیا اور شمالی کوریا نے یہ اعلان کردیا کہ ریکٹر کو دوبارہ شروع کیا جائے گا اور اس کے ذریعے آئندہ مزید جوہری اسلحے بنائے جائیں گے۔ لہٰذا چین اس بات کو سمجھتا ہے کہ شمالی کوریا کا ساتھ چھوڑنا ہرگز مناسب نہیں ہے، خصوصاً اسٹراٹیجک نقطۂ نظر سے۔ اوروہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کہ یہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے چشمِ غضب کا ہدف بنا ہوا ہے۔چین عالمی اداروں کے دباؤ کے پیشِ نظر زیادہ سے زیادہ شمالی کوریا کو ہلکی پھلکی تنبیہ کرسکتا ہے لیکن وہ اس کے خلاف کوئی سخت تنقید کبھی نہیں کرے گا اس لیے کہ دونوں ممالک کا یکساں ہدف ہے اور وہ یہ ہے کہ علاقے میں امریکا کے فوجی نقل و حمل اور تنصیبات کو روکا جائے جوکہ صرف شمالی کوریا کے خلاف نہیں ہے بلکہ چین کے خلاف بھی ہے۔ لہٰذا شمالی کوریا کے لیے چین کی حمایت کی پالیسی جاری رہے گی۔
○○○
Leave a Reply