ناروے میں ۲۲جولائی کو جو کچھ ہوا اس نے پورے یورپ کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ ناروے کا شمار دنیا کے پرامن ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ایک کھلا معاشرہ ہونے کے ناطے ناروے کسی بھی ملک کے شہریوں کو قبول کرنے کے معاملے میں امتیازی سلوک یا تعصب سے گریز کی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔ ملک میں غیر معمولی امن کی بدولت وزیر اعظم پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے بھی سفر کرتے پائے گئے ہیں۔ بیشتر وزرا دارالحکومت اوسلو میں باڈی گارڈز کے بغیر گھومتے پھرتے ہیں۔ ناروے میں قتل و غارت کے واقعات اس قدر کم ہوتے ہیں کہ محض ایک قتل پر اخبارات شہہ سرخیاں لگاتے ہیں! ایسے پرامن اور مستحکم ملک میں بم دھماکے اور فائرنگ سے ۹۵ افراد کا موت کے گھاٹ اترنا انتہائی المناک تصور کیا جارہا ہے۔
۲۲ جولائی کو دارالحکومت اوسلو میں وزیر اعظم کے دفاتر کے نزدیک سرکاری عمارات کے درمیان ٹرک بم دھماکہ ہوا جس کے فوراً بعد پچاس میل دور یوٹویا نامی جزیرے پر طلبہ کے سمر کیمپ پر جنونی عیسائی نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ ان دونوں واقعات میں ۹۵ افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ دونوں واقعات کی ذمہ داری عیسائی انتہا پسند بیورک نے قبول کی جسے جزیرے پر فائرنگ کے بعد گرفتار کرلیا گیا۔
مغربی میڈیا نے حسب معمول مسلمانوں کو اِن واقعات میں ملوث قرار دینے کی بھرپور کوشش کی اور ابتدائی رپورٹس ہی میں مفروضوں کی بنیاد پر القاعدہ اور دیگر مسلم گروپوں کا نام لینا شروع کردیا۔ سی این این کے اینکرز نے تو چھوٹتے ہی کہہ دیا کہ یہ سب کچھ القاعدہ کا کیا دھرا معلوم ہوتا ہے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے بعد صورت حال واضح ہوئی تو موقف بھی تبدیل کرلیا گیا۔
ایک بات پہلے بھی مغربی میڈیا کی رپورٹس میں دکھائی دیتی تھی اور ناروے کے واقعات کی رپورٹنگ میں زیادہ کھل کر سامنے آئی۔ القاعدہ اور دیگر گروپوں کا ذکر کرتے وقت تو ممکنہ حملہ آوروں کو مسلم دہشت گرد قرار دیا گیا اور جب معاملہ کھلا کہ نشیمن پر بجلی گرانے والا کوئی غیر نہیں بلکہ بھورے بال اور نیلی آنکھوں والا نارویجین یعنی کوئی اپنا ہے تو اسے گھر میں ’’پروان چڑھنے والا دہشت گرد‘‘ (ہوم گرون ٹیررسٹ) یا پھر ’’تنہا بھیڑیا‘‘ کہنے پر اکتفا کیا گیا! ’’عیسائی انتہا پسند‘‘ یا ’’عیسائی دہشت گرد‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کرکے مغربی میڈیا نے اپنی جانبداری پھر ثابت کردی۔ امریکا اور برطانیہ کے میڈیا نے خاص طور پر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس قتل و غارت کو مسلمانوں سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی اور ابتدائی خبروں کو بھی تجزیوں کا رنگ دیا۔ امریکی تھنک ٹینک اسٹریٹ فار نے حد ہی کردی اور محض چند گھنٹوں کے اندر ممکنہ منظر ناموں پر مشتمل ایک ایسا تجزیہ اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کردیا جس سے صرف مسلم دشمنی کی بو آتی تھی۔ اب بھی اس تجزیے کو پڑھا جاسکتا ہے جس میں ممکنہ منظر ناموں کا ذکر کرکے کسی نہ کسی طور مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ بریوک کے لیے سزائے موت کا ذکر کہیں بھی نہیں کیا جارہا۔ اس نے عدالت سے اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ عدالت نے مقدمے کی کارروائی میں عوام کو شریک کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ بریوک کی ممکنہ سزا ۲۷ سال بتائی جارہی ہے۔ اور اگر اس سے زیادہ سزا دینے کی بات بھی سامنے آئی تو بس یہ کہ باقی زندگی وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے گا! مغربی میڈیا کے بعض ادارے اب بھی بریوک کو مظلوم یا ذہنی مریض بناکر پیش کر رہے ہیں۔ یہ نقطہ نظر بھی پھیلایا جارہا ہے کہ وہ تارکین وطن کی آمد سے شدید ذہنی خلجان میں مبتلا تھا اور جو کچھ بھی اس نے کیا، شدید ذہنی پریشانی کی حالت میں کیا!
چند ہی گھنٹوں میں دنیا بھر کے میڈیا کو معلوم ہوگیا کہ ناروے کے امن پسند لوگوں پر قیامت ڈھانے والا کوئی اور نہیں۔ اُنہی میں سے تھا۔ اس انکشاف پر امریکا اور برطانیہ کے میڈیا کو سانپ سونگھ گیا۔ یہودیوں کی واضح بالا دستی والا میڈیا دنیا بھر کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی دہشت گرد ہے تو وہ مسلم ہی ہوگا۔ کسی اور مذہب اور بالخصوص عیسائیت اور یہودیت سے تعلق رکھنے والا تو دہشت گرد ہو ہی نہیں سکتا۔
اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ ناروے کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پرامن ہونے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر غیر معمولی حد تک مستحکم ہے۔ ناروے نے سوورین ویلتھ فنڈز میں کم و بیش ۱۵۰۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ غیر سرکاری اور نیم سرکاری فنڈ ہوتے ہیں جن کی مالیت ہی سے کسی حکومت اور ریاست کے مستحکم ہونے کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، معاملہ یہ ہے کہ ناروے کسی بھی بین الاقوامی مالیاتی ادارے یا امریکا و برطانیہ کے بڑے مالیاتی اداروں کے تعاون کا محتاج نہیں۔ سماجی بہبود کا بہترین نظام ناروے کو یورپ کے کئی ممالک سے ممتاز کرتا ہے۔ غیر ملکی باشندے ناروے کو اپنی منزل قرار دینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ناروے میں کام اور قیام کرکے وہ معیاری زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں گے۔ یہ بات امریکا اور برطانیہ کے بڑے مالیاتی اداروں کو کھل رہی ہے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ ناروے نہ صرف یہ کہ عالمی مالیاتی نظام کا فعال حصہ بن جائے بلکہ یورپی یونین کا فعال حصہ بھی بن جائے۔
ناروے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے یا اس میں فعال کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں۔ اس کا اپنا سیاسی، معاشی اور معاشرتی نظام مضبوط ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یورپی یونین میں شامل ہونے کی صورت میں اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ تارکین وطن کا سیلاب اس کی سرحدیں بھی عبور کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا معاشی نظام بھی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔ بریوک کو نفسیاتی طور پر تیار کیا گیا اور بہانہ یہ تراشا گیا کہ ناروے کے معاشرے کو تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بالخصوص مسلمانوں کی آمد سے شدید خطرات لاحق ہیں لہٰذا حکومت کی توجہ اس معاملے کی طرف دلانے کے لیے بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جائے۔ یوٹویا جزیرے پر جس بے دردی سے قتل عام کیا گیا اس کا مقصد بظاہر صرف یہ تھا کہ ناروے کے امن پسند لوگ بھی شدید خوفزدہ ہو جائیں اور باقی یورپ کے ساتھ مل کر دہشت گردوں سے نمٹنے کی فکر کریں!
امریکا اور اس کے اتحادی اس بات کو قطعی پسند نہیں کرتے کہ مغرب کا کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کی جنگ کا ایندھن بننے سے محفوظ رہے! امریکا اور برطانیہ کے بڑے مالیاتی اداروں کی نظر ناروے کے ۱۵۰۰ ارب ڈالر پر ہے جو اب تک محفوظ ہیں اور ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ امریکی ویب سائٹ دی ٹوٹل کولیپس ڈاٹ کام کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی رقم کے لیے بڑے مالیاتی اداروں کو اگر ناروے پر مزید حملے بھی کرنا پڑے تو کریں گے! لیبیا کے خلاف ناٹو کی فضائی کارروائیاں اس سلسلے کی پہلی کڑی تھیں۔ لیبیا کے باغیوں کی حمایت اور مدد کے نام پر نیٹو کی بمباری دراصل لیبیائی اثاثوں کو ڈکار جانے کی راہ ہموار کرنے کی سعی کے سوا کچھ نہیں۔ نیٹو نے باغیوں کی پشت پناہی کے نام پر لیبیا کے بہت سے علاقوں کو عسکری کارروائی کا نشانہ بنایا۔ بمباری کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث لیبیا کی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور حکومت قدرے غیر موثر ہوکر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ مغربی بینکوں میں لیبیا کے ۱۵۰ ارب ڈالر منجمد کردیے گئے ہیں اور اب اس خطیر رقم کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ان اثاثوں کا ایک حصہ باغیوں کی طرف سے قائم متوازی حکومت کو دیا جارہا ہے۔ لیبیا کے بعد اب ناروے پر دانت گاڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ناروے پر شب خون مارنا آسان نہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بناکر اس امن پسند ملک کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فعال کردار ادا کرنے کی طرف لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کے سرپلس اثاثوں پر ہاتھ صاف کیا جاسکے۔
ناروے ٹیسٹ کیس ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے یورپ کو ایک بار پھر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ نئی صدی میں اپنی مرضی کے مطابق جی نہیں سکتے بلکہ انہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر کی جانے والی قتل و غارت میں اتحادیوں کا ساتھ دینا پڑے گا۔ یورپ اپنا راستہ الگ کر رہا ہے۔ اس نے اسلامی دنیا سے تعلقات بہتر بنانے کی روش اپنائی ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک کی پالیسیوں میں اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے۔ غیر ملکی فوجی کارروائیوں میں بھی یورپ اب خاصے تذبذب کے ساتھ شریک ہو رہا ہے۔ اسے اندازہ ہے کہ امریکا کی کم ہوتی ہوئی قوت مستقبل قریب میں مزید مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ ایسے میں اسلامی دنیا یا چین سے تصادم کی پالیسی اپنانے سے کہیں بہتر یہ ہوگا کہ مل کر چلا جائے۔ امریکا اب بھی یورپ کو اس کی مرضی کی راہ پر چلنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔
ooo
Leave a Reply