کیا امریکا کو واقعی اس بات کی پروا ہے کہ شمالی کوریا ایک جوہری طاقت ہے؟ اس پیش رفت سے کئی دوسرے بھیانک نتائج ابھر کر سامنے آئیں گے یعنی جوہری جاپان اور جنوبی کوریا‘ مشرقی ایشیا میں اسلحوں کی دوڑ۔ علاوہ ازیں اس طرح کے ڈھیلے جوہری اسلحوں کا القاعدہ یا اس سے بھی زیادہ رقم دینے والے کسی گروہ کے ہاتھ تک جانے کا خدشہ۔ لیکن کیا امریکا واقعتا اس طرح کے نتاج کو روکنے کے لیے کوشاں ہے۔ مشرقی ایشیا کے مشاہدین جہاں گذشتہ ہفتہ میرا بھی قیام تھا‘ کے نزدیک امریکا کا کوئی ایسا ارادہ واضح نہیں ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ امریکا کی اس مسئلے پر کوئی پالیسی ہے بلکہ اس مسئلے پر اس کی سرے سے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ امریکا کے پاس صرف دو جذباتی ہدف رہ گئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ شمالی کوریا کو جوہری پروگرام ترک کرنے پر مجبور کرے۔ دوسرا یہ کہ کیم جونگ دوم کی حکومت کا تختہ الٹ دے۔ لیکن جب تک ان دونوں راہوں میں مطابقت اور تعاون کی صورت نہیں بنتی یہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف جائیں گے۔ اگر صدر بش یہ اعلان کرتے رہیں گے کہ وہ کیم جونگ دوم کی حکومت کے خاتمے کے لیے دعا کر رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں تو لازمی طور سے کیم اپنے جوہری اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔ چنانچہ اس حوالے سے امریکی پالیسی ساڑھے چار سالوں سے بے یقینی اور ناہمواری کا شکار رہتے ہوئے ناکامی سے دوچار رہی ہے۔ اگر امریکا کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ شمالی کوریا کے حوالے سے اس کا اولین ہدف کیا ہے‘ اپنی پالیسی بدلنی ہے یا شمالی کوریا کی حکومت؟
واشنگٹن کی موجودہ پالیسی یہ ہے کہ شمالی کوریا کی ضد اور ہٹ دھرمی کا تمام تر الزام چین کے سر تھوپا جائے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ چین پیانگ یانگ پر بآسانی دبائو ڈال سکتا تھا اگر یہ چاہتا۔ بیجنگ جواب میں یہ کہتا ہے کہ سارا مسئلہ واشنگٹن کی طرف سے ہے‘ اگر امریکا شمالی کوریا سے بات کرنے پر راضی ہوتا تو صورتِ حال کہیں بہتر ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ دونوں ایک دوسرے کو یہ بتا رہے ہیں کہ ماضی میں انہیں کیا کرنا چاہیے تھا۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہی وہ واحد مسئلہ ہے جس پر یہ دونوں متفق بھی ہیں اور عدم اتفاق کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ دونوں اس مسئلے پر مشترکہ موقف اختیار کریں۔ واشنگٹن اور بیجنگ دونوں ہی شمالی کوریا کو ایک جوہری طاقت کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ چین کو یہ موقف اختیار کرتے ہوئے کچھ وقت لگا۔ چین کی حکومت میں اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو تیسری دنیا کے انقلابی انداز میں سوچتے ہیں یعنی یہ کہ غریب اقوام کے پاس جتنے زیادہ بم ہوں گے‘ دولت مند ممالک کی طاقت اتنی ہی کم ہو گی۔ لیکن ان افسران کا بھی یہ خیال ہے کہ ایک جوہری شمالی کوریا مشرقی ایشیا میں کشیدگی و تنائو کا باعث بنے گا جو امن و استحکام کو تہ و بالا کر دے گا‘ جو انہیں بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد حاصل ہوا ہے۔ چنانچہ چینی حکام نے علی الاعلان یہ بات کہی ہے کہ اگر پیانگ یانگ نے آزمائشی بم دھماکہ کیا تو اس کے برے نتائج کا اسے سامنا ہو گا۔ آج اس مسئلہ پر واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین ایک وسیع تر اتفاق پایا جاتا ہے لیکن حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی اتفاق نہیں پایا جاتا۔ بیجنگ کے نقطۂ نظر سے شمالی کوریا کی بربادی ایک بھیانک عمل ہو گا۔ اس کا مطلب پناہ گزینوں کا سیلاب ہو گا اور چین کی سرحد پر ایک ناکام ریاست کی موجودگی ہو گی۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ امدد کے مطالبات کا سلسلہ رہے گا اور اس طرح چین مستقل طور سے خوف اور عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ اس کا یہ بھی مطلب ہو گا کہ دونوں کوریا کے اتحاد کی صورت میں امریکی فوجیں چین کی سرحد پر ہوں گی۔ لہٰذا چین کسی ایسی پالیسی کی حمایت کرنے نہیں جارہا ہے جس کا مقصد شمالی کوریا کی حکومت کو تبدیل کرتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ چین عام طور سے شمالی کوریا میں اپنے اثر و رسوخ کے استعمال کے لیے انکار کرتا رہا ہے۔ اس حقیقت سے آنکھیں بند کر کے وہ پیانگ یانگ کو غذا اور ایندھن سے بھاری مقدار میں مدد کرتا ہے (وہ چاہے تو ایک دو مرتبہ اس کی مقدار کم کر دے)۔ اگر امریکا نے شمالی کوریا کو کمزور کرنے کے لیے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ کیا تو میں یہ بات شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ چین پھر شمالی کوریا کو مدد دینے میں کچھ کم فعال نہیں ہو گا۔ یہ بات ایک بہت ہی تجربہ کار مبصر نے سنگاپور میں مجھ سے کہی۔
بین الاقوامی تعطل درحقیقت واشنگٹن میں تعطل کا مظہر ہے۔ بش انتظامیہ کے سخت گیر عناصر حکومت کی تبدیلی پر زور دے رہے ہیں جبکہ عملیت پسند حضرات چاہتے ہیں شمالی کوریا اپنا جوہری پروگرام ترک کر دے۔ دونوں میں سے کوئی بھی انتظامیہ کے اندر نہ ختم ہونے والی پالیسی جنگ میں فتح سے ہمکنار نہ ہوا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کی بھی پالیسی نافذ نہیں ہو گی۔ اس لیے ایک ماہ انتظامیہ یہ کہتی ہے کہ یہ کیم جونگ دوم کو سکیورٹی ضمانتیں فراہم کرنے پر غور کر سکتی ہے اور یہ کہ امریکا اسے اقتدار سے بے دخل کرنا نہیں چاہتا تو دوسرے ماہ امریکی انتظامیہ یہ اشارہ دے رہی ہوتی ہے کہ حکومت کو ختم ہو جانا چاہیے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کیونکہ یہ اس وقت اچھا موقع ہے کہ چین و امریکا دونوں ایک مشترک موقف اختیار کریں۔ چین نے شمالی کوریا کے مسئلے پر ابھی امریکا کی مدد کر کے بہتر رویے کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح صدر بش نے تائیوان کے مسئلے پر چین کی مدد کی (دونوں اس رابطے کا کبھی اعتراف نہیں کریں گے لیکن بیجنگ کے ذہن میں اس رابطے کا نقش واضح ہے)۔ دسمبر ۲۰۰۳ء میں جب صدر بش نے تائیوان کے صدر شوئی بیان (Shui Bian) کو اپنی آزادی کا اعلان کرنے سے منع کیا تو گویا انہوں نے تائیوان کی تحریکِ آزادی کے غبارے سے ہوا نکال دی اور تائیوان کے سیاستدان کو نرم روش اختیار کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔ بہت سارے چینی مبصرین کا خیال ہے کہ بش کے بیان نے تائیوان میں سیاسی فضا کو تبدیل کر کے رکھ دیا (اتنا کہ دو اہم حزب اختلاف کے رہنما چین تشریف لے گئے اور وہاں مفاہمت و مصالحت کی بات کی)۔ چین غلطی پر ہے۔ حقیقی معنوں میں ایک بدترین آمریت کی حمایت کر کے اور صدر بش بالکل حق بجانب ہیں جب پیانگ یانگ حکومت کی بدچلنی پر گفتگو کرتے ہیں۔ لیکن انہیں تقدیر کے فیصلے پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ زوال پیانگ یانگ حکومت کا مقدر ہے۔ کسی امریکی ڈپلومیٹ کا جوہری پروگرام کے ختم کرنے کے حوالے سے بات کرنا پیانگ یانگ حکومت کے زوال کو ٹال نہیں سکتا ہے۔ لیکن دریں اثنا تعمیری سفارت کاری باقی دنیا کو بعض رونگھٹے کھڑے کر دینے والے خطرات سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
(بشکریہ: ’’نیوز ویک‘‘۔ ۲۳ مئی ۲۰۰۵ء)
Leave a Reply